تھیلیسیمیا کے تدارک کے لیے لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہوگا!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  جمعـء 8 مئ 2015
حکومتی و سماجی شخصیات کی ’’ تھیلیسیمیا کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو شہباز ملک

حکومتی و سماجی شخصیات کی ’’ تھیلیسیمیا کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو شہباز ملک

تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جو نسل در نسل بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری کی دو اقسام ہیں، تھیلیسیمیا مائنر اور تھیلیسیمیا میجر۔ یہ دونوں اقسام کھانے پینے، جراثیم، آب و ہوا یا کپڑوں وغیرہ سے نہیں بلکہ والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی۔

اگر والدین میں سے صرف ایک تھیلیسیمیا مائنر ہو تو اس مرض کی منتقلی کا امکان 50فیصد ہوتا ہے لیکن اگر والد اور والدہ دونوں ہی تھیلیسیمیا مائنر ہوں تو اس صورت میںبچے کا تھیلیسیمیا میجر ہونے کا امکان 25فیصد ہے جبکہ 50فیصد امکان ہے کہ وہ تھیلیسیمیا مائنر کا مریض ہو۔اس وقت پاکستان میں تقریباََ ایک کروڑ افراد اس بیماری سے متاثر ہیں جبکہ ہر سال ہزاروں بچے اس مرض کا شکار ہورہے ہیں۔

اس بیماری کے خاتمے کے لیے سرکاری و فلاحی ادارے کام کررہے ہیں تاہم خاندانی شادیوں اور برادری میں شادیوں کی وجہ سے بھی یہ مرض پھیل رہا ہے۔ ’’تھیلیسیمیا کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و سماجی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد
(سیکرٹری تھیلیسیمیا فیڈریشن آف پاکستان)


تھیلیسیمیاپاکستان کا سب سے عام موروثی مرض ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ دس بچے جبکہ سالانہ چالیس ہزار بچے تھیلیسیمیا میجر کے مریض پیدا ہوتے ہیں۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں ہیموگلوبن کی ’’بیٹا چین‘‘ اگر ٹھیک نہ ہو تو خون کے سرخ خلیے وقت سے پہلے ٹوٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے جسم میں خون کی کمی ہوجاتی ہے جبکہ عمر کے ساتھ ساتھ مریض کی خون کی ضرورت میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے اور اسے ایک ماہ میں دو بوتلیں بھی درکار ہوسکتی ہیں۔

ہمارے ملک میں 100میں سے 7لوگوں میں اس مرض کی ’’جین‘‘ موجود ہوتی ہے لیکن خود انہیں یہ مرض لاحق نہیں ہوتالہٰذا اگر ایسے دو مریضوں کی آپس میں شادی ہوجائے تو یہ مرض بچوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ اس کی شرح7فیصد ہے اس لیے ہمیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سفارشات کے مطابق ٹارگٹ سکریننگ کرنی چاہیے اورجس خاندان میں تھیلیسیمیامیجر کا مریض موجود ہو اس پورے خاندان کا ٹیسٹ کیا جائے، انہیں رجسٹر کیا جائے اور اس حوالے سے انہیں آگاہی بھی دی جائے اور بتایا جائے کہ دو تھیلیسیمیا مائنر آپس میں شادی نہ کریں۔ اگر اس کے باوجود شادی کرنا ان کی مجبوری ہے تو اس میں ممانعت نہیں ہے، یہاں اہم بات یہ ہے کہ دوران حمل اس مرض کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کیا جاتا ہے جو پاکستان میں پچھلے 20سال سے موجود ہے۔میں نے 94ء میں پہلی مرتبہ دوران حمل بچے کا تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کیا اور اب اس ٹیسٹ کی سہولت کراچی سے خیبر تک میسر ہے ۔

حمل کے تیسرے ماہ یہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اگر بچہ تھیلیسیمیا میجر کا مریض ہو تو اس صورت میں حمل ضائع کروانے کا فیصلہ والدین نے کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں اس میں یہ پریشانی تھی کہ بطور مسلمان ہم کوئی غلط کام تو نہیں کررہے لہٰذا اس حوالے سے بیس سال قبل کراچی یونیورسٹی کے ایک مفتی صاحب نے اس پر فتویٰ دیا تھا کہ قرآن پاک کے مطابق روح جسم میں120ویں دن آتی ہے لہٰذا اگرکسی مہلک بیماری ،خاص طور پر تھیلیسیمیا کی تشخیص ہوجاتی ہے تو 120دن سے پہلے بچہ ضائع کروا دینا کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت مددگار ثابت ہوا کیونکہ لوگ ہمارے سے اس بارے میں سوال کرتے تھے۔

پنجاب ایک بہت بڑا صوبہ ہے، اس کے آٹھ ہیڈکوارٹرز ہیں لہٰذا یہ سہولت ان تمام ہیڈکوارٹرز میں ہونی چاہیے۔ تھیلیسیمیا پریونشن پروگرام 2007ء میں لیڈی ولنگٹن ہسپتال سے شروع کیا گیا جو اب گنگارام ہسپتال میں کام کررہا ہے، ہم نے اس میں کوشش کی تھی کہ جو بھی سینٹر بنائے جائیں وہ تمام تھیلیسیمیا میجر بچوں کی رجسٹریشن کریں، اس کے بعد ان کے پورے خاندان کی سکریننگ کی جائے، ان کی کاؤنسلنگ بھی کی جائے اور اگر ان کی شادی ہوجائے تو انہیں قبل از پیدائش تشخیص کی سہولت بھی فراہم کی جائے۔

ماضی میں جب یہ سہولت مفت فراہم کی گئی توپیدائش سے پہلے تشخیص کروانے والوں کی تعداد میںبہت زیادہ اضافہ ہوا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اسی پروگرام کے لیے مزید فنڈز جاری فراہم کرے۔ ایک مریض کے علاج کے لیے ماہانہ اخراجات 30سے 35ہزار روپے ہیں جو غریب کی پہنچ سے باہر ہیں لہٰذا اس حوالے سے حکومت کو موثر منصوبہ بندی اور کام کرنا ہوگا۔ ’’ پنجاب تھیلیسیمیا پریونشن پروگرام‘‘ ایشیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ، یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسے اپنایا ہے اور موجودہ حکومت اس پر کام کررہی ہے تاہم اس کا کریڈٹ چودھری پرویز الٰہی کو جاتاہے کیونکہ یہ ان کے دور میں شروع ہو ااور انہوں نے اس پر توجہ دی۔

ہماری فیڈریشن کے پاس پورے پاکستان سے 46 این جی اوز رجسٹرڈ ہیں، ہم سب اکٹھے کام کررہے ہیں لیکن ہمارے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں کہ ہم پورے ملک میں اتنی بڑی سطح پر اخراجات برداشت کرسکیں۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں میں خون کی منتقلی کے ساتھ ساتھ اخراج فولاد کے لیے بھی انہیں علاج فراہم کرنا پڑتا ہے جو بہت مہنگا ہے لہٰذا یہ علاج لوگوں کی پہنچ سے باہر ہونے کی وجہ سے تھیلیسیمیا میجر کے بچوں کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ آج سے بیس سال قبل جب ہم نے اس پر کام شروع کیا تھا تب ان مریض بچوں کی اوسط عمر 10سے 15 برس ہوتی تھی لیکن اب ان کی اوسط عمر20سے 25سال ہوگئی ہے جبکہ بیرونی ممالک میں سہولیات ہونے کی وجہ سے یہ مریض اپنی پوری زندگی گزارتے ہیں۔

ہماری حکومت کے حالات کبھی بھی ایسے نہیں ہوں گے کہ تھیلیسیمیا میجر کے بچے پیدا ہوتے رہیں اور وہ ان کے علاج معالجے کے اخراجات برداشت کرتی رہے لہٰذاہمیں اس کی روک تھام کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ آئندہ ایسے بچے پیدا نہ ہوں۔ یہ مرض جن ممالک سے ہمارے ملک میں آیا ہے ان میں اٹلی، یونان اور سائپرس شامل ہیں ، ان ممالک نے اپنے لوگوں کو اس مرض کے حوالے سے آگاہی دے کر تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کی شرح پیدائش صفر کردی ہے۔ ان کی حکومت نے اپنے ملک کے چرچ کو بھی ساتھ ملایااور اس حوالے سے پہلی کاؤنسلنگ پادری کرتا تھا کہ اگر دو تھیلیسیمیا مائنر شادی کررہے ہیں توقبل از پیدائش اس مرض کی تشخیص ضرورکروائیں۔

ہم ایک غریب ملک ہیں، ہمارے پاس صحت کے لیے اتنے وسائل نہیں جتنے درکار ہیں لہٰذا یہ مرض ہمارے ملک پر بوجھ بنتا جارہا ہے اس لیے حکومت کو اس پر سنجیدگی سے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ ہمارے ملک کی جنوبی پٹی میں خاص طور پر بلوچ قبائل اور پختونوں میں یہ بیماری بہت زیادہ ہے۔ ڈی جی خان، بہاولپور ، رحیم یار خان و دیگر علاقے پسماندہ ہیں، شرح خواندگی بھی بہت کم ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں اس کی بیماری کی شرح بہت زیادہ ہے لہٰذا یہاں کے لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا کرنے کے لیے بھی حکومت کو کام کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ ’’پی ٹی وی‘‘ کے ذریعے لوگوں کو اس بیماری کے حوالے سے آگاہی دے کیونکہ جب لوگوں کو اس بیماری کے حوالے سے شعور ہوگا تو وہ اس بیماری کا ٹیسٹ بھی کروائیں گے۔ ڈسٹرکٹ کی سطح پر حکومت کو اس کے علاج کے لیے سہولیات دینی چاہیے اور اس کا ٹیسٹ بھی فری کرنا چاہیے۔اس وقت ٹیچنگ ہسپتالوں میں ٹیسٹ کی سہولت میسر ہے لیکن وہاں کتنا کام ہورہا ہے اس حوالے سے مجھے تحفظات ہیں۔ ہماری فیڈریشن حکومت کو مفت ’’نیڈل‘‘ فراہم کررہی ہے اور ہم لوگوں میں شعور و آگاہی دے رہے ہیں اور اس کے علاوہ لوگوں کو تربیت بھی دی جارہی ہے۔

حکومت کے پاس انفراسٹرکچر موجود ہے، ہسپتال بھی موجود ہیں اس لیے حکومت کو ان ہسپتالوں میں ہی لوگوں کو اس بیماری کے حوالے سے سہولیات دینی چاہیے اورہر ہسپتال میں بچوں کے لیے تھیلیسیمیا وارڈ ضرور قائم ہونا چاہیے۔ہم نے پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت گنگارام ہسپتال میں تھیلیسیمیا سینٹر بنایا ہے لہٰذا جب تک ریاست خود اس میں شامل نہ ہو تب تک اس مرض کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔

ڈاکٹر ہارون جہانگیر خان
(ڈائر یکٹر ہیلتھ سروسز پنجاب)


8مئی کو تھیلیسیمیا ڈے منایا جارہا ہے اور اس حوالے سے ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کو اعلیٰ حکام کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ جہاں بھی ممکن ہو اس مرض سے آگاہی کے لیے کام کیا جائے اور جو تنظیمیں یا رضاکار اس کے لیے کام کررہے ہیں انہیں ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے۔

حکومت اس بیماری کے حوالے سے منصوبہ بندی کررہی ہے جس کے مطابق اگلے سال سے تھیلیسیمیا ٹیسٹ فری کیا جائے گا اور ہر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر میں لوگوں کو یہ سہولت مہیا کی جائے گی۔اس سہولت کا غلط استعمال یا زیادتی کو روکنے کے لیے یہ منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ پہلے اس بیماری کے مریضوں کی سکریننگ اور کاؤنسلنگ کی جائے اور پھر انہیں ٹیسٹ کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر بھیجا جائے جہاں انہیںیہ سہولت مفت دی جائے گی۔

یہ پیکیج ڈویلپ ہوچکا ہے اور یہ وزیراعلیٰ کا روڈ میپ ہے لہٰذا میرے نزدیک اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ اس وقت پنجاب میں 60ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کام کررہی ہیں، اس مرض کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے انہیں تربیت دی جائے گی جس سے خاطرخواہ فائدہ حاصل ہوگا۔ میرے نزدیک یہ کہنا درست نہیں ہے کہ صحت کی تعلیم کا تعلق خواندگی کے ساتھ ہے کیونکہ بیماریوں کی روک تھام کے لیے جو کام عرب امارات اور ایران میں ہواہے اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں لہٰذا اس کو بنیاد بنا کر ہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کولوگوں کو اس مرض کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اس اقدام سے کمیونٹی کی سطح پر لوگوں میں شعور پیدا ہوگا جبکہ ٹیسٹ کی سہولت ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کی سطح پر دی جائے گی ۔

اس منصوبے کی کامیابی کے بعد اگلے مرحلے میں صوبائی پروگرام بھی شروع کیا جائے گا جس پر کام جاری ہے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اس کی رفتار کم ہے تاہم اس کے نتائج دیرپا ہوں گے۔میرا بیٹا انگلینڈ میں پیدا ہوا اور وہاں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ تھیلیسیمیا مائنر ہے۔ اس مرض کی تشخیص کے بعد انہوں نے ہمارے پورے خاندان کے ٹیسٹ کیے اورہماری کاؤنسلنگ بھی کی۔ اب ہمیں پاکستان میں بھی ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مشکل عمل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔

اس بیماری کا علاج بہت مہنگا ہے ، اس کا حل یہ ہے کہ حکومت کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بروئے کار لاکراس کی روک تھام کے لیے کام کیا جائے تاکہ مزید تھیلیسیمیا میجر بچے پیدا نہ ہوں۔ شادی سے پہلے کاؤنسلنگ کرنے میں ہمیں بہت سے اخلاقی مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے پنجاب میں ’’ایتھکس کمیٹی‘‘ تشکیل دی ہے جو مذہبی ، ثقافتی ونسلی مسائل کے حل کے لیے کام کرے گی۔ خواجہ سلمان رفیق کی طرف سے ہمیں واضح ہدایت ہے کہ سیاست سے بالا تر ہوکر صحت کے حوالے سے کام کیا جائے اور اس میں بہتری کے لیے ہر ایک سے مشاورت کی جائے۔

ڈاکٹر یاسمین احسان
(جنرل سیکرٹری جہانداد سوسائٹی فار کمیونٹی ڈویلپمنٹ)


تھیلیسیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے جو جینیاتی خرابی کی وجہ سے والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ ہمارے خون میں سرخ خلیے، سفید خلیے اور پلازمہ موجود ہوتا ہے جبکہ یہ بیماری صرف سرخ خلیوں سے منسلک ہے۔ سرخ خلیوں میںہیموگلوبن ہوتی ہے جس کے بننے کے لیے ہیموگلوبن جینز درکار ہوتی ہیں۔

جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اس وقت ’’ایلفا‘‘ اور ’’گیما‘‘ چین کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ نارمل طور پر موجود ہوتی ہیں اس لیے ماں کے پیٹ میں بچے کی نشونما ٹھیک طریقے سے ہوتی ہے لیکن پیدائش کے بعد ’’بیٹا گلوبن جین‘‘ بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس مرض میں مبتلا بچوں کی ’’بیٹا گلوبن جینز‘‘ ٹھیک طریقے سے نہیں بنتی جس کی وجہ سے ان کے سرخ خلیے بار بار ٹوٹ جاتے ہیں اور ’’بون میرو‘‘ کو بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے ۔ عام طور پر سرخ خلیوں کی زندگی 120دن ہوتی ہے لیکن ان بچوں میں سرخ خلیے اس سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ بچے خون کی کمی میں مبتلا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

جب یہ بچے 6ماہ کی عمر میں پہنچتے ہیں تو ان کے جسم سے پیدائش سے پہلے کے سرخ خلیے ختم ہو چکے ہوتے ہیں اور نئے خلیے بن جاتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا بچوں کے جسم میں موجود سرخ خلیے ٹھیک کام نہیں کررہے ہوتے اوروہ خون کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں جس سے بچے کے مزاج میں چڑچڑاپن آجاتا ہے۔ یہ بیماری لڑکے اور لڑکیوں میں والدین سے یکساں طور پر منتقل ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بچے کی تکلیف زیادہ ہوجاتی ہے جبکہ اس کا جگر اور تلی بھی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ تھیلیسیما کے مریضوں کو 15دن یا ایک ماہ بعد خون کی ضرورت پڑتی ہے لیکن خون کی اس منتقلی سے اس بچے میں فولاد کی زیادتی ہونا شروع ہو جاتی ہے ، یہ فولاد دل ، جگر، پٹھوں و دیگر اعضاء میں جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے جس کے بعد یہ اعضاء آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں لہٰذا ان مریضوں کو اخراج فولاد کے لیے ادویات بھی دی جاتی ہیں۔

ان بچوں میں صرف ایک ہیموگلوبن جین ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسائل ہوتے ہیں جبکہ یہ بچے جسمانی اور ذہنی طور پر نارمل ہوتے ہیں لہٰذا اگر انہیں صحیح علاج اور توجہ دی جائے تو یہ اچھے طریقے سے نشو نما پاکر اس ملک کی تعمیر وترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میںتعلیم کی کمی ہے، لوگوں کو شعور نہیں ہے اس لیے انہیں اس مرض کے بارے میں آگاہی دینے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس خاندان کا ایک بچہ تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہوجاتا ہے اس خاندان کو اس کی مشکلات کا احساس ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں ہر 100میں سے 7لوگ تھیلیسیمیا مائنر ہیں جبکہ ایسے خاندان جن میں ایک تھیلیسیمیا میجر کا بچہ موجود ہے وہاں پر اس کی شرح 35فیصد ہے۔

اگر ہمیں ایسے تمام خاندانوں کا علم ہوجائے اور ان کی سکریننگ کی جائے اور ان کی کاؤنسلنگ کرکے انہیں اس کے بارے میں آگاہی دی جائے تو اس مرض پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک ہمیںاس مرض کی روک تھام کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس مرض کی تشخیص کے لیے اگر صرف خون کا مکمل ٹیسٹ کروالیا جائے تواس میں بھی ہیموگلوبن کی مقدار میں کمی سے تھیلیسیمیا کا خدشہ سامنے آجاتا ہے لہٰذا اگر ایسی رپورٹ آئے تو پھر تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروا لیا جائے ۔ اس مرض کی روک تھام کے لیے کوشش یہ کی جائے کہ دو تھیلیسیمیا مائنر آپس میں شادی نہ کریں لیکن اگر شادی ہوچکی ہے یا شادی کرنا مجبوری ہے تو اس کے لیے قبل از پیدائش تشخیص کا طریقہ موجود ہے۔ اس میں تین ماہ کی حاملہ عورت کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے ،اس سے بچے کو نقصان نہیں پہنچتا تاہم ایک سے دو فیصد خدشہ ہوتا ہے کہ اس ٹیسٹ سے حمل ضائع ہوجائے۔

تشخیص قبل از پیدائش کا یہ ٹیسٹ دو سے تین منٹ کے اندر ہوجاتا ہے ، اس سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آیا یہ بچہ تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہے یہ نہیں ہے۔ اگر ماں اور باپ دونوں تھیلیسیمیا مائنر ہیں تواس بات کا 25فیصد امکان ہے کہ بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوگاجبکہ25فیصد امکان ہے کہ بچہ نارمل ہوگا اور اس بات کا 50فیصد امکان ہے کہ بچہ ماں اور باپ کی طرح تھیلیسیمیا کا کیریئر ہوگا۔ اگر بچہ تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو توہم انہیں حمل ضائع کرنے کی تجویز دیتے ہیں اور اس کا فیصلہ ماں اور باپ نے باہمی رضا مندی سے کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے بچوں کے علاج معالجے کی سہولیات ناکافی ہیں ،اس وقت ہمارے پاس پورے پاکستان سے 40ہزار تھیلیسیمیامیجر کے مریض رجسٹرڈ ہیں جنہیں ایک ماہ میں 90ہزار خون کی بوتلیں درکار ہوتی ہیں جبکہ اخراج فولاد کے لیے 420ڈالر فی مریض درکار ہیں لہٰذا سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے مختلف مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

انجینئرغلام دستگیر
(بانی جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا پاکستان )


یہ دن صرف ایک دن کے طور پر نہیں منانا چاہیے بلکہ اس حوالے سے پورا سال پوری محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ ہم نے 2010ء میں اس سوسائٹی کا آغاز کیا اور اس بیماری کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینا شروع کی۔ ہمارا یہ مشن کامیابی سے جاری ہے اور اس وقت پاکستان کے 50اضلاع میں ہمارے رضاکار تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے کام کررہے ہیں اور اب تک ہم نے 250مریضوں کے خون اور ادویات کے اخراجات اپنی مدد آپ کے تحت اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہم سب طالبعلم ہیں اور قریباََ 80یونیورسٹیوں میں ہمارا مشن جاری ہے۔

پاکستان کے گلگت بلتستان سے لے کر کراچی تک کی یونیورسٹیوں کے طالبعلم ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ تھیلیسیمیا کے بارے میںلوگوں کو آگاہی دینے سے اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے۔ ہمارے سامنے بہت سے ممالک کی مثال موجود ہے جنہوں نے اس مرض کے بارے میں اپنے لوگوں کو آگاہی دی اور انہیں شادی سے قبل اس کا ٹیسٹ کروانے پر مجبور کرکے اس مرض کا خاتمہ کیا ۔ میرے نزدیک ہم بھی لوگوں کو اس مرض کے بارے شعور و آگاہی دے کر ایسی قوم ہونے کا اعزاز حاصل کرسکتے ہیں۔

لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے لہٰذا اگر میڈیا اس مرض کی آگاہی کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرے تو ہم اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم نے 2016ء تک کا ٹارگٹ رکھا ہے اور ہم 2017ء میں اس وقت تک داخل نہیں ہونا چاہتے جب تک ہم پاکستان کے طول و عرض میں اس مرض کے بارے میں لوگوں کو آگاہی نہیں دے دیتے۔

2012ء میں ہمیں وزیر تعلیم مجتبیٰ شجاع الرحمن نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں بل پاس کروایا جائے گا لیکن بدقسمتی سے اب تک اس حوالے سے کوئی موثر کام نہیں ہوسکا جبکہ حکومت صرف تشہیری مہم کررہی ہے۔ ہمارے ملک کے کئی حصوں میں تھیلیسیمیا کے لیے سینٹر ہی نہیں ہیں اور لوگوں کو طویل سفر کرکے اپنے قریبی سینٹر جانا پڑتا ہے لہٰذا اگر حکومت اس حوالے سے آسانی پیدا کردے اور ہر ڈسٹرکٹ کی سطح پر کم از کم ایک تھیلیسیمیا سینٹر قائم کردے تومریضوں کے ساتھ ساتھ خون کا عطیہ دینے والے رضاکاروں کے لیے بھی سہولت ہوگی۔

جس سے اس کارِ خیر میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ بہاولپور سے لے کر میانوالی تک، اس پٹی میں کوئی تھیلیسیمیا سینٹر نہیں ہے جبکہ وہاں کے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرے نزدیک صرف بل پاس کردینا کافی نہیں ہے ، جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جائیں گے اور لوگوں کو سہولیات نہیں دی جائیں گی تب تک خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔

ہمارا حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ تمام لوگوں کے لیے فری کردیا جائے۔اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کے لیے سینٹر بنائے اور انہیں سہولیات فراہم کرے۔ میرے نزدیک اگر حکومت صرف ایک سال کے لیے پوری توجہ کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر اس مرض کی آگاہی کے لیے کام کرے اور اس حوالے سے ایمرجنسی لگا دے اور تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ لازمی قرار دے دے تو اس مرض سے نجات ممکن ہے۔

اس طرح پورے ملک میں ایک کروڑ سے زائد تھیلیسیمیا مائنر کے جو مریض موجود ہیں اور جو اس مرض کی منتقلی کا سبب بن سکتے ہیں ان کی تشخیص ہوجائے گی جس کے بعد اس کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ ہم طالبعلم مل کر اس مرض کی آگاہی کیلئے کام کررہے ہیں، ہم نے اب تک 15ہزار سے زائد خون کی بوتلیں فراہم کی ہیں اورہم حکومت کو’’تھیلیسیمیا پریونشن پروگرام‘‘ میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں ۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔