کراچی عروس البلاد یا عوارض البلاد

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 29 اپريل 2015
advo786@yahoo.com

[email protected]

آج کل شہر کراچی میں سندھ کے وزیر بلدیات شرجیل میمن غیر قانونی طور پر بنائے گئے شادی ہالز اور لانز گرانے کی کارروائی اپنی نگرانی میں سرانجام دے رہے ہیں۔ شادی ہالز اور شادی لان کے اچانک انہدام کی وجہ سے ہزاروں خاندان مشکل میں پڑ گئے ہیں جس کی وجہ سے تقریبات منتقل یا ملتوی کی جا رہی ہیں، کراچی میں شادی ہالوں کی بکنگ مہینوں پہلے کرائی جاتی ہے۔

دلہا دلہن کے گھر والے شادی کی تاریخ رکھتے وقت اسے شادی ہال کی بکنگ ملنے سے مشروط رکھتے ہیں اور ہال کی بکنگ کے بعد ہی اس تاریخ کی توثیق کرتے ہیں۔ شادی ہال بک کراتے وقت نہ شہریوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ شادی ہال والوں سے اس کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کی تصدیق کریں یا متعلقہ محکموں سے جا کر اس کی تصدیق کریں اس حکومتی اقدام سے سیکڑوں شادیاں متاثر ہوئیں ہیں، ہزاروں شہری مالی پریشانیوں اور ذہنی اذیت سے دوچار ہوئے اور ہو رہے ہیں جن کی تقریبات آیندہ دنوں میں ہونے والی ہیں وہ مالکان کو تلاش کر رہے ہیں جو ہالز اور لان سلامت ہیں۔

ان کے بارے میں تصدیق کرتے پھر رہے ہیں کہ آیا وہ قانونی ہیں یا غیر قانونی ہیں۔ شکایات یہ بھی ہیں کہ طویل عرصے سے قائم شادی ہال اور لان جو قانونی طریقے سے مجاز اداروں اور اتھارٹی سے اجازت لے کر حاصل کیے یا بنائے گئے تھے جن کے ماہانہ یا سالانہ فیس یا کرایہ وغیرہ ادا کر رہے تھے انھیں بھی مسمار کر دیا گیا ہے جب کہ دوسری جانب اسی اتھارٹی کی جانب سے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر عائد کردہ ٹاؤن ٹیکس کی مد میں شہریوں سے اربوں روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔

اگر حقیقتاً غیر قانونی شادی ہال اور لان کے خلاف کارروائی مقصود تھی تو کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے تھا جس سے عام شہریوں کو پریشانی نہ ہوتی، ان کی تقریبات متاثر نہ ہوتیں ان کی جانب سے بکنگ اور کھانے کے لیے دی گئی رقم خطرے میں نہ پڑتی لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا نہ ہی غیر قانونی ہالز کی اجازت دینے والے افسران کے خلاف کارروائی کی گئی نہ ان کو چلانے والے مالکان کے خلاف مقدمات اور ان سے کرایہ و ہرجانہ وصول کرنے کی کوششیں سامنے آئیں اور پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آیندہ ان جگہوں پر غیر قانونی تعمیرات دوبارہ نہیں کی جائیں گی؟

سرکاری زمین پر قبضہ ختم کرانے کے نام پر یہ کارروائی صرف کراچی اور وہ بھی شادی ہالوں تک محدود کیوں ہے اس سلسلے میں مخصوص اداروں اور شخصیات کے غیر قانونی ہالز سے چشم پوشی کیوں کی جا رہی ہے، پارکوں، میدانوں، شاہراہوں اور پبلک مقامات پر تو بے شمار ہوٹل، ایکسر سائز کلب، لنگر خانے اور دیگر کاروبار ہو رہے ہیں وہ اس کارروائی سے مستثنیٰ کیوں ہیں، سندھ خصوصاً کراچی کی سرکاری زمینیں بڑی بیدردی اور فراخ دلی سے منظور نظر افراد کو غیر قانونی طریقے سے الاٹ کی جا رہی ہیں جن کی نہایت ہی کم قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں۔

یہاں تک کہ سابق سٹی نظام کے دور میں مختص کردہ کانٹ پارک کی تین سو ایکڑ زمین نجی پارٹی کو الاٹ کردی گئی ہے کراچی میں 40 سال قبل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع کی گئی رہائشی اسکیم 33 میں جن شہریوں نے سوسائٹیز سے پلاٹ حاصل کیے تھے آج ان سوسائٹیز کی زمینوں پر لینڈ مافیا کا راج ہے کاغذی گوٹھ بنا کر سیکڑوں ایکڑ زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے اصل الاٹیز خود اور ان کی کمائی خاک میں مل چکی ہے ان کی اولادیں بھی اپنے حق سے محروم ہیں اور یہ سب کچھ متعلقہ اداروں اور پولیس کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔

ناجائز اور کچی آبادیاں بھی تھانوں کے اطراف ان کے اہلکاروں کے تعاون سے قائم ہیں اور ہو رہی ہیں خود تھانوں کی بڑی تعداد بھی ناجائز قبضہ کردہ جگہوں پر قائم ہے فوجی عدالتوں کے قیام کا اعلان ہوا تو نحیف و لاغر بڑھیا ہاتھ میں کاغذات کا تھیلا تھامے سیشن کورٹ میں ہر آنے جانے والے سے پوچھ رہی تھی کہ خصوصی فوجی عدالت کہاں لگی ہے۔ میں اس میں اپنا کیس دینا چاہتی ہوں اس بڑھیا کی نارتھ کراچی سیکٹر 7-A میں پلاٹ تھا جس کے پورے سیکٹر پر لینڈ مافیا قابض ہو چکی ہے بڑھیا اپنی بپتا سنا رہی تھی کہ اس کا بیٹا سرکاری بس کا کنڈیکٹر تھا جو انتقال کر چکا ہے جس نے کے ڈی اے سے یہ پلاٹ قیمت ادا کر کے لیا تھا ۔

جس پر قبضہ کر لیا گیا ہے اس کی تین پوتیاں ہیں جن کی پرورش ان کی ماں اور دادی محنت مزدوری اور ایک خیراتی ادارے سے مدد لے کر کرتی ہیں جو ایک کمرے کے کرائے کے مکان میں زندگی گزار رہے ہیں بڑھیا کا کہنا تھا کہ وہ سالوں سے پولیس اور عوامی نمایندوں کو درخواستیں دے رہی ہیں۔ لیکن کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی کیونکہ قبضے میں خواجہ اجمیر نگری کے پولیس اہلکار بھی شریک ہیں بڑھیا کا کہنا تھا کہ ان بد معاشوں سے صرف فوجی ہی نمٹ سکے ہیں وہ ہی انصاف دلا سکتے ہیں اس لیے وہ فوجی عدالت جانا چاہتی ہیں، عوامی نمایندوں اور حکومت کا یہ رویہ بھی عوام میں جمہوریت کا مقابلے میں فوجی حکمرانوں سے ہمدردی اور توقعات قائم کرنے کا سبب بنتا ہے۔

انٹیلی جنس اداروں نے سندھ حکومت کے 63 اعلیٰ بیوروکریٹس کے خلاف وفاقی حکومت کو کارروائی کرنے کی سفارش کی ہے جن پر کراچی کی زمینوں پر قبضہ اور کرپشن کے دیگر معاملات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ان بیوروکریٹس کے حکمران جماعت اور ایک بڑی پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں سے قریبی تعلقات ہیں انھوں نے اپنی سرکاری حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے قیمتی اراضی ان پارٹیوں کے بڑے رہنماؤں کے فرنٹ مینوں کو غیر قانونی طور پر الاٹ کر کے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔

جن میں سے اکثریت کا تعلق مختلف صوبائی محکموں اور بعض کا سندھ لوکل گورنمنٹ کے ماتحت محکموں کے ایم سی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے ہے، رینجرز نے کے ایم سی کے کچھ افسران کو حراست میں لیا ہے اور آیندہ چند دنوں میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں متوقع ہیں جس کے بعد یہ کیسز نیب اور ایف آئی اے کے حوالے کیے جائیں گے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں تارکین وطن کی 130 آبادیاں ہیں جن میں 79 ممالک کے غیر قانونی تارکین وطن رہائش پذیر ہیں جو پولیس کے لیے نوگو ایریاز ہیں یہ رپورٹیں کراچی کے اندوہناک مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے اس وقت چنگ چی زدہ شہر میں ٹریفک کا مسئلہ جان لیوا بن چکا ہے ۔

ڈی آئی جی ٹریفک پولیس نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ ٹریفک کے بگڑتے نظام کی وجہ ٹریفک پولیس نہیں بلکہ سندھ حکومت ہے اگر حکومت نے ہنگامی اقدامات نہ کیے تو تین سال بعد شہر کے فٹ پاتھوں پر گاڑیاں چلنے لگیں گی، امن و امان کے شدید مسائل پیدا ہوں گے شہر کے 90 فی صد سگنل خراب اور 70 فی صد لائٹس بند ہیں شہر میں 40 لاکھ سے زائد ہیں جن میں روزانہ ایک ہزار نئی گاڑیوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔

پارکنگ مافیا کو غنڈوں کی سرپرستی حاصل ہے تجاوزات فٹ پاتھوں سے بڑھا کر سڑکوں پر آ گئے ہیں‘‘ کراچی میں کنویں خشک ہو رہے ہیں گلی گلی بورنگ کی مشینیں کام کرتی نظر آ رہی ہیں لوگ پانی خریدنے کے لیے فجر کے وقت سے ہائیڈرنٹ پمپس میں قطاریں بنا لیتے ہیں پانی نہ ملنے پر ٹینکر مافیا سے ہزاروں روپے میں آلودہ اور مضر صحت پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔

ٹینکرز کے علاوہ پانی سپلائی کرنے کی موٹروں سے آراستہ گدھا گاڑیوں، نئے نئے ڈیزائن اور سائز کی ٹنکیوں والی چھوٹی بڑی گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکلوں پر کین کے سائز پنجرے نصب کر کے کینوں کے ذریعے پانی کی فروخت کی جا رہی ہے کراچی جو کبھی عروس البلاد ہوا کرتا تھا آج عوارض البلاد کا منظر پیش کر رہا ہے اس کے چند بڑے بڑے مسائل میں امن و امان اور بجلی کی نایابی کے علاوہ پانی کی عدم دستیابی و بلیک مارکیٹنگ، سیوریج و ٹریفک و پارکنگ، ناجائز تجاوزات، زمینوں پر قبضے جیسے مسائل اور جرائم کا تعلق براہ راست وزارت بلدیات سے ہے محض غیر قانونی شادی ہالز اور لانز کو گرانے میں ساری توانائی اور وقت صرف کر دینا ہی کوئی عوامی خدمت نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔