مایوسی کے اندھیروں میں روشن چراغ

اسلم خان  بدھ 6 مئ 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

مایوسی کے اندھیروں میں کئی چراغ روشن ہیں،امید پرست ناامید ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرنے کے بجائے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ ممتاز صنعت کار اور کاروباری علوم کے استاد الماس حیدر اور ڈاکٹر امجد ثاقب ایسے ہی دو چراغ ہیں،

’’میں حکمرانوں کے ساتھ مل کرصرف اس لیے کام کر رہا ہوں، کہ امن و امان اور انتظامی معاملات بہتر ہوسکیں، ان کا کاروبار اور کاروباری سرگرمیوں سے براہ راست تعلق ہے‘‘ یہ الماس حیدر تھے جو اپنے کاروباری دفتر میں ظہرانے کے دوران اپنے مہمانوں سے گفتگو کر رہے تھے۔

ہاروڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل جناب الماس حیدر ان شخصیات میں شامل ہیں جن کی کمپنی عالمی سطح پر ترقی کرنے والے 5 سو صنعتی اداروں میں شامل ہے ، وہ مختلف اداروں میں پڑھاتے ہیں، کاروباری علوم کی ممتاز درس گاہ لمز یونیورسٹی کے داؤد بزنس اسکول میں اس کالم نگار کو بھی ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہے، ہمارے اساتذہ میں جہانگیر ترین بھی شامل تھے جنہوں نے عملی زندگی کا آغاز پنجاب یونیورسٹی میں بطور استاد کیا تھا لیکن بعد ازاں انھیں خاندانی معاملات کی وجہ سے زراعت کی طرف لوٹنا پڑا اور انھوں نے کھیتی باڑی جیسے قدیم پیشے کو جدید کاروبار میں ڈھال کر ہماری دیہی زندگی میں انقلاب کی بنیاد رکھی۔

خاکسار اپنے عزیز راؤ ضیاء الرحمن کے پی ایچ ڈی کے موضوع پر رہنمائی اور مشورے کے لیے حاضر ہوا تھا جو چین میں کاروباری علوم کی عالمی شہرت یافتہ درس گاہ میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مقالے کے چناؤ اور تحقیق و تصنیف کے مرحلے میں داخل ہونا چاہتا ہے، اس دوپہر الماس حیدر کے مہمانوں میں عالمی کاروبار سے وابستہ ایک چینی خاتون ’مس جو‘ اور ان کے پاکستان رابطہ کار بھی شامل تھے۔

الماس حیدر بڑے عام فہم انداز میں بتا رہے تھے کہ عالمی مالیاتی ادارے خطرات اور اس کے عوامل (Risk Factor) کا تجزیہ کرکے شرح سود کا فیصلہ کرتے ہیں جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک وہ ادارہ جس کے لیے قرض مانگا جارہا ہے اور دوسرے وہ ملک جہاں پر یہ کاروبار ہو رہا ہے، وہ بتا رہے تھے کہ اگر کوئی چینی صنعت کار قرض کا خواہاں ہو گا تو اسے صرف 3 فیصد شرح سود دینا ہو گی لیکن اگر کوئی پاکستانی قرض چاہے گا تو 3 فیصد کے ساتھ پاکستان کے حالات کی وجہ سے 5 فیصد (Risk Factor) کے اضافی ادا کرنا ہوں گے۔

الماس حیدر بتا رہے تھے کہ علم محض ڈگری یا نوکری کے لیے حاصل کرنا کار ضیاع ہے، صرف علم نہیں علم نافع حاصل کرنا عبادت ہے کیوں کہ بے مقصد اور بے سمت علم بسا اوقات سیدھی راہ دکھانے کے بجائے گمراہ بھی کر دیتا ہے، علم نافع کے حصول کے لیے تو رسالت مآب ؐ دعا فرمایا کرتے تھے، وہ قرآن اور حدیث عربی متن کے ساتھ روانی سے پڑھتے ہوئے عام فہم زبان میں ترجمہ بھی کرتے جارہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں مال و دولت کے حصول کو برا گردانا جاتا ہے جب کہ قرآن اور احادیث میں مال خرچ کرنے والے کو متقی اور صالح قرار دیا گیا ہے اگر مال و دولت جائز طریقے سے کمائی نہیں جائے گی تو خرچ کیسے کی جائے گی، اسی طرح ایمان دار تاجر کا رتبہ اللہ کی راہ میں جان نچھاور کرنے والے شہداء کے برابر قرار دیا گیا ہے، الماس حیدر امید پرست ہیں جو کبھی مایوس نہیں ہوتے، وہ بتا رہے تھے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال دنیا کے درجنوں ممالک سے اب بھی بہتر ہے، 20 کروڑ لوگ معروف عمل ہیں گاہک موجود ہے اس لیے یہ سارے کارخانے چل رہے ہیں خوش خوراک اور بے فکروں کی اتنی بڑی منڈی کہاں موجود ہے۔

اپنے ہمہ وقت مصروف میزبان کا شکریہ ادا کر کے اجازت چاہی، ہمارا اگلا پڑاؤ پاکستانی مہاتما ڈاکٹر امجد ثاقب کی غربت مٹاؤ تحریک اخوت کا ہیڈ کوارٹر تھا، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے امتیاز کے ساتھ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد وہ سول سروس کے امتحان میں بھی نمایاں رہے، افسر شاہی میںبادشاہ گردانے جانے والے ضلعی انتظامیہ گروپ (DMG) کا حصہ بنے ،کئی ماہ و سال گزارنے کے بعد ایک شام ان پر القاء ہوا کہ شان و شوکت، یہ بادشاہت سب گور دھندہ ہے، مہاتما بودھ کی طرح صبح اٹھے اور دنیا کو تیاگ کر استعفیٰ دیدیا، لیکن بن باس نہیں لیا۔

غریبوں کی مدد کے لیے میدان میں اترے، اللہ تعالیٰ نے ایسے کرم فرمایا کہ آج اخوت کا چھوٹے قرضوں کا یہ سلسلہ 16 ارب روپے تک پھیل چکا ہے، جس میں قرض خواہ اپنا ضامن خود ہوتا ہے۔ اس بلا سود قرض کی شرح واپسی 99 فیصد ہے، جس میں مالیات امور کے عالمی ماہرین کو ششدر کر دیا ہے، ڈاکٹر امجد ثاقب سیکڑوں کبوتروں میں گھرے صدر دروازے پر ہمارے منتظر تھے، ’’یہ اتنے سارے کبوتر یہاں کہاں سے آگئے اور بلا خوف آپ کے گرد کیسے چکر لگا رہے ہیں، پاکستان میں تو یہ معصوم پرندہ صرف اولیاء اللہ کے مزار پر پایا جاتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور کہنے لگے قانون کی حکمرانی اور تحفظ کا احساس صرف انسانوں کو ہی نہیں ہوتا یہ بے زبان پرندے بھی اس کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب قانون کی حکمرانی اور تحفظ کے احساس کے نئے پہلوؤں پر روشنی ڈال رہے تھے، اور یہ کالم نگار سوچ رہا تھا کہ جو بات ان بے زبان اور معصوم پرندوں کو سمجھ آگئی، وہ ہمارے عالم فاضل حکمرانوں اور نگہبانوں کو سمجھ نہیں آتی، سات دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی ہے، اگر اس کو ٹھیک کر لیا جائے تو بیرونی سرمایہ کاری بھی آجائے گی ساری دنیا سے سیاح بھی ٹوٹ پڑیں گے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کو مولا کریم نے علم نافع سے سرفراز فرمایا ہے، اب انھوں نے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے بے نواؤں کے بعد اب سفید پوش متوسط طبقے کے لیے نیا منصوبہ لے کر آئے ہیں، جوتوں اور کپڑوں کا بینک وہ منفرد تجربہ ہے جس کے تحت عوام سے فالتو کپڑے اور جوتے عطیہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

جنھیں غریب کچی آبادیوں میں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہے جب کہ متوسط طبقے کے لیے شادی بیاہ کی تقریبات میں استعمال ہونے والے بیش قیمت آرائشی ملبوسات خواتین و حضرات صرف اپنا شناختی کارڈ جمع کرا کے بلا معاوضہ لے جا سکتے ہیں جو تقریبات ختم ہونے کے بعد واپس کر جائیں گے، ان کپڑوں کی صفائی ستھرائی کے لیے بے کس اور بے بس خواجہ سراؤں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اس طرح اخوت نے معاشرے کے سب سے مظلوم طبقات کے لیے امیدوں کے دیپ جلا دیے ہیں، اخوت یونیورسٹی کا عظیم الشان منصوبہ بھی بروئے کار ہے جس میں داخلے کی اہلیت صرف اور صرف قابلیت ہو گی، غربت ذہانت کے آڑے نہیں آئے گی۔

کیا شاندار وہ دن تھا جب دو امید پرست ارباب سے ملاقات ہوئی، دل و دماغ میں امید کے چراغ روشن ہوئے ورنہ ہماری نام نہاد سول سوسائٹی ہر وقت مایوسیاں پھیلا کر قوم کو دہلائے رکھتی ہے ، دو متضاد شعبہ ہائے زندگی کے تعلق رکھنے والے یہ ’’جدید درویش‘‘ اپنے کام میں مگن امید کی روشنی کے دیپ جلائے جارہے ہیں، ایک صدی قبل ولی کامل، پنجابی کے بے مثل شاعر میاں محمد بخش نے کہا تھا

کام تمام میسر ہوندے، نام اوھدا چت دھریاں
رحمو سکے ساوے کردا قہروں ساڑے ہریاں

ہمارے وزیراعظم اور حد درجہ متحرک شہباز شریف کا بچپن اور جوانی سیف الملوک کا لافانی کلام سنتے گزری ہے کہ ان کے والد محترم میاں محمد شریف مرحوم ولی کامل میاں محمد بخش کے عاشق زار تھے، ہر وقت ترنم سے سیف الملوک گنگناتے اور خوش گلو پڑھنے والوں سے ان کا کلام سنتے، کاش اے کاش ہمارے حکمران عقل و دانش کے مرقع اس کلام سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے عملی فائدہ بھی اٹھاتے تو پاکستان کی تقدیر بدل جاتی، کاش اے کاش

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔