امیدوں کی مرجھاتی کلیاں

مقتدا منصور  پير 4 مئ 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ابھی سبین محمود کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر وحید الرحمان کو ابدی نیند سلادیا گیا۔ اس سے ایک ہفتہ قبل جناح میڈیکل کالج کی امریکی نژاد وائس پرنسپل پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی، مگر وہ معجزاتی طور پر اس حملے میں بچ گئیں۔ وطن عزیز میں یہ نئے واقعات نہیں ہیں۔ کراچی سے خیبر تک اور بولان سے گلگت و بلتستان تک آئے دن اس قسم کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ چونکہ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اس لیے یہاں ان واقعات کی تعداد اور شدت زیادہ اور رپورٹنگ فوری ہوتی ہے۔

جہاں تک سبین محمود کا تعلق ہے تو وہ سماجی طور پر بہرحال خاصی سرگرم تھی۔ معاشرے میں تحمل، برداشت اور رواداری کو پروان چڑھانے اور دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی روایت کو فروغ دینے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتی تھی۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر اس نے ایک فلیٹ میں The Second Floor) T2F کے نام سے ایک فورم قائم کر رکھا تھا، جہاں علم و آگہی اور ثقافتی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھنے والے افراد شرکت کیا کرتے تھے۔ جگہ کی تنگی کے باعث ہر نشست میں متوشش شہریوں کی ایک محدود تعداد ہی شریک ہو پاتی تھی، اس لیے اس جگہ سے نہ تو کسی انقلاب کی آبیاری ہو رہی تھی اور نہ یہ نشستیں حکمران طبقات کے لیے کسی قسم کا چیلنج بن رہی تھیں۔ یہ تو جرمنی کے فرینکفرٹ اسکول کی طرز پر خیالات کے باہمی تبادلے کا ایک چھوٹا سا فورم ہے۔ اس کے برعکس پروفیسر وحید الرحمان نہ سیاست اور نہ ہی سماجی یا مذہبی معاملات میں سرگرم تھے۔ وہ ایک سادہ لوح قسم کے ماہر تعلیم تھے، جو اپنی تعلیم و تدریس کی سرگرمیوں میں ہمہ تن مشغول رہتے۔

پاکستان میں حکمران اشرافیہ روز اول ہی سے خرد افروزی اور عقلیت پسندی سے خوفزدہ چلی آ رہی ہے۔ 1950ء کے عشرے میں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) پر پابندی اسی خوف کو ظاہر کرتی ہے۔ 1960ء کے عشرے میں عوامی لیگ اور اس کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کے خلاف ملک دشمنی کے الزامات اور پھر 1970ء کے عشرے میں نیشنل عوامی پارٹی (NAP) پر اسی نوعیت کے الزامات کے تحت مقدمات اور میڈیا ٹرائل کے بعد پابندی اسی Mindset کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے برعکس ان جماعتوں اور تنظیموں کی ریاستی سطح پر سرپرستی کی گئی، جو اس ملک میں عقیدے کی بنیاد پر تنگ نظری اور نفرتیں پھیلانے کی ذمے دار ہیں۔

ان جماعتوں نے کبھی قتال فی سبیل اللہ کا نعرہ لگا کر جنون پرستی کو فروغ دیا، کبھی مختلف عقائد اور نظریات کے حامل افراد اور گروہوں کی تکفیر کر کے ٹارگٹ کلنگ کی راہ ہموار کی۔ ریاست کے زیر سرپرستی ان حلقوں کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام، بالخصوص نوجوان خوف کی کیفیت میں مبتلا رہیں اور سیاسی، سماجی اور تاریخی معاملات پر سوالات اٹھانے کی جرأت نہ کر سکیں۔ جو افراد یا تنظیمیں دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی روایت کو فروغ دینے کی کوشش کریں یا زد پذیر طبقات یا افراد کے انسانی حقوق کے بات کریں، انھیں منظرعام سے ہٹا دیا جائے۔

آج پاکستان جس آگ میں جھلس رہا ہے، اس میں پہلی چنگاری ملک کے پہلے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی نے سلگائی تھی، جب انھوں نے ایک طرف علامہ شبیر احمد عثمانی کو قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے اکسایا، تا کہ ملک میں تھیوکریسی کی راہ ہموار کی جا سکے، جب کہ دوسری طرف بنگالی عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کے ذریعہ لسانی عصبیتوں کو فروغ دیا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں ریاست کو ان معاملات میں الجھا دیا، جس سے عموماً اس کا سروکار نہیں ہوتا۔ جنرل ضیاء الحق نے جلتی پر تیل چھڑک کر اس آگ کو پورے ملک میں ہر سطح تک پھیلا دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دم، وطن عزیز میں دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کا تصور بھی محال ہو چکا ہے۔ عقیدے اور مسلک کے ساتھ ساتھ لسانی عصبیتیں بھی متشدد شکل اختیار کر چکی ہیں۔

ریاست کے اس طرز عمل نے پورے معاشرے کو دانستہ اس نہج تک پہنچا دیا ہے، جہاں تحمل، برداشت اور رواداری جیسے جذبات و احساسات ختم ہو چکے ہیں۔ دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی روایت نہ پہلے کبھی تھی اور نہ ہی اسے پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ بلکہ ہر سطح پر اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ریاست ماں کی طرح شفقت اور محبت کی آغوش بننے کے بجائے قہر و جبر کی علامت بن چکی ہے۔ جو اہم قومی امور پر مشاورت کے ذریعے فیصلہ سازی کرنے کے بجائے دھونس اور دھاندلی سے اپنے فیصلے مسلط کرنے کی عادی ہو چکی ہے۔

معاملہ صرف ریاست تک محدود نہیں ہے بلکہ سماج کا سب سے چھوٹا یونٹ یعنی خاندان بھی اقتدار و اختیار کی بدترین مرکزیت کا عکاس ہے۔ اس صورت حال کا سبب یہ ہے کہ ہمارا سماج ابھی تک قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کی بندشوں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے، جس میں گھر سے ریاست تک ہر سطح پر وحدانی (سیاسی اصطلاح) طرز عمل کی جڑیں گہری ہونے کے سبب فکری کثرتیت کے لیے گنجائش پیدا نہیں ہو پا رہی۔ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ تو اظہر من الشمس ہے، مگر کریلا اور نیم چڑھا کے مصداق سیاسی جماعتیں بھی فکری کثرتیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

گزشتہ اتوار کو معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کا فکری کثرتیت کے حق میں فکر انگیز مضمون ایک انگریزی روزنامہ میں شایع ہوا، جس میں انھوں نے تاریخ کے حوالے سے فکری کثرتیت کے حق میں پرزور دلائل دیے اور ثابت کیا کہ جو معاشرے فکری کثرتیت کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں، وہ تنزل کا شکار ہو کر بدترین تباہی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ مگر اس مضمون کی اشاعت سے صرف ایک روز قبل ہی دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی روایت کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ایک آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ وہ چراغ گل کر دیا گیا، جو چہار سو پھیلتے شدت پسندی کے اندھیرے میں روشنی کی ایک معمولی سی کرن تھا۔ سبین محمود کا جرم کیا تھا؟ یہی کہ اس نے اپنے ادارے T2F میں متوشش افراد کو جمع کر کے خرد افروزی اور عقلیت پسندی کو پروان چڑھانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے اس خطے کی صدیوں پر محیط صوفی روایات کو نئی نسل میں متعارف کرانے کی کوشش کی۔ اس نے جلال الدین رومی، خواجہ نظام الدین اولیاء، شاہ لطیف، شاہ عنایت، سچل سائیں، بابا بلھے شاہ، میاں محمد بخش اور وارث شاہ کی تحمل، برداشت اور رواداری کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی، تو ایسا کون سے جرم کیا۔

اب دوسری طرف آئیے۔ ریاستی مقتدرہ تاریخی حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے، اس ملک کو دانستہ طور پر وحدانی ریاست بنانے پر مصر ہے۔ کیونکہ وہ اس حقیقت کو فراموش کر چکی ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے، جس میں تمام وفاقی اکائیوں کو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی 23 برسوں کے دوران بنگالیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور انھیں اس ملک سے علیحدہ ہونے پر مجبور کر دیا گیا، جس کے قیام میں ان کی ان گنت قربانیاں شامل تھیں۔ کم و بیش اسی دور سے بلوچ عوام کے ساتھ بھی زیادتیاں جاری ہیں۔ سندھی عوام، جنھوں نے سب سے پہلے اپنی اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی، غدار قرار پائے۔ 1992ء سے اربن سندھ کی نمایندہ جماعت کا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

پاکستان جن مسائل و مصائب کا شکار ہے،وہ اسٹیبلشمنٹ کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ خاص طور پر ایک صوبے کی اشرافیہ جو دیگر صوبوں کے عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے، اس ملک کے مسائل کو بحرانی شکل دینے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اس کے معاندانہ رویوں نے بنگالی عوام کو علیحدگی پر مجبور کیا، سندھیوں میں بے چینی کا سبب ہیں اور بلوچ عوام کو مرکز گریز راہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ جب کہ اربن سندھ کے عوام بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے اسی روئیے کے شاکی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خرابی کہیں نہ کہیں اس صوبے کے منصوبہ سازوں کے طرز عمل میں پائی جاتی ہے، جنھیں اس ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنا Mindset تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جس روز اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا کہ پاکستان ایک وفاق ہے، جس میں تمام وفاقی اکائیوں کے علاوہ ملک میں آباد مذہبی اور لسانی تمام اکائیوں کے مساوی حقوق ہیں، یہ معاملات و مسائل حل ہو جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔