مادہ پرستی اور ٹیکنالوجی کی پوجا

اوریا مقبول جان  جمعـء 8 مئ 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

ٹیکنالوجی اور مادہ پرستی کے مقابلے میں آپ اللہ کی نصرت اور تائید کی گفتگو کر کے دیکھیں، ٹیکنالوجی اور مادہ پرستی کے بت کے پجاری یوں پنجے جھاڑ کر آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے جیسے آپ نے ان کے خدا کو برا بھلا کہہ دیا ہو۔ گزشتہ دنوں توکّل علی اللہ اور جذبۂ ایمانی پر گفتگو شروع ہوئی تو مخالفت میں کتنے لکھاری میدان میں کود پڑے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کبھی بھی اپنے اس ٹیکنالوجی کے بت کی شکست برداشت ہی نہیں کر سکتے۔

اگر کوئی عالمی طاقت کسی نہتی قوم سے شکست کھا جائے تو پہلے تو اس شکست کو شکست ہی تسلیم نہیں کریں گے۔ ڈھیلا سا منہ بنا کر کہیں گے وہ عالمی طاقت خود وہاں سے جانا چاہتی تھی، اس بے آب و گیاہ علاقے میں انھوں نے کیا لینا۔ اگر کوئی پوچھ بیٹھے کہ پھر وہاں لینے کیا آئے تھے، اپنے فوجی مروانے؟ اپنی شاندار ٹیکنالوجی کا مذاق اڑوانے؟ ایسے میں جواب دیں گے، کیا حاصل کر لیا اس قوم نے بڑی طاقت سے لڑ کے، خود کو ہی تباہ کروا لیا۔ ایسی جیت کا کیا فائدہ۔ چرچل کا برطانیہ تباہ ہو جائے لیکن وہ جنگ جیت جائے تو چرچل ہیرو۔ وہاں کوئی یہ گفتگو نہیں کرتا کہ ایسی لڑائی اور جیت کا فائدہ جس میں ملک ہی تباہ ہو جائے۔ آخر ’’حکمت عملی‘‘ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

ان کے نزدیک کسی ایسی طاقت کی فتح نا مکمن ہے، جس کی قوت انسانی ذہن کے ادراک میں نہ آ سکے۔ جہاں کوئی کمزور فتح یاب ہونے لگتا ہے تو اسے اللہ کی نصرت سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ ’’شاندار حکمتِ عملی‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ غزوہ احد میں وہ شکست کو اللہ کی طرف سے مسلمانوں کا امتحان تصور نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جنگی حکمت عملی پر صحابہ کا عمل نہ کرنا ہے۔ لیکن میرا اللہ جو دلوں کے بھید جانتا ہے اور جسے علم ہے کہ دلوں میں کونسا کوڑھ چھپا ہوا ہے اس نے ٹیکنالوجی اور مادہ پرست لوگوں کا قرآنِ پاک میں کیسا منہ توڑ جواب دیا ہے۔

اُحد کی شکست کے بعد چند مسلمان جو نئے نئے داخلِ اسلام ہوئے تھے یہ سوچنے لگے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان موجود ہیں اور پھر بھی ہمیں شکست ہو گئی۔ ایسے میں اللہ تبارک و تعالی نے سورۃ آل ِعمران میں اس شکست کی وجوہات پر کئی آیات نازل کیں۔ اللہ فرماتا ہے‘‘ اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے، تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلے میں پسپا کر دیا تا کہ تمہاری آزمائش کرے، اور حق یہ کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے (آل عمران 152)اللہ نے اُحد کی شکست کی ایک ہی وجہ بتائی اور وہ تھی چند مسلمانوں کی طلبِ دنیا کی خواہش کی لغزش تھی۔ ایک اور جگہ کسقدر واضح طور پر اللہ نے اُحد کی لڑائی کے بارے میں بتایا کہ مسلمانوں پر یہ مصیبت اللہ کی اجازت سے نازل ہوئی۔

اللہ فرماتا ہے ’’جو نقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا اور اس لیے تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے کہ تم میں سے مومن کون ہیں اور منافق کون (آل عمران166) اُحد کے اس معرکے کے بعد مسلمانوں کا ایمان اللہ کی ذات پر اور مستحکم ہوگیا تھا اور اسی پختہ ایمان کے ساتھ ہی وہ اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سربراہی میں کفار مکہ کا پیچھا کرنے کے لیے جمرا الاسد تک گئے تھے۔

اُحد کی شکست کے بعد نازل ہونے والی تمام آیات اللہ کا یہ اصول بتاتی ہیں کہ فتح و نصرت نہ افرادی قوت سے ہے اور نہ ہی ٹیکنالوجی سے بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مہربانی ہے۔ اسی شکست کے بارے اللہ فرماتا ہے کہ انسان کی موت سے حفاظت بھی اللہ کی مرضی و منشاء پر ہی منحصر ہے۔ اُحد کے بعد منافقین یہ طعنہ دیتے تھے کہ اگر یہ شہید ہونے والے لوگ جنگ کے لیے نہ نکلتے تو آج زندہ ہوتے۔ اللہ نے انھیں اسی سورۃ آل عمران میں جواب دیا ہے۔ ’’کہہ دو کہ، اگر تم گھروں میں ہوتے تب بھی جن کا قتل ہوتا مقدر میں لکھا جا چکا تھا وہ خود باہر نکل کر اپنی اپنی قتل گاہوں تک پہنچ جاتے (آل عمران 155)‘‘

ٹیکنالوجی اور مادہ پرستی کے پجاریوں کو اگر آپ قادسیہ میں دنیا کی سپر پاور ایران کی چند فاقہ کش مگر اللہ پر توکل رکھنے والوں کے ہاتھوں شکست کی داستان سنائیں، مصر، شام اور اسپین کی فتح کے قصے بتائیں تو کہیں گے کہ یہ سب پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ ہوتے ہوں گے معجزے، کون سا ہم نے دیکھے ہیں۔ تم آج کے دور کی بات کرو۔ لیکن آج کے دور میں افغانستان ان کے گلے کی ایسی ہڈی ہے کہ انھیں اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے سو سو  وضاحتیں کرنا پڑتی ہیں۔ کیسے مان لیں یہ طاقت کے پجاری کہ صرف سو سال کے اندر تین عالمی طاقتوں نے یہاں شکست کھائی ہے۔

انگریز جس نے شکست کھائی اس کے مؤرخین اور جرنیل تک تسلیم کرتے ہیں، لیکن یہ ٹیکنالوجی کے پجاری وضاحتیں دیتے پھرتے ہیں۔ انگریز تو وہاں چلا گیا تھا، فتح بھی حاصل کر لی تھی۔ لیکن پھر حکمتِ عملی کے طور پر افغانستان کو بفرزون بنا کر وہاں سے نکل آیا۔ انگریز تو وہاں رہنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ روس اور افغانستان کی جنگ میں ان لکھاریوں کو سجدہ کرنے کے لیے امریکا کا بہت بڑا بت مل گیا تھا اور وہ آج بھی کہتے پھرتے ہیں کہ اگرا سٹنگر میزائل نہ ہوتے اور امریکی امداد نہ ہوتی تو روس کو یہ نہتے افغان شکست نہ دے سکتے تھے۔

ان کے اس امریکا بہادر کی یہ ٹیکنالوجی اس وقت فتح کیوں نہ حاصل کر سکی جب وہ ماوزئے تنگ کے مقابلے میں چیانک کائی شیک کی مدد کو آئی تھی اور ذلیل ہو کر نکلی تھی۔ ویت نام میں اس ٹیکنالوجی کو کیا زنگ لگ گیا تھا؟ساٹھ ہزار لاشیں اٹھا کر چوہے کی طرح بھاگے۔ نیپام بموں سے لے کر ڈیزی کٹر تک سب کچھ تو تھا۔ ایک ایسا ہی طاقت کا پجاری لکھاری اکثر طعنے دیتا رہتا ہے کہ تم لوگ اسپرو کی گولی تک ایجاد نہیں کر سکتے اور امریکا سے لڑنے چل پڑتے ہو۔ کوئی پوچھے ذرا وہ تاریخ ہی بتا دیں جب ویتنام نے اسپرو کی گولی ایجاد کی تھی اور پھر اس کے نتیجے میں امریکا کو شکست دی تھی۔ افغانستان میں فتح ان فرزانوں کی تھی جن کا توکل صرف اللہ پر تھا۔ ایسی فتح کہ جس کے نتیجے میں ایک عالمی طاقت ریزہ ریزہ ہو گئی۔

اگر امریکا کی مدد یا ٹیکنالوجی نے ہی جیتنا ہوتا تو آج سارا لاطینی امریکا، امریکا کا غلام ہوتا۔ وہاں بدترین شکست اس کا مقدر ہوئی۔ افغانستان میں تیسری شکست کھانے والی طاقت خود امریکا ہے۔ جو اپنے 48 حواریوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا۔ کوئی پڑوسی ساتھ نہیں۔ دوست ملک پاکستان سے57 ہزار امریکی جہاز اڑے اور افغان سرزمین پر انھوں نے بم برسائے۔

لیکن جیت کس کا مقدر ہوئی۔ یہ آج کا سب سے کڑوا سچ ہے۔ برابری کی سطح پر قطر میں آج مذاکرات کون کر رہا ہے اور ہر روز بھیک کون مانگ کر رہا ہے، روز امریکا کی جھڑکیاں، طعنے اور کبھی کبھی گالیاں کون سن رہا ہے۔ صرف گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ملا محمد عمر نے کہا تھا ’’افغانستان گوند کا تالاب ہے‘‘ آپ طاقت کے بل بوتے پر اس میں چھلانگ تو لگا دیتے ہو لیکن موت تمہارا مقدر ہوتی ہے۔

شاید کوئی نئی تحقیق کرنے والا برآمد ہو جائے جو ثابت کرنے پر تل جائے کہ افغانستان کو ہمیشہ شکست ہی ہوئی ہے۔ طاقت اور ٹیکنالوجی کے پجاریوں کا بس نہیں چلتا کہ تاریخ کو ایک نئے انداز سے تحریر کریں، اور بتائیں کہ محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری نے ہندوستان میں ذلت آمیز شکست کھائی تھی۔

یزدگرد نے خود اپنا علاقہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں کو دے دیا تھا، کیونکہ وہ اپنی قوم سے ناراض، تھا جنہوں نے اس کے باپ کو قتل کر دیا تھا۔ شیوا جی کے پاس چار لاکھ کی عظیم فوج تھی، دیکھو تاریخ نے کس قدر جھوٹ لکھا ہے کہ صرف 35 ہزار سپاہیوں کے ساتھ احمد شاہ ابدالی نے اسے شکست دے دی تھی اور مرہٹوں کا غرور خاک میں ملایا تھا۔ کیا ایسا ممکن ہے، انسانی عقل اس کو مان سکتی ہے۔ ہو سکتا ایسی تاریخ کل لکھی جائے تا کہ ان ٹیکنالوجی اور مادہ پرستی کے پجاریوں کو چین کی نیند نصیب ہو سکے۔ اس لیے کہ انھیں چین اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب کوئی مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کی داستان بیان کرے اور ان کی ناکامی کی کہانی انھیں سنائے۔

یہی لکھاری ہی تو ہیں جو طویل بحثیں کرتے ہیں۔ کالم لکھتے ہیں کہ نصاب سے جہاد کی آیات خارج کرو۔ ظاہر بات ہے اگر بچپن سے جہاد سے محبت کا درس نہ ہو گا تو کس کو حیدر کِرارؓ کی شجاعت یاد ہو گی اور کون نشان حیدر سے محبت کرے گا، اور کس کا خون یہ ترانہ سن کر جوش مارے گا ’’اے راہ حقِ کے شہیدو وفا کی تصویرو‘‘ اور کسی کو علم تک نہ ہو گا کہ ’’علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے‘‘ کا اشارہ کس جانب ہے۔

جب قوم کے بچے بوڑھے، جوان جہاد کے درس سے نا آشنا ہوں گے تو کس قدر آسان ہو گا پوری قوم کو یہ قائل کرنا کہ بھارت پانچ گنا بڑی طاقت ہے اور ہم کس قدر بے وقوف ہیں کہ وسائل کی اس دنیا میں بے سر و سامانی کے عالم میں بھارت کے مقابل میں کھڑے ہیں۔ جذبہ ایمانی اور توکل علی اللہ جیسی باتیں لوگوں کے دماغ سے نکل جائیں گی اور ٹیکنالوجی کے یہ پجاری کس قدر مسرت سے ناچیں گے۔ لیکن میرا اللہ یہ نہیں چاہتا: اس لیے کہ اسے شرک سخت ناپسند ہے خواہ وہ اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کو شریک کر کے ہی کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔