عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہ ٔ تصورات

اوریا مقبول جان  پير 27 اپريل 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

ہم لوگ بھی کس قدر ظالم ہیں کہ اسلام کی تشریح اپنی مرضی سے کرنے اور اسے اپنے موجودہ ماڈرن، سیکولر اور مغربی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایسی شخصیات کا انتخاب کرتے ہیں جن کی ایک عمر جہالت اور گمراہی میں گزری، انھوں نے اسلام کو ویسے ہی مغرب زدہ معانی پہنانے کی کوشش کی جیسی گزشتہ تین سو سالوں سے مغرب زدہ دانشور کر رہے ہیں۔ لیکن چونکہ عظیم لوگ مسلسل علم کی جستجو میں بغیر کسی تعصب کے لگے رہے تو اللہ نے ان پر حقیقت کے در وا کر دیے اور ہدایت کی روشنی عطا کر دی۔ ایسے ہی ایک شخص کا نام ڈاکٹر غلام جیلانی برق ہے۔ مدرسے کی دینی تعلیم سے جدید علوم کے سفر تک غلام جیلانی برق نے بہت سی منازل طے کیں۔ ان کا زمانہ مسلم امت پر ادبار اور مایوسی کا زمانہ تھا۔

1901ء میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر برق کے سامنے جنگ عظیم اول ہوئی، خلافت عثمانیہ ٹوٹی، پوری مسلم امہ پر مغربی طاقتوں کی حاکمیت اور بالادستی قائم ہوئی۔ غلامی کے اس بدترین دور میں برق صاحب کو بھی اسی نہج پر سوچنے پر مجبور کیا جیسے موجودہ دور کے مرعوب مسلمان سوچتے ہیں اور یہ تصور کر لیتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے مادی ترقی۔ انھوں نے اسلام کے تصور سے روحانیت، دعا، اللہ کی نصرت اور دیگر الٰہی تصورات کی نفی کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی اور پھر انھوں نے ’’دو اسلام‘‘ ’’دو قرآن‘‘ اور ’’ایک اسلام‘‘ جیسی کتابیں تحریر کیں۔ وہ حدیث کے منکرین میں شامل ہوئے اور ان کا تعلق غلام احمد پرویز سے بہت گہرا ہوگیا۔

وہ مدتوں ایک ایسے اسلام کا تصور پیش کرتے رہے جو سرسید سے لے کر جاوید غامدی تک ہر دور کے سیکولر اور مادہ پرست انسانوں کو بہت پسند آتا ہے۔ لیکن شاید ان کے نیک والد کی شبانہ روز دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کو ہدایت کے نور سے سرفراز فرمایا اور انھوں نے اپنے والد کی بیان کردہ رسول اکرم ﷺ کی حدیث ’’یہ دنیا مردار سے زیادہ نجس اور اس کے متلاشی کتوں سے زیادہ ناپاک ہیں‘‘ کے دفاع میں ایک پوری کتاب ’’من کی دنیا‘‘ 1960ء میں تحریر کی۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ اپنی سابقہ کتابوں پر نادم رہے اور اکثر کہا کرتے تھے میرا سارا کام دور جاہلیت میں لکھا گیا تھا۔

مجھے ان کے بڑھاپے اور ہدایت سے مزین زمانہ میسر آیا۔ یہ زمانہ ان کی ندامت اور شرمندگی اور اللہ سے روحانی تعلق کا زمانہ تھا۔ اسی لیے میں نے کبھی ان کے علم اور ان کی شخصیت کو ان کی گزشتہ کتابوں ’’دو قرآن‘‘ یا ’’ایک اسلام‘‘ کے حوالے سے نہیں جانچا بلکہ میرے نزدیک من کی دنیا لکھنے والا ایک روحانی غلام جیلانی برق محترم اور معزز رہا۔ وہ میرے لیے محترم تھے کہ انھوں نے من کی دنیا لکھ کر مادیت پرست دانشوروں، کالم نگاروں اور عالموں کے منہ بند کر دیے۔ وہ لوگ جو آج ان کی کتاب ’’دو اسلام‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں ان کے لیے برق صاحب کی آخری عمر میں تحریر کی گئی کتاب ’’من کی دنیا‘‘ کے اقتباسات لکھ رہا ہوں۔ میں نے ان میں ایک حرف کی بھی تبدیلی نہیں کی۔

’’قوت کے دو ماخذ میں، کائنات اور دل۔ کائنات کی تسخیر علم سے ہوتی ہے اور دل کا جنریٹر عبادت اور تقویٰ سے چلتا ہے، اور مسلمان وہ ہے جو ان دونوں طاقتوں کا مالک ہو۔ روح کی قوت قومی بقا کی ضامن ہے۔ اگر یہ ختم ہو جائے تو پھر صرف مادی طاقت، خواہ وہ کتنی ہی مہیب کیوں نہ ہو، ہمیں نہیں بچا سکتی۔ قیصر و کسریٰ کی عظیم مادی طاقت کو مٹھی بھر عربوں کی روحانی طاقت نے پیس ڈالا اور ہماری تاریخ ایسے واقعات سے لبریز ہے اور جب خود مسلمان اس سرچشمہ قوت سے محروم ہو گئے تو ان کی عظیم امپائر اور مہیب عسکری قوت انھیں زوال سے نہ بچا سکی۔ آج برتری کا واحد معیار مادی اسباب و وسائل کی کثرت ہے۔ جس قوم کے پاس کائناتی قوت کے ذخائر زیادہ ہوں گے وہ زیادہ طاقتور سمجھی جائے گی۔ اگر کل دنیا میں کوئی ایسی قوم پیدا ہو جائے جو عظیم کائناتی علم اور عشق گیر جذبے سے مسلح ہو تو مجھے یقین ہے کہ روس اور امریکا خوف سے کانپ اٹھیں گے اور عالم انسانی کی قیادت اس کے حوالے ہو جائے گی۔ یہ اعزاز پاکستان کو بھی مل سکتا ہے بشرطیکہ اہل پاکستان علم و عشق کی توانائیوں سے مسلح ہو جائیں‘‘۔

ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی زندگی کے آخری پچیس سال روحانیت کے سال تھے۔ انھیں اپنی تمام لکھی ہوئی کتابوں پر ندامت رہی۔ انھوں نے ’’میرے گیت‘‘ کے نام سے تقریباً ساٹھ اشعار نما فقرے تحریر کیے جن کا آغاز یوں ہوتا ہے ’’اے رب میں حریم دل میں ایمان کی جوت جگا کر اندھیروں کو باہر دھکیل رہا ہوں تا کہ تو اس میں بس سکے، ’’جب احساس ندامت سے میرا آنسو ٹپکا تو کہیں سے آواز آئی، آنسو بہائے جا کہ روح کی برکھا یہی ہے‘‘۔

وہ خود لکھتے ہیں کہ جب میں روحانیت کے سفر پر نکلا تو لوگوں نے مجھے بہت طعنے دیے یہاں تک لکھا کہ ’’اللہ کی شان، جو برق سیف و سناں کی طرف دعوت دیا کرتا تھا۔ وہ آج عجمی، فلاطونی اور مردہ تصوف کی تبلیغ کر رہا ہے‘‘۔ برق صاحب کی یہ کتاب ان تمام مادہ پرست افراد کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ تصور لیے ہوتے ہیں کہ یہ دنیا صرف دو اور دو چار کی دنیا ہے۔ انھوں نے صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مذاہب کے افراد کے روحانی تجربات ،حتٰی کہ جدید مغرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، الیگزینڈر کانن، ولسن چیمبر، ای سی رینڈل، جیسے دو درجن جدید مفکرین کے روحانی تجربات کو بھی کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ اپنی کتاب کے آخر میں انھوں نے ان تمام جدید مفکرین کی کتب کے نام بھی دیے ہیں تا کہ وہ لوگ جن کو صرف مغرب کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے لوگوں کے لکھے ہوئے پر یقین آتا ہے، وہ ان کتب کو پڑھ لیں اور جان لیں کہ صرف مادہ پرستی اور دنیا کے وسائل پر بھروسہ کرنا انسان کا بدترین تجربہ ہوتا ہے۔

پوری کتاب روحانی طاقتوں کے تصرفات پر ہے۔ تیسری آنکھ کیسے کھلتی ہے۔ کیسے انسان ہوا میں پرواز کر سکتا ہے۔ اور مختلف وظائف میں کیا تاثیر ہوتی ہے۔ برق صاحب نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے ثابت کیا کہ کس طرح مخصوص الفاظ کا ایک مخصوص ارتعاش (Resonance) ہوتا ہے جو کائنات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انھوں نے اعداد کے علم سے اس بات پر بھی گفتگو کی ہے کہ اللہ کے تمام نام اپنا ایک الگ اثر رکھتے ہیں اور ان کے ورد سے کائنات پر عجیب و غریب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کتاب کا ایک مضمون ’’اقبال اور دل کی دنیا‘‘ اس قدر خوبصورت ہے کہ ہر پیرا آنکھوں میں آنسو بھر لاتا ہے۔

انھوں نے اقبال کے ممدوحین کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ یہ ممدوحین سید الانبیاء ﷺ سے لے کر بو علی قلندر پانی پتی تک ہیں۔ سیدنا علی ؓ، سیدہ فاطمہ الزہرہؓ اور سیدنا امام حسینؓ کے بارے میں اقبال کے اشعار اور ان سے روحانی فیض اس کتاب کا حاصل ہے۔ برق صاحب کا قرآن کا علم اس کتاب میں یوں جھلکتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ وہ نیت باندھ کر یہ کتاب اس لیے لکھنے بیٹھے تھے جیسے وہ اپنے دور کے مادہ پرست دانشوروں کو اسلام کی روحانی روشنی دکھا رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کتاب کے سرورق پر اقبال یہ شعر تحریر کیا ہے۔

عقل دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات

غلام جیلانی برق کی اس کتاب ’’من کی دنیا‘‘ کا یہ اقتباس اس دانشور کالم نگار دوست کی نذر کر رہا ہوں جس نے ان کی زمانہ جاہلیت کی کتاب سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دنیا صرف اور صرف مادہ پرستی ہے۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب نے کس خوبصورتی سے اس دنیا کو اپنے نیک اور دیندار باپ کی بیان کردہ حدیث کے مطابق صرف اور صرف مادہ اور نجس ثابت کیا ہے ۔

’’دولت فراہم کرنے کے لیے ہر انسان کا قدم اس تیزی سے اٹھ رہا ہے، گویا کتے اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اس راہ میں نہ وہ کسی رکاوٹ کی پروا کرتا ہے اور نہ کسی عصبیت کو خاطر میں لاتا ہے۔ آج کراچی میں تو کل لندن اور پرسوں واشنگٹن۔ سفر عین راحت اور کلفت عین مسرت۔ اگر کسی چیز میں دو سال بعد چار آنے کا فائدہ دیکھے تو اسے آج خرید کر گوداموں میں بھر لیتا ہے۔ جس بچے نے سولہ سال بعد ایم اے کر کے نوکری کرنا ہو اسے سولہ سال تک درس گاہوں میں بھیجتا اور اس کے مصارف برداشت کرتا ہے۔ عارضی جسم کی عارضی ضروریات کے لیے تو ہماری دوڑ دھوپ کا یہ عالم ہے، لیکن جس روحانی جسم نے ان گنت صدیوں تک زندہ رہنا ہے۔ اس کی پروا نہیں، آخر منصوبہ بندی کی یہ کونسی قسم ہے؟ کیا شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں سے روحانی نشوونما کے لیے آپ ایک گھنٹہ بھی نہیں نکال سکتے۔ کیا روح کی زندگی سے آپ کو اتنی چڑ ہے؟ کیا آپ کو جنت کی بہاروں سے اتنی نفرت ہے؟‘‘۔ اس مادہ پرستی کے بدترین انجام پر برق صاحب نے اقبال کا یہ شعر درج کیا ہے

دوزخ کی کسی طاق پہ افسردہ پڑی ہے
خاکسترِ اسکندر و دارا و ہلاکو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔