کتاب میلہ، کتاب کلب، کتاب عجائب گھر

انتظار حسین  جمعـء 1 مئ 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

صاحب اب کے تو چپڑی اور دو کا معاملہ ہو گیا۔ وہ اس طرح کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے پچھلے برس کی طرح اب کے برس بھی کتاب میلہ سجا رکھا تھا۔ ادھر کراچی سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا قافلہ سفر شوق پر نکلا اور اپنے لٹریچر فیسٹول سے لدا پھندا اسلام آباد پہنچا اور ایک بڑے سے ہوٹل میں آ کر خیمہ زن ہو گیا۔ اور صورت احوال اس چیلنج کے ساتھ اجاگر ہوئی کہ ؎

اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
پروانوں کی تقسیم اس طرح بھی ہوئی۔ مگر ہم ایسے بھی تھے کہ ان کی ایک ٹانگ کتاب میلہ میں دوسری ٹانگ لٹریچر فیسٹول میں۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ساتھ عجب ہوا۔ آگے تو اس کا احوال وہی تھا جو سرکاری اداروں کا ہوا کرتا ہے۔ اس وقت بھی آپ اردگرد نظر ڈالیں۔ علمی ادبی تہذیبی اداروں میں کتنے ادارے حکومت کی جان کو رو رہے ہیں۔ ڈائریکٹر یا چیئرمین اس کی کرسی خالی پڑی ہے۔ تو یہ ادارے کبھی شاد آباد ہوں گے اب اجڑے اجڑے نظر آتے ہیں۔

بک فاؤنڈیشن اچھی نکلی۔ اسے ان چند برسوں میں سربراہ اچھے ملے۔ کچھ عرصہ یہاں مظہر الاسلام نے گزارا اور اس ادارے کو رونق بخشنے میں بہت تیزی ترکی دکھائی۔ وہ گئے تو انعام الحق جاوید آئے۔ انھوں نے اس ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں ادارے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ لگتا ہے کہ علمی ادبی اداروں میں کہیں ٹھکانے سے کام ہو رہا ہے تو وہ یہ ادارہ ہے۔ پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر کی بلند و بالا عمارت میں قدم رکھا تو ہم تو سچ مچ الف لیلہ کے ابوالحسن بن گئے۔

ارے یہ کتاب میلہ ہے۔ میلوں سے بڑھ کر میلہ۔ کمسن بچوں سے لے کر اسی پچاسی عمر والے بزرگوں تک پوری ایک خلقت امنڈی ہوئی ہے۔ ایک اونچی چھت کے نیچے کتاب نے کیا سماں باندھا ہے۔ اسے کتاب میلہ کہیں یا جشن کتابی کہیں۔ یہاں کے وسیع و عریض ہال میں قدم رکھا تو دیکھا کہ مجمع کھچا کھچ ہے خوش رنگ چہروں کا سمندر امنڈا ہوا ہے۔

انور مسعود رواں ہیں۔ دائیں بائیں برنگ منکر نکیر عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد بیٹھے ہیں۔ ذرا سوال کرتے ہیں اور انور مسعود ابل پڑتے ہیں۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ حاضرین کی تالیاں اور قہقہے اور عطاء الحق قاسمی کو کم مت جانو۔ ان کی اپنی باری آئے گی تو پھر یہی ہو گا کہ محفل ان کے طنز و مزاح سے یوں رنگ پکڑے گی کہ زعفران زار بن جائے گی۔

یہ گہما گہمی اپنی جگہ اور اس ادارے نے جو کتابی انقلاب برپا کیا ہے وہ اپنی جگہ۔ کون کہتا ہے کہ اس ملک میں کتاب اپنے قارئین سے محروم ہے۔ ان پانچ دنوں میں یہاں کتابوں کی بکری کتنی ہوئی۔ ہزار نہیں لاکھ نہیں۔ کروڑوں کی رقم کے حساب سے کتابیں فروخت ہوئی ہیں۔

سال کا حساب ہمیں یوں سمجھایا گیا کہ بک ریولوشن یا کتابی انقلاب کے نعرے کو حرز جاں بنا کر منصوبہ یہ بنایا تھا کہ سال کے اندر ایک ہزار معلوماتی سستی کتابیں چھاپیں گے۔ اب تک ایک سو پچاس سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور وہ کھیلوں بتاشوں کی طرح مقبول ہوئیں کہ ان میں سے کتنی کتابوں کے دوسرے اور تیسرے اڈیشن پانچ پانچ ہزار کی تعداد میں چھاپنے پڑے۔ وہ اڈیشن بھی کھیلیں بتاشے بن گئے۔

اور سنئے۔ کتابوں کو پہیئے لگ گئے۔ وہ یوں کہ بک فاونڈیشن نے ایک پروگرام Books on wheels کے نام سے شروع کیا ہے۔ چند بسیں کتابوں کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ کتابوں سے لدپھند کر یہ بسیں مختلف سمتوں میں روانہ ہوتی ہیں۔ چترال ایسے دور دراز علاقوں تک پہنچی ہیں۔ دشوار گزار راستوں سے گزرتی ہوئی کہاں کہاں پہنچی ہیں۔

اس صدا کے ساتھ کہ کتابیں لے لو۔ کتابیں کوڑیوں کے مول‘ کوڑیوں میں قیمتی کتابیں خریدو اور لکھ پتی بن جاؤ۔ کتاب لمبا سفر کر کے تمہاری بستی میں پہنچے گی اور تمہارے دروازے پر دستک دے گی۔ یہ ہیں موبائل بک شاپس۔ کتابوں کی چلتی پھرتی دکانیں۔

اور شہر شہر بک کلب قائم کیے گئے ہیں۔ کتابوں کے رسیا یہاں آئیں۔ چائے پئیں‘ کتابیں پڑھیں اور کتابوں کے ایسے طاق بنائے گئے ہیں کہ یہاں سے کتاب اٹھائیں اور گھر لے جائیں۔ اپنے گھر میں رکھیں‘ پڑھیں‘ ہاں اگر گھر میں آپ کے پاس کوئی ایسی کتاب ہے جو اس کے بدلے میں آپ کلب کو عنایت کر سکتے ہیں تو اسے ایک طاق میں جہاں سے کتاب اٹھائی ہے رکھ جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ ؎

پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید

ہم نے سوچا کہ ذرا اس ادارے کے دفتر میں تو قدم رکھیں۔ واہ واہ سبحان اللہ ۔ یہ دفتر ہے یا کتاب گھر ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے بتایا کہ یہاں ہم نے کتابوں کا عجائب گھر بنایا ہے۔ لیجیے ایں گل دیگر شگفت۔ یعنی کتابوں کا بھی عجائب گھر ہو سکتا ہے۔ تو یہاں انھوں نے انوکھی نرالی کتابیں‘ مخطوطے سجا کر رکھے ہیں۔ کاغذی کاروبار سے گزر کر پتھر کی کتابیں سجائی ہیں۔

بتایا گیا کہ ایک دریا دل شخصیت پروفیسر زاہد بٹ نے اس عجائب گھر کے لیے سونے کے پانی اور جواہرات کی روشنائی سے لکھے ہوئے ایک کروڑ سے زائد مالیت کے نادر و نایاب قرآن پاک کے نسخے ہدیہ کیے ہیں اور ان میں بڑے سائز کے قرآن پاک کے ساتھ ایسے ننھے منے قرآن بھی شامل ہیں جو محدب شیشے ہی کی مدد سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ یعنی وہ جو چاول پر قل ہواللہ لکھنے کا محاورہ تھا اس مثل کو اصل کر کے دکھایا ہے۔

اور پھر اس عجائب گھر میں ہمارے بڑے شاعروں اور قلم کاروں کے الگ الگ گوشے بنائے گئے ہیں۔ غالب اور اقبال کے گوشے تو خیر ہیں ہی‘ ابولاثر حفیظ جالندھری بھی اپنے قومی ترانے کے ساتھ یہاں گوشہ نشین ہیں۔

مختلف اسلامی ممالک کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ بھی اپنے نامی گرامی شاعروں کے لیے گوشے قائم کرنے میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔

ایک منصوبہ اور ہے۔ این بی ایف یونیورسٹی بک شاپ اور کلب کا منصوبہ ۔35 یونیورسٹیوں سے مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت طلبا اور اساتذہ کو 25 سے لے کر 55 فیصد تک ڈسکاؤنٹ پر کتابیں فراہم کی جائیں گی۔

عجب‘ ثم العجب ۔ اس ادارے نے کتنے بڑے بڑے منصوبے باندھے ہیں۔ بس پھر کتاب کو تو پر لگ جائیں گے؎
ہمت کو شناوری مبارک

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔