اپنے اپنے پیٹ کا دکھ…

شیریں حیدر  اتوار 3 مئ 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اپنی اپنی ٹرالیاں اس بڑے سے اسٹور کے اندر چلاتے ہوئے لوگوں کی نظر بار بار ٹیلی وژن کی ان بڑی اسکرینوں پر پڑ جاتی تھی جو اسٹور کے اندر جا بجا آویزاں تھیں، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی… ’’ مما… پزا آرڈرکر دیں، آپ کی شاپنگ مکمل ہونے تک تیار ہو جائے گا!!‘‘ ایک بچے نے انگریزی میں ماں سے فرمائش کی، ماں نے اسے مسکرا کر اجازت دے دی تو بچہ خوش ہو کر پزا آرڈر کرنے چلا گیا۔

’’ تازہ جوس ہیں یہ ؟ ‘‘ سوال کیا گیا۔

’’ یس سر ‘‘ اسٹور میں موجود مدد گاروں میں سے ایک بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا، قیمت دریافت کر کے چھ بوتلیں ٹرالی میں رکھ لی گئیں۔’’ او ڈیر! گھر میں ہم دو لوگ ہی تو ہیں جو جوس پیتے ہیں، اتنا جوس کون پئے گا؟ ‘‘

’’ ٹرائی کرنے کے لیے خرید لیتے ہیں، اگر اچھے ہوئے تو ڈبے بند کی بجائے یہی تازہ بوتلوں والے جوسز لے لیا کریں گے آئندہ!!‘‘
’’ زلزلے سے نیپال میں ہلاکتوں کی تعداد چار ہزار تین سو ہو گئی ہے ‘‘ خبر چل رہی تھی۔’’ سو سیڈ!! ‘‘ اسکرین پر نظر پڑتے ہی کسی نے کہا۔

’’ Terrible ‘‘ ایک اور آواز سنائی دی۔
’’ لیکن ہمارا 2005 والا زلزلہ اس سے شدید تھا اور ہلاکتیں بھی اس سے کہیں زیادہ تھیں ‘‘

’’ ہمارے ہاں تو آفات اس لیے کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہیں کہ ہم ان سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور دوسروں کی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں !!!‘‘
’’ ہر ملک کسی بھی آفت کے وقت ، دوسروں کی مدد کا محتاج ہوتا ہے ‘‘

’’ ٹوتھ پیسٹ کون سا خریدیں؟ ‘‘
’’ کوئیimported ہی لینا ہو گا، ہمارے ہاں کے ٹوتھ پیسٹ تو استعمال کے قابل نہیں ہوتے!!‘‘
’’گوشت کتنی دیر میں تیار ہو جائے گا؟ ‘‘ سوال کیا گیا۔

’’ اس نے بیس منٹ کا کہا تھا، اب تو تیس منٹ ہونے کو ہیں!!‘‘’’ اس ملک میں کوئی کیا کرے ، ایک بارش کا بوجھ تک تو سنبھالا نہیں جاتا، اب یہی دیکھ لو کہ پشاور میں چند گھنٹوں کی بارش نے کیا تباہی مچا دی ہے ‘‘ چالیس لوگوں کی موت اور سو سے زائد زخمیوں کی خبر چل رہی تھی۔’’ حکومت جانے کیا کر رہی ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے فرائض سے پہلو تہی!!! ‘‘ حکومتی نا اہلی کا رونا رویا گیا، ’’ اتنے تو ہم سے ٹیکسز لیتی ہے حکومت!!‘‘
’’ بچے کہاں ہیں؟ ‘‘ دائیں بائیں بچوں کے نظر نہ آنے پر تشویش ہوئی۔’’ پزا لینے کے لیے گئے ہیں!!‘‘
’’ اتنی جلدی تو پزا تیار نہیں ہوا ہو گا ‘‘

’’ چلیں اتنی دیر میں وہ کوئی چاکلیٹ وغیرہ لے لیں گے!!!‘‘ ’’ دونوں ٹرالیاں سامان سے لد گئی تھیں، انھیں ادائیگی کے کاؤنٹر کے قریب کھڑا کر کے مزید سامان کے لیے ایک اور ٹرالی لائی گئی۔ اس پر کاونٹر کے قریبی isles سے بچوں کے لیے سیریل، بسکٹ، جیم، مکھن، مارجرین وغیرہ ٹرالی میں رکھے جا رہے تھے، بچے پزا لے کر آ گئے تھے اور صاحب گوشت لے کر پہنچ گئے جو کہ آرڈر کے مطابق تیار ہو چکا تھا۔

سامان سے لدی تین ٹرالیاں کیش کاؤنٹر کے قریب قطار میں کھڑی تھیں، صاحب اسٹور میں گھومنے والے لوگوں کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ پیٹ کے لیے انسان کو کیا کچھ کرنا پڑتا ہے، ان کی کلاس کے لوگوں کے لیے اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ ہفتہ وار خریداری پر آنا بھی بہت بڑی مشقت تھی۔ بیگم صاحبہ ٹیلی وژن اسکرین پر نظر جمائے ان لوگوں کا دکھ اپنے دل میں اترتا ہوا محسوس کر رہی تھیں جو کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار پڑے تھے۔

میدانوں کے میدان لاشوں کے ڈھیروں سے بھرے پڑے تھے، کنوئیر بیلٹ پر رکھے ہوئے ترتیب وار گوشت کے پیکٹ، ان کے ہاں شام کو بار بی کیو پارٹی تھی جس کے لیے لگ بھگ بیس کلو مختلف اقسام کا گوشت لیا گیا تھا، اسکرین پر انسانی گوشت کے ڈھیر دکھائے جا رہے تھے، مگر انھیں اب کون دیکھ رہا تھا، اب ان کی نظر کیش کاؤنٹر پر نصب اس مشین پر تھی جس پر تیزی سے ہندسے بدل رہے تھے، ہر ایک swipe کے ساتھ پانچ سات سو کا اضافہ ہو رہا تھا۔

یہ ہفتہ وار معمول تھا، انھیں کوئی فکر نہ تھی، اسکرینوں پر متاثرین پشاور دکھائے جا رہے تھے، وہ بے بسی سے اس امداد کے منتظر تھے جو نہ جانے کہاں سے آنی تھی۔ بل کی رقم چالیس ہزار سے تجاوز کر گئی تھی، ابھی تک مشین ہندسے جوڑ رہی تھی، مستعد کارکن اس تمام خریداری کو دکان کے لوگو والے لفافوں میں ڈال رہے تھے، ہر نوع کا سامان علیحدہ علیحدہ لفافوں میں… پچاس ہزار سے چند سو ہی کم رہ گئے تھے جب ایک مخصوص گھنٹی کی آوازآئی اور مشین نے ٹوٹل بل بنا دیا ۔

ٹرالیاں بھر کر لے جائی جا رہی تھیں، بل کی ادائیگی کے بعد وہ لوگ ان لڑکوں کے ساتھ چل پڑے جو کہ ان کی ٹرالیاں دھکیل کر ان کی گاڑی تک لے جا رہے تھے۔ اسٹور کے اندر ہر کوئی انھیں تعظیم دے رہا تھا، غالباً وہ یہاں کے مستقل گاہک تھے۔’’ آپ کو معلوم ہے کہ رات کی پارٹی کے لیے صرف گوشت ہی گیارہ ہزار روپے کا ملا ہے ‘‘ بل دیکھ کر بیگم صاحبہ نے کہا۔

’’ کم آن!! ‘‘ فوراً تنبیہ کی گئی، ’’ یوں نہ گنا کرو کسی خرچے کو، کھانے پینے کا کیا حساب، سارے دھندے اسی لیے تو کرتے ہیں!!!‘‘ داخلی راستے پر کھڑے گارڈ نے انھیں سیلوٹ کیا، وہ انھیں جانتا تھا، اس کا کام لوگوں کے بلوں کی جانچ کرنا تھا، اس نے ان کے ہاتھ میں تھامے بل پر بغیر دیکھے مہر لگا دی۔ دروازے کے بالکل قریب رکھی میزوں پر، دو بڑے بڑے شیشے کے شفاف جار پڑے تھے، ایک پر ’’متاثرین نیپال کے لیے ‘‘ لکھا ہوا تھا، دوسرے پر ’’پشاور کے متاثرین کے لیے!!!‘‘ ان کے اندر سے چھوٹی بڑی مالیت کے کئی نوٹ جھانک کر باقیوں کو ترغیب دے رہے تھے کہ وہ بھی نیکی کے کام میں حصہ ڈالیں۔بچوںمیں سے ایک نے جار کے پاس کھڑے ہو کر حیرت سے دیکھا اور سوالیہ نظروں سے اپنے ماں باپ کر دیکھا، اس کی نظر کا سوال وہ دونوں سمجھ گئے تھے ۔

’’ یہ جار یہاں اس لیے رکھے گئے ہیں کہ لوگ ا ن میں charity کی رقوم ڈالیں، جو لوگ کسی نہ کسی وجہ سے مصیبت میں ہیں اور ضرورت مند ہیں ان کی اس پیسے سے مدد کی جائے گی!!‘‘ ماں نے وضاحت کی ۔’’ مگر یہ تو تھوڑے سے روپے ہیں مما!‘‘ بچے نے تاسف سے کہا، ’’ کیا ہم ان جارز میں کچھ رقم ڈال سکتے ہیں؟ ‘‘ اس نے باپ کے چہرے کی طرف دیکھ کر فرمائش کی۔

باپ نے پانچ پانچ ہزار والے دس نوٹ بل کے لیے دیے تھے، اتنی ہی نقد رقم اس کے بٹوے میں تھی، مگر اس کے ہاتھ میں بقایا ملنے والے چار سو روپے تھے جو اس نے ان دو لڑکوں کو دینا تھے جو ان کی سامان کی ٹرالیاں دھکیل کر ان کی گاڑی کی طرف جا رہے تھے۔ اس نے چند لمحے سوچا اور پھر ہاتھ میں پکڑے ہوئے سو سو کے چار نوٹ بیٹے کے ہاتھ پر رکھ دیے جس نے دونوں جارز میں اپنے باپ کی طرف سے’’ سخاوت‘‘ سے بھر پورحصہ ڈالا… ٹرالیوں میں سامان رکھنے کے بعد دونوں لڑکے حسب عادت طالب نظروں سے انھیں دیکھ رہے تھے، انھوں نے ایک معذرت خواہانہ نگاہ ان پرڈالی ، ’’ سوری یار آج چینج نہیں بچا ‘‘

’ کوئی بات نہیں سر ‘‘ ان لڑکوں نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ سے انھیں خدا حافظ کہا، گاڑی روانہ ہوئی اور ان کی نظروں کے سامنے پارکنگ لاٹ سے نکل کر غائب ہو گئی ’’ بد بخت!!!‘‘

’’ کس کو کہہ رہے ہو، ان کے بیٹے کو؟ ‘‘ دوسرے نے کچھ نہ سمجھ کرحیرت سے پوچھا۔ ’’ اونہہ !!‘‘ اس نے سر جھٹکا، ’’ اسے نہیں بلکہ وہ جو ہمارا حق مارتے ہیں!!!‘‘

’’ وہ کون ہیں جو ہمارا حق مارتے ہیں؟ ‘‘ اس کے ساتھی نے حیرت سے پوچھا۔’’ جن کے ہاں مصیبت آتی ہے تو ہم سے مدد مانگتے ہیں ، ہم تو خود اپنی روٹی کو محتاج ہیں، جب کسی اور پر مصیبت آتی ہے تو ہمارا پیٹ کاٹ کر انھیں امداد دی جاتی ہے ‘‘ دنیا بھر کے بھوک اور غربت کے مسائل سے نا آشنا، اپنی غرض کو روتے ہوئے وہ دونوں مرے مرے قدموں سے اسٹور کے اندر کی طرف چلے جہاں نصب بیس کاؤنٹرز پر لوگ قطاروں میں کھڑے اسی طرح ہزاروں کے بل ادا کر رہے تھے، انھیں کسی امید کے ساتھ، ابھی کئی ٹرالیاں ڈھونا تھیں!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔