مووی ریویو؛ گبر از بیک

محمد سعید گھمن  منگل 5 مئ 2015
گبر از بیک سادہ اور ایماندار کالج پرو فیسر کی کہانی ہے جو ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہا ہو تا ہے

گبر از بیک سادہ اور ایماندار کالج پرو فیسر کی کہانی ہے جو ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہا ہو تا ہے

بھارت اگرچہ دنیا کا سب بڑا جمہوری ملک ہے مگر اس کے ساتھ ہی وہاں حالیہ چند برسوں میں جن معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے اس میں کرپشن سرفہرست ہے اور جناب انا ہزارے کا احتجاج بھی اسی کرپشن کے خلاف تھا جبکہ یہ بھی ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ اکثر بالی ووڈ میں بنائی جانے والی فلمیں انہیں معاشرتی برائیوں کے ارد گرد گھومتی ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایسی فلمیں عوام میں بے حد مقبول ہوتی ہیں جو معاشرے میں ہونے والی زیادتیوں اور نا انصافیوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔

اسی طرح بالی ووڈ میں خطروں کے کھلاڑی کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اداکار اکشے کمار کی 30 اپریل کو ریلز ہونے والی فلم ’گبر از بیک‘ نے باکس آفس میں پہلے ہی دن 13 کروڑ کا بزنس کرکے سب کو حیران کر دیا اور یوں یہ رواں سال اوپننگ ڈے پر سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم بن گئی ہے۔ یہ فلم ایکشن سے بھر پور ہے اور تھوڑا بہت رومانس بھی ہے۔

اس فلم کی خا ص بات ایک عام آدمی کی جانب سے کرپٹ اور کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنا اور پھر اُس کا صفایا کرنا ہے کیونکہ ہمارے معاشروں میں درحقیقت اس طرح کا کام ایک مضبوط حکومت کے لئے بھی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ محض گبر کے خوف سے اپنا کام ایمانداری سے کرنا شروع کر دیتے ہیں اور رشوت خور رشوت لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ جی ہاں اس فلم کا اہم کردار گبر ہی ہے جس کو اکشے کمار نے نہایت ہی خوبصورتی سے سر انجام دیا ہے۔

اِس فلم میں نوجوان نسل یعنی طالب علموں کا کردار بھی بڑا اہم دکھایا گیا ہے۔ بظاہر اکشے کمار کو ایک کالج پروفیسر کے روپ میں دکھایا گیا ہے جس کا نام ’ادتیا راج‘ ہوتا ہے۔ حقیقت میں وہی گبر ہوتا ہے جو مظلوموں کی آواز اور ظالموں اور بدعنوان لوگوں کے لیے گلے کی ہڈی بن جاتا ہے۔

اصل میں یہ فلم ایک سادہ اور ایماندار کالج پروفیسر کی ہے جو ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہا ہو تا ہے، کرینہ کپور جو اس کی بیوی کا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے لیکن اچانک جس عمارت میں وہ رہائش پذیر تھے وہ عمارت منہدم ہوجاتی ہے جس میں پروفیسر صاحب کی بیوی سمیت 200 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب اس حادثے کا بھول نہیں پاتے اور اس واقع کی اصل تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ کون کون سے لوگ اس حادثے کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے پاس سارے ثبوت بھی ہوتے ہیں مگر وہ کرپٹ نظام میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اب پروفیسر صاحب اِس بے بسی کی حالت میں کیا کرتے ہیں یہ تو آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔

گبر از بیک میں دکھایا جاتا ہے کہ کس طرح معاشرے کے ناسور سرکاری دفاتر، ہسپتالوں اور پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر عوام کی خدمت کے نام پر ان لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں۔ لوگ سب کچھ دیکھنے کے باوجود بے بس نظر آتے ہیں اوران سب ناانصافیوں کے خلاف آواز اُٹھانے کی جسارت تک نہیں کرتے۔ لیکن اِس نااُمیدی کے دور میں اچانک جب گبر اپنا کام شروع کرتا ہے تو وہ لوگوں کے دلوں کی آواز بن جاتا ہے۔ اِس کو عام آدمی کی تائید حاصل ہوجاتی ہے اور پھر معاشرے میں اچانک ایک تبدیلی سی نظر آتی ہے۔

اس فلم میں وہ موقع بھی آتا ہے جب ایک کرپٹ آفسر کی بیوی اور بیٹا اس آفسر کی حمایت کرنے کے بجائے گبر کا ساتھ دیتے ہیں لیکن پھر اِس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ دلچسپی کا حامل ہے۔

اگرچہ اس فلم میں روایتی الفاظ کا ہیر پھیر تھا۔ وہی ذاتی انتقام کی آگ اور وہی ہیرو کا اپنی محبوبہ سے محبت۔ مگر ان سب کے باوجود جو اس فلم کی خاص بات تھی وہ ایک عام آدمی کے اندر رشوت خوری اور بدعنوانی کے خلاف نفرت کو بیدار کرنا ہے اور معاشرے میں نوجوانوں کے کردار کی اہمیت کو دکھایا گیا ہے۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔