آبی وسائل، خارجہ پالیسی بدلنی ہوگی

شبینہ فراز  اتوار 26 اپريل 2015
 دریائے نیل کے پانی کی تقسیم پر سمجھوتے سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان اور بھارت بھی آبی مسائل ایجنڈے میں سرفہرست رکھیں ۔  فوٹو : فائل

دریائے نیل کے پانی کی تقسیم پر سمجھوتے سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان اور بھارت بھی آبی مسائل ایجنڈے میں سرفہرست رکھیں ۔ فوٹو : فائل

 ایک تاریخی تقریب سوڈانی دارالحکومت خرطوم کے ریپبلیکن پیلس میں منعقد ہوئی۔ تاریخی اس حوالے سے تھی کہ تقریب میں میں مصر، سوڈان اور ایتھوپیا تینوں ممالک کے سربراہوں نے گرینڈ رینیساں ڈیم کی تعمیر کے سمجھوتے پر دست خط کیے اور اسے ایک سنگ میل قرار دیا۔اس معاہدے کا ہم سے کیا کوئی تعلق بنتا ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے تھوڑی سی تفصیل جاننا ضروری ہے۔

دریائے نیل کا پانی مصر، ایتھوپیا اور سوڈان تینوں کو سیراب کرتا ہے۔ اس حوالے سے دریائے نیل کے پانی پر ان ممالک کے تنازعات موجود تھے۔ اور اب پانی کی تقسیم اور ایتھوپیا میں بجلی بنانے کے لیے بڑے ڈیم ’’گرینڈ رینیساں ڈیم‘‘ پر ایک لمبے عرصے سے جاری تنازعے کو حل کرلیا گیا اور اس حوالے سے ابتدائی معاہدے پر دست خط کردیے گئے۔ تقریب میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی، سوڈانی صدر عمرالبشیر اور ایتھوپیا کے وزیراعظم بائلی ماریم ویسالین نے اس سمجھوتے کو تاریخی قرار دیا ہے۔

مصر کی طرف سے معاہدے پر ابتدائی طور پر رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی تشویش بھی ظاہر کی گئی کیوںکہ مصر کا خیال ہے کہ اس سے پانی کا مسئلہ اور گمبھیر ہوجائے گا۔ سیسی نے کہا کہ یہ پروجیکٹ اب بھی مصر کے لیے باعث تشویش ہے۔ جبکہ ایتھوپیا کا کہنا ہے کہ رینیساں ڈیم پروجیکٹ لاکھوں ایتھوپیائی عوام کے لیے ترقی کا منبع نظر آتا ہے، جس سے سبز اور پائے دار توانائی پیدا ہوگی، جب کہ مصر میں دریائے نیل کے کنارے رہنے والے ان کے بھائیوں کے لیے جن کی تعداد ان کے برابر ہی ہے یہ تشویش اور پریشانی کا باعث ہے۔

دوسری طرف ایتھوپیا نے کہا ہے کہ ڈیم سے دریا کا رخ تھوڑا سا مُڑے گا لیکن پھر وہ اپنے قدرتی بہائو پر واپس آجائے گا۔ ایتھوپیا کے مطابق 4.7 ارب ڈالرز سے بننے والے ڈیم سے نہ صرف اسے دریائے نیل کا منصفانہ حصہ ملے گا بل کہ 6 ہزار میگا واٹ بجلی بھی حاصل ہوگی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائوں کا پانی مشترکہ سرمایہ شمار ہوتا ہے۔ اپنے پڑھنے والوں کو یاد دلاتے چلیں کہ دریائوں کے بٹوارے کا یہ معاہدہ 1960میں پاکستان کے ایک باوردی حکم راں کے ہاتھوں تشکیل پایا تھا جس کے تحت پاکستان کے تین دریا بھارت کے حوالے کردیے گئے تھے۔ معاہدے کے تحت تین مغربی دریائوں (سندھ، جہلم اور چناب) کے پانی پر پاکستان کو حق دار ٹھیرایا گیا اور دیگر تین مشرقی دریا (راوی ، ستلج اور بیاس) بھارت کے حوالے کردیے گئے۔ یہ معاہدہ جسے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) کا نام دیا گیا۔ اس پر 19 ستمبر 1960 کو بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو، پاکستان کے صدر ایوب خان اور اس وقت کے صدر عالمی بینک نے دست خط کیے۔

پاکستان اور بھارت اگرچہ دو پڑوسی ملک ہیں لیکن اگر ان کی 65 سالہ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں تو تنازعات سے بھری ہوئی ہے۔ دونوں کے درمیان باقاعدہ جنگیں ہوچکی ہیں اور کشمیر، سیاچن، سرکریک سمیت بہت سے مسائل حل طلب ہیں۔ سرحدی جھڑپیں تو اک عام سی بات ہے۔ پڑوسی ہونے کے ناتے دونوں ممالک کے آبی وسائل بھی مشترکہ ہیں اور دریا کے بالائی حصے پر ہونے کے باعث بھارت کو ہم پر برتری بھی حاصل ہے۔

لیکن اس جغرافیائی برتری کے باوجود دنیاکا کوئی قاعدہ یا قانون کسی بھی ملک کو مشترکہ وسائل پر مکمل تسلط کا اختیار نہیں دیتا۔ دونوں ممالک کے درمیان دریائی پانی پر ابتدا ہی سے تنازعات اٹھتے رہے، جس کے حل کے لیے مذاکرات کی غرض سے عالمی بینک نے اپنی خدمات پیش کی تھیں، یہ مذاکرات مئی 1952 میں عالمی بینک کی نگرانی میں شروع ہوئے جو وقفے وقفے کے ساتھ نو برسوں تک جاری رہے اور بالآخر اس تنازعے کے حل کے لیے عالمی بینک نے عالمی طاقتوں کی حمایت سے دونوں ممالک کو ایک معاہدے کے لیے رضامند کرلیا۔

اس معاہدے کے تحت بھارت نے پاکستان کو مدھو پور اور فیروزپور ہیڈورکس کے متبادل پاکستان میں تعمیر کرنے کے لیے 100 کروڑ کی رقم بھی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ معاہدے کا مقصد 365,000 مربع میل کے علاقے کو سندھ طاس میں واقع دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کرنا اور دونوں ممالک کو اپنی اپنی سرحدوں کے اندر پانی کے قدرتی وسیلے کو محفوظ اور اس کا انتظام کرنا تھا۔ یہ معاہدہ یکم اپریل 1960 سے موثر ہوا۔

اس معاہدے کے شق میں یہ واضح ہے کہ مشرقی دریائوں کے تمام تر پانی پر بھارت اور مغربی دریائوں کے پانی پر مکمل طور پر پاکستان کا حق ہوگا۔ پاکستان میں داخل ہونے والے تمام دریائوں کے پانی پر اور ان ذیلی دریائوں کے پانی پر، جو اپنی قدرتی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے مرکزی ستلج اور مرکزی راوی میں ضم ہو جاتے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کا حق ہو گا اور بھارت کسی بھی طرح ان کا بہائو روکنے کا مجاز نہیں ہے۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے کبھی اس معاہدے کی پابندی نہیں کی اور اس کے لیے سندھ طاس معاہدہ کاغذ کے کسی بیکار پرزے سے زیادہ کبھی کچھ نہیں رہا۔

بھارت نے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم تعمیر کرکے سراسر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈیم پاکستان کے تربیلا ڈیم سے بلند ہے اور اس ڈیم کی تعمیر سے دریائے چناب کے راستے پاکستان آنے والے پانی میں 8 ہزار کیوسک کی یومیہ کمی ہوچکی ہے ۔

بھارت کی اس سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان اپنا کیس فوراً عالمی عدالت لے جاسکتا تھا اور وہ گیا بھی، لیکن وقت گزرنے کے بعد صرف لکیر پیٹنے کے لیے۔ پاکستان بگلیہار ڈیم پر اپنا کیس صرف تاخیر کے باعث ہارا تھا۔ ماہرین کے مطابق اگر اس وقت کے حکم راں پرویزمشرف وقت پر عالمی عدالت میں چلے جاتے اور بگلیہار ڈیم کی تعمیر کے ڈیزائن کے بجائے اس کے وجود پر اعتراض کرتے تو ہم یہ کیس جیت جاتے، لیکن مشرف اس وقت عدالت گئے جب بگلیہار ڈیم پر 80 فی صد تعمیر مکمل ہوچکی تھی اور عالمی عدالت کے قوانین کے مطابق اگر کوئی ملک کسی منصوبے پر 80% تعمیر کرلیتا ہے تو پھر مخالف اس پر جواز دعویٰ کھو بیٹھتا ہے۔

یہاں وطن دشمنوں نے کیس عدالت میں لے جانے میں صرف تاخیر ہی نہیں کی بل کہ ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراض کرکے چلے آئے، پیسے اور وقت کی بربادی کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں اپنے دریا کا پانی بھی گویا بھارت کے حوالے کردیا۔

اسی طرح کشن گنگا کیس دیکھ لیجیے ، یہ کیس پاکستان اس لیے نہیں ہارا کہ اس کا موقف کمزور تھا ، یا غلط تھا، یہ کیس اس لیے ہارا کہ عالمی ثالثی عدالت میں یہ کیس غیرملکی وکلا لڑتے رہے، کیوںکہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر انڈس واٹر کمیشن پاکستان کے وکیل کی خدمات واپس لے لی گئی تھیں۔ پاکستان کے لیے زندگی یا موت کا یہ مسئلہ غیرملکی وکلا کی عدم دل چسپی کا سبب بنا رہا اور اسے سنجیدگی سے سپروائزر بھی نہیں کیا گیا۔

آبی ذخائر کے شعبے کے ماہرین کا واضح موقف ہے کہ بھارت کا کشن گنگا منصوبہ پاکستان کے ’’نیلم، جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ‘‘ کو تباہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ بھارت کو اس منصوبے کے حوالے سے یہ تحفظات بھی ہیں کہ چین اس منصوبے میں پاکستان کا مددگار ہے۔ نیلم جہلم منصوبہ جس سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے، کشن گنگا ڈیم بننے سے اس کی کارکردگی پر یقیناً منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان کا موقف تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت دریا کا رخ نہیں موڑ سکتا۔ لیکن وکلا کی عدم دل چسپی سے پاکستان کا موقف عالمی عدالت میں واضح ہی نہیں سکا اور فیصلہ بھارت کے حق میں دے دیا گیا۔ اب بھارت کو کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے دریائے جہلم کا پانی وولر جھیل میں ڈالنے کی اجازت مل گئی ہے۔ وولر جھیل پر پہلے ہی سے ایک ڈیم موجود ہے۔کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے 270 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ نیلم جہلم ہائیڈروپاور پروجیکٹ کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 16سے20 فی صد کم ہوجائے گی جس کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔

ووڈروولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پانی کی دستیابی فی فرد 70 فی صد کم ہوچکی ہے۔1947 میں پانی کی یہ دست یابی 5000 کیوبک میٹر فی فرد تھی جو اب صرف 1000 کیوبک میٹر فی فرد ہوچکی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان کو 55,000 کیوسک پانی ملنا چاہیے تھا، لیکن2008 اور 2009 میں پاکستان کو سردیوں یعنی ربیع کے سیزن میں صرف 13,000کیوسک ملا اور گرمیوں میں خریف کے سیزن میں صرف 29,000 کیوسک ملا۔ بھارت کے پاس ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے اعلیٰ تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔ اور وہ اپنے 4079 ڈیموں کی تعداد کے حوالے سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔

اس شعبے کے ماہرین سے بات چیت کے بعد اب یہ واضح ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کیے گئے سندھ طاس معاہدے کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ یہ معاہدہ جس دور میں کیا گیا تھا تب دریا میں پانی کی مقدار اور موسموں کا انداز کچھ اور تھا۔ اب بدلتے ہوئے موسموں نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ دریائے سندھ جس کی لمبائی 2,900کلو میٹر ہے، جو تبت میں جھیل مانسرور سے 30 میل دور کیلاش کے برفانی پانیوں سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے بہتا ہوا یہ دریا ایک چھوٹے سے مقام ’’دم چک‘‘ سے لداخ میں داخل ہوجاتا ہے۔

لداخ میں اسے ’’سنگھے کھب‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ سنگھے کا مطلب ہے شیر اور کھب کا مطلب ہے منہ یعنی شیر کا دہانہ ۔ بھارت سے گزرتا ہوا یہ دریا پاکستان سے بہتا ہوا بحیرۂ عرب میں جا گرتا ہے۔ پاکستان بھر میں اس شیر کے دہانے والے دریا کے مختلف نام ہیں۔ یہ جن جن بستیوں کو سیراب کرتا اور ان کے دامن میں خوش حالی انڈیلتا گزرتا ہے وہاں کے رہنے والے اسے محبت اور شکرگزاری کے تحت مختلف نام دیتے ہیں، مثلاً پشتو میں اسے ’’ابا سین‘‘ یعنی دریائوں کا باپ، سندھ میں اسے ’’مہران‘‘ اور سندھو ندی بھی کہا جاتا ہے۔

لفظ سندھو سنسکرت کا لفظ ہے، جس کی بنیاد ’’سیند‘‘ پر ہے، جس کے معنی بہنے کے ہیں، لیکن سدا بہنے والے اس سندھو کا پانی اب کہیں راستے ہی میں کھو جاتا ہے اور اس کے بعد تو صرف ریت ہی ریت رہ جاتی ہے۔ ہر طرف اڑنے والی اور آنکھوں میں بھر جانے والی ریت! درجۂ حرارت کے بڑھنے، گلیشیئرز کے پگھلائو میں تبدیلی، ہمالیہ ریجن کی برفانی چوٹیوں تک آلودگی کا عمل دخل غرض یہ کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے دریائے سندھ کا پانی بہت کم کردیا ہے۔ایسے میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟

اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں جزئیات میں گئے بغیر چند اقدام فوری طور پر کرنے ہوں گے جس کے لیے کوئی جوئے شیر لانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔پاکستان اور بھارت دونوں ممالک آبی وسائل کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بداعتمادی کو غیراہم نہ جانیں اور فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کو بھی اپنی بات چیت کے ایجنڈے میں سر فہرست لے آئیں۔ بھارت کو یاد دلانا ہوگا کہ سندھ طاس معاہدے کی شق نمبر 7 میں Futur Ccoperation کا ذکر ہے، لیکن اگر ہم بھارت کا اس حوالے سے کردار دیکھیں تو حال یا مستقبل کسی حوالے سے کوئی مشترکہ سوچ موجود نہیں ہے۔ اس کے ڈیموں کی تعمیر اس بات کی غماز ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد کے لیے کام کرتا رہے گا اور اس حوالے سے کسی بھی قاعدے اور قانون کے ٹوٹنے کی پروا نہیں کرے گا۔

ہمیں آبی وسائل کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا، تاکہ سرحدوں سے باہر ان مشترکہ وسائل کا پائے دار انتظام کیا جاسکے۔ آنے والے وقتوں میں صرف بھارت ہی سے نہیں بل کہ افغانستان سے بھی آبی تنازعات میں اضافہ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلیاں دریائے کابل کے پانی کی مقدار کو بھی متاثر کررہی ہیں، لہٰذا اس حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان حساسیت بڑھے گی۔

دریائے سندھ کے پانی پر بھارت کا تسلط اس کے بالائی علاقے میں ہونے کے باعث ہے، جب کہ افغانستان کے دریائے کابل پر ہم بالائی اور زیریں دونوں علاقوں سے متعلق ہیں۔ افغانستان اس دریا کے درمیانی حصے سے متعلق ہے۔ سندھ طاس کے معاہدے کا موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں ازسرنو جائزہ اور افغانستان سے دریائے کابل پر ایک نئے معاہدے کی تشکیل آنے والے دور کے مسائل کا واحد حل ہوگا۔

صوبوں کے درمیان دریائے کابل اور دریائے سندھ کے پانی پر تنازعات انتہائی شدید ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اعتماد کی انتہائی کمی ہے ۔ اس حوالے سے ایسے اقدام ضروری ہیں جس سے صوبوں کے مابین اعتماد بڑھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے جو تنازعات ہمارے صوبوں کے درمیان ہیں۔

ان کی بنیادی وجہ آئین کی دفعہ 161نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے ماہرِ آبی امور اور ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر بھی زور دیتے ہوئے کہتے ہیں،’’پاکستان میں آبی ذخائر اور ڈیموں کی تعمیر میں آئین پاکستان کی دفعہ 161 بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے، جس کے مطابق ہائڈرو پاور کی رائلٹی اس صوبے کو ملے گی جس کی زمین پر پاور ہائوس تعمیر ہوگا۔‘‘

آئین پاکستان کی یہی دفعہ 161 صوبوں کے مابین فساد کی جڑ بنی ہوئی ہے۔ اگر ہماری پارلیمنٹ متفقہ طور پر اس شق کو تبدیل یا ترمیم کردیتی ہے جس سے پورے پاکستان کو مساوی حقوق ملیں تو شاید صورت حال کچھ بدل جائے، اعتماد کی فضا پیدا ہو اور آبی ذخائر کی تعمیر میں اتنی رکاوٹیں پیش نہ آئیں۔ ہندوستان اپنے چھوٹے ڈیمز اور بیراجوں کی تعمیر اور مرمت سے 285 ملین ایکڑ پانی جمع کرنے کے لیے اپنا 40 فی صد کام مکمل کرچکا ہے۔

جب کہ پاکستان ابھی تک صرف 10فی صد ہی کرچکا ہے۔ یہی صورت حال رہی تو آئندہ سیزن میں گندم کی فصل کو نقصان ہوگا۔ اس کی قیمت لوگوں کی قوت خرید سے اور باہر ہوجائے گی۔یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ اب پاکستان میں زراعت اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چھوٹے اور درمیانے ڈیموں پر توجہ دی جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایسے کئی ڈیموں پر کام جاری ہے۔

اس وقت دنیا بھرکی نظریں ہمالیائی خطے کے ممالک اور ان کے آبی وسائل پر مرکوز ہیں۔ یہ خطہ اپنے آبی وسائل کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے کئی اہم ترین دریا اسی خطے کی پگھلتی برف سے رواں دواں رہتے ہیں۔ اس خطے کے دریائی علاقوں کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان، افغانستان، بنگلادیش، بھوٹان، انڈیا، چین اور نیپال شامل ہیں۔

دنیا کی 21 فی صد آبادی ان ہی ملکوں میں آباد ہے ۔ یہی خطہ دیگر جنوبی ایشیائی دریائوں کے ساتھ ساتھ دو بڑے دریا یعنی عظیم دریائے سندھ اور برہم پترا کا منبع بھی ہے۔ ہمالیہ سے پھوٹتے پانی کے یہ سرچشمے یعنی برہم پترا، گنگا، سندھ، میگھنا 1.5بلین یعنی ڈیڑھ ارب لوگوں کی زندگیوں کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اس خطے کے لوگ اور حکومتیں مشترکہ طور پر ایسے اقدام کریں جن سے اس خطے کے آبی وسائل مزید مُنَظّم ہوں اور زیریں علاقوں میں رہنے والے بھی ان سے مستفید ہوں۔ یہی ہماری بقا کا راستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔