ڈرامہ رائٹرکیہر شوکت کی یاد میں

لیاقت راجپر  منگل 28 اپريل 2015

سندھی ادب کے فلک پرکئی روشن ستارے جگمگاتے رہے ہیں ، ان میں ایک نام کیہر شوکت کا بھی ہے۔ جنھوں نے سندھی تہذیب و ثقافت کی درست انداز میں عکاسی کی ۔ سرداری نظام، پیری مریدی، ظلم، جہالت اور ناانصافی کو اپنی تحریروں کے ذریعے بیان کیا اور ان لوگوں کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی جو غریب، نادار اور مزدور پیشہ لوگوں کے ساتھ زیادتی کرتے رہے تھے۔ مگر افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی اور ان کا یہ مشن ادھورا رہ گیا۔ اس سے بھی زیادہ اس بات کا دکھ ہے کہ ان کے اپنے خون کے رشتوں، دوستوں اور پرستاروں نے انھیں بالکل بھلا دیا ۔

کیہر شوکت کا گاؤں اور شہرکی زندگی کا بڑا گہرا مشاہدہ اور تجربہ تھا ، ان کی ذہنی وسعت اور زیادہ وسیع ہوگئی جب انھوں نے عالمی ادب کا مطالعہ کیا ۔ وہ کسی بھی پروگرام میں یا سندھی ادبی سنگت کے اجلاس میں بولتے تو ایک سناٹا سا چھا جاتا تھا۔ایک تو ان کی گرجدار آواز اور پھر ان کی شخصیت اورمطالعے کا اثر لوگوں پر سحرطاری کردیتا تھا۔

شوکت کی پیدائش دادو شہر میں 2 فروری 1952 کو ہوئی جب کہ ان کا آبائی گاؤں آگانی ہے جو ضلع لاڑکانہ میں واقع ہے،گاؤں میں امرود کے درختوں ماحول کو معطرکردیتے ہیں۔ان کے والد غلام عباس اپنے روزگارکی وجہ سے دادو میں رہتے تھے ۔شوکت نے پسند کی شادی دادو شہر میں کی۔ سندھ کے قومی شاعراستاد بخاری سے اچھی دوستی تھی اور وہ انھیں اپنا استاد بھی مانتے تھے۔

بچپن میں رات کو سونے سے پہلے بھوتوں اور پریوں کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں،ان کے ذہن پر ان کہانیوں کا کافی گہرا اثر رہا ، پہلے جو کہانیاں لکھی ہیں وہ جن اور بھوتوں کے بارے میں ہیں، جو غالباً 1960 میں کسی بچوں کے میگزین میں شایع ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی گئی تو ان کی ذہنی سطح بھی پختہ اور وسیع ہوتی رہی۔

اب انھوں نے ادبی کتابیں پڑھنا شروع کیا اور اپنے گاؤں میں ہونے والے واقعات کو اپنے ذہن میں سمیٹتے رہے جنھیں انھوں نے افسانوں اور کہانیوں کی شکل دی۔انھیں غریبوں سے بے حد محبت اور ہمدردی تھی اور وہ جب انھیں غربت و افلاس، بیماریوں اور بے بسی میں دیکھتے تو انھیں رونا آتا تھا۔ان جذبات کو انھوں نے تحریروں میں بیان کیا جس کی وجہ سے گاؤں کے زمینداروں نے انھیں دھمکانا شروع کیا۔

کیہرکا پہلا افسانوں کا مجموعہ ’’ہل تے ویٹھل ماٹھوں‘‘ 1979 میں شایع ہوا اور اس کے بعد ان کی دوسری کتاب ’’چارکہانیاں اور نقاد‘‘ مارکیٹ میں آئی۔ ان کتابوں نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی اور ان کا قد ادبی دنیا میں بڑھنے لگا۔ وہ ہمیشہ لکھنے پڑھنے کا کام رات کو کرتے تھے جب ماحول خاموش ہوجاتا تھا۔ وہ دیکھنے میں خاموش نظر آتے تھے مگر ان میں حس مزاح بلا کی تھی، انھیں لسی اورکافی پینا اچھا لگتا تھا۔

وہ جب اداس ہوتے تو دوستوں کے پاس چلے جاتے اور ساری رات ان کے ساتھ گپ شپ کرتے۔وہ اکثر سندھ کے بارے میں سوچتے تھے ، ان کا خواب تھا کہ سندھ خوشحال ہو اور وہ وہاں رہنے والوں کے لیے تعلیم، صحت اور روزگارکا بندوبست ہو ۔وہ چاہتے تھے کہ وہ غریب ہاریوں کو فیوڈل سسٹم کی زنجیروں سے آزاد کروائیں ۔ سماجی ناانصافی کے خاتمے کے لیے قلمی جنگ جاری رکھی۔

شوکت نے اپنی پرائمری تعلیم اپنے گاؤں آگانی سے، مڈل گاؤں کیہر سے، میٹرک لاڑکانہ کے گورنمنٹ ہائی اسکول سے، 1970 میں بی اے گورنمنٹ کالج دادو سے پاس کیا، 1978میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشن میں داخلہ لیا مگر پھر وہاں سے چھوڑ کر ایس ایم لا کالج میں ایل ایل بی میں داخلہ لے لیا اور قانون کی ڈگری 1980 میں حاصل کی۔

بعد میں 1985 میں ایم اے سندھی میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے پاس کیا۔ محنت کرنے کا جنون تھا دوران تعلیم کراچی میں سندھی لینگویج ٹیچر بھی رہے۔ مگر ایل ایل بی کرنے کے بعد وہ وکالت کرنے لگے۔ اس عرصے میں وہ 1990 میں پبلک پراسیکیوٹر بن گئے۔ اچھی کارکردگی کی وجہ سے انھیں پروموشن دے کر 1995 میں ڈپٹی اٹارنی جنرل بنایا گیا۔

ایک دور ایسا بھی آیا کہ پی ٹی وی کراچی سینٹر سے سندھی ڈراموں اور پروگراموں کا دورانیہ روزانہ کی بنیاد پر بڑھا دیا گیا ، اس ضمن میں شوکت کیہر نے اپنا قلمی تعاون پیش کیا ۔ ان کی ملاقات دادو کے رہنے والے پروڈیوسر محمد بخش سمیجو سے ہوئی، سولو پلے ’’گھٹ‘‘ لکھا جو 1978 میں آن ایئر ہوا جس کو بہت اچھا response ملا۔ اس کے بعد کھیل پیلوپتو نشر ہوا جسے ہارون رند نے پروڈیوس کیا تھا۔

ان ڈراموں نے لوگوں کے ذہن پر ان مٹ گہرے اثرات مرتب کیے، کیونکہ ان ٹی وی ڈراموں میں عام آدمی کے مسائل اور پریشانیاں دکھائی گئی تھیں۔ ان کے سندھی کھیل اتنے پسند کیے گئے کہ انھیں اردو زبان میں بھی پیش کیا گیا ۔ سورج گرہن،انتہا، چنبیلی کی بیل، ایک دل وہ بھی مجبور، جنت، درندوں کا دیس ایسے ڈرامے تھے جو اردو میں پیش کیے گئے ۔

شوکت کیہر نے شاعری بھی کی اور تقریباً 250 ہائیکو لکھے۔ریڈیو پاکستان کے لیے کئی ڈرامے لکھے ، ڈرامہ ’’ناسور‘‘ کی فرمائش ریڈیو سننے والے آج بھی کرتے رہتے ہیں۔ریڈیو اور ٹی وی پر کچھ پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جس میں پی ٹی وی کے لیے چھ مہینے تک اردو میں پروگرام سندھ اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں پارلیمانی نوٹ بک کے نام سے رپورٹ کرتے تھے۔

ان کے لکھنے کا انداز اور لفظوں کا صحیح استعمال اتنا مقبول ہوا کہ انھوں نے کئی ادبی کتابوں کے Preface لکھے۔ ان کی لکھی ہوئی ایک کہانی پاگل نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی۔ شوکت کے لکھے ہوئے ڈراموں کی وجہ سے پی ٹی وی پر جو لکھنے والوں کی اجارہ داری تھی وہ ختم ہوگئی۔ انھوں نے 26 سال کی عمر سے لکھنا شروع کیا اور آخر دم تک 40کے قریب اردو اور سندھی ڈرامے اور سیریلزلکھے جس میں اکثریت کی ہدایات محمد بخش سمیجو نے دی تھیں، کیونکہ دونوں میں بہترین ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔

والد کے انتقال پر اپنے آبائی گاؤں گئے،گرمیوں کا موسم تھا ، بہت زیادہ ٹھنڈا پانی پینے سے آواز بیٹھ گئی۔ اب وہ گھر والوں، دوستوں اور ملنے والوں سے کاغذ پر لکھ کرکے بات کرتے تھے۔ اس مسئلے کی وجہ سے ان کی ملازمت پر بھی بڑا اثر پڑا کیونکہ وہ عدالت میں بحث نہیں کرسکتے تھے۔

ایک مرتبہ تو ایک جج خاتون نے انھیں کہا کہ اگر وہ بول نہیں سکتے تو اپنا پیشہ چھوڑ دیں یا پھر اپنا صحیح طریقے سے علاج کروائیں۔ آپریشن کروایا جو کامیاب نہیں ہوا۔ وہ بہت دل برداشتہ ہوگئے تھے لیکن دوبارہ انھیں سول اسپتال کراچی میں داخل کردیا گیا جہاں ان کے گلے کا آپریشن 22 اپریل 1999 کو کامیابی سے ہوگیا۔

لوگوں نے مبارک باد دی اور وہ خود بھی بڑے خوش تھے۔ دوسرے دن 23 اپریل کو صبح جب وہ اخبار پڑھ رہے تھے تو نرس انجکشن لگایا جس سے ان کی موت واقع ہوئی، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ جعلی انجکشن تھا۔ آبائی گاؤں آگانی میں ان کی تدفین کی گئی ۔

موت برحق ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جس میڈیکل اسٹور والے نے یہ جعلی انجکشن فروخت کیا اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور کسی بھی رشتے دار یا پھر دوست نے کیس کو Follow نہیں کیا۔ میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ کئی بڑے شاعروں، ادیبوں، سیاستدانوں اور علمی لوگوں کے مرنے کے بعد کوئی سوائے چند کے انھیں یاد نہیں کرتا اور اگر وہ یاد رہتے ہیں تو کتاب پڑھنے سے یا پھر وہ عمل جو انھوں نے اپنی زندگی میں کسی ادارے یا عوام کے لیے کیا ہے۔

شوکت کے بچے تو اس زمانے میں چھوٹے تھے مگر باقی دوستوں اور پرستاروں کو وہ یاد کیوں نہیں ہیں۔ میں تو اس کی تصویر حاصل کرنے کے لیے کئی دن اس کے اپنوں کے پیچھے بھاگتا رہا مگر آج تک نہیں مل سکی۔ میں مرحوم رمضان نول جو ادیب تھے جس نے 2003 میں شوکت کا پروگرام کروایا اور اس کے لیے ایک Souvenir بھی شایع کروایا۔

اس کے بعد محمد علی پٹھان اور مرحوم ملک آگانی اس کے لیے کچھ لکھتے رہے ہیں ۔ وہ شخص جسے کبڈی کھیلنے کا شوق تھا وہ یہ گیم موت سے ہار گیا۔ اسے اسٹوڈنٹ لائف میں سیاست کا شوق تھا اور وہ رسول بخش پلیجو کی پارٹی عوامی تحریک سے وابستہ رہا مگر بعد میں اس سے علیحدہ ہوکر ادب کی دنیا کی طرف چل پڑا۔

اس نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا، اپنا وقت، ٹیلنٹ اور قوت بڑی دل جوئی کے ساتھ اپنے فن کے لیے وقف کی۔ وہ سچا انسان تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اگر شاعروں اور ادیب معاشی طور پر آسودہ ہیں تو وہ صرف لکھیں اور عام آدمی کے دکھ، درد اور پریشانیوں کو منظر عام پر لائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔