جو عزت ملی ہے اپنے قد کی وجہ سے ملی ہے ، اداکار علی زمان عرف مُوجو

غلام محی الدین  جمعرات 7 مئ 2015
کوئی میری صحیح بات کو نظرانداز کر دیتا ہے تو مجھے بہت زیادہ غصہ آجاتا ہے، علی زمان عرف مُوجو کی کتھا فوٹو : آغا مہ روز

کوئی میری صحیح بات کو نظرانداز کر دیتا ہے تو مجھے بہت زیادہ غصہ آجاتا ہے، علی زمان عرف مُوجو کی کتھا فوٹو : آغا مہ روز

اسلام آباد:  تین فٹ سات انچ قد کے مالک اداکار بڑے اعتماد سے کہہ رہے تھے’’میں نے آج تک اپنے قد کے متعلق سوچا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی اللہ تعالیٰ سے اس کا شکوہ کیا کہ میرا قد اِس قدر چھوٹا کیوں ہے؟ میں تو ہر وقت یہ سوچتا رہتا ہوں کہ آج مجھے جو عزت ملی ہے وہ اسی قد کی وجہ سے تو ملی ہے اگر میرا قد بھی،نارمل ہوتا تو شاید ہی آج مجھے کوئی جانتا کہ میں علی زمان عرف مُوجو ہوں ۔

اداکار علی زمان جب یہ باتیں کر رہے تھے تو اُن کے چہرے پر مکمل اعتماد تھا، اپنی کتھا کہانی بیان کرتے ہوئے اُن کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے بھی کسی قسم کا احساس کم تری دیکھنے کو نہ ملا۔ وہ1962 میں ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ کے ایک گاؤں زندہ شاہ مدار میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دیگر چار بہن بھائی نارمل قد کے حامل ہیں جب کہ علی زمان سب سے بڑے ہونے کے باوجود قد میں چھوٹے رہ گئے۔ وہ اپنے بارے میں دعوی کرتے ہوئے کہتے ہیں’’میں عالمی سطح پر جسمانی لحاظ سے مکمل لیکن کم ترین قد کا حامل انسان ہوں‘‘۔

اداکار علی زمان کے والد اپنے علاقے میں فروٹ بیچتے اور دوسری محنت مزدوری کیا کرتے تھے، علاقے میں اپنی نیک نامی کی وجہ سے وہ کافی معروف تھے۔ انہوں نے علی زمان کو مڈل تک اپنے علاقے کے اسکولوں میں تعلیم دلائی لیکن جب حالات نے مزید اجازت نہ دی تو علی کی تعلیم کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔

علی زمان نے نارمل بچوں کے اسکول میں رہتے ہوئے مڈل تک تعلیم حاصل کی، اِس دوران وہ شرارتی بچوں کی زد میں بھی آجاتے تھے لیکن ان کو اللہ نے دوست بنانے کے لیے جو صلاحیت دے رکھی تھی اس کی وجہ سے وہ جلد ہی اپنے مدمقابل بچوں پر غالب آ جاتے تھے۔ اپنے ٹیچروں کے حوالے سے علی زمان نے بتایا کہ ان کا رویہ میرے ساتھ نہایت مشفقانہ تھا، وہ مجھے کبھی سزا نہیں دیتے تھے۔ اسکول چھوڑنے کے بعد علی زمان نے ٹیلرنگ کا کام سیکھا اورلیڈیز اورجینٹس ملبوسات کی سلائی میں مہارت حاصل کی۔10 سال تک ٹیلرنگ کا کام جاری رکھا تو بصارت کم زور ہونے لگی اور آخر کار یہ کام بھی چھوڑنا پڑا۔

اِس دوران علی زمان کی اپنے ماموں کی بیٹی سے شادی ہو گئی،وہ اپنی شادی سے متعلق کہتے ہیں کہ میرا جذبہ سچا تھا اِس لیے تمام تر مشکلات کے باوجود میں نے وہیں شادی کی جہاں میرا دل چاہتا تھا، اُن کی بیوی کا قد نارمل ہے اور اُن کو اللہ نے تین بیٹیاں عطا کر رکھی ہیں، بڑی بیٹی کا قد چھوٹا ہے لیکن دو چھوٹی بیٹیوں کا قد بالکل نارمل ہے۔ اپنی بیس سالہ ازدواجی زندگی کو وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی کام یابی قرار دیتے ہیں۔

اپنی زوجہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم ایک ہی گلی میں کھیل کود کر بڑے ہوئے، بہت بچپن میں وہ میری اور میں اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا، ’’بڑی مشکل سے میں منوایا گیا ہوں‘‘ والی کیفیت سے گزرنے کے بعد ہی ہماری محبت کا پورے خاندان نے احترام کیا اور یوں میں لو میرج کے مرحلے میں کام یاب رہا۔ فخریہ انداز میں بتایا کہ بیوی سے آج تک میری لڑائی نہیں ہوئی کیوں کہ اس نے آج تک مجھے شکایت کا موقع ہی نہیں دیا۔ وہ صرف قرآن شریف پڑھی ہوئی ہے لیکن گھر داری کے معاملے میں نہایت سُگھڑ خاتون ہے۔

علی زمان نے بتایا کہ گھر میں بہن بھائیوں کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا رہا، والدہ تو مجھ پر جان چھڑکتی تھیں بل کہ دوسرے بہن بھائیوں کی نسبت ہمیشہ زیادہ توجہ دی گئی، تین سال کے بعد جب قد نہ بڑھنے سے متعلق والدین کو علم ہوا تو انہوں نے اپنی ہمت اور بساط کے مطابق میرے علاج معالجے کے لیے خاصی بھاگ دوڑ کی لیکن قدرت کو شاید یہی منظور تھا۔

اداکاری کے حوالے سے علی زمان عرف مُوجو نے بتایا کہ یہ پچیس سال پرانی بات ہے کہ میرے گاؤں کے ایک دوست حاجی رمضان ایک دن مجھے پی ٹی وی اسلام آباد سنٹر لے گئے، حاجی صاحب خود پی ٹی وی نیوز میں کام کیا کرتے تھے، انہوں نے وہاں میری سید شاکر عزیر صاحب سے ملاقات کروا دی جنہوں نے مجھے بچوں کے پروگرام’’سجرے پھل‘‘ میں دو منٹ کی انٹری پر مبنی ایک مختصر سا رول لے کر دیا اور یوں میں نے اس کردار سے اداکاری کے میدان میں قدم رکھا۔ اِس کردار پر مجھے پی ٹی وی کی طرف سے دو سو پچاس روپے کا چیک ملا۔ اِس انٹری کے بعد مجھے دس بارہ پروگراموں میں اسی طرح کی انٹریاں ملتی رہیں اور یوں میرا شوق بڑھتا گیا۔

علی زمان عرف مُوجو نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی اسٹیج ڈرامے میں کام کیا جس کا نام ’’لاڈلے میاں‘‘ تھا۔ اِس ڈرامے میں علی زمان کا کردار معروف اداکار جمیل بسمل کے ساتھ تھا،البتہ وہ پچیس سے زیادہ پوٹھواری ٹیلی فلموں میں کام کر چکے ہیں۔ جب کہ کے ٹو، ٹی وی پر ملک کے معروف میجیشن علی عباس ننھا کے ساتھ  بھی وہ کام کرتے رہے، اِس کام میں وہ علی عباس کو اپنا اُستاد سمجھتے ہیں۔

علی زمان نے روہی ٹی وی پر بچوں کے پروگرام بنٹی ببلی شو میں بھی مختلف کردار اداکیے۔ جن میں وہ سلطان راہی، عارف لوہار اور شیطان کے کردار میں بہت مقبول ہوئے۔ اداکاری سے وابستگی کے حوالے سے علی زمان نے کہا کہ پچیس سال ہو گئے لیکن میں وہیں کا وہیں ہوں،میرا اس کام کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہیں،مہنگائی کے اس دور میں گزارا بہت مشکل ہے۔ پاکستان کی بے حس حکومتیں ہماری ضروریات اور اپیلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہیں۔

حالاں کہ دوسرے ممالک میں ہم جیسے اسپیشل لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کام ہوتا ہے۔ بتانے لگے ’’میں دبئی، بحرین، قطر، مسقط ، ایران، شام، اردن، ملائیشیا، تھائی لینڈ، برونائی، دارالسلام اور انگلینڈ میں جا کر بہت سارے روڈ شو کر چکا ہوں،وہاں میں نے متعدد کمرشل میں حصہ لیا، ان ممالک میں اسپیشل لوگوں کی جب قدر و قیمت دیکھی تو مجھے پاکستان کے حکم رانوں پر رونا آ گیا۔ علی زمان اب تک چار بار عمرے کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں اور اب وہ حج کے خواہش مند ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا’’غیر ممالک میں لوگوں نے مجھے جتنی عزت دی وہ اپنے ملک میں نہیں ملی، غیر ملک میں کبھی بھی میرے قد کی وجہ سے کسی نے میرا مذاق نہیں اڑایا وہاں جب لوگ میرے ساتھ فوٹو بنواتے تھے تو وہ بہت خوش نظرآتے،اس بات سے مجھے بھی خوشی ہوتی تھی‘‘۔

انہوں نے کہا پاکستان میں میرے قد کے اداکاروں کی تعداد سات کے قریب ہے اور بدقسمتی سے ہم سب کے حالات ایک جیسے ہیں، میں اسے بدقسمتی کہوں یا حالات کی  ستم ظریفی کہ ڈرامے میں کردار لکھنے والے ہم جیسے لوگوں کے لیے کوئی کردار نہیں لکھتے، کیوں نہیں لکھتے؟ اس کی وجہ مجھے آج تک معلوم نہیں ہوئی۔اگر ڈرامہ اسکرپٹ رائٹر ہم جیسے اداکاروں کے لیے خصوصی طور پر کردار لکھتے رہیں تو ہماری مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔

علی زمان نے کہا چھوٹا قد قدرت نے مجھے دیا لیکن اس کے باوجود میں مسکین بن کر جینے کے بجائے خود داری اور ٹھاٹھ کے ساتھ جینا چاہتا ہوں،میرے نزدیک کام عبادت ہے اور میں کام کرکے کھانا چاہتاہوں۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا کہا کہ جب کبھی میں بہت زیادہ دکھی ہو جاتا ہوں تو اُس وقت تنہائی میں بیٹھنا مجھے اچھا لگتا ہے اور میں بہت دیر تک تنہائی میں خود سے باتیں کرتا رہتا ہوں یا پھر میاں محمد بخشؒ کے کلام کو اونچی آواز میں گا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد صاحب بھی میاں محمد بخشؒ کے کلام کو نہایت سریلی آواز میں گایا کرتے تھے۔

علی زمان عرف مُوجو کو ڈرائیونگ کا بھی بے حد شوق ہے اِس شوق کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے سوزوکی کیری ڈبہ چلانا سیکھ لیا ہے اور وہ  چھوٹے موٹے سفر کے لیے خود ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں علی زمان نے کہا ’’میں قد کے علاوہ ایک نارمل رویوں والا انسان ہوں جب کوئی میری صحیح بات کو نظرانداز کر دیتا ہے تو مجھے بہت زیادہ غصہ آجاتا ہے،اسی طرح  جب میری جیب میں پیسے آتے ہیں تومیں اپنی بیٹیوں اور بیوی کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے کھل کر خرچ کرتا ہوں،اس عمل سے میں اپنا ہر غم بھول جاتا ہوں‘‘۔ علی زمان کو وقت پر جو مل جائے وہ نہایت شوق سے کھا لیتے ہیں۔

اپنا لباس خاص طور پر شلوار قمیص خود سی کر پہنتے ہیں اور اپنے بچوں کے کپڑے بھی نہایت محبت اور پیار کے ساتھ سیتے ہیں۔رنگوں میں انہیں پیلا اور گلابی رنگ پسند ہے جب کہ شہروں میں اسلام آباد اور موسموں میں بہار انہیں اچھی لگتی ہے۔ وہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ علی زمان نے کہا کہ مجھے اچھا لباس پہننے کا بے حد شوق ہے۔ میری خواہش ہے کہ اگر مجھے نجی یا کسی سرکاری ادارے میں نوکری مل جائے تو میری زندگی آسان ہو جائے،میں اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی آسان کرنا چاہتا ہوں یہی میری زندگی کا واحد مقصد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔