تعلیم برائے فروخت

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 11 مئ 2015
advo786@yahoo.com

[email protected]

کراچی میں اس وقت میٹرک و انٹر کے امتحانات کا دور دورہ ہے، لاکھوں امتحانی امیدوار اور ان کے والدین و سرپرستوں کی نقل و حمل کی وجہ سے شہر میں الگ سماں ہے۔ اسکول، کالجز ودیگر مقامات پر امتحانی مراکز کے قیام کی وجہ سے ان کے اطراف میں ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہورہی ہے، عین امتحانات کے موقع پر شدید گرمی اور طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے طلبا و طالبات، ان کے والدین اور امتحانات کے منتظمین بھی پریشان و بدحال ہیں۔ امتحانی مراکز میں بجلی کی عدم دستیابی اور تعطل نے طالب علموں کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

چیئرمین انٹرمیڈیٹ بورڈ کے مطابق بورڈ پر کے الیکٹرک کا ایک روپیہ بھی واجب الادا نہیں ہے اور اسے بورڈ کی جانب سے امتحانات کے دوران لوڈشیڈنگ کرنے سے منع کیا گیا تھا مگر پھر بھی کے ای کی جانب سے لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ چیئرمین بورڈ کے ای کے واجبات بے باق ہونے کا دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن کیا ان تمام سرکاری و نجی اسکولوں اور کالجوں جہاں امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں، کے بجلی کے واجبات ادا شدہ ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیوںکر بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے تو حکومت کو پہلے سے منصوبہ بندی کرنا چاہیے تھی تاکہ طالب علموں کو پریشانی نہ ہو، کے الیکٹرک تو ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہتی ہے کہ تلوں سے تیل کب اور کیسے نکالا جائے۔ لیکن کے ای کو بھی مستقبل کے معماروں کے لیے اتنی رعایت تو کرنی چاہیے تھی کہ امتحانات کے دنوں اور اوقات کے دوران امتحانی مراکز میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ کی جاتی کیوں کہ ایک طرف تو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گھروں میں طلبا و طالبات کی پڑھائی متاثر ہورہی ہے، دوسری جانب امتحانی مراکز میں بجلی کا تعطل اور عدم فراہمی ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہورہی ہے۔

چند سال پیشتر لوڈشیڈنگ کی بہتات کی وجہ سے پڑھائی میں ہونے والی خلل اندازی کے ازالہ کے لیے طلبا و طالبات کو اضافی نمبر دے کر پاس کردیا گیا تھا لیکن یہ ترکیب یا ازالہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ایک حیران کن خبر آئی ہے کہ حکومت سندھ نے کے الیکٹرک کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جب کہ کے ای کا دعویٰ ہے کہ حکومت سندھ و بلدیاتی اداروں پر اس کے کروڑوں کے بلز واجب الادا ہیں۔ بہرحال تاریک گھروں اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے اور امتحانات دینے والے متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات کا سب سے زیادہ تعلیمی استحصال ہورہاہے۔

اس مرتبہ تعلیمی بورڈ کی جانب سے نقل کے رجحان کو کنٹرول کرنے کے لیے ویجیلنس اور سپرویجیلنس کمیٹیوں کو فعال بناکر جو اقدامات کیے گئے تھے ان کی کچھ فعالیت دیکھنے میں آئی ہے، نقل کے رجحان اور کیسز کم سامنے آئے ہیں لیکن پھر بھی بیرونی عناصر اور نقل مافیا کی جانب سے ہڑبونگ اور نقل کرانے کے واقعات سامنے آئے ہیں، جنھیں پولیس کی مدد سے ناکام بھی بنایا گیا ہے۔ عوام اور میڈیا کے لیے سنسنی خیز و دلچسپ اور موضوع بحث خبر یہ آئی ہے کہ انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کی بیٹی اور چند دیگر بااثر طالبات کو علیحدہ کمرے میں بٹھاکر خصوصی طور پر امتحانی پرچہ حل کروانے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ معاملہ بورڈ کی سپرویجیلنس ٹیم کے دورے کے دوران سامنے آیا ہے۔

ٹیم نے جب نقل کا کیس بنایا تو اسے کارروائی میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور وہاں موجود بعض افراد نے ان کی تصاویر اتاری اور ٹیم کے ارکان کو دھمکیاں دی گئیں اور باہر جانے سے روکا گیا، جس پر ویجیلنس ٹیم نے واقعے کی اطلاع فوری طور پر ناظم امتحانات کو دی۔ اس سے قبل ایک جسٹس کی بیٹی کا امتحانی نتیجہ تبدیل کرکے میڈیکل کالج میں داخلے کا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ جس ملک میں اس قسم کی حرکتیں ہوں وہاں ایجوکیشن اور نقل مافیا کا تدارک کس طرح ممکن ہے؟ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں نقل و بدعنوانی اور رشوت اور اثر و رسوخ کے استعمال کا کلچر پڑچکا ہے۔ تعلیمی نظام میں نیچے سے لے کر اوپر تک ہر سطح پر بدعنوانیوں اور نااہلیوں کی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ طلبا کے داخلہ ہوں یا اساتذہ کی تقرریاں، تبادلہ اور تعیناتیاں، امتحانات کا انعقاد ہو یا امتحانی کاپیوں کی چیکنگ اور نتائج کی تیاری، تمام میں بدعنوانیوں، نااہلیوں اور کرپشن کا عمل دخل ہے۔

لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کن کوچنگ سینٹروں، کن کن ٹیوٹرز سے ٹیوشن پڑھنا ہے، کہاں سے لیب کی تیاری کرنی ہے، کہاں کہاں سے نوٹس لینے اور کہاں کہاں سے داخلہ اور مقابلے کے امتحانات کی تیاریاں کرنی ہیں، نقل کرانے، نقل کے لیے علیحدہ جگہ فراہم کرنے، امتحانی کاپیاں گھروں پر حل کرانے، علیحدہ کمروں میں تمام سہولیات کے ساتھ نقل کرانے، فیل ہوجانے کی صورت میں پاس کروانے اور امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے کے نرخ کیا چل رہے ہیں۔ یہ شکایتیں بھی عام ہیں کہ پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کے والدین اور اسکولوں سے بورڈ آفس کے کارندے خود رابطہ کرکے رشوت طلب کرتے ہیں تاکہ ان کی پوزیشن کنفرم کردی جائیں ورنہ رشوت کی عدم ادائیگی پر وہ اپنی پوزیشن سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ یہ شکایتیں ہائی کورٹ تک گئی ہیں۔

بعض اسکولوں اور کوچنگ سینٹرز کے محکمہ تعلیم اور بورڈ کے کرپٹ اہلکاروں سے روابط ہوتے ہیں جو غیر قانونی طریقوں سے اپنے طلبا و طالبات کے نتائج بہتر بنانے کے لیے رشوتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ سندھ کے بعض امتحانی بورڈ، کالجز اور یونیورسٹیز اس سلسلے میں خاص شہرت رکھتے ہیں کہ ثانوی تعلیم سے لے کر اعلیٰ و پیشہ ورانہ تعلیم کی سطح تک سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں کہاں کہاں سے بغیر حاضری اور بغیر پڑھے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

کراچی میں بڑی تعداد میں ایسے اسکول اور ٹیوشنز سینٹر ہیں جو محکمہ تعلیم اور تعلیمی بورڈ کے کرپٹ عناصر کے ساتھ مل کر ایک طرف تو طالب علموں اور ان کے والدین کا مال استعمال کر رہے ہیں، دوسری جانب ہونہار اور اہل طلبا کے تعلیمی مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ آج کل طلبا میں مہنگے اور شہرت کے حامل تعلیمی اداروں اور ایک ہی مضمون کئی کئی ٹیوشنز سینٹروں میں پڑھنے کی روش پڑچکی ہے، جہاں پر داخلہ بھی نتائج آنے سے قبل بلکہ پہلی والی جماعت کے امتحانات دینے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتے ہیں، ایڈوانس بکنگ، تمام سال کی ایڈوانس فیس کے علاوہ سفارشیں بھی استعمال کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ تعلیمی استطاعت کے حامل اہل، مستحق اور غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کا استحصال ہوتا ہے، جن کے والدین ہزاروں، لاکھوں روپے کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ان اہل طلبا کے ساتھ اس امتیازی سلوک اور ان کی حق تلفی پر ارباب اختیار کی ذرا بھی توجہ نہیں ہے، محسوس یہ ہوتا ہے کہ تعلیمی مافیا اور غیر تعلیمی عناصر نے تعلیم کو طبقاتی اور تباہ کرنے اور طلبا اور اساتذہ کے استحصال اور حق تلفی کا بیڑا اٹھالیا ہے جنھیں محکمہ تعلیم ودیگر متعلقہ سرکاری اداروں کی مکمل آشیرواد نہیں تو کم از کم کھلی چھٹی ضرور ملی ہوئی ہے، قوموں کی ترقی اور عروج و زوال میں تعلیم اور مساوات کی بنیادی حیثیت رکھتی ہے، ماہرین کی رائے بھی یہی ہے کہ کسی قوم کو ختم کرنا ہو تو اس کی تعلیم کو ختم کردیا جائے۔

تیس سال قبل تعلیمی اداروں میں طلبا یونین پر جو پابندی عائد کی گئی تھی وہ آج تک جاری ہے، جس کی وجہ سے طلبا میں سیاسی و انتظامی تربیت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، اب ان کی جگہ لسانی، مذہبی اور سیاسی گروہ نے لے لی ہے، طلبا یونین سرگرمیوں کی وجہ سے قومی سطح کی جو سیاسی لیڈر شپ تیار ہوتی تھی اس کا سلسلہ رک گیا ہے جس کی وجہ سے سیاست میں جاگیرداروں، وڈیروں، سیاسی خانوادوں اور پیشہ ور سیاست دانوں کا تسلط مزید مستحکم ہوتا جارہا ہے، غیر نصابی سرگرمیاں طلبا کے کردار میں پختگی پیدا کرکے انھیں ایک اچھا اور ذمے دار شہری بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، تعلیم سے متعلق معاملات و مسائل اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ حکومتی سطح پر فوری ہنگامی اور انقلابی قسم کے اقدامات کے متقاضی ہیں، اگر حکومت نے اب بھی اس کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اس پر توجہ نہ دی تو یہ ملک و قوم کے مستقبل اور وجود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔