عالمی میڈیا کانفرنس

مقتدا منصور  جمعرات 7 مئ 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(PFUJ)کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی کاوشوں سے ملک کی تاریخ کی پہلی مرتبہ ایک سہ روزہ عالمی میڈیا کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ جس میں دنیا کے تقریباً سبھی خطوں کے صحافیوںکی نمایندگی ممکن ہوسکی۔یورپ کی نمایندگی اگر برطانیہ،قبرص اور بیلجیم کے مندوبین کر رہے تھے، توکینیا اور صومالیہ سے آئے مہمان براعظم افریقہ، جب کہ امریکا اورکینیڈا کے مندوبین براعظم امریکا کی نمایندگی کر رہے تھے۔ ان کے علاوہ پڑوسی ملک بھارت سے دو اور ایران سمیت خلیجی ممالک سے چار مندوبین شریک ہوئے۔ یوں دنیا بھر سے 15مندوبین کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں سے تقریباً 100سے زائد صحافیوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور مختلف صحافتی معاملات ومسائل پراپنی رائے کا اظہار کیا۔

کانفرنس کا افتتاح محنت کشوں کے عالمی دن یعنی یکم مئی کو ہوا اور اختتام3مئی کو عالمی یوم صحافت کے موقعے پر ہوا۔ ان تین دنوں میں کل 16سیشن منعقد ہوئے۔ جن میں ہر موضوع انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ کانفرنس کوOne world-one mediaکا عنوان دیا گیا۔ پہلے روز افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں سابق صدر آصف علی زرداری نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ان کے پانچ سالہ دور اقتدار میں جس قدر انھیں ہدف ملامت بنایا گیا، شاید ہی کسی سربراہ مملکت کے ساتھ ایسا کیا گیا ہو۔ مگر انھوں نے ذرایع ابلاغ کی بے جا تنقید کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اور اس کی آزادی پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے فروغ  کے لیے آزادیِ اظہار اور آزادیِ صحافت انتہائی ضروری ہے۔ مگر صحافت کو ذمے دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ اس کانفرنس کے نتیجے میں عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں ایک اچھا تاثر ابھرا ہے اور کانفرنس کے بعد یہ تاثر مزید مستحکم ہوگا جو حلقے پاکستان کے بارے میں مایوس کن خبریں پھیلاتے رہتے ہیں، یہ کانفرنس ان کے منہ بند کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کانفرنس نے صحافیوں اور ذرایع ابلاغ کے اداروں کو آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ گزشتہ روز سے مقامی ہوٹل میں کانفرنس کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوا۔ دو روز کے دوران جن موضوعات کا احاطہ کیا گیا اور جن پر سیر حاصل گفتگوکی گئی، ان میں سزا سے بریت کا بحران اورعالمی ادارے، تفتیشی صحافت، جنگوں کی کوریج اورامن کی صحافت، ذرایع ابلاغ میں انتظامی اصلاحات، پاکستان اور بھارت میں جمہوری میڈیا، میڈیا بحیثیت ریاست کا چوتھا ستون، دہشت گردی میں ذرایع ابلاغ کا کردار اور صحافت میں درپیش مشکلات شامل تھے۔اس کانفرنس کی اچھی بات یہ تھی کہ اس میں ایک موضوع پر ایک ہی مقرر کو اپنے خیالات کے اظہار کا بھرپور موقع دیا گیا۔ ساتھ ہی ہر سیشن میںسوال و جواب کا حصہ مختص کرنے کی وجہ سے شرکاء کو ہر موضوع پر کھل کر اپنی رائے کے اظہار کا موقع مل سکا۔ اس کانفرنس کا دوسرا اہم پہلو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(PFUJ)اور انڈین فیڈریشن آف جرنلسٹس(IFJ)کے درمیان باہمی روابط کے ایک معاہدے پر دستخطوںکا ہونا تھاجس کے ذریعے دونوں ممالک کے صحافیوں کے درمیان پیشہ ورانہ روابط کو مستحکم کرنے کے علاوہ ان کی تربیت میں معاونت ہوسکے گی۔

کانفرنس میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی کہ دنیا کے حالات بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں۔اس وقت دنیا کو بیک وقت کئی خوفناک چیلنجز کا سامنا ہے۔ جن میں ایک طرف سیاسی و سماجی سطح پر شدت پسندی اور دہشت گردی کے مظاہر ہیں۔ جب کہ دوسری طرف ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں کرہ ارض پرحیات مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ وہ حساس معاملات ہیں، جن پر توجہ دینا اور عوام تک ان مسائل و مشکلات کی آگہی دینا ذرایع ابلاغ کی اولین ذمے داری ہے تاکہ عوام کو ان امور کے بارے میں صحیح اور بروقت معلومات حاصل ہوسکیں۔ اس پہلو کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی کہ جس طرح مختلف اقوام اور انسانی گروہ اپنے تحفظ کی حکمت عملیاں تیار کرتے ہیں صحافیوں کو بھی اپنی حفاظت اور سلامتی کے لیے مربوط اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے عالمی، علاقائی اور قومی سطحوں پر صحافتی تنظیموں کو مستعد اور فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ میڈیا ہاؤسز سے کہا گیا کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور سلامتی کی خاطر انشورنس پالیسیاں شروع کریں۔ ان کے سماجی تحفظ(Social Security) کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ کسی حادثے میں جاں بحق یا مفلوج ہو جانے والے صحافی کے اہل خانہ کی کفالت کا بندوبست ہو سکے۔کانفرنس کے شرکاء نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ الیکٹرونک میڈیا بریکنگ نیوز کی بدعت میں بری طرح پھنس چکا ہے جس کی وجہ سے اس کی پیشہ ورانہ ساکھ متاثر ہورہی ہے جب کہ ریٹنگ کی دوڑ نے ذرایع ابلاغ کے عوامی اعتماد کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ ذرایع ابلاغ کے ادارے اپنی پالیسیوں میں جدت لاکر ریٹنگ کی وبا سے باآسانی بچ سکتے ہیں۔ شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ متشددانہ رجحانات عام طور پر ان معاشروں میں جنم لیتے ہیں، جہاں فکری کثرتیت اور آزادیِ اظہار سے انکارکیاجاتا ہے اور ثقافتی تنوع کو شجر ممنوعہ تصورکر لیا جاتا ہے۔ایسے معاشروں میں جہاں کسی ایک عقیدے کی جبراً  بالادستی یا کسی نسلی یا لسانی گروہ کی اجارہ داری پر اصرار کیا جاتا ہو، وہاں اظہارِ رائے پر مختلف نوعیت کی قدغن، دراصل انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح جب متوشش شہریوں کے لیے اپنے ملک یا عالمی سطح پر والی زیادتیوں پر احتجاج ریکارڈ کرانے اور اپنی آواز کو حکومتی ایوانوں تک پہنچانے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا، تو پھروہ بھی منفی رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ جدید دنیا میں نظم حکمرانی (Governance) میں صحافت کا بھی اتناہی اہم کردار ہے، جتنا کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کا ہے۔ حکمرانی سے مراد قومی ترقی کے لیے معاشی اور سماجی وسائل کی تنظیم کاری ہے۔ یہ تنظیم کاری دو طرح سے عمل پذیر ہوتی ہے۔ اول،عوام کے منتخب نمایندوں کی مجلس (یعنی پارلیمان) کے ذریعہ ترقیاتی منصوبے تیار کرکے انتظامیہ کے ذریعے ان پر عوامی توقعات کے مطابق بروقت اور برمحل عمل درآمدکراتے ہیں۔دوئم،  ذرایع ابلاغ عوام کو تیار کی جانے والی پالیسیوں کی خوبیوں اور خامیوں سے وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی حکومت، منتخب نمایندوں اور انتظامیہ کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کرکے ترقیاتی عمل کو شفاف بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں عوام کو ایک طرف ترقیاتی پالیسیوں کی تیاری میں رہ جانے والے نقائص اور خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف ان پالیسیوں پر عمل درآمد کے دوران پائی جانے والی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے بارے میں واضح معلومات حاصل ہوتی رہتی ہیں۔ لہٰذا جمہوری حکمرانی میں جتنی اہمیت منتخب اداروں کی ہے، اتنی ہی اہمیت مستعد، فعال اور آزاد ذرایع ابلاغ کی بھی ہے۔

کانفرنس کے دوسرے روز مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا اور انھیں اظہار خیال کا موقع بھی دیا گیا۔ اس موقعے پر  ڈاکٹر فاروق ستار کی تقریر خاص طور پر انتہائی پر مغزتھی۔ انھوں نے علاقائی تعاون میں اضافے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی کے عفریت پر علاقائی اتحادکے ذریعے زیادہ احسن طریقے سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہThink globally, act locally،لیکن اب معمولی ترمیم کے ساتھ اسے یوں ترتیب دیا جانا چاہیے کہ Think globally, act regionally ۔جام صاحب لسبیلہ جام کمال نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور صحافت کی آزادی کو یقینی بنانے پر زور دیا۔

اس کانفرنس کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ کانفرنس میں ہر روز ان صحافیوں کو اسٹیج پر بلا کران کے کردار کو سراہا  گیا اور انھیں عزت و توقیر دی گئی،جنہوں نے ضیاء آمریت کے بدترین دور میں قید و بند اور کوڑوں جیسی بدترین سزائیں بھگتیں اور آزادی اظہار کے علم کو سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ اس عمل نے جہاں ان صحافیوںکو احساس طمانیت بخشا، وہیں نئے آنے والے صحافیوں کو آزادی اظہار کی بقاء کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ ملا۔ ویسے بھی جو قومیں اپنے اسلاف کی جدوجہد کو فراموش کردیتی ہیں، تاریخ انھیں فراموش کردیتی ہے۔ اس لیے اس عمل کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔

الغرض یہ سہ روزہ کانفرنس ، جس نے پاکستانی صحافیوں کو دنیا کے مختلف ممالک کے صحافیوں سے ملنے، ان کے خیالات جاننے کا موقع فراہم کیا ، وہیں مختلف ممالک سے آئے صحافیوں کو اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ پاکستانی معاشرے کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ، جس نے فکری ابہام(Myth)کو توڑنے میں مدد کی جو پاکستان کے بارے میں عالمی ذرایع ابلاغ میں عمومی طور پر پایا جاتا ہے۔ اس بامقصد کانفرنس کے انعقاد کا سہراPFUJکے صدر رانا عظیم، جنرل سیکریٹری امین یوسف سمیت ان تمام عہدیداروںاور صحافی بھائیوں کے سربندھتا ہے جن کی انتھک محنت اور کاوش کے نتیجے میں اتنی عمدہ اور کامیاب کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا اور مستقبل میں اس سے بھی بہتر اور شاندار کانفرنسوں کا انعقاد ہو سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔