بالآخر ’’وہ خط‘‘ لکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا

نصرت جاوید  جمعرات 11 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

مجھے اچھا تو کیا درست اور فصیح زبان میں لکھنا بھی نہیں آتا۔

لیکن ایک بات پر اپنے ربّ کا ہمیشہ شکر گزار رہا ہوںکہ جب بھی قلم اُٹھایا اپنے کالم کو ایک ہی نشست میں لکھ کر ختم کیا۔ بدھ کی صبح اس لیے بڑی انہونی سی لگ رہی ہے کہ ابھی تک پانچ صفحات کچھ سطریں لکھ کر پھاڑ چکا ہوں۔ میرا دل بڑی وحشت و بے بسی کے ساتھ ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذکر کرنا چاہ رہا ہے۔ اپنے ربّ سے بڑی التجائوں کے ساتھ بیٹیوں کا باپ بننے کی دُعائیں مانگی تھیں۔ اس نے کرم کیا۔ مگر اب وہی بچیاں اے اور اولیول کے امتحانوں میں اعلیٰ نمبر لینے کو مری جاتی ہیں۔ ملالہ پر ہونے والے حملے کے بعد ان بے چاریوں کی دیوانوں کی طرح رٹے لگاتی ہوئی صورتیں سامنے آ جاتی ہیں۔ دل اس خدشے سے کانپ جاتا ہے کہ کسی دن اسلام آباد پر بھی میرے اور آپ سے کہیں ’’بہتر مسلمان‘‘ ہونے کے دعویدار نازل ہو جائیں گے اور پتہ نہیں میری بچیاں خیر خیریت سے اسکول سے گھر واپس بھی آ سکیں گی یا نہیں۔

میں اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے وزیر قانون اور سپریم کورٹ کا شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھے ملالہ پر کالم لکھنے کی اذیت سے بچا لیا۔ اور ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے ذریعے اطلاع پہنچا دی کہ بالآخر ’’وہ خط‘‘ لکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ہماری آزاد عدلیہ بالا دست ٹھہری اور چار سے زیادہ سال تک مسلسل چلنے والا قضیہ تمام ہوا۔ ہمارے لوگوں کا مسئلہ پھر بھی یہ ہے کہ ماضی کو بھلا کر آنے والے دنوں کی تیاری نہیں کرتے۔ مجھے آنے والے ٹیلی فون ختم ہو کر ہی نہیں دے رہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے لامتناہی پیغامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

پیغامات بھیجنے والوں کی اکثریت بڑے طنزیہ انداز میں مجھے یاد دلا رہی ہے کہ ’’میری توقعات کے برعکس‘‘ وہ خط لکھنے کا اقرار ہوا۔ ان کے طنز بھرے پیغامات سے بجائے ناراض ہونے کے مجھے دُکھ اس بات کا ہو رہا ہے کہ میں اس کالم کے ذریعے اپنے خیالات کا صحیح طریقے سے اظہار کرنے کا طریقہ ہی نہ ڈھونڈ سکا۔ اپنی دانست میں تو میں اب تک صرف یہ عرض کرتا رہا تھا کہ راجہ پرویز اشرف کو ’’وہ خط‘‘ لکھنا ہو گا ورنہ ان کا انجام یوسف رضا گیلانی سے مختلف نہ ہو گا۔ اس معاملے میں کوئی ’’درمیانی راستہ‘‘ نہیں ہے۔

مجھے اب بھی یہ گمان ہے کہ راجہ پرویز اشرف ’’اس خط‘‘ کو اسی مضمون کے ساتھ لکھ رہے ہیں جس کا سپریم کورٹ تقاضہ کر رہی تھی۔ جی ہاں مقامی اور بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے سربراہان مملکت کے لیے موجود کچھ رعایتوں کا ذکر اس خط میں ضرور ہوا ہے۔ مگر ملک قیوم کی جانب سے لکھے گئے خط کی واپسی کے بعد سوئٹزرلینڈ کی آزاد عدالتیں اس معاملے کو اپنے قوانین کے مطابق طے کریں گی۔ میں تو کیا ہمارے وکلاء کی اکثریت بھی صرف ان قوانین اور روایتوں سے واقف ہے جو ایکAnglo Saxon قوم یعنی برطانیہ نے متعارف کرائی تھیں۔

یہ قوانین بھارت، بنگلہ دیش، آسٹریلیا وغیرہ میں ابھی تک رائج ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ وہاں رہنمائی نپولین اور اس کے بعد آنے والوں کے بنائے قوانین اور روایتوں سے حاصل کی جاتی ہے اور مجھے ان کے بارے میں ذرا سی شدبد بھی نہیں ہے۔ چلتے چلتے یہ ذکر بھی کر دوں کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھنے پر رضا مند ہو جانے کے بعد آصف علی زرداری کی مشکلات کم نہیں ہوئی ہیں۔ بدھ کا فیصلہ آ جانے کے چند ہی لمحوں بعد ہماری سیاست میں صداقت و دیانت کو راہ نما اصول بنانے والے پارسا ماہرین اور تبصرہ نگاروں نے قوم کو یاد دلانا شروع کر دیا ہے کہ آصف علی زرداری نام کے ایک پاکستانی کے لاکھوں ڈالر صرف سوئس بینکوں ہی میں نہیں رکھے گئے۔

پاکستان اور اس کے شہریوں کو اسپین میں مبینہ طور پر خریدی گئی جائیداد کا پتہ بھی چلانا ہے۔ پھر ایک کمپنی اور بھی تو تھی جس کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو پر رحمٰن ملک کی شراکت داری میں صدام حسین کے عراق سے تیل خرید کر عالمی منڈیوں میں بیچنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاپا فروش اینکروں اور پارسا لکھاریوں کی توجہ اس طرف مبذول ہو جائے گی۔

فی الوقت پیغام ملا ہے تو یہ کہ راجہ پرویز اشرف گھر نہیں جا رہے۔ آیندہ انتخابات کرانے کے لیے بنائی جانے والی عبوری حکومت کے قیام تک اپنے عہدے پر براجمان رہیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ان کی ممکنہ نا اہلی کے بعد ایک اور وزیر اعظم ڈھونڈ کر اسے قربانی کے لیے پیش کرنے کی مشقت سے بچنے کا سامان بھی ہو گیا۔ اﷲ اﷲ خیرصلا۔

ایسے موقعوں پر مجھے وہ لوگ بہت عجیب لگ رہے ہیں جو صاف نظر آنے والے جعلی اور منافقانہ تاسف کے ساتھ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر خط ہی لکھنا تھا تو یوسف رضا گیلانی سے کیوں نہ لکھوا لیا گیا۔ ایسے سوالات کا مقصد گیلانی صاحب سے ہمدردی کا اظہار ہر گز نہیں۔ محض اس شک کو حقیقت کا روپ دلانا ہے کہ شاید بہت سارے معاملات کی وجہ سے آصف علی زرداری بذات خود ملتان کے مخدوم سے جان چھڑانے کا سوچ رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے ’’اس خط‘‘ کے بارے میں ضد اختیار کرتے ہوئے ان کا کام آسان کر دیا۔

گیلانی اب کیا کریں گے؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ مجھے ان کے دربار تک کبھی بھی رسائی نہیں رہی۔ وہ میری شکل سے واقف ہیں۔ سرِ راہ مل جائیں تو بڑے مہذب انداز میں حال احوال پوچھ لیتے ہیں۔ چند وزراء اور صحافی ان کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں ان کے بڑے قریب سمجھے جاتے تھے۔ سوائے ایک نامور صحافی کے اب شاید ہی کوئی دوسرا ان سے فون پر رابطہ کرنے کا تردد بھی کرتا ہے۔ جو وزراء ان کے چہیتے سمجھے جاتے تھے آج کل اسی ’’جذباتی لگن‘‘ سے راجہ پرویز اشرف کی جی حضوری کرتے اور گن گاتے نظر آتے ہیں۔ میں ہر گز اس قابل نہیں ہوں کہ گیلانی صاحب کی آیندہ دنوں کے لیے تیار کی گئی حکمت عملی کے بارے میں قطعیت سے کچھ کہہ سکوں۔

یہ کالم لکھنے سے تھوڑی دیر پہلے میں چند لمحوں کے لیے قومی اسمبلی بھی گیا تھا۔ وہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے بہت سارے ازلی جیالے فاروق نائیک کی ’’مہارت اور معاملہ فہمی‘‘ کے بارے میں بڑے مسرور نظر آئے اور بڑی حقارت سے ڈاکٹر بابر اعوان کی ’’شعبدہ بازیوں‘‘ کا ذکر کرتے رہے۔ مجھے اس وقت مزید دُکھ ہوا جب میڈیا سے تعلق رکھنے والے دو تین لوگوں نے جو ڈاکٹر بابر اعوان کے عروج کے دنوں میں ان کی مدح سرائی میں مصروف رہا کرتے تھے، سابق وزیر قانون کا کچھ اسی انداز میں ذکر کیا۔ میں نے بابر اعوان کے عروج کے دنوں والی رعونت ذاتی طور پر بھگتی ہے اور چند حوالوں سے اس کا سرسری ذکر اس کالم میں بھی کر چکا ہوں۔ پھر بھی اپنے کچھ ساتھیوں کے رویے پر دُکھ ہوا۔ دنیا واقعی بڑی ظالم جگہ ہے۔

دنیا والوں کی سنگ دلی کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو مجھے یہ بھی لکھ دینا ہو گا کہ آج قومی اسمبلی کی راہداریوں میں چوہدری اعتزاز احسن کا بھی بڑا ذکر ہوا۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ اکثریت اس امر پر ملال کرتی نظر آئی کہ اگر خط ہی لکھنا تھا تو کم از کم پیپلز پارٹی کے اس جیالے بیرسٹر سے ہی لکھوا لیا جاتا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کی معزولی کے بعد اعتزاز احسن نے ان کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی تحریک کی کمان سنبھال لی تھی۔ وہ کئی کئی گھنٹے جج صاحب کو اپنی جیپ میں بٹھا کر احتجاجی ہجوموں تک لے جاتے رہے۔

اسی تحریک سے لگن کے باعث انھوں نے 2008ء کے انتخابات میں بھی حصہ نہ لیا۔ انتخابات کے بعد بھی کھلے عام کہتے رہے کہ ’’وہ خط‘‘ لکھنے میں کوئی حرج نہیں جس کا تقاضہ سپریم کورٹ کر رہی ہے۔ بالآخر نہ جانے کیا ہوا کہ یہی اعتزاز احسن، آصف علی زرداری کے دوبارہ دلدار بن گئے۔ اپنی تقریر ادھوری چھوڑ کر صدر پاکستان نے انھیں گڑھی خدا بخش میں محترمہ کی برسی منانے کے لیے جمع ہجوم سے خطاب کرنے کی عزت بخشی۔ بعد ازاں انھیں سینیٹ میں بھی لے آیا گیا۔ مگر پھر یہی اعتزاز احسن، یوسف رضا گیلانی کے وکیل بنے اور اپنے موکل کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام رہے ۔

چوہدری صاحب سے میری بڑی پرانی یاد اﷲ ہے۔ ہمارے تعلقات میں اُتار چڑھائو بھی آتے رہے۔ مگر اس وقت مجھے واقعی بڑا دُکھ محسوس ہوتا تھا جب ’’کل کے بچے‘‘ نظر آنے والے نوجوان وکلاء اسلام آباد کی محفلوں میں اعتزاز احسن کے ان دلائل کا مذاق اُڑاتے جو وہ سپریم کورٹ کے روبرو یوسف رضا گیلانی کے دفاع میں پیش کیا کرتے تھے۔ ان کی اکثریت یہ دعویٰ کرتی کہ چوہدری صاحب نے محض سینیٹ میں جانے کے لیے اپنی برسوں کی محنت سے بنائی ساکھ کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ چوہدری صاحب کے دل پر آج کل کیا بیت رہی ہے۔ میں یہ بھی نہیں جانتا، دیکھیے وہ کب اور کیا بولتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔