شیطان کھڑا مسکرا رہا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 29 اپريل 2015

اس سچ سے انکار ممکن نہیں ہے کہ شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے شیطان کا پہلے پہل شکار حضرت آدم تھے حضرت آدم جنت میں عیش کرتے پھر رہے تھے یہ ہی بات شیطان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اور وہ حضرت آدم کو جنت سے بے دخل کر وانے کے لیے ان کے پیچھے پڑ گیا اور موقع کی تلاش میں رہنے لگا اور بالآخر ایک روز وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا حضرت آدم شیطان کے بہکاوے میں آ گئے اور شیطان نے حضرت آدم کو جنت سے بے دخل کروا ہی دیا اور شیطان کا بہکانے کا نسخہ اور حربہ انتہائی کارآمد ثابت ہوا اور اسی وقت شیطان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ انسان کا کام تمام کرنے کے لیے بہکا وے سے زیادہ کامیاب نسخہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ انسان بہکنے میں ضرورت سے زیادہ جلدی کرتا ہے۔

حضرت آدم شیطان کا پہلا شکار تھے اور اس کے بعد سے انسان اور شیطان کا دامن چولی کا ساتھ ہے شیطان انسان کو پہلے ورغلاتا ہے پھر میٹھے میٹھے خواب دکھاتا ہے بڑے بڑے عہدوں، محلوں، ہیرے جواہرات کی خواہشوں پر انھیں مچلا تا ہے پھر انھیں بہکاتا ہے اور ان کا ایمان کمزور پڑتے ہی انھیں دبو چ لیتا ہے اور پھر ان کا کام تمام کر کے پھر کسی نئے شکار کی جانب ہنستے کھیلتے رواں دواں ہو جاتا ہے پوری دنیا میں اس کی پسندیدہ ترین جگہ ہمیشہ ہی سے پاکستان رہی ہے جہاں اس کو اس کے شکار اس قدر آسانی سے اور وافر مقدار میں دستیاب ہو جاتے ہیں کہ وہ خود بڑا حیران و پریشان ہے۔

پاکستان میں آج کل اس کی بہار ہی بہار لگی ہوئی ہے جتنا شیطان آج کل پاکستان میں خو ش ہے اتنی خوشی اسے کبھی ماضی میں نہیں نصیب ہوئی۔ پاکستان میں آج کل اس کا کام دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہی چلا جا رہا ہے، اس کی مصروفیات کا یہ عالم ہے کہ وہ پاکستان کے عام آدمیوں کو تو بھول ہی گیا ہے کیونکہ اسے پاکستان کے سیاست دانوں، بیوروکریٹس، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وزیروں، مشیروں، ملائوں سے فرصت ہی نہیں مل پا رہی ہے اس کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک کو شکار کرنے جاتا ہے تو وہیں پر ایک اور شکار مفت میں مل جاتاہے اس کے باخبر ذرایع بتا رہے ہیں کہ وہ کہتا پھر رہا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں، سیاست دانوں، بیوروکریٹس، سرمایہ داروں، ملائوں اور جاگیرداوں کو بہکا نے کا اپنا ایک الگ ہی مزا ہے اور یہ بہکا نے میں بھی با آسانی آ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ اس کی میڈیا کے کافی حضرات کے ساتھ بھی کا فی یاری ہو چکی ہے۔

شیطان کو پاکستان میں اپنے ماضی کی سابقہ کارروائیوں پر فخر بھی ہے اور ا طمینان بھی ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ پاکستانیوں نے ماضی میں بھی میری بڑی لاج رکھی ہے وہ یہ بھی کہتا پھرتا ہے کہ وہ حضرات جو شروع ہی سے پاکستان بنانے کے مخالف تھے اور جنہوں نے پاکستان بننے کی سختی کے ساتھ مخالفت اور مزاحمت کی تھی لیکن جب پاکستان بن گیا تو ان تمام حضرات کو پاکستان جانے کے لیے اسی نے تیار اور راضی کیا تھا تا کہ وہ پاکستان منتقل ہو کر وہاں اپنی حکمرانی قائم کرنے کی ازسر نو کوشش کریں کیونکہ وہ زمین ان کی حکمرانی کے لیے بڑی زرخیز ثابت ہو گی۔ اور سا تھ ہی ساتھ اس نے برصغیر کے نوابین، جاگیرداروں، سر، بڑے سرمایہ داروں کو ورغلایا کہ وہ نئے ملک جانے کے لیے عام اور غریب غربائوں کی طرح زمینی راستے ہرگز استعمال نہ کریں کیونکہ وہ راستے اختیار کر نا ان کی شان و شوکت کے خلاف ہے لہذا وہ اپنی شان و شو کت کا لحا ظ کرتے ہوئے ہوائی جہازوں اور پانی کے جہازوں کے ذریعے پاکستان جائیں تا کہ ان کا رعب و دبدبہ عام غریبوں پر قائم رہ سکے۔

اسی لیے یہ تمام حضرات شیطان کی ہدایت پر جوں کا توں عمل پیرا ہوئے اور وہ اپنے طو طوں، مینا ئوں، کبوتروں اور چڑیائوں کے پنجروں کے ہمراہ ہوائی جہاز اور پانی کے جہازوں سے نئے ملک میں آ دھمکے اور اس کے بعد ان تمام حضرات نے شیطان کی ہدایت کے عین مطابق کلیموں کی آڑ میں جو لوٹ مار کی تو اس پر شیطان کی بھی چیخیں نکل گئیں، نئے ملک کی حکمرانی پر قبضہ کرنے کے لیے اس کے پہلے نرغے میں آ جانے والوں میں ملک غلام محمد تھے 1953ء میں ملک شدید مالی بحران کا شکار ہو گیا ملک غلام محمد بڑی خا موشی سے ہدایت کے عین مطابق مناسب موقع کا انتظا ر کر رہے تھے اور وزیراعظم کی غفلت نے انھیں یہ سنہر ی موقع فراہم کر دیا اور انھوں نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت بر خاست کر دی اور خود حکمران بن بیٹھے اور پھر اس کے بعد بہکاوے میں آنے والوں کے تمام ناموں سے آپ اچھی طرح سے واقف ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اقتدار بری بلا ہے یہ اقتدار ہی ہے جس سے چمٹنے کے لیے ہمارے تمام سیاست دان مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ شیطان ہی ہے جو انھیں ناامید نہیں ہونے دیتا ہر وقت آس دلاتا رہتا ہے۔ ہر وقت تڑپاتا رہتا ہے۔

ان 67 سال کے دوران ان سب بہکا ئے ہوئے نے مل کر ملک کے اصل مالک عوام کی ایسی درگت بنائی کہ اللہ کی پناہ۔ ملک کے 18کروڑ عوام لٹے پٹے، پھٹے کپڑوں میں ملبو س، ٹوٹی چپل پہنے بھوکے پیاسے بد حال ایک کو نے میں کھڑے ان سب حضرات سے کانپ رہے ہیں اور رحم بھری نگاہوں سے ان کو تک رہے ہیں اور یہ ہیں کہ ان کی لا لچ، لوٹ مار، کر پشن، خود غرضی، ہوس کہیں رک ہی نہیں پا رہی ہے پلاٹ، پرمٹ، کمیشن، عہدوں، کرسیوں کے لیے یہ سب ایک دوسرے کو روند رہے ہیں کچل رہے ہیں ایک دوسرے کو زخمی کر رہے ہیں۔ یہ سب زخموں سے چور ہانپتے پھر اٹھتے ہیں اور پھر اسی دھندے میں لگ جاتے ہیںگرنے کی ایک حد ہوتی ہے لیکن یہ سب اس قدر گر چکے ہیں کہ ایک دوسرے کو بھی برداشت نہیں پا رہے ہیں اور دور کھڑا شیطان یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔