کیا تم بھی یوں ہی میرا خیال رکھو گے؟

شیریں حیدر  اتوار 10 مئ 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

تم آج اٹھارہ دن کے ہو گئے ہو، میری گود میں سفید نرم سے کپڑے میں لپٹے ہوئے سو رہے ہو۔ سونے سے قبل تم رو رہے تھے تو میں نے تمہیں دودھ پلایا، دودھ پی کر تمہیں کندھے سے لگا کر ڈکار دلایا کہ تمہارے پیٹ میں سے ہوا اور گیس کا اخراج ہو جائے اور تم پر سکون ہو سکو، اس کے بعد تمہارا ڈائپر چیک کیا، گندا تھا، اسے بدلا، تمہیں دھلایا، تولیے سے تمہارا نرم نرم اور نازک جسم صاف کیا ، پھر نیا ڈائپر لگا کر دوبارہ تمہیں کپڑے پہنا کر لپیٹا اور اپنے کندھے سے لگا کر نصف گھنٹے تک ٹہلتی رہی کہ تم سو جاؤ، میں بیٹھتی تو تم رونے لگتے، سو میں تمہیں لے کر ٹہلتی رہی اور سوچتی رہی کہ اب تم سوؤ گے تو دو گھنٹے تک سوتے رہو گے، ان دو گھنٹوں میں مجھے درجنوں کام کرنا ہیں۔

اسی دوران کھانا بھی پکانا ہے، برتن بھی دھونا ہیں، خود نہا کر لباس استری کر کے بدلنا ہے، تمہارے ننھے ننھے کپڑے دھونا ہیں، اپنے کمرے کی صفائی کرنا ہے، کوشش کرتی ہوں کہ یہ سب کام اس دوران میںکروں جب تم سو رہے ہوتے ہو۔ جب تم جاگتے ہو تو تمہیں میری پوری توجہ چاہیے ہوتی ہے، تمہیں نظر انداز کیا جانا پسند نہیں۔ میں تمہارے نرم نرم چھوٹے سے پاؤں دیکھ کر سوچ رہی ہوں کہ ایک دن آئے گا جب تم ان پر کھڑے ہو سکو گے،ا بھی تو تم اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لیے بھی میرے محتاج ہو، نہ تم بول کر کچھ بتا سکتے ہو نہ کوئی اور طریقہ ہے جاننے کا کہ تم کیوں روتے ہو، مگر ماں ہوں نا تو ہر بار جان جاتی ہوں کہ تم کیوں رو رہے ہو۔

کبھی تم سردی سے روتے ہو، کبھی گرمی سے، کبھی بھوک سے اور کبھی پیاس سے، کبھی چونک جاتے ہو اور کبھی ڈائپر گندا ہو جانے سے۔ میرا بس نہیں چلتا کہ میں تمہیں ایک لمحہ بھی نہ رونے دوں، تم روتے ہو تو میری رگوں میں خون کی گردش اور میرے ہاتھوں کی حرکت ، دونوں تیز ہو جاتی ہیں۔ عموماً تو تم بے آنسو روتے ہو مگر کبھی کبھار تمہاری ان چمک دار آنکھوں سے ایک ہیرا نما آنسو ٹپک پڑتا ہے تو میرا دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔

میں تمہیں ہر اس چیز سے دور رکھنے اور بچانے کی کوشش کرتی ہوں جو تمہیں رلاتی ہے خواہ وہ کسی کے کھردرے ہاتھ ہوں یا موسم کی سردی گرمی، بھوک یا پیاس۔ تمہیں دیکھتے دیکھتے سوچتی ہوں کہ صرف انسان کے بچے کو ہی اللہ تعالی نے اتنا بے بس کیوں بنایا ہے، (جانوروں کے بچے تو اسی وقت اپنے پیروں پر بھی کھڑے ہو جاتے ہیں) صرف اس لیے نا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ابتدائی وقت ماں کی گود میں گزاریں، ماں کو پہچانیں، اس کے لمس اور اس کی خوشبو سے آشنا ہوں، اس کی آواز سے اسے جاننے لگیں۔

ماں کے لیے درجات رکھے تو اسی لیے کہ وہ اس بے بس سی مخلوق کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرتی ہے ، اس کی تکلیف پر تڑپ اٹھتی ہے اور اس کی مسکراہٹ سے جی اٹھتی ہے۔ اس کی پیدائش سے پہلے اس کا بوجھ اٹھاتی ہے، بعد ازاں اپنی گود میں پروان چڑھاتی ہے، اپنے دودھ سے اسے سینچتی ہے، اپنا سکون اور آرام تج کر اسے سکون پہنچاتی ہے۔ اس کے لیے دنیا کی سب سے قیمتی چیز اس کے بچے کی مسکراہٹ ہے، اس کی خوشی ہے، اس کی کھلکھلاہٹ ہے۔

جب تم پاؤں پاؤں چلنے لگو گے تو مجھے اور بھی چستی سے رہنا ہو گا کہ کوئی چیز تمہیں نقصان نہ پہنچا دے، کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر تم گر نہ پڑو، تمہارا پاؤں کہیں زمین پر ٹیڑھا نہ پڑ جائے۔ پھر تم بھاگنے لگو گے ، دنیا میں انسان ایک دوڑ میں شامل ہیں، تم بھی اس دوڑ میں شامل ہو جاؤ گے، ایک دن تم  اسکول جاؤ گے۔ وہاں تمہیں سنگی ساتھی ملیں گے، استاد ملیں گے تو جو وقت پہلے سارے کا سارا فقط میرا تھا، وہ وقت تقسیم ہو جائے گا، تم دن کے کئی گھنٹے اسکول گزار کر آؤ گے، تمہارے پاس سنگی ساتھیوں کی باتیں ہوں گی جو تم مجھے سنایا کرو گے، کس نے تم سے کیا کہا، تم نے کس سے کیا کہا!!!

وقت گزر جائے گا، تم لڑکپن کی حدود میں داخل ہو جاؤ گے، میری گود چھوٹی پڑ جائے گی، تم لڑکپن کی حدود سے نکلو گے تو میری گود سے بھی نکل جاؤ گے، میرے اور تمہارے بیچ جھجک آ جائے گی، تم اپنی ماں سے کھنچنے لگو گے، میری نظر میں تو تم وہی میرے ننھے شہزادے رہو گے مگر تمہارا لڑکپن جوانی میں ڈھلے گا تو تم میرا احترام کرنے لگو گے، پیار کے عملی مظاہرے زبانی باتوں تک آ جائیں گے، زندگی ایک جہد مسلسل ہے، تم بھی اس جہد مسلسل کا حصہ بنو گے، پڑھ لکھ کر عملی زندگی میں قدم رکھو گے،ملازمت کرو گے،پھر تمہاری گفتگو کے موضوعات تبدیل ہو جائیں گے۔

تمہاری زندگی میں باس اور ماتحت آ جائیں گے، تمہیں ان سے شکایات ہوں گی، تم سب باتیں مجھے سنایا کرو گے!! میں تمہاری باتیں سنوں گی، مسکراؤں گی اور کبھی ہنسوں گی، تمہاری رہنمائی کروں گی، یہ میرا فرض ہے۔میں نے ہی تمہیں سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیز سکھانا ہے، میں نے ہی تمہیں برداشت اور صبر کے اسباق سکھانا ہیں، میں نے ہی تمہیں سمجھانا ہے کہ صرف حقوق نہیں بلکہ فرائض بھی اہم ہیں، دوسروں کو بھی برداشت کرنا ہے اور اپنا رویہ بھی بہتر کرنا ہے، غصے پر قابو پانا ہے اور جذبات کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ دوسروں کی زیادتیوں پر انھیں معاف کر دینا اچھا ہوتا ہے۔ میں نے ہی تمہیں سکھانا ہے کہ ہمارا مذہب کیا ہے،اس کی تعلیمات کیا، معاشرت کیا ہے، معاشرے کے تقاضے کیا، محبت قربانی کا دوسرا نام ہے، صبر بہترین عادت اور مسکراہٹ بہترین ہتھیار، میں یہ سب کچھ تمہیں سکھاؤں گی، انشاء اللہ!!!

ابھی میں صحت مند اور توانا ہوں، مجھ میں ہمت بھی ہے اور سکت بھی، جسمانی تھکاوٹ میری اور تمہاری محبت میں حائل نہیں ہوتی، تم میری اولین اور تنہا مصروفیت ہو، دنیا کی ہر مصروفیت اور ہر کام تم پر نثار۔ میرا آرام کوئی معنی نہیں رکھتا، میرا سکون تمہیں اپنی گود میں لے کر رہنے میں ہے، میں رات رات بھر بھی تمہاری تکلیف پر جاگتی رہوں گی اور پھر دن کو اپنے معمول میں جت جاؤں گی تو کوئی حرج نہیں۔ میں تمہاری ہر عمر میں ، زندگی کے ہر موڑ پر، ہر امتحان کے وقت، ہر تکلیف اور بیماری میں، ہر آزمائش میں، تمہارے ساتھ سائے کی طرح رہوں گی، جب تک میری زندگی ہے میرا ہر عضو تمہارے لیے دعا گو رہے گا۔ جب مجھ میں کام کار کی سکت ختم ہو جائے گی تو فقط میرے ہونٹوں سے تمہارے لیے دعاؤں کے تحفے نکلیں گے، تمہاری صحت کے لیے، خوشیوں کے لیے!!!

تمہاری زندگی رخ بدلے گی، تمہارا گھر ایک دن بسے گا، اس میں ننھے ننھے بچوں کی کلکاریاں گونجیں گی، ایسے ہی جیسے آج ہمارے آنگن میں تمہاری… اس وقت تم توانا ہو گے اور میں کمزور اور ناتواں ۔ میں حسرت سے تمہاری طرف دیکھوں گی کہ وقت آ گیا ہے کہ تم میری ریاضتوں اور خدمتوں کا صلہ مجھے دو، میں نے تمہاری تکلیف میں راتیں جاگی ہیں تو تمہیں بھی میری تکلیف میں تڑپ ہو گی، مجھے بھی تم موسموں کی سختیوں سے بچاؤ گے، بیماری اور کمزوری سے جو میں اپنے ہاتھوں سے کھانا نہ کھا سکوں گی تو تم میرے پاس بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا کر مجھے کھلاؤ گے، میری تکلیف دور کرنے کے لیے مجھے دوا دارو دو گے، میرے پاس بیٹھ کر باتیں کرو گے، کچھ میری سنو گے کچھ اپنی سناؤ گے۔ میری ضرورتوں کا خیال رکھو گے اور میرے آرام اور سکون کا، جس بات سے مجھے تکلیف پہنچتی ہو اس بات سے گریز کرو گے، مگر… یہ سب میری غلط فہمی ہے، اسی طرح جس طرح دنیا کے باقی تمام ماں باپ کی غلط فہمی ہوتی ہے۔

اتفاق سے اولادکی محبت ایک ایسا پودا ہے جس پر محبت کی مہک ہمیشہ رہتی ہے مگر اس پر پھول یا پھل اسی طرح لگتے ہیں جیسے نرگس کے پودے پر کہیں ہزاروں سال میں کوئی پھول کھلتا ہے۔ اولاد سے تعلق کا درخت ایک ایسا درخت ہے جو ماں باپ کے وجود میں اپنی جڑیں گاڑ لیتا ہے مگر کسی درخت کے پتے جڑوں کی طرف واپسی کا سفر نہیں کرتے بلکہ یہ اوپر ہی اوپر کی طرف بڑھتے ہیں، ان سے نکلنے والے محبت کے بیچ ان کی اپنی اولاد کے دلوں پر گرتے ہیں۔ جو وقت آج مجھ پر ہے وہ کل تم پر بھی آئے گا، ایک ایسا ہی دن ہو گا، تمہاری گود میں تمہارا اپنا بچہ ہو گا، تم میری طرح سوچ رہے ہو گے، پھر تم میری طرح چونک جاؤ گے جیسے ابھی میں کچھ یاد آنے پر چونکی ہوں ، میں نے فون کا چونگا اٹھایا ہے، مجھے یاد آیا ہے کہ آج ماؤں کا عالمی دن ہے، کم از کم فون کر کے اپنی ماں کو اس دن کی مبارک باد تو دے دوں ، تم بھی ایک دن اسی طرح مجھے مبارک باد کی کال تو کرو گے نا؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔