رمضان پیکج؛ انسانیت کی تذلیل کا ایک اور نیا آئیڈیا!

رضا ہاشمی  ہفتہ 2 مئ 2015
پیکج کے اعلان کے بعد اب ہوگا کیا؟ یوٹیلیٹی اسٹورز پر لمبی قطاریں دیکھی جائیں گی،تلخ کلامی ہوگی جو انسان کی تضحیک کے مترادف ہے۔ فوٹو: فائل

پیکج کے اعلان کے بعد اب ہوگا کیا؟ یوٹیلیٹی اسٹورز پر لمبی قطاریں دیکھی جائیں گی،تلخ کلامی ہوگی جو انسان کی تضحیک کے مترادف ہے۔ فوٹو: فائل

خبر کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی نے رمضان ریلیف پیکج کے تحت ڈ یڑھ ارب (ڈیڑھ ارب کا مطلب فی کس ساڑھے سات روپے) روپے کی ریلف دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ملک بھر کے یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر پانچ سے دس روپے ریلیف دیا جائے گا۔

ان اشیاء میں آٹا، چینی، میدہ، گھی، کوکنگ آئل، دالیں، چاول، بیسن، سویاں اور دیگر شامل ہیں۔ کہنے کو تو بہت اچھا قدم ہے کہرمضان کے مقدس مہینے میں مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو ریلیف دیا جا رہا ہے۔ مگر اب ہوگا کیا؟ یوٹیلیٹی اسٹورز پر لمبی قطاریں دیکھی جائیں گی۔ کہیں تلخ کلامی ہوگی تو کہیں اشیاء نہ ہونے کے باعث لوگ مایوس واپس لوٹیں گے اور اتنی خجالت کیوں؟ پانچ سے دس روپے فی چیز کی خاطر؟ ہاں پانچ سے دس روپے ایک غریب شخص کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں مگر حکومت کیا کر رہی ہے؟

 

پوری دنیا میں حکومت تاجر کمیونیٹی کے ساتھ مل کر ایسی پالیسیاں بنایا کرتیں ہیں کہ کرسمس کے موقع پر جو وہاں کا اکثریتی مذہبی تہوار ہے، پورے سال کے مقابلے میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم ترین سطح پر آجاتی ہیں اور عوام سے تمام چیزیں باآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔ قابل تعریف بات یہ کہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں کے لئے رنگ مذہب نسل کی کوئی تمیز نہیں اور وہاں یوں صرف یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈی نہیں دی جاتی بلکہ جنرل مارکیٹ میں ریٹ اتنے کم ہوجاتے ہیں کہ خریدنے والوں کی واقعی عید ہوجاتی ہے۔

مگر ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ شاید یہ الٹ سے بھی آگے کی چیز ہے۔ یہاں پر اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ایک رقم سبسڈی کے نام پر مختص کردی جاتی ہے۔ اسے یوٹیلیٹی اسٹورز تک محدود کردیا جاتا ہے اور پھر ایک شرمناک تماشہ شروع ہوتا ہے جو کہ درحقیقت انسان کی تضحیک کے مترادف ہوتا ہے۔ مگر سستی خریداری کرنے میں کامیاب ہونے والے اسے اپنی کامیابی (بجا طور پر) گردانتے ہیں اور حکومت اس نیک اقدام پر پھولی نہیں سماتی۔

اتنے نیک حکومتی قدم پر یکدم ملامت کرنے پر شاید آپ حیران ہوں مگر اس وقت معاملہ کچھ یوں ہے کہ عام بازار میں رمضان کی آمد سے قبل ہی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئی ہیں۔ جوں جوں باقی اشیا کی طلب بڑھے گی انکی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔ وفاقی حکومت تو اپنی جگہ مگر صوبائی حکومتیں بھی اِس معاملے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں۔ قیمتیں ایک حد سے جب بڑھ جائیں گی تو عوام بلبلائے گی اور میڈیا چیخ پڑے گا تب حکومتی عہدہداران قیمتیں کنٹرول کرنے بھاگ کھڑے ہوں گے۔

یہ سب ریٹیل مارکیٹ کو کنٹرول کرنے میں لگ جائیں گے اور کوئی بھی مڈل مین جو ان قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا براہ راست ذمہ دار ہوتا ہے اُس کو نہیں روکے گا نتیجہ یہ ہوگا کہ پرائس کنٹرول کی تمام تر کوششوں کے نتائج آنے سے پہلے رمضان ختم ہوجائے گا اور فری مارکیٹ اکانومی کے اصول کے تحت رمضان گزرتے ہی مخصوص اشیائے خوردونوش کی طلب میں کمی آئے گی اور اس کی قیمتیں کم ہوتی چلی جائیں گیں۔

اس دوران حکومتِ پاکستان کا یوٹیلیٹی اسٹور اور ڈیڑھ ارب روپے کی بابرکت سبسڈی کی شکل میں (جس کا پیسہ بھی ہمارے ٹیکسوں سے کشید کیا جائے گا) اسکا عوامی ریلیف کے لئے ’’احسن اقدام‘‘ خوب چمکے گا۔ جبکہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے وزراء اعلیٰ اور دیگر پارٹی عہدہداران کے پوسٹروں سے مزین رمضان بازار کی بھی خوب واہ واہ ہوجائے گی۔  اب سوال یہ ہے کہ ہونا کیا چاہئے؟ تو میرے خیال میں حکومتوں کی جانب سے ’’رمضان کے بابرکت مہینے میں عوام کی خدمت میں پیش پیش‘‘ ہونے کے نام پر جاری کھلی ’’فحاشی‘‘ کے سلسلہ کو بند کردینا چاہئے۔

رمضان کی آمد پر عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ہی عوام کو سبسڈی کے نام پر یوٹیلیٹی اسٹورز پر خوار کرنے کے بجائے اپنے مارکیٹ سٹرکچر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، مارکیٹ کمیٹیوں کو نہ صرف فعال کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان کمیٹیوں کے ممبران چنتے وقت اپنے منظور نظر لوگوں کو نوازے کے بجائے میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ مڈل مین کے کردار کو ختم نہیں تو کم از کم کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لئے وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ بیٹھنا ہوگا اور ایسی جامع اور مشترک پالیسی ترتیب دینی ہوگی جو کہ کم از کم  رمضان کے مہینے میں مارکیٹ ریٹ کو کنٹرول کرسکے۔

مڈل مین اور حکومتی گٹھ جوڑ کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ واضح ہے کہ مڈ ل مین کا کردار ختم نہیں ہوسکتا جس کی وجہ سے اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا ہی رہے گا مگر رمضان میں وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر اشیائے صرف پر بجائے نمائشی سبسڈی دینے کے مارکیٹ کا سٹرکچر فعال کریں تاکہ رمضان میں ریلیف کی کوششیں حقیقی طور پر عوام کے لئے ریلیف ہی بنیں نہ کہ تکلیف کا سبب۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔