اندھیروں کی باسی، نورجہاں؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 30 اپريل 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

حقیقت تو یہی ہے کہ امیری اور غریبی کی تفریق ہمارے سماجی سسٹم کی پیدا کردہ ہے۔ ورنہ خدا نے تو انسانوں کو خانوں میں نہیں بانٹا۔ لیکن کیا کیجیے کہ غربت میں پیدا ہونے والا اور محنت مزدوری کرکے رزق حلال کھانے والا، کبھی خوش حال نہیں ہوسکتا۔

جب کہ چھل کپٹ، جھوٹ، ریاکاری، چوری ڈکیتی اور بے ایمانی سے دوستی کرنے والے بہت جلد اپنے مرتبے بلند کرلیتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو گداگری بھی وہ فن ہے جس میں نت نئے طریقے اور معذوری کے میک اپ میں کمال رکھنے والے جلد ہی دولت مند ہوجاتے ہیں اور پھر سرکار دربار تک ان کی رسائی بھی باآسانی ہوجاتی ہے۔

لیکن کچھ باضمیر اور رزق حلال کے خواہش مند ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہزار تنگ دستی اور مالی پریشانی کے باوجود بھیک مانگنا تو بہت معیوب بات ہے وہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔

فی زمانہ ایسے لوگوں کو احمق ہی سمجھا جائے گا کہ دیانت اور ایمانداری آج وجہ افتخار نہیں۔ ہم کالم نگاروں کا واسطہ عموماً ایسے ایسے پریشان حال لوگوں سے پڑتا ہے کہ بعض اوقات ایک سکتے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ یا الٰہی تیری بنائی ہوئی اس دنیا میں لوگ کس طرح اور کیسے زندہ ہیں۔ اپنی خودداری، غیرت اور ایمانداری کی پوٹلی بغل میں دبائے یہ ہر دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، لیکن سفارش نہ ہونے کی بنا پر زندہ درگور ہیں۔

دو دن قبل کسی کے توسط سے جو خاتون اپنا شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزی ثبوت کے ساتھ میرے پاس آئیں۔ ان کی اذیت ناک دکھ بھری داستان نے مجھے رلادیا۔ وہ کوئی مدد مانگنے نہیں آئی تھیں، بلکہ کسی جگہ ملازمت کی طلبگار تھیں۔

جس دن وہ ملاقات کرکے گئیں، سارا دن مجھے بھوک محسوس نہ ہوئی۔ بار بار ان ہی کا چہرہ سامنے آتا تھا۔ باہمت، خوش مزاج اور محنت کی طلبگار نورجہاں۔ کیا ان کے والدین نے ان کا نام رکھتے ہوئے سوچا ہوگا کہ ’’نور جہاں‘‘ کی قسمت میں سوائے اندھیروں کے کچھ بھی نہیں، کیونکہ وہ غریب کی بیٹی، غریب کی بیوی اور دس غریب بچوں کی ماں ہے اور بیوہ ہے۔

نور جہاں آٹھ بیٹیوں اور دو بیٹوں کی ماں ہیں۔ ایک بیٹا ٹریفک کے حادثے میں ہلاک ہوگیا۔ دوسرا بیوی کو پیارا ہوگیا، اس کی تصویر ہر وقت اپنے بیگ میں رکھتی ہیں۔ گاہے گاہے نکال کر دیکھتی ہیں اور دعا دے کر تصویر کو پیار کرکے واپس رکھ دیتی ہیں۔

1998 میں شوہر کے انتقال کے بعد انھوں نے فیڈرل بی ایریا کے ایک اسپتال میں ملازمت کرلی (کاغذات موجود ہیں) یہ اپنا کام محنت اور ایمانداری سے کرتی تھیں، اسپتال کا سارا عملہ ان سے خوش تھا۔ یہ نائٹ ڈیوٹی بھی کرتی تھیں، معقول معاوضے کے علاوہ مریض بھی خوش ہوکے انھیں اپنی خوشی میں شریک کرلیتے تھے۔

انھوں نے اسی علاقے کے دو معروف اسپتالوں میں کام کیا۔ سولہ سال تک یہ سکون سے کام کرتی رہیں۔ اس دوران انھوں نے اپنی تمام بیٹیوں کی شادیاں اپنی محنت کی کمائی سے کردیں۔ گزشتہ سال یہ ایک ماہ کی رخصت لے کر لاہور اپنے بھائی کے پاس گئیں۔ جب واپسی کا ارادہ کیا تو وہاں دھرنا چل رہا تھا۔ انھیں باوجود ہزار کوششوں کے ٹرین کا ٹکٹ نہ مل سکا۔ انھوں نے اسپتال کی انتظامیہ کو اس بات کی اطلاع فون پہ دی اور جب پندرہ دن کی تاخیر سے یہ واپس اپنی ڈیوٹی پر پہنچیں تو ان کی جگہ ایک نئی ملازمہ رکھ لی گئی تھی۔ انھیں بیک جنبش قلم یہ کہہ کر فارغ کردیا گیا کہ اب ان کی خدمات کی اسپتال کو ضرورت نہیں ہے۔

اس اچانک صدمے سے وہ کیسے جانبر ہوئیں یہ نہ پوچھیے۔ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اصل مالک سے جاکر ملتیں۔ جن کی یہ بہت تعریف کرتی تھیں اور نہ ہی اتنی سکت کہ جس معروف اسپتال میں یہ پہلے کام کر رہی تھیں ان کی مالک جوکہ ایک رحم دل خاتون ڈاکٹر ہیں ان سے جاکر ملتیں۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ اسپتال کی انتظامیہ نے انھیں کوئی رقم نہیں دی۔ البتہ ایک کیریکٹر سرٹیفکیٹ دے دیا جس میں ان کی خدمات کو سراہا گیا ہے۔

اب مزید سنیے! چند سال پہلے شب برات کے موقعے پر غریب آباد کے علاقے میں بم بلاسٹ ہوا تھا جس میں ان کی بیٹی کا گھر بھی تباہ ہوگیا، دونوں میاں بیوی پانچ بچوں کے ساتھ بے گھر اور دربدر ہوگئے۔ صوبائی حکومت میں سے کسی نے کچھ نہ کیا، علاج معالجہ اور بہت کچھ سب زبانی دعوے۔ زندہ بدست مردہ والی صورتحال۔ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد ان کا داماد جو ایک پلمبر تھا فوت ہوگیا۔اب اس بیوہ بیٹی کی ذمے داری بھی کسی حد تک ان پر تھی۔

لگی لگائی نوکری چلی گئی۔ اب یہ کریں تو کیا کریں۔ یہ اسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال کرسکتی ہیں، کسی گھر میں کھانا پکاسکتی ہیں، کسی کینٹین میں کام کرسکتی ہیں، سلائی کرسکتی ہیں، لیکن ہر صورت میں محنت کرکے روزی کمانا چاہتی ہیں۔ انھوں نے ہر جگہ دروازہ کھٹکھٹایا، ویلفیئر اداروں میں گئیں، نوکری کی درخواست کی، لیکن سفارش نہ ہونے کی بنا پر یہ کس طرح زندہ ہیں، یہ نہ پوچھیے۔ لوگ کہتے ہیں اور چشم تصور نے دیکھا بھی ہے کہ ایک حاتم طائی ہر دور میں ہوتا ہے۔

رابن ہڈ اور سلطانہ ڈاکو بھی میری نظر میں بہت بڑے تھے جو امیروں کی تجوریاں خالی کرکے غریبوں کا پیٹ بھرتے تھے۔ کاش کوئی ایسا ہوتا جس کے دل میں نورجہاں جیسی غیرت مند عورت اور ان کی بیوہ بیٹی کے لیے دل میں درد محسوس کرتا۔ نورجہاں صاحبہ کا موبائل نمبر یہ ہے:0347-8543955 ۔ان کی ایک نواسی کے موبائل نمبر بھی لکھ رہی ہوں جو انھیں لے کر آئی تھیں۔ اور یہ بھی بتاتی چلوں کہ نورجہاں کے خاندان کے دیگر افراد خاصے خوشحال ہیں۔ لیکن یہ کسی پر ظاہر نہیں کرتیں کہ کیا قیامت ان پہ گزر رہی ہے۔ مفلسی میں ویسے بھی عزیز رشتے دار کنی کترا جاتے ہیں۔

کوئی کسی جگہ آیا کی نوکری کر رہا ہو یا کسی گھر میں کھانا پکانے کا۔ ایسے محنتی افراد سے لوگ ملنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان خاتون کی مدد کیونکر کروں اور انھیں کہاں ملازمت دلواؤں۔ لیکن ایکسپریس کے ذریعے بہت سے لوگوں کے مسائل حل ہوئے ہیں۔ ایکسپریس کی انتظامیہ نے لوگوں کی دعائیں لی ہیں۔ سو اس بار بھی قرعہ فال ایکسپریس ہی کے نام نکلا ہے۔ میں خود حیران ہوں کہ اتنے دھکے کھانے کے باوجود یہ کس طرح ہم تک پہنچیں۔ خدارا! مدد کیجیے۔

انھیں کسی اسکول یا کالج میں یا کینٹین میں کوئی ملازمت مل جائے۔ یا کوئی اسپتال ان کی طرف توجہ دے۔ خاص کر جن اسپتالوں میں یہ کام کرچکی ہیں کاش ان سے کوئی ان کی سفارش کردے۔ کیونکہ یہ دونوں اسپتالوں کے مالکان، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف سے بہت مطمئن تھیں۔ نواسی کا نام زہرہ سلیمان ہے اور ان کے موبائل نمبر یہ ہیں: 0331-2398413 / 0311-3246343

قارئین نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔ ہمیشہ میری ایک اپیل پہ بہتوں نے لبیک کہا ہے۔ وہ تمام لوگ جو ایکسپریس کی بدولت بہت سے مصائب سے بچے آج بھی ہاتھ اٹھا کر ہم سب کے لیے دعا گو ہیں۔ اس بار بھی مایوس نہ کیجیے گا کہ نیکی کا اجر خدا دیتا ہے۔ یہ دیا جلتا رہنا چاہیے۔

کیا کوئی صاحب حیثیت اتنا نہیں کرسکتا کہ نورجہاں کی بیوہ بیٹی کے گھر میں ہر ماہ کچھ راشن ڈلوادے۔ زکوٰۃ اور فطرے کی رقم وہاں خود تحقیق کرکے پہنچادے اور نورجہاں کو کہیں ملازمت دلوادے تاکہ وہ عزت اور خودداری کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔

میری اپیل کا ہمیشہ بڑے لوگوں نے نوٹس لیا ہے اور لوگوں کی ازخود مدد کی ہے۔ ان ہمدردوں کے علاوہ بے شمار مخیر حضرات نے بھی ضرورت مندوں کی مدد کی۔ چھان پھٹک کی ذمے داری میری تھی کہ یہاں جعلی لوگ ہر جگہ پنجہ آزمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمدرد اور مخیر حضرات میں بیشتر ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر ایک اپیل پر خود جاکر حالات دیکھے اور مدد کی۔ دیکھیے اس بار کیا معجزہ رونما ہوتا ہے۔ ابھی میں انسانیت سے مایوس نہیں ہوئی۔ امید کا ایک دیا ہمیشہ روشن رکھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔