ذرا مائونٹ ایورسٹ تک

عبدالقادر حسن  جمعرات 30 اپريل 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

زمین میں ایسی لرزش پیدا ہوئی کہ ہمالہ بھی اس کی تاب نہ لا سکا اور اس کی بلندی تک پہنچنے کا مضبوط ارادہ کرنے والے کوہ پیما بھی ہمالہ کے شروع کے کیمپ میں ہی زندگی ہار بیٹھے۔ جو خطرناک خبریں ملی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمالہ کا ہمالیاتی بیٹا بھی ہمالہ کی گود سے گر گیا اور ٹوٹ پھوٹ گیا۔

یہ نیم سنگلاخ ملک نیپال آج کسی برباد پہاڑی کا نقشہ پیش کر رہا ہے اب خدا جانے اس کی آبادی کب دوبارہ آباد ہو گی۔ پرجوش اور باہمت سیاحوں کا یہ ملک آج صرف یہ بتا رہا ہے کہ وہ بھی کبھی ایک آباد اور دنیا جہان کے سیاحوں کا مرکز تھا۔ کھٹمنڈو کی دیوی جو پوری عمر اپنے پجاریوں کی عقیدت کی تسکین اور ان کی زیارت بن کر ایک محل میں گزار دیتی تھی آج اس کا مقدس عمل نہ جانے کس حال میں ہو گا۔

جب میں نے دیکھا تھا تو اس کی دیواروں کے گرد پجاریوں کا ہجوم تھا اور وہ ہاتھ جوڑ کر نہ جانے کیا پرارتھنا کر رہے تھے۔ یہ مقام اس شہر کا مرکز ہے لیکن میرے جیسے غیر ہندو اس منظر کو تعجب کے ساتھ دیکھ ہی سکتے تھے۔ یہ اس ملک کے عجائبات میں سے ایک عجوبہ تھا۔

سیاحتی شہر بہت مہنگے ہوتے ہیں مگر کھٹمنڈو میں کسی عام سے سیاح کی گزر بسر بھی ہو سکتی تھی آگے اس دنیا کے بلند ترین پہاڑ کی سیر ہر کسی کی اپنی ہمت تھی۔ میں پی آئی اے کی مہربانی سے دنیا کی یہ بلند ترین چوٹی بہت قریب سے دیکھ چکا تھا جس کا ثبوت ایک سرٹیفکیٹ اور تصویر کی صورت میں میرے سامان میں کہیں رکھا ہوا ہے کہ میں دنیا کے ان چند لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو قریب سے دیکھا ہے۔

پتھر کی ایک ٹنڈ منڈ چوٹی جس پر سبزے کا نام و نشان نہیں تھا، ہر وقت تیز ہواؤں کی زد میں سر بلند یہ چوٹی ایک بھاری بھر کم پتھر کے سوا کچھ نہ تھی بس ایک بات تھی کہ وہ زمین پر سب سے اونچی تھی۔ قدرت نے انسان کی آزمائش کے لیے اسے سلامت رکھا ہوا تھا کہ دیکھیں کسی انسان میں کتنی ہمت ہے جو افراد اس تک پہنچ بھی گئے وہ سوائے ایک یاد اور ایک نایاب منظر کے اپنے ساتھ کچھ بھی نہ لا سکے۔

یہ پہاڑی انسان کی قوت ارادی، جرات، بلند عزم اور سب کچھ تسخیر کر لینے کی کامیابی کا ایک مظہر ہے اور کچھ بھی نہیں بس ایک مٹیالے رنگ کا پتھر ہے جو اس بلندی پر انسان کے لیے ایک چیلنج بن کر پڑا ہوا ہے ایک ایسی بلندی پر جو آخری بلندی ہے اس کے بعد آسمان تک کچھ بھی نہیں۔ نیپال کا ملک اسی منفرد پتھر تک رسائی کا راستہ ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ پہاڑی اس کی ملکیت ہے جب کہ دوسرے پڑوسی بھی یہی دعویٰ رکھتے ہیں۔

ایک خوش مزاج نیپالی کہنے لگا کہ اس کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ چلیے اسے آپ ہی لے لیں مگر اسے لینے کے لیے کوئی اس کے پاس اس تک جاتا ہی نہیں ہم کیا کریں۔ ہم تو ہر وقت اس تک پہنچنے کا راستہ دے سکتے ہیں۔ اپنی منزل کے حوالے سے دنیا کے اس منفرد راستے کا کرایہ بھی نہیں لیتے۔

دنیا کی اس اپنی مثال آپ چوٹی نیپال کا دوسرا نام ہے۔ یہ پہاڑی ملک ایک شریف اور ملنسار ملک ہے یہاں کے باشندے غریب ہیں اور غریبانہ سلوک ان کا امتیازی وصف ہے۔ دنیا کے اکثر مشہور ہوٹل بھی یہاں موجود ہیں جن کے کرائے وغیرہ بہت ہیں عالمی سطح کے لیکن اس شہر میں درمیانے درجے کے ہوٹل بھی ہیں یہاں ایورسٹ کے سائے میں کچھ وقت گزارنے کے خواہش مند قیام کرتے ہیں۔

اس شہر کے بازاروں میں سستا کھانا ملتا ہے، اچھا موسم اور کہساروں کے نظارے سب مفت میں۔ نیپالی ایک بات سے بہت بے زار ہیں کہ باہر کی دنیا سے ان کا اپنا کوئی راستہ نہیں ہے ان کا واحد راستہ بھارت سے ہو کر گزرتا ہے اور یوں بھارت اس ملک کا گلا جب چاہے گھونٹ لیتا ہے اور یہاں سے آنے جانے والوں کو مسلسل تنگ کیا جاتا ہے لیکن نیپال والوں کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے وہ بھی مجبور ہیں۔ اب تو امریکا اور یورپ کے ہپی بہت کم رہ گئے ہیں ورنہ نیپال ان کی منزل ہوا کرتا تھا۔

وہ دنیا بھرسے نیپال آتے اور یہاں چرس بھنگ اور نہ جانے کیا کیا نشے کر کے کچھ دن ایک نئی دنیا میں جی لیتے تھے اور مدہوشی کے اس عالم کو زندگی کا بہترین حصہ سمجھتے تھے۔ نیپالی ان کا خوب خیرمقدم کرتے تھے۔ ان سے آمدنی تو کچھ زیادہ نہیں ہوتی تھی لیکن رونق بہت رہتی تھی جتنا کچھ ان کے پاس ہوتا تھا وہ یہ سب یہاں لٹا کر لوٹ جاتے تھے اگلے سال پھر آنے کے لیے۔

نیپالیوں پر اب جو مصیبت نازل ہوئی ہے یہ تو ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ ہزاروں افراد زلزلے کی نذر ہو گئے ہیں اور ان کے گھر بار ختم ہو گئے ہیں۔ عام حالات میں بھی نیپالی پاکستان کو اپنا ہمدرد سمجھتے تھے اور کمزور ہونے کے باوجود کہا کرتے تھے کہ بھارت سے ہمیں صرف پاکستان ہی بچا سکتا ہے۔ بھارت سارک کے ملکوں کے لیے ایک ڈراؤنا ملک ہے جب کہ پاکستان ایک ہمدرد اور دوست ملک سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی اس خطے میں جو اہمیت ہے وہ بھارت کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے بھی ہے۔

پاکستان کی دوسری اہمیت اس کا محل وقوع ہے جو اس خطے اور سینٹرل ایشیا میں بھی حکمرانی کرتا ہے۔ یہی جغرافیائی برتری ہے جس نے دنیا کی سپر پاور سوویت یونین کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور اب اس کا ذکر صرف کتابوں میں ملتا ہے یا اخباری مضامین میں حوالے کے طور پر۔ ایسی عبرت کی داستان بھی انسانوں نے بہت کم دیکھی سنی ہو گی۔

اس خطے کی ہی نہیں دنیا بھر میں سوویت یونین کے خاتمے کی حیرت اب تک زندہ ہے اور جب تک اس دور کے انسان زندہ رہیں گے وہ اس حیرت میں ڈوبتے رہیں گے۔ تباہ کن اسلحے اور ایٹم بموں کے ڈھیر پر اوندھے منہ پڑی ہوئی یہ سپر پاور نہ جانے کب تک ایک تماشا بن کر زندہ رہے گی یا ایک عبرت بن کر کہ انسانوں کو اسلحہ نہیں بچاتے ان کی قوت ارادی اور نظریاتی طاقت بچاتی ہے۔ یہ نظریاتی طاقت جب کمزور پڑتی ہے تو سقوط ڈھاکا بن جاتی ہے ورنہ یہ سوویت یونین جیسی سپرپاور کو تباہ کر دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔