ہم کب سمجھیں گے

ثناء غوری  بدھ 29 اپريل 2015
sana_ghori@outlook.com

[email protected]

چینی صدر شی چی پنگ کا دورہ ہمیں بہت سی خوشی اور ڈھیر سارا اعتماد لے کر آیا ہے۔ ثقافت، زبان، طرز حیات، نظام حکومت اور نظریات کے اختلاف کے باوجود پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کا رشتہ بہت مضبوط رہا ہے۔ یہاں ’’دوستی‘‘ کا لفظ ہم اس لیے استعمال کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی اور لفظ نہیں جو دو قوموں کے باہمی اچھے تعلق کی ترجمانی کر سکے، ورنہ ممالک کے درمیان دوستی، محبت اور وفا جیسا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔

وہ ملک بہت خوش نصیب ہے جسے کسی دوسرے ملک کی خالصتاً اور صحیح معنوں میں دوستی اور محبت میسر آ جائے، ہم ایک ایسی ہی خوش نصیب قوم ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی خوش نصیبی کو بدنصیبی میں بدل دینے کے عادی ہیں اور اپنی ہی صورت بگاڑ لینا ہمارا دیرینہ اور محبوب مشغلہ ہے۔ اس نکتے کی وضاحت میں آگے چل کر کروں گی، پہلے بات ہو جائے پاک چین تعلقات اور چینی صدر کے دورے کی۔

چین کے صدر شی جی پنگ کی پارلیمینٹ میں تقریر سُن کر ایسا محسوس ہوا جیسے ہمارے خواب پورے کرنے جادونگری سے کوئی جادوگر آیا ہے۔ اس دورے میں مختلف پروجیکٹس کے سمجھوتے اپنی جگہ، لیکن چینی سربراہ کا یہ دورہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے بھارتی وزیراعظم کے مئی کے وسط میں چین کے دورہ سے قبل چینی صدر کی بھارت سے متعلق سوچ کا بھی پتہ چل سکتا ہے۔

بھارت ہمیشہ سے ہماری خارجہ پالیسی کا محور رہا ہے۔ ایسے میں جب دہلی میں مسلم دشمنی اور پاکستان سے عناد رکھنی والی مودی حکومت برسراقتدار ہے، امریکا ہم سے حسب منشا کام لے کر افغانستان سے جانے کو پر تول رہا ہے اور وہاں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھانے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے۔

مختلف ایشوز پر ایران سے ہمارے فاصلے بڑھ گئے ہیں اور وہ گوادر کے مقابلے میں بھارت کی مدد سے چاہ بہار پورٹ تعمیر کر رہا ہے، اور پھر سعودی عرب، جسے ہم حال ہی میں ناراض کر بیٹھے ہیں، چینی صدر کا دورہ، ان کی تقریر، وعدے اور ارادے پاکستان کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا ہیں، معاشی اعتبار سے بھی اور عالمی تعلقات کے ضمن میں بھی۔

چینی صدر کے اس دورہ کا ایک اہم مقصد چین اور پاکستان کے درمیان مجوزہ اقتصادی راہداری ہے اور یہ اقتصادی راہداری کاشغر سے گوادر بندرگاہ کی تک ہو گی۔ تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شی چی پنگ کا حالیہ دورۂ پاکستان جنوبی ایشیا کی شکل تبدیل کر سکتا ہے، کیوں کہ چین بحیرہ عرب تک پاکستان کی زمین کا استعمال مشرق وسطی سے تیل حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہے۔

چین کا منصوبہ ہے کہ مشرق وسطی سے آنے والا تیل پہلے گوادر کی بندرگاہ تک اور پھر وہاں سے مجوزہ راہداری سے سڑک اور ریل کے راستے سے اس کی سرحد تک آسانی سے پہنچایا جا سکے گا۔

اس مقصد کے لیے اسے ابھی تک تقریباً بارہ ہزار کلو میٹر کا طویل بحری راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ راہ داری چینی مصنوعات کی مشرق وسطیٰ تک آسان رسائی کا باعث بھی بنے گی۔

اس راستے کی تعمیر کے ساتھ ہی اس راہداری میں بجلی پیدا کرنے والی تنصیبات بھی لگائی جائیں گی، جو بجلی کے شدید بحران میں پاکستان کی شدید ضرورت ہے۔

اس پاک چین راہداری کا پہلا مرحلہ 2006ء میں اختتام کو پہنچا تھا، لیکن اب تک معاملہ وہیں ہے، کئی سال گزر جانے کے باوجود اس کی خوبیوں یا خامیوں کا پتہ نہیں چل پایا۔ اس لیے چین نے ایک بار اسے آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں خطے میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی اور پاکستان خلیج سے توانائی کی منتقلی کا مرکز بھی بن جائے گا، جب کہ پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو گا۔ دوسری طرف اس راہداری کے مکمل ہونے کے نتیجے میں چین خلیجی علاقے، افریقہ، یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں سے بہ آسانی اور کم وقت میں جُڑ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کا یہ مشترکہ منصوبہ بھارت کو پریشان کیے ہوئے ہے جو ان دونوں ملکوں کی ترقی اور خوش حالی برداشت نہیں کر سکتا۔

معاملہ صرف اقتصادی پہلو نہیں رکھتا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گوادر جیسے گہرے سمندر کی بندرگاہ میں چین کی موجودگی آج تو صرف تجارتی وجوہات کی وجہ سے ہو سکتی ہے لیکن اس بات کا امکان بہت غالب ہے کہ یہ چین کی بحریہ کے لیے ایک بحری اڈا بن جائے اور مستقبل میں یہاں چین پاکستانی بحریہ کے ساتھ مل کر کام کرے۔ چنانچہ بھارت اس حوالے سے بہت فکرمند ہے۔

پاک چین اکنامک کوریڈور کے اس منصوبے سے چین کو کتنے وسیع پیمانے پر فوائد حاصل ہوں گے، اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ مفاد کا معاملہ ہے دوستی کا نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس حوالے سے پاکستان اور چین دونوں کے مفادات ایک ہی کشتی پر سوار ہو گئے ہیں، جو پاکستان میں موجودہ حالات میں ہمارے لیے بہت سودمند ہے۔ مگر یہ ڈر ہے کہ ہم اپنی ’’روایت‘‘ کے مطابق ان فوائد سے محروم نہ ہو جائیں جو اس منصوبے سے ہمیں حاصل ہونا ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دیگر ممالک سے تعلقات کو اپنے حق میں استعمال کرنا نہیں جانتے۔ پھر کچھ بیرونی طاقتوں کو بھی ہماری ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی، اس لیے وہ ہر اس راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں جو ہماری ترقی کی طرف جاتا ہو۔

پاک چین مشترکہ منصوبوں ہی کو لیجیے، چینی انجینئرز کا قتل اور بلوچستان کی صورت حال انھی قوتوں کی کارستانیاں ہیں، جن کا آلۂ کار ہمارے ہی لوگ بن رہے ہیں۔ بہکاوے میں آ کر اور اپنی اغراض کے لیے ایسا کرنے والے لوگ پاکستان کے خیرخواہ تو ہیں ہی نہیں وہ کسی ایسے طبقے کا بھلا بھی نہیں چاہتے جس کے نام پر وہ بدامنی کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی پاکستانی پاکستان کی ترقی کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا سکتا۔دہشت گردوں کا تو معاملہ یوں الگ ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کے آلۂ کار بن کر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں، لیکن ہمارے حکمراں بھی اپنے ذاتی اور سیاسی فائدوں کی خاطر یا اپنی کم فہمی کی بنا پر یہی کچھ کر جاتے ہیں۔ پہلے ہم نے امریکا کا ’’یس مین‘‘ بن کر چین کو ناخوش کر دیا تھا اور اب ہم سعودی عرب کو ناراض کر بیٹھے ہیں۔ میں نے کالم کے آغاز میں جس خوش نصیبی کا ذکر کیا تھا وہ پاکستان کو حاصل سعودی عرب کی دوستی ہے، جو صحیح معنی میں دوستی ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ اور ہر معاملے میں ہمارا بے غرضی سے ساتھ دیا ہے۔

ایسا تعلق کسی ملک کے لیے نعمت سے کم نہیں، لیکن یمن کے معاملے میں سعودی عرب کی درخواست قبول نہ کر کے اور پھر اس ایشو کو پارلیمنٹ میں لا کر ہم نے کوئی عقل مندی نہیں کی۔ ایسے دیرینہ دوست اور مددگار کے ساتھ غیرجانب داری کا رویہ، اخلاقیات کو تو چھوڑیے، ہمارے مفاد میں بھی نہیں۔ پاک چائنا اکنامک کوریڈور ہی کو لیجیے، اس حوالے سے بھی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے اچھے تعلقات ہماری ضرورت ہیں۔

اگر بھارت ایرانی پورٹ چاہ بہار کے راستے مشرق وسطیٰ سے معاشی روابط بڑھا لے اور چین بھی گوادر کو بھول کر اس راستے کو اپنانے کی سوچے تو یہ صرف سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے ہماری دوستی ہو گی جو ہمارے کام آئے گی۔ ہمارے حکمراں فیصلے کرتے ہوئے صرف آج کا مفاد دیکھتے ہیں اور نتیجہ ہماری نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کاش ہمارے حکمراں اور سیاست داں سیاسی اغراض کو بھلا کر معاملات کو وسیع تناظر میں دیکھ سکیں اور فیصلے کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔