جنرل کریمی، داعش کا حملہ اور سبین محمود

تنویر قیصر شاہد  ہفتہ 2 مئ 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دراز قد، ستر سالہ جنرل شیر محمد کریمی ایبٹ آباد کے نزدیک کاکول اکیڈمی میں گزشتہ ہفتے مہمانِ خصوصی تھے۔ یہ ان کا پاکستان میں دوسرا کامیاب دورہ تھا۔ اس بار کاکول ایسے اعلیٰ فوجی تربیتی ادارے کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں اُ ن کی موجودگی اور اُن کا شاندار خطاب اس امر کا ثبوت تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان خوشگوار انداز میں تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں، باہمی فاصلے سمٹ رہے ہیں اور جو کبھی دونوں برادر، اسلامی اور ہمسایہ ممالک میں چھوٹے موٹے گلے شکوے بھی ہوتے تھے، اب ان کا ً خاتمہ ہو رہا ہے۔ افغان فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی صاحب نے بجا طور پر اور دل کی گہرائیوں سے افواج پاکستان کی تعریف و تحسین کی۔

اُن کے ہاتھوں سے جن نوجوان کیڈٹوں نے اسناد اور تعریفیں وصول کیں، اُن میں چھ افغان کیڈٹ بھی شامل تھے جنہوں نے کاکول سے ٹریننگ حاصل کی ہے۔ یہ نصف درجن افغان کیڈٹ دراصل افواجِ افغانستان میں پاکستان کے لیے زبر دست تعاون کا سرمایہ ثابت ہوں گے۔

بھارت کو یہ منظر تقریباً پسند نہیں آیا چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس وقت کاکول اکیڈمی میں جنرل کریمی صاحب خوشی خوشی مہمان خصوصی کی حیثیت سے فرائض ادا کر رہے تھے، عین انھی لمحات میں افغانستان کے مشہور شہر جلال آباد میں ایک خودکش حملہ ہوا۔ بم بن کر لوگوں پر حملہ آور ہونے والا یہ شخص ایک بینک کے سامنے ہجوم پر قیامت ڈھا گیا۔ لوگ اس روز اپنی تنخواہیں وصول کرنے آئے تھے کہ اس جہنمی نے انھیں خاک و خون میں لُٹا دیا۔ افغانستان میں قیامتِ صغریٰ برپا ہو گئی۔ جنرل کریمی بھی دہل کر رہ گئے۔

ہمارے مشترکہ دشمن نے افغان چیف آف آرمی اسٹاف کے دورہ پاکستان کو سبوتاژ کرنے کے لیے نہایت بزدلانہ اور بھونڈی کوشش کی لیکن کامیاب پھر بھی نہ ہو سکا۔ افغان طالبان نے تو اس خونی سانحہ میں ملوث ہونے کی تردید کی لیکن افغانستان میں موجود داعش کی طرف سے اعلان سامنے آیا کہ یہ کارروائی اس کی ہے۔ اس سانحہ کے دوسرے روز افغان صدر جناب اشرف غنی ایران کے دورے پر پہنچے تو ایرانی صدر جناب حسن روحانی نے بھی ان کے ساتھ مل کر داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان کیا۔

کہنے کو  ’’داعش‘‘ کے کسی دہشت گرد رکن نے جلال آباد میں خود کش حملہ کر کے چالیس سے زائد افراد کو جاں بحق اور سو سے زائد انسانوں کو شدید زخمی کر دیا لیکن یہ بھی اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے اب ایک نیا راستہ اختیار کر کے افغانستان میں ایک نیا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے تا کہ پاکستان کو بدنام کیا جا سکے۔ یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ بھارت سے بھی ’’داعش‘‘ کے کچھ لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔

ذرایع کہتے ہیں، اس امر کے قوی امکانات ہیں کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے ہاں گرفتار کیے جانے والے داعشیوں کو بطور چارہ استعمال کر کے افغانستان میں بروئے کار داعش کے وابستگان سے تعلقات استوار کر رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے جلال آباد کا خونی سانحہ اسی نئے تعلق کا شاخسانہ ہو سکتاہے۔

بھارت کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے کہ افغانستان کی نئی منتخب حکومت اور پاکستان کے باہمی تعلقات مضبوط کیوں ہو رہے ہیں اور پاکستانی و افغانی حکام کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا کیوں اتنا بڑھ گیا ہے!! افغان سپاہ کے سربراہ جنرل کریمی کی پاکستان میں موجودگی اور خصوصاً جب کہ وہ کاکول ایسے فوجی تربیتی ادارے میں مہمانِ خصوصی کے فرائض انجام دے رہے تھے، مبینہ طور پر داعش کی طرف سے خود کش حملہ کر کے تین درجن سے زائد افغان شہریوں کے قتل کے سانحہ کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیا جانا چاہیے۔

اگرچہ یہ بھی حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ افغانستان کے اندر اور پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ داعش کے جتنے بھی اہم افراد نے سر اٹھایا تھا، وہ سب ہلاک کیے جا چکے ہیں لیکن بھارت بچے کھچے افراد کی سرپرستی کر کے اس راکھ میں مسلسل حرارت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ چند روز قبل ایک انگریزی معاصر میں Daesh:  Pakistan  Chapter  Top Brass Eliminated کے زیرِ عنوان شایع ہونے والی مفصل اسٹوری میں بھی اس امر کی تصدیق ہوتی نظر آ رہی ہے کہ چار ماہ قبل پاک افغان سرحد کے آر پار داعش کے تینوں اہم ترین لیڈرز (حافظ سعید، عبدالرؤف خادم، حافظ واحدی) امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ یہ تینوں افراد پہلے ٹی ٹی پی اور پھر القاعدہ کے سینئر وابستگان میں شامل رہے۔

یہ بات تو اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارت ٹی ٹی پی کی مالی و اسلحی امداد کرتا رہا ہے۔ وہ اب بھی باز نہیں آ رہا۔ ’’ضرب عضب‘‘ آپریشن کی کامیابیاں اسی لیے بھارت کے گلے کی پھانس بنتی جا رہی ہیں۔ ہمارے اس دل آزار ہمسائے کی یہ تمنا تھی کہ وہ بدستور، ٹی ٹی پی میں اپنے کارندوں کے توسط سے، پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی کی فضا برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتا رہے گا لیکن افواجِ پاکستان اور پاکستان کی سیاسی قیادت نے اس کے یہ سارے خواب چکنا چور کر دیے ہیں۔ افغانستان میں ’’القاعدہ‘‘ کا ایک رہنما (عاصم عمر) تو باقاعدہ بھارتی شہری ہے۔

اس کا تعلق بھارتی علاقے اترپردیش سے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 90ء کے عشرے میں اسے بھارتی خفیہ اداروں نے افغانستان بھجوایا جس نے یہاں AQIS (یعنی القاعدہ ان انڈین سب کانٹی نینٹ) نامی تنظیم بنائی اور جلد ہی، پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت، اس نے ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت سے اپنے گہرے تعلقات استوار کر لیے۔ یہ شخص اور اس کے ساتھی افغانستان میں داعش، را اور پاک افغان سرحد کے آس پاس ٹی ٹی پی کے مفرور وابستگان کے ذریعے دہشت گردی کی لاتعداد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ وہ افغانستان میں بعض جگہوں پر چھپے چینی علیحدگی پسند یغوروں کو اپنا ہمنوا بنا کر چین کے لیے بھی بہت سے سیکیورٹی مسائل کا موجب بن چکا ہے۔ یہ دراصل افغانستان میں بیٹھ کر بھارت کی چین اور پاکستان کے خلاف یلغار کا ایک حصہ ہے۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ افغانستان کی نئی منتخب حکومت بھی کئی بار، اس شخص کے حوالے سے، بھارت سے شکایات کر چکی ہے لیکن بھارتی اسٹیبلشمنٹ سنی ان سنی کر رہی ہے۔ دو روز قبل جب افغان صدر نے بھارت کا سرکاری دورہ کیا تو وہ بھی افغانستان میں ’’را‘‘ کے ان زیر ِزمین اقدامات کے بارے میں بھارتی قیادت کے سامنے مبینہ طور پر شکایات کی پٹاری کھولتے پائے گئے۔ (یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ یہ دہشت گرد عاصم عمر ہی تھا جس نے ستمبر 2014ء کو کراچی کے ڈاکیارڈ سے پی این ایس ذوالفقار بھی ہائی جیک کرنے کی مسلح کوشش کی تھی۔ اس سازش میں وہ تو بچ گیا لیکن اس کے باقی ساتھی مارے گئے تھے) بھارت کو اس امر کا بھی شدید قلق ہے کہ چینی قیادت افغان حکومت سے تعاون کرتے ہوئے جنگجو طالبان سے مذاکرات و مصافحے کی فضا کیوں ہموار کر رہی ہے۔

بھارت ایک طرف تو اعلان کرتا ہے کہ قیام امن کے لیے وہ بیک وقت پاکستان، افغانستان اور چین کے ساتھ ’’ہر قسم کا‘‘ تعاون کر رہا ہے لیکن دوسری طرف یہ اعلانات اس کے عمل سے مطابقت نہیں رکھتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ افغانستان (جلال آباد) میں مبینہ طور پر داعش کا خود کش حملہ اس وقت ہوا جب (نمبر 1) افغان جنرل پاکستان میں موجود تھے (نمبر 2) جب دوسرے ہی روز چین کے صدر جناب شی چن پنگ پاکستان کے دو روزہ دورے پر تشریف لا رہے تھے (نمبر 3) جب اکیس اپریل کو بھارت نے شکرگڑھ کے علاقے میں پاک بھارت سرحد پر گولہ باری کر کے اپنے شرمناک مقاصد کا اظہار کیا (نمبر 4) جب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جناب پرویز خٹک ابھی کابل کے دو روزہ دورے سے واپس آئے ہی تھے اور (نمبر5) جب کراچی میں ایک این جی او کی سربراہ محترمہ سبین محمود کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر مار ڈالا۔ پاکستان مسلسل صبر اور اعراض کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

کیا بھارت یہ چاہتا ہے کہ اگلے ماہ جب نریندر مودی چین کے سرکاری دورے پر جائیں تو پاکستان بھی انھی کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کر دے؟ مزید رنج کی بات یہ بھی ہے کہ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کو گزند پہنچانے اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کے لیے بھارت نے نئی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان پر لازم ہے کہ حکومتی سطح پر بھارت کی ان سرگرمیوں کے بارے میں عوام کو مسلسل آگاہ کیا جاتا رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔