امریکا میں نجی جیلوں کی صنعت

ندیم سبحان  اتوار 10 مئ 2015
’’انسانی حقوق کے ٹھیکے دار‘‘ امریکا کا ایک خوف ناک روپ۔ فوٹو : فائل

’’انسانی حقوق کے ٹھیکے دار‘‘ امریکا کا ایک خوف ناک روپ۔ فوٹو : فائل

امریکا،انسانی حقوق کا عالمی ٹھیکے دار۔۔۔۔۔۔ جو جب چاہے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو جواز بناکر کسی بھی ملک پر چڑھ دوڑتا ہے، اس کی اپنی تاریخ انسانی غلامی کے بدنما داغوں سے سیاہ ہے۔ سفید فام امریکی ہمیشہ سے نسلی امتیاز میں مبتلا رہے ہیں۔ دیگر اقوام بالخصوص سیاہ فاموں سے برتر ہونے کا خناس ان کے دماغوں میں ہمیشہ سے سمایا ہوا تھا۔

نسلی امتیاز کے اسی غرور نے امریکا اور اس کی کالونیوں میں، سترھویں صدی کے اوائل میں انسانی غلامی کی داغ بیل ڈالی۔ امریکا میں انسانی غلامی کا بیج 1619ء میں ڈچ قوم نے بویا تھا جس کی آب یاری سفید فام امریکیوں نے کی اور اسے تناور درخت میں بدل دیا۔ کم و بیش ساڑھے تین صدیوں تک یہ درخت پوری آب و تاب سے قائم رہا۔ ساڑھے تین سو برس کا یہ دور، سیاہ فام امریکیوں کے لیے بھیانک ترین دور تھا۔ ان کے سفید فام ہم جنسوں نے ان پر ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی۔

آقائوں کے ظلم و جبر سہتے سہتے غلاموں کے دلوں میں مزاحمت کا لاوا اُبلنے لگا۔ انیسویں صدی میں بالآخر یہ لاوا بہہ نکلا اور غلامی کے خاتمے کی تحریک میں ڈھل گیا۔ 1861ء تا 1865ء جاری رہنے والی خانہ جنگی نے بھی اسی تحریک کے بطن سے جنم لیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں امریکا سے غلامی کا خاتمہ ہوا اور سیاہ فاموں کو بھی ملکی شہریت اور تمام انسانی حقوق حاصل ہوگئے۔

تاہم یہ سب کاغذی تھا، امریکی معاشرے میں نسلی امتیاز کی جڑیں اتنی گہری تھیں کہ محض کاغذ پر سیاہ فاموں کو امریکی شہری تسلیم کرلینے سے سفید فام انھیں برابر کا درجہ نہیں دے سکتے تھے۔ چناں چہ 1960ء کی دہائی میں ایک بار پھر سیاہ فاموں کے لیے شہری حقوق کے حصول کی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں سیاہ فاموں کو بڑی حد تک تمام حقوق حاصل ہوگئے، سفید فاموں کے دل ودماغ میں نسلی امتیاز کا غرور بہ دستور سمایا ہوا ہے، جس کا اظہار مختلف واقعات سے ہوتا رہتا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکا میں انسانی غلامی کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اگرچہ سفید فاموں کے دلوں میں، سیاہ فاموں کے لیے مخاصمت ضرور موجود ہے، تاہم آقا اور غلام والی بات اب نہیں رہی۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے! حقوق انسانی کا پرچار کرنے اور ’مظلوم ‘عوام کو ان کے حقوق دلانے کے نام پر حکومتیں گرانے والے امریکا میں انسانی غلامی کا رواج آج بھی موجود ہے۔

بس اب اسے قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ پہلے سیاہ فاموں کو ببانگ دہل غلام کا درجہ حاصل تھا، اب ان سے نجی جیلوں کے نام پر غلامی کروائی جارہی ہے! امریکا میں سرکاری جیلوں کے ساتھ ساتھ نجی جیلیں بھی قائم ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سی سرکاری جیلوں کا انتظام و انصرام نجی کمپنیاں چلا رہی ہیں۔ ان کمپنیوں نے قیدیوں کو کیسے غلام بنارکھا ہے اور ان سے کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے، اس کی تفصیل ذیل کی سطور میں دی جارہی ہے۔

٭امریکا میں نجی جیلوں کی ابتدا
جیل کے قیدیوں سے مشقت لینے کی روایت کا ناتا بھی غلامی سے جُڑا ہوا ہے۔ امریکا کی جنوبی ریاستوں کی معیشت کا دارومدار کپاس کی کاشت پر تھا۔ اگر انھیں غلاموں کی صورت میں افرادی قوت دستیاب نہ ہوتی تو جاگیرداروں کے مفادات کو زبردست دھچکا لگتا جو غلاموں سے بلامعاوضہ مشقت لینے کے عادی ہوچکے تھے۔ اسی لیے وہ غلامی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے تھے۔

اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے عیارومکار دماغوں نے، خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد، قیدیوں کو کرائے پر دینے کی روایت شروع کی۔ جنگ کے بعد آزاد ہونے والے سیاہ فام غلاموں کو مختلف حیلے بہانوں سے قیدی بناکر جیلوں میں ڈال دیا گیا، اور پھر ان کی ’خدمات‘ جاگیرداروں، صنعت کاروں کو کرائے پر دی جانے لگیں۔ ’کرایے‘ کی رقم جیل کے کرتا دھرتا وصول کرتے تھے۔ یہ قیدی کپاس چُننے،کان کنی، ٹرین کی پٹڑیاں بچھانے جیسے پُرمشقت کام کرتے تھے۔ قیدیوں میں اکثریت سیاہ فاموں کی تھی۔ 1870ء سے 1910ء تک ریاست جارجیا میں کرائے پر دیے جانے والے 88 فی صد قیدی سیاہ فام تھے۔

الباما میں یہ شرح 93 فی صد تھی۔ مسی سپی میں قیدیوں کی کرائے پر فراہمی کے متبادل کے طور پر بدنام زمانہ ’پرچ مین فارم‘ قائم کیا گیا۔ یہ دراصل وسیع و عریض جیل تھی، جس میں زرعی رقبے کے ساتھ ساتھ مختلف مصنوعات تیار کرنے والی ورک شاپس بھی موجود تھیں۔ پرچ مین فارم کے قیدیوں کو کرائے پر دیے جانے کے بجائے اس جیل ہی کو ٹھیکے پر دے دیا جاتا تھا۔ ٹھیکے دار اپنی مرضی کے مطابق قیدیوں سے کام لینے کے لیے آزاد ہوتا تھا۔ جیلوں کو ٹھیکے پر دینے کے نظام کی صورت میں سیاہ فاموں کے مصائب نے ایک نئی شکل اختیار کرلی تھی۔ اب وہ قانونی طور پر غلامی کرنے پر مجبور تھے۔ جیلوں کو ٹھیکے پر دینے کا نظام گذشتہ صدی کے اوائل تک جاری رہا۔

٭نجی جیلوں کا نیا دور
1980ء کی دہائی میں جیلوں کی نجکاری کے نئے دور کی ابتدا ہوئی۔ یہ رونالڈ ریگن کا عہدِصدارت تھا۔ اُس دور میں منشیات کی اسمگلنگ اور منشیات فروشی کے خلاف شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں جیلوں میں قیدیوں کی تعداد تیزی سے بڑھی جس کی وجہ سے مقامی، ریاستی اور وفاقی حکومت کے لیے جیلوں کی انتظام کاری مشکل اور پیچیدہ ہوگئی۔ گھاگ سرمایہ داروں نے بلاتاخیر اندازہ کرلیا کہ حکومت کی اس مشکل میں ان کے لیے نفع کمانے کا ایک سنہری موقع پوشیدہ ہے۔

چناں چہ حکومت کو باور کرایا گیا کہ جیلوں کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کردینا اس کی مشکل کا واحد بہترین حل ہے۔ اس طرح وہ سرمایہ دار جو پہلے جیلوں میں مختلف خدمات اور سامان ٹھیکے پر فراہم کرتے تھے، جیلوں کے کرتا دھرتا بن گئے۔ حکومت نے انتظام کاری سمیت دوسرے معاملات بھی کُلی طور پر ان کے سپرد کردیے۔ آنے والے برسوں میں سرمایہ داروں نے سرکاری جیلوں کا انتظام چلانے کے ساتھ ساتھ اپنی جیلیں بھی قائم کرلیں جن میں معاوضے کے عوض قیدیوں کو رکھا جانے لگا۔

امریکا میں سرکاری جیلوں کو ٹھیکے پر لینا اور نجی جیلوں کا کاروبار انتہائی نفع بخش صنعت کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ وہاں ٹھیکے پر دی گئی جیلوں کو بھی نجی جیلیں ہی کہا جاتا ہے۔ نجی جیلوں کے موجودہ کاروبار کا آغاز 1984ء میں اس وقت ہوا جب تین سرمایہ داروں کی قائم کردہ کریکشنز کارپوریشن آف امریکا (سی سی اے) کو ریاست ٹینیسی کی ہملٹن کائونٹی میں واقع جیل ٹھیکے پر دے دی گئی۔

یہ پہلا موقع تھا جب امریکا میں کسی جیل کا انتظام و انصرام کُلی طور پر نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا ہو۔ سرکاری جیل کو ٹھیکے پر چلانے کے کاروبار میں بے پناہ متوقع منافع کے پیش نظر اگلے ہی برس سی سی اے نے 20 کروڑ ڈالر کے عوض ٹینیسی کی تمام جیلیں ٹھیکے پر لینے کی پیش کش کردی۔ تاہم سرکاری ملازمین اور اراکین اسمبلی کی شدید مخالفت اس پیش کش کی راہ میں آڑے آگئی۔ ابتدائی شکست کے باوجود سی سی اے نے جیلیں ٹھیکے پر حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں جس کے نتیجے میں اس کے زیرانتظام جیلوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ سی سی اے اس وقت نجی جیلوں کی صنعت سے وابستہ سب سے بڑا ادارہ ہے جو67 سے زاید جیلوں کا انتظام و انصرام چلا رہا ہے۔

ان میں سے بیشتر جیلیں سی سی اے کی اپنی قائم کردہ ہیں۔ سی سی اے کی نجی جیلوں میں بستروں کی مجموعی گنجائش 92500 ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہاں اتنے ہی قیدی رکھنے کی گنجائش ہے۔

سی سی اے کے علاوہ کئی اور کمپنیاں اور ادارے بھی نجی جیلوں کا انتظام چلارہے ہیں۔ جی ای او گروپ، سی سی اے کے بعد اس صنعت کا دوسرا بڑا کھلاڑی ہے جو 57 نجی جیلیں چلا رہا ہے جن میں 49000قیدی رکھنے کی گنجائش ہے۔ ٹھیکے داروں کے حوالے کی گئی سرکاری جیلوں کی زیادہ تعداد ملک کے جنوبی اور مغربی حصوں میں ہے۔ امریکی محکمۂ انصاف کے مطابق 2013ء کے اختتام پر نجی جیلوں کے حوالے کیے گئے قیدیوں کی تعداد 133000 تھی۔ یہ تعداد قیدیوں کی مجموعی تعداد کا 8.5 فی صد بنتی ہے۔

٭نجی جیلوں کی صنعت کتنی نفع بخش؟
نجی جیلوں کی صنعت کس قدر نفع بخش ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دو عشروں کے دوران سی سی اے کا منافع پانچ گنا بڑھ گیا۔ 2000ء میں سی سی اے کے شیئر کی مالیت ایک ڈالر تھی جو 2013ء میں 34.34 ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ اسی طرح دوسری کمپنیوں کی آمدنی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ 2011ء میں نجی جیلوں کی صنعت سے وابستہ اداروں نے مجموعی طور پر پانچ ارب ڈالر کمائے تھے۔

یہ کیسے ممکن تھا کہ آمدنی کے اتنے نفع بخش ذریعے کی جانب سرمایہ کار متوجہ نہ ہوتے۔ چناں چہ بڑے سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ بینکوں نے بھی اس شعبے میں سرمایہ لگانا شروع کردیا۔ ویلز فارگو نے جی ای او گروپ میں 60 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ بینک آف امریکا، فڈیلیٹی انویسٹمنٹ، جنرل الیکٹرک اور دی وینگارڈ گروپ سمیت بڑے سرمایہ اداروں نے بھی نجی جیلوں کی صنعت سے وابستہ کمپنیوں اور اداروں میں بھاری سرمایہ لگایا۔ ان کے علاوہ آئی بی ایم، مائیکروسوفٹ، موٹرولا، بوئنگ، اے ٹی اینڈ ٹی، وائرلیس، ڈیل، کومپیک، ایچ پی، نورٹل، انٹل، تھری کوم، ریولون، ٹارگٹ اسٹور اور دیگر عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں نے بھی نجی جیلوں کی انتہائی نفع بخش صنعت میں سرمایہ لگارکھا ہے۔

اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہے۔ جون 2013ء میں کولمبیا یونی ورسٹی کے طلبا نے دریافت کیا کہ سی سی اے کے 80 لاکھ ڈالر مالیت کے حصص ادارے نے خرید رکھے ہیں۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے طلبا نے گذشتہ برس ایک گروپ تشکیل دیا۔ گروپ کی جانب سے یونی ورسٹی کے صدر کو خط لکھ کر مطالبہ کیا گیا کہ سی سی اے میں لگایا گیا تمام سرمایہ واپس لیا جائے اور مستقبل میں یونی ورسٹی کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کے بارے میں معلومات عام کی جائیں۔

امریکن فرینڈز سروس کمیٹی کی جانب سے گذشتہ برس جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق نجی جیلوں کا انتظام چلانے والے ادارے محض جیلوں کی انتظام کاری پر تکیہ نہیں کررہے بل کہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی غرض سے انھوں نے اپنی ’خدمات‘ قیدیوں کی میڈیکل کیئر، فارنسک مینٹل اسپتالوں، سول کمٹمنٹ سینٹرز، قیدیوں کی بحالی کے مراکز اور ہوم اریسٹ تک وسیع کردی ہیں۔ واضح رہے کہ پہلے یہ امور غیرنفع بخش تنظیمیں انجام دے رہی تھیں۔

٭قیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد امریکا میں کیوں؟
امریکا کی 37 ریاستوں میں نجی جیلوں کا نظام قائم ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی و سماجی ادارے نجی جیلوں کی مذمت کرتے ہوئے انھیں انسانی غلامی اور تضحیک انسانیت کی نئی شکل قرار دیتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ امریکی جیلوں میں 15لاکھ سے زاید قیدی، جن میں اکثریت سیاہ فاموں اور ہسپانویوں کی ہے، مختلف صنعتوں کے لیے برائے نام اُجرت کے عوض کام کرنے پر مجبور ہیں۔

نجی جیلیں، سرمایہ داروں کے لیے سونے کی کان سے کم نہیں، بل کہ سونے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی کچھ نہ کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں اور ان کی اُجرت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج بھی کرسکتے ہیں، مگر نجی جیلوں کے مالکان کو نہ ’مزدوروں‘ کی ہڑتال کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی بے روزگاری انشورنس ادا کرنے کی فکر، نہ ان کے ’ مزدور‘ چھٹیوں پر جاتے ہیں۔

وہ اوورٹائم دینے کی فکر سے بھی آزاد ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے ’کارکنان‘ کُل وقتی ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو کام پر دیر سے آتے ہیں اور نہ ہی گھریلو مسائل کی وجہ سے چھٹی کرتے ہیں؛ اس کے علاوہ انھیں اگر 25 سینٹ فی گھنٹہ اُجرت لینے سے انکار ہو تو پھر قید تنہائی بھی بھگتنی پڑتی ہے۔

امریکا کی سرکاری اور نجی جیلوں میں 15 لاکھ سے زاید قیدی موجود ہیں۔ ’’کیلی فورنیا پریزن فوکس‘‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق انسانی تاریخ میں کسی بھی معاشرے نے اپنے ہی شہریوں کی اتنی بڑی تعداد کو کبھی قیدی نہیں بنایا۔ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ قیدی امریکی جیلوں میں ہیں۔ امریکا میں اسیروں کی تعداد چین سے 10 لاکھ زیادہ ہے جو کہ سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔

تناسب کے اعتبار سے دنیا کی پانچ فی صد آبادی امریکا میں بستی ہے، مگر قیدیوں کی تعداد دنیا بھر کے قیدیوں کی تعداد کا 25 فی صد ہے۔ امریکی محکمۂ انصاف کی گذشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق 1978ء میں امریکی جیلوں میں تین لاکھ سے کم اسیران تھے۔ 31دسمبر 2013ء کو یہ تعداد 1574700تک پہنچ کی تھی۔

قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے اسباب جاننے کے لیے امریکا کی پروگریسیو لیبر پارٹی کی جانب سے ایک اسٹڈی کا اہتمام کیا گیا، جس کے نتیجے میں انکشاف ہوا،’’جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی بنیادی وجہ ان سے وابستہ سرمایہ داروں کا مفاد ہے۔ جتنے زیادہ قیدی ہوں گے، نجی جیلوں کے مالکان کو ان کے عوض حکومت سے اتنی ہی زیادہ رقم ملے گی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ قیدی مختلف صنعتوں کی ’ورک فورس‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے مختلف صنعتوں میں کام لیا جاتا ہے۔

نجی جیلوں کے مالکان انھیں شرم ناک اُجرت دے کر خود کروڑوں اربوں کماتے ہیں۔ لہٰذا ان کا مفاد اسی میں ہے کہ ’افرادی قوت‘ گھٹنے نہ پائے بل کہ اس میں اضافہ ہوتا رہے۔ چناں چہ ملزمان کو باقاعدہ لابنگ کے ذریعے لمبی سزائیں دلوائی جاتی ہیں۔ اس کا نشانہ بالخصوص غریب سیاہ فام ملزمان بنتے ہیں۔ امریکی نظام انصاف کی بنیاد بھی نسلی امتیاز پر مبنی ہے۔ اس نظام میں شامل قوانین سفید فاموں کے ساتھ رعایت برتتے ہیں، جب کہ سیاہ فاموں کے لیے زیادہ سخت سزائیں رکھی گئی ہیں۔ اگرچہ قوانین میں واضح طور پر اس تفریق کا ذکر نہیں، تاہم ان جرائم کے لیے طویل سزائیں مقرر ہیں جن کا ارتکاب عام طور پر سیاہ فام کرتے ہیں۔ اس کی مثال منشیات سے متعلق وفاقی قانون کی صورت میں موجود ہے۔

5 گرام ٹھوس کوکین یا 3.5 اونس تک ہیروئن برآمد ہونے کی سزا پانچ سال ہے (اس دوران پیرول پر رہائی بھی ممکن نہیں )۔ 2 اونس سے کم ٹھوس کوکین رکھنے کی سزا دس برس کی قید ہے۔ دوسری جانب 500گرام کوکین پائوڈر (ٹھوس کوکین کی مقدار سے 100 گنا زاید) برآمد ہونے پر دس سال کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ منشیات کی مقدار اور سزائوں میں تفاوت کا سبب یہ ہے کہ کوکین پائوڈر سفید فام استعمال کرتے ہیں جب کہ ٹھوس کوکین سیاہ فاموں کا نشہ ہے۔ غریب سیاہ فاموں کے پاس سے معمولی مقدار ہی میں منشیات برآمد ہوسکتی ہے۔

اسی لیے ٹھوس کوکین کی دو اونس سے کم مقدار رکھنے کی سزا دس برس ہے۔ دوسری جانب سفید فام کو نصف کلو کوکین پائوڈر برآمد ہونے پر اتنی سزا سنائی جائے گی۔ اسی طرح چھوٹے موٹے جرائم پر بھی طویل سزائیں مقرر ہیں۔ امریکی معاشرے کی تاریخ کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ یہ سزائیں سیاہ فاموں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف حیلے بہانوں سے قیدیوں کی سزا میں، دوران قید اضافہ بھی کیا جاتا رہتا ہے۔

٭نجی جیلوں میں نوجوان قیدی
گذشتہ برس کیلے فورنیا یونی ورسٹی کے طالب علم نے ایک تحقیق کے دوران سرکاری اور نجی جیلوں کے قیدیوں کی تفصیلات کا جائزہ لیا تو اس پر یہ حیران کُن انکشاف ہوا کہ نجی جیلوں میں قیدیوں کی اکثریت نوجوان تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ سب سیاہ فام تھے۔ ان جیلوں میں بہت تھوڑی تعداد میں عمررسیدہ قیدی بھی ہیں مگر یہ سب سفید فام ہیں۔ اس تحقیقی جائزے سے ظاہر ہے کہ نجی جیلوں کے بااثر مالکان اور ٹھیکے دار نوجوان قیدیوں کے حصول میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ اس کی سیدھی سادی وجہ یہی ہے کہ نوجوان قیدی پُرمشقت کام کرسکتے ہیں اور ان کے بیمار ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔

٭قیدیوں کی برائے نام اُجرت
جیلوں کی صنعت، امریکا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرتی صنعت ہے۔ اس صنعت سے وابستہ ’مزدور‘ مختلف صنعتوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ امریکی فوج کے لیے ہیلمٹس، ایمونیشن بیلٹس، بلٹ پروف جیکٹیں، شناختی ٹیگز، قمیصیں، پتلونیں، خیمے، تھیلے وغیرہ جیلوں کے مکین تیار کرتے ہیں۔

فوجی ضروریات کا سامان تیار کرنے کے علاوہ قیدی تعمیراتی اور سرمایہ کاری کمپنیوں، رنگ (پینٹ) ساز کمپنیوں، ڈبّا بند خوراک تیار کرنے والی فیکٹریوں کے علاوہ متعدد اداروں کے لیے اُجرتی مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں، مگر انھیں ان کی اُجرت کا برائے نام حصہ دیا جاتا ہے۔ ان کی محنت کا بڑا حصہ نجی جیلوں کے مالکان کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ یوں یہ مالکان دونوں طرف سے کما رہے ہیں۔ قیدیوں کی دیکھ بھال کے نام پر حکومت سے معاوضہ لیتے ہیں اور پھر ان سے مختلف کمپنیوں کے لیے بیگار کرواکر دہرا نفع کماتے ہیں۔

ریاستی جیلوں میں قیدیوں کو ان کی محنت کا معاوضہ عام طور پر مزدور کے لیے مقرر کردہ کم سے کم اُجرت کے مساوی دیا جاتا ہے، تاہم تمام ریاستوں میں ایسا نہیں ہے۔ مثلاً کولوراڈو میں محنتانہ دو ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ مگر نجی اور ٹھیکے داروں کے زیرانتظام جیلوں میں اس حوالے سے صورت حال بدترین ہے۔ یہاں قیدیوں کو 17سینٹ فی گھنٹہ ملتے ہیں۔ قیدیوں کو سب سے زیادہ اُجرت دینے والی نجی جیل ٹینیسی میں واقع اور سی سی اے کے زیرانتظام ہے۔

یہاں قیدیوں کو 50 سینٹ فی گھنٹہ دیے جاتے ہیں، مگر۔۔۔۔۔ یہ معاوضہ بھی ہنرمند اور فنی مہارت رکھنے والے قیدیوں ہی کو ملتا ہے۔ غیرہنرمند قیدیوں کو اس سے نصف ہی ملتے ہیں۔ اس طرح نجی جیلوں کے مقابلے میں ریاستی جیلوں میں قیدیوں کو دیا جانے والا معاوضہ کئی گنا بہتر ہے، اگرچہ وہ بھی کم ہے۔

جیل کے قیدیوں کی صورت میں دستیاب سستی افرادی قوت نے امریکا کو سرمایہ کاری کے لیے ایک بار پھر پُرکشش ملک بنادیا ہے۔ کئی کمپنیوں نے اپنے پلانٹ جیلوں کے اریب قریب قائم کرلیے ہیں، جب کہ کئی ادارے اپنے ملازمین کو فارغ کرکے نجی جیلوں کو کام آئوٹ سورس کررہے ہیں۔ مثلاً گذشتہ دنوں ٹیکساس میں قائم ایک کمپنی نے 150ملازمین فارغ کرکے ’’ لاک ہارٹ ٹیکساس پریزن‘‘ کو کام آئوٹ سورس کردیا۔ اس نجی جیل میں آئی بی ایم اور کومپیک جیسے کمپیوٹر ساز اداروں کے لیے سرکٹ بورڈز اسمبل ہوتے ہیں۔

٭ ریاستیں نجی جیلوں کو قیدیوں سے پُر رکھنے کی پابند
نجی جیل کی صنعت کے کرتا دھرتائوں نے نفع کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے ریاستی حکومتوں سے ایسے معاہدے بھی کررکھے ہیں جن کی رُو سے حکومت ان کے زیرانتظام جیلوں کو قیدیوں سے بھرا رکھنے کی پابند ہے۔ اگر ان جیلوں کو مطلوبہ تعداد میں قیدی مہیا نہیں کیے جاتے تو حکومت ہر خالی بستر کے عوض انھیں ہرجانہ ادا کرتی ہے۔

ایریزونا میں تین نجی جیلیں چلانے والی کمپنیوں نے حکومت سے معاہدہ کر رکھا ہے جس کے تحت حکومت ان جیلوں کو گنجائش کے مطابق قیدی فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ایک بھی قیدی کم ہونے کی صورت میں حکومت انھیں اضافی معاوضہ ادا کرتی ہے۔

2012ء میں سی سی اے نے 48 ریاستوں کے گورنروں کو مزید سرکاری جیلوں کا انتظام سنبھالنے کی پیش کش کی تھی۔ سی سی اے کی پیش کش کے مطابق وہ بیس سال تک جیلوں کا انتظام و انصرام سنبھالتی مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس عرصے کے دوران جیلیں اپنی گنجائش کا 90 فی صد تک بھری رہیں گی۔

اگرچہ سی سی اے کی یہ پیش کش کسی ریاست نے قبول نہیں کی تھی مگر کئی کمپنیاں ریاستی حکومتوں کے ساتھ اس نوع کے معاہدے کرنے میں کام یاب ہوچکی ہیں، اور کئی اس کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ ایریزونا کے علاوہ لوئزیانا، اوکلاہاما ، ورجینیا، کولوراڈو سمیت کئی ریاستیں ٹھیکیداروں سے اس طرح کے معاہدے کرچکی ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت ریاستیں نجی جیلوں کو 95 سے 100فی صد تک بھرا رکھنے کی پابند ہیں۔

ان ریاستوں میں ایک عشرے کے دوران جرائم کی شرح کم ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ریاست نجی جیلوں کو معاہدے کے مطابق قیدی مہیا نہیں کرپائی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جرائم میں کمی کے باعث دس برسوں کے دوران کولوراڈو میں پانچ سرکاری جیلیں بند ہوچکی ہیںِ، کیوں کہ معاہدے کے مطابق نجی جیلوں کی گنجائش پوری رکھنے کے لیے مجرموں کو وہاں بھیج دیا جاتا ہے۔

اس کے باوجود ان جیلوں میں گنجائش سے قیدی کم ہیں۔ یوں معاہدے کے مطابق جیلوں کو بھرا رکھنے میں ناکامی پر ریاستیں ٹھیکے داروں کو اب تک 20لاکھ ڈالر بہ طور ہرجانہ ادا کرچکی ہیں۔ یہ ہرجانہ اس لگی بندھی رقم کے علاوہ ہے جو ریاست ہر ’ بستر ‘ کے بدلے میں جیل کے ٹھیکے دار کو ادا کرتی ہے۔ اس طرح نجی جیلوں کو مطلوبہ تعداد میں قیدی نہ دینے کا ریاست کو دہرا نقصان ہوتا ہے۔ وہ ٹھیکے دار کو معاہدے کی رُو سے جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش کے مطابق رقم ادا کرتی ہے اور پھر قیدی کم ہونے پر اسے ہرجانہ بھی بھرنا پڑتا ہے۔

’’اِن دی پبلک انٹرسٹ ‘‘ نامی نج کاری مخالف ادارے نے گذشتہ برس ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ یہ رپورٹ ملک بھر میں ریاستی اور مقامی سطح پر چلائی جانے والی نجی جیلوں اور ریاستوں کے درمیان طے پانے والے 62 معاہدوں کے جائزے پر مبنی تھی۔

اِن دی پبلک انٹرسٹ کے مطابق 62 میں سے 41 معاہدوں میں یہ شرط شامل تھی کہ ریاستی یا مقامی حکومتیں ان جیلوں کو 80سے 100 فی صد تک پُر رکھنے کی پابند ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جرائم میں کمی بیشی سے قطع نظر حکومتیں ان جیلوں کو قیدیوں سے بھرا رکھنے کی پابند ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سی سی اے، جی ای او گروپ، اور مینجمنٹ اینڈ ٹریننگ کارپوریشن سمیت، نجی جیلیں چلانے والی تمام بڑی کمپنیاں حکومت سے کیے جانے والے معاہدوں میں جیلوں کی گنجائش سے متعلق شرط ضرور شامل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں ’’ تھری اسٹرائیک‘‘ اور ’’ ٹُرتھ اِن سنٹینسنگ‘‘ جیسے قوانین بھی انھی کمپنیوں کی حمایت کے باعث وجود میں آئے جو جیلوں کی ’آبادکاری‘ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

٭نجی جیلوں پر تنقید
امریکا میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے اور مختلف تنظیمیں جیلوں کی نج کاری اور نجی جیلوں کے حوالے سے حکومت پر تنقید کرتی رہتی ہیں۔ نجی جیلوں اور ٹھیکے داروں کے زیرانتظام سرکاری جیلوں میں قیدیوں کی حالتِ زار اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے ساتھ ساتھ، جیلیں ٹھیکے پر دینے کے حکومتی اقدام کی افادیت پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں مگر کوئی ان سوالوں کے جواب دینے کو تیار نہیں۔ نجی جیلوں کے حوالے سے صورت حال واضح کرتی ہے کہ اس صنعت سے وابستہ سرمایہ دار بہت بااثر ہیں۔

ان کے لیے کسی بھی آواز کو دبا دینا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سخت تنقید کے باوجود، حکومت نجی جیلوں اور سرکاری جیلوں کو ٹھیکے پر دینے کے حوالے سے نہ تو کوئی وضاحت جاری کرتی ہے اور نہ ہی قیدیوں کی حالت زار اور ان سے غلاموں جیسے برتائو کی تحقیقات کے سلسلے میں کچھ کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔