ماں کے بیٹے

عبدالقادر حسن  اتوار 10 مئ 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے تنخواہ دار اور ان کی نگرانی میں پاک فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے جب اپنے آقا سے بغاوت کر کے انھیں اقتدار اور ملک دونوں سے برطرف اور عاق کر دیا تو وہ اپنے بھرے پرے خاندان کے ساتھ نہ جانے کس دردناک کیفیت میں ملک چھوڑ گئے۔ شریک اقتدار میاں شہباز شریف سے بعد میں ایک بار ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ میں نے تو ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ سب نے اصرار کیا مگر میں نہ مانا لیکن جب والدہ نے حکم دیا کہ تم بھی چلو تو میں مجبور ہو گیا اور خاندان کے ساتھ ملک بدر ہو گیا۔

یعنی آخری حکم والدہ ماجدہ کا تھا۔ آج جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو میاں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بن کر اپنی والدہ ماجدہ کے قدموں میں بیٹھے ہیں۔ خبریں ہیں کہ آج کا دن یوم والدہ ہوتا ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں کے کلچر میں ہر دن ماں باپ کا ہوتا ہے اور ان کی خوشنودی پر اولاد کی زندگی کامیاب ہوتی ہے۔ ایک اخباری رپورٹر نے بتایا ہے کہ میاں صاحب لاہور پہنچ گئے ہیں اور ماں کی خدمت میں حاضر ہیں۔ خبر میں میاں نواز شریف کی والدہ ماجدہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا بھی ذکر ہے۔ وہ اسلام آباد میں رہنا پسند نہیں کرتیں۔ لاہور میں رہتی ہیں جہاں سب گھر والے آپی جی سے ذکر کرتے ہیں اور میاں صاحبان ان کو امی جی کہتے ہیں۔

انھیں مریم نواز اور ان کے شوہر سے بہت لگاؤ ہے۔ ان کے بچے ان کو دادو جی کہہ کر پکارتے ہیں۔ بہر کیف یہ ایک مشرقی گھرانا ہے اور مشرقی خاندانی روایات پر زندہ رہتا ہے۔ ان سب کے لیے ہر دن ماں کا دن ہے۔ الحمد اللہ کہ ہمارے ہاں اب تک خاندانی تعلق بہت مضبوط ہے جس سے مغربی دنیا قریب قریب محروم ہو چکی ہے۔ اگر کرسمس کے موقعے پر بوڑھے ماں باپ کو بچوں کا کرسمس کارڈ مل جائے تو وہ اس کارڈ کو سال بھر سامنے کسی جگہ سنبھال کر رکھتے ہیں اور ہر وقت اس کی زیارت کرتے رہتے ہیں۔

مغربی دنیا کو اب اپنی اس کمی اور محرومی کا احساس ہو رہا ہے۔ ایک بار پاکستان کی وزیراعظم بینظیر صاحبہ امریکا میں جہاز سے اتریں تو انھوں نے اپنا بچہ گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ اس حکمت عملی کا پتہ بعد میں چلا کہ امریکا میں خاندانی روایات کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بینظیر ایک روایت کو زندہ کر رہی تھیں ماں اور بچے کے تعلق سے۔

ماں کیا ہے دوستوں کی ایک مجلس میں ایک دوست کے برے حالات کا ذکر ہو رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا اس کی ماں زندہ ہے۔ جاننے والے نے بتایا کہ جی ہاں۔ اس پر یہ دوست کہنے لگا کہ وہ بچ جائے گا۔ ماں کی دعا اسے بچا لے گی۔ زندہ والدین تو بڑی نعمت ہیں۔ ہمیں تو حکم ہے کہ دعا بھی والدین کی قبر پر جا کر مانگا کرو۔ کسی مسلمان خاندان کی بنیاد ہی والدین کی نیک خواہشات پر استوار ہوتی ہے اور ایک مسلمان گھر میں آخری حکم والدین کا ہوتا ہے خصوصاً والدہ کا۔ یاد پڑتا ہے کہ ابتدائے جوانی میں ایک غلطی ہو گئی۔

والد صاحب کے ایک دوست نے مجھے روک کر کہا کہ لوگ کیا کہیں گے فلاں کے بیٹے نے یہ غلطی کی ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ میں تو ختم ہی ہو گیا اور پھر زندگی بھر یاد رہا کہ میری ہر حرکت کا گلہ میرے والد کو ملے گا جن کے احترام کا یہ حال تھا کہ وہ جس گلی سے گزرتے عورتیں منہ دیواروں کی طرف کر کے کھڑی ہو جاتیں یا چپکے سے کسی گھر میں داخل ہو جاتیں۔

اب ہم جب اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو ننگ اسلاف دکھائی دیتے ہیں۔ بات ماں سے ہو رہی تھی جس کا حکم ہر حکم پر فائز ہوتا ہے اور ایک مصدقہ واقعہ ہے کہ ایک بیٹے پر بہت ہی مشکل وقت آ گیا اور ان حالات میں مرحومہ والدہ کی روح اس قدر سرگرم رہی کہ اس سازش کا جو بنیادی کردار تھا وہ ختم ہی ہو گیا۔ تب والدہ کی روح کو قرار آیا اور ایک صبح اس پریشان حال بیٹے کے دل کو اچانک سکون مل گیا اور اس نے دوستوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مہربانی کر دی ہے، میری ماں کی دعائیں کارگر رہی ہیں۔

جیسا کہ عرض کیا ہے ہمارے اسلامی مشرقی خاندان کی بقا اور استحکام والدین اور خصوصاً والدہ کی وجہ سے ہے۔ خاندان کا ایک ایسا کردار جس کے خلوص پر شبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے اور خاندان میں ہر فرد پر اثر انداز یہ خلوص اور محبت کسی خاندان کی بقا کی ضامن ہے۔ مغرب والوں کو تو شاید ماں کے وجود کا کچھ احساس ہو گیا ہے جو وہ سال بھر میں ایک بار سہی ماں کو یاد کرتے ہیں لیکن جب میں اپنے اخباروں میں ماں کی بے حرمتی کی خبریں پڑھتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے۔

اب تو یہ خبر چھپتی ہے کہ ماں نے بیٹے کو نشے یا جوئے کے لیے رقم دینے سے انکار کیا تو بیٹے نے ماں کو قتل کر دیا۔ یہ صورتحال ایک نہایت ہی خطرناک مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس معاشرے میں ماں کی یہ اوقات باقی رہ جائے اس میں اور کیا کچھ نہیں ہو گا۔ مجھے یاد ہے کہ رپورٹنگ کے ابتدائی زمانے میں برسوں پہلے پہلی بار یہ خبر ملی کہ کسی بیٹے نے ماں کو قتل کر دیا ہے۔ میں یہ خبر لے کر گھبرا گیا کہ اب اس خبر کا کیا کروں، اسے چھاپوں یا دبا دوں۔ یہ بھی ڈر تھا کہ کوئی دوسرا اخبار اس کو چھاپ دے گا۔ چنانچہ اسی پریشانی میں ایڈیٹر کے پاس گیا اور بتایا کہ نظامی صاحب یہ خبر ہے کیا کریں۔

ایڈیٹر کو اپنی والدہ ماجدہ یاد آ گئی یا کیا ہوا کہ وہ بالکل چپ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد کہا کہ خبر کو ضایع کر دیں کوئی دوسرا چھاپتا ہے تو چھاپتا رہے، ہم یہ جرأت نہیں کر سکتے۔ میری صحافی زندگی میں پہلی ایسی خوفناک خبر تھی کہ جس نے سنی وہ ڈر گیا۔ غالباً یہ پہلی خبر تھی جس میں والدہ کے احترام کو ملحوظ نہ رکھا گیا۔ کچھ عرصہ تک تو پھر ایسی خبر نہ ملی لیکن اب میں دیکھتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں کہ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی خبر ایسی مل جاتی ہے جو اس بنیادی اور ٹھوس ترین رشتے کی توہین کرتی ہے۔

آپ ذرا غور کریں کہ ہمارا معاشرہ کس رنگ کو اختیار کر رہا ہے جس میں بیٹے بے خوف ہو کر ماں کی بے حرمتی کرتے ہیں اور اس کے ابدی احترام کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ ہمارے بزرگوں اور رہنماؤں کو ان خرابیوں پر سب سے پہلے توجہ دینی چاہیے کیونکہ ایک بار معاشرے کا تانہ بانہ ٹوٹ گیا تو پھر وہی زمانہ آئے گا جب ماں کے لیے سال میں ایک دن منایا جائے گا جب کوئی اپنی ماں کو یاد کرے گا اور باقی کا سارا سال ماں کے بغیر ہی گزار دے گا۔ خدا نہ کرے کہ ہم بھی سال کا کوئی ایک دن ماں کی یاد میں گزاریں اور باقی سارا سال اپنی مرضی سے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔