سلمان، ایان، مرزا اور مایا

عمر قاضی  پير 11 مئ 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

سلمان خان کو ملنے والی سزا نے انڈیا کی فلم انڈسٹری میں صف ماتم بچھا دی ہے، کیوں کہ اس مقبول اداکار کو سزا ملنے کے باعث فلم انڈسٹری میں جن تاجروں نے اربوں روپوں کی انویسٹمنٹ کی ہے وہ انھیں ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ وہ لوگ پورا زور لگارہے ہیں کہ کسی طرح سے سلمان خان سزا سے بچ جائے۔ انھیں سلمان خان سے کوئی ہمدردی نہیں، انھیں صرف اپنے پیسے کی فکر ہے مگر سلمان خان کی سزا پر ان کے پرستاروں کی دل پر جو قیامت برپا ہے اس کا سبب پیسہ نہیں، وہ ایک ایسا پیار ہے جس کو وہ لوگ سمجھا بھی نہیں سکتے کہ وہ سلمان خان سے کیوں محبت کرتے ہیں؟

ان سے اگر پوچھا جائے تو وہ یہ ہی کہیں گے کہ وہ ہمیں اچھا لگتا ہے۔ وہ ہمارا ہیرو ہے! مگر یہ ہیرو اپنے اعمال کی وجہ سے نہیں بنا۔ وہ ہیرو بنا نہیں ہے بلکہ بنایا گیا ہے کیونکہ سلمان خان نے آج تک ایسا کوئی کام نہیں کیا جس کی وجہ سے لوگوں کے دل میں اس کے لیے محبت کے آبشار پھوٹے ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ امیر لوگ اپنے معلوم اور نامعلوم گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے خدمت خلق کا چھوٹا موٹا کام بھی کرتے ہیں۔ وہ کوئی این جی او بناتے ہیں اور اپنی جیب سے کم اور اپنے امیر چاہنے والوں کی جیب سے زیادہ رقم نکال کر اس میڈیا میں اپنا انسان دوست کردار بھی نمایاں کرتے ہیں جو میڈیا درحقیقت ان کی شہرت کی بنیاد ہوا کرتا ہے۔

اس وقت سلمان خان اور ان کے کاروباری ساتھیوں کا پورا زور میڈیا پر ہوگا کیونکہ وہ سب میڈیا کی طاقت کو جانتے ہیں۔ اگر میڈیا ان کے حق میں ایک حد سے آگے بڑھ گیا توشاید اسے معافی بھی مل جائے۔ اور میڈیا میں وہ لوگ اپنے کاروبار کو پہنچنے والے نقصان کا تذکرہ تک نہیں کرتے بلکہ وہ اس بات کو چھپاتے ہیں اور آگے لاتے ہیں، وہ معصوم پرستار جو بچوں کی طرح سلمان خان کی بڑی تصاویر اٹھائے مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں۔

ایک امیر اداکار اور خوش شکل اور خوشحال انسان کے لیے تو سب کے دلوں میں ہمدردی ہے مگر افسوس کہ اس غریب انسان کے لیے کسی کے دل میں ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں جو غربت کی وجہ سے فٹ پاتھ پر سو رہا تھا اور سلمان خان نے اس پر اس لیے گاڑی چڑھا دی کیونکہ شراب کے نشے میں آؤٹ تھا۔ اب سلمان خان کے حامی وکلا یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ فٹ پاتھ سونے کے لیے نہیں ہوتے۔ کون کہتا ہے کہ فٹ پاتھ سونے کے لیے ہوتے ہیں اور کون فٹ پاتھ پر خوشی سے سوتا ہے؟ مگر اس ہیرو کے حامیوں سے کوئی یہ سوال کیوں نہیں پوچھتا کہ اگر فٹ پاتھ سونے کے لیے نہیں ہوتے تو کیا فٹ پاتھ اس لیے بنائے گئے ہیں کہ کوئی اداکار شراب کے نشے میں دھت ہوکر ان پرگاڑی چلائے؟

سلمان خان تو انڈیا کے قانون کے ہاتھوں میں قابو ہے مگر پاکستان کا قانون اس تتلی کے ساتھ کیا سلوک برتے گا؟ جو ہر پیشی پر عدالت میں اس طرح نمودارہوتی ہے جیسے وہ کورٹ میں نہیں بلکہ کسی فیشن شو میں شرکت کرنے آئی ہے۔ اس ملک میں لوگوں کے لاکھوں مقدمات چل رہے ہیں مگر کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آج کس کورٹ میں کس کی شنوائی ہے؟ مگر جس دن ماڈل ایان سج دھج کر کورٹ آنے والی ہوتی ہے اس دن صبح سے میڈیا والے کیمرے کے ساتھ اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود پائے جاتے ہیں۔ اگر ہمارا میڈیا قانون اور انصاف کو اس طرح اہمیت سے پیش کرے تو انصاف کی وہ گاڑی جو ہمیشہ آہستہ آہستہ چلتی رہتی ہے اس کی اسپیڈ بڑھ جائے۔ مگر ان عام لوگوں کے مقدمات سے میڈیا کو کوئی دلچسبی نہیں۔ وہ ایک ملزمہ کو نہیں بلکہ ایک ماڈل کو کور کرنے جاتا ہے اور وہ ماڈل جس کے بارے میں سب لوگ ’’سپر ماڈل‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ماڈلنگ ایک مقبول شعبہ ہے اور ماڈلز کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت کے جذبات بھی ہوا کرتے ہیں مگرہمارے لوگ اس بات پر کیوں نہیںسوچتے کہ وہ ماڈلنگ کی وجہ سے قید نہیں۔ وہ منی لانڈرنگ والے کیس کی ملزمہ ہے۔ آخر ہمارے میڈیا فگرز کو اس بات کا احساس کیوں نہیں کہ انھیں اپنے شعبے تک محدود رہنا چاہیے۔ جب کوئی فرد اپنے دائرے سے نکلتا ہے اور دولت کے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تب ایسے مشکل واقعات جنم لیتے ہیں مگر ہمارا میڈیا محرکات کو کہاں اہمیت دیتا ہے؟ جس طرح کہا جاتا ہے کہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، اسی طرح شہرت بھی شہرت کو کھینچا کرتی ہے۔ اس لیے جولوگ میڈیا کے لیے اہم ہیں وہ اگر تھوڑا سا بھی شور کریں تو میڈیا ان کی آواز کو پوری دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔ میڈیا ایک طاقت ہے اور میڈیا کو اپنی طاقت غلط رخ میں استعمال کرنے کے حوالے سے احتیاط برتنی چاہیے۔ اگر میڈیا غلط عمل کرنے والے شخص کو اہمیت سے پیش کرے گا تو کل یہ رجحان زیادہ طاقتور ہوگا۔

جی ہاں! میں میڈیا میں پیپلز پارٹی کے باغی رہنما ذوالفقار مرزا کی بات کررہا ہوں۔ وہ ذوالفقار مرزا جو پہلی بار کراچی پریس کلب میں اپنے سر پر پاک کتاب اٹھائے پریس کانفرنس کرنے آئے اور انھیں اس پریس کانفرنس کی وجہ سے اتنی شہرت ملی کہ وہ خود کو سندھ کا سب سے بڑا لیڈر سمجھنے لگا اور اس نے پہلے الطاف حسین اور بعد میں آصف زرداری کے خلاف احتجاج کا پرچم بلند کیا۔ اب وہ میڈیا کی آنکھوں کا تارہ بنا ہوا ہے۔ اس کی ہر حرکت پر میڈیا کی نظرکرم ہے۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے اس کے ساتھ اس کے ذاتی محافظ کم اور میڈیا کے لوگ زیادہ ہوا کرتے ہیں۔ میڈیا کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ میڈیا کے مزاج کو سمجھ گیا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ کس طرح آہستہ آہستہ میڈیا کو اپنے انکشافات کی معرفت اپنی طرف متوجہ رکھنا ہے۔

کیا اس ملک میں کوئی بھی باشعور شخص اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ مرزا پیپلز پارٹی سے بغاوت کرنے والا پہلا شخص نہیں۔ مگر آج تک کسی باغی کو اتنی اہمیت نہیں ملی جتنی اہمیت ذوالفقار مرزا کو مل رہی ہے۔ ہم نے حال ہی میں دیکھا کہ سیاسی دنیا کا مشہور باغی مخدوم جاوید ہاشمی میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کرسکا اس لیے وہ اپنے سارے اصولوں کے ساتھ گمنامی میں دفن ہوگیا۔ مگر مرزا کو میڈیا سے کھیلنے کا فن معلوم ہے۔ وہ مرزا جو جانتا ہے کہ اس کی طاقت صرف اور صرف میڈیا ہے۔ اگر آج میڈیا کے کیمرے اس سے رخ پھیرلیں تو وہ بہت جلد لوگوں کی یادداشت سے مٹ جائے گا۔ مگر میڈیا نہ صرف اس کو عوام پر مسلط کررہا ہے بلکہ اسے مقبول بنا رہا ہے۔ وہ آج کل سے زیادہ مقبول ہے۔ کیا یہ رجحان ہمارے معاشرے کے لیے اچھا ثابت ہوگا؟

اس سوال پر سوچنے کے لیے میڈیا کے پاس وقت کہاں ہے؟ میڈیا کے پاس تو اس سوال پر سوچنے کا وقت بھی نہیں کہ مرزا کا معاملہ سیاسی ہے یا نہیں؟ سب جانتے ہیں کہ مرزا کا اپنے پرانے دوست اور نئے دشمن کے ساتھ مالی معاملات پر اختلاف ہے۔ لیکن وہ معاملات میڈیا پر تحقیق کا موضوع نہیں بنتے۔ میڈیا صرف سطحی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ سلمان خان ہو یا ایان یاذوالفقار مرزا یہ سب کردار جو میڈیا کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں آج تک میڈیا کی گود میں کھیل رہے ہیں، ان سب کا مسئلہ معاشی ہے۔

اس لیے سلمان خان کو ملنے والی سزا دراصل انڈیا کی فلم انڈسٹری میں پیدا ہونے والا معاشی بحران ہے۔ اسی طرح سے ایان کا معاملہ بھی منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہے اور ذوالفقار مرزا بھی اپنے اثاثے بچانے کے فکر میں مبتلا ہیں۔ اس لیے بات قانون اور انصاف کی نہیں۔ اصل بات پیسے کی ہے۔ اردو ادب کے پیارے اور نیارے شاعر ابن انشا کی یہ بات ان تینوں کرداروں پر کتنی فٹ بیٹھتی ہے، وہ ابن انشا جنھوں نے لکھا تھا کہ:

’’سب مایا ہے… سب اڑتی پھرتی چھایا ہے… اس عشق میں ہم نے… جو کھویا جو پایا ہے… سب مایا ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔