کاش، یہ تماشہ نہ لگتا

تنویر قیصر شاہد  منگل 12 مئ 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

’’پیپلز پارٹی کو بجا طور پر فخر ہے کہ اس نے اقتدار میں آنے کے لیے کبھی کسی کی بیساکھیاں استعمال نہیں کیں۔ یہ جمہوری پارٹی ہے۔ عوام کے ووٹوں پر اعتماد اور اعتبار کرنے والی۔ اس پر آزمائش اور ادبار کے کئی دَور آئے لیکن آزمائشوں میں یہ ہمیشہ سرخرو رہی۔ اب بھی کامیاب اور سرخرو ہو گی۔‘‘

یہ الفاظ جناب اکرم شہیدی کے ہیں۔ گزشتہ دنوں انھی صفحات پر ہمارا ایک کالم بعنوان ’’پیپلز پارٹی کی نئی پرواز‘‘ شایع ہوا تھا جس میں آصف زرداری کے بعض اقدامات اور پیپلز پارٹی کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا تھا۔ شہیدی صاحب کی طرف سے مذکورہ بالا الفاظ اسی کے جواب میں ارسال کیے گئے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ انھوں نے غصے اور طیش میں کالم کا جواب گالی میں دینے کے بجائے مہذب انداز اپنایا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے وابستگان اور اس پارٹی کی سینئر قیادت نے مخالفت و مخاصمت میں لکھے گئے تجزیوں اور تبصروں کے جواب میں ہمیشہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس کا ایک مظہر ہم نے پیپلز پارٹی کے چوتھے دورِ اقتدار میں بھی ملاحظہ کیا جب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے صدر مملکت آصف زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی پر الزامات اور تہمتوں کی بارش برسائی اور یہ بارش مسلسل پانچ سال برستی رہی لیکن نہ ایوانِ صدر اور نہ ہی وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے کردار کشی کرنے والوں اور تہمت بازوں کو گالی دی گئی اور نہ ان کی گوشمالی کے لیے کوئی سخت اقدام کیا گیا۔ جناب اکرم شہیدی پیپلز پارٹی میڈیا سَیل کے سربراہ ہیں لیکن انھوں نے جواب میں جو شائستہ لہجہ اختیار کیا ہے، یہ جہاں پیپلز پارٹی کی طرف سے میڈیا والوں کے لیے مروّجہ اسلوب کی عکاسی کرتا ہے، وہاں اس امر کا بھی غماز ہے کہ شہیدی صاحب خود اعلیٰ تجربہ کے حامل شخص ہیں۔ سینئر بیوروکریٹ رہے ہیں۔

گریڈ اکیس میں وفاقی سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ واشنگٹن اور لندن میں برسہا برس پاکستانی سفارت خانوں میں پریس اور میڈیا کے معاملات کو سنبھالتے رہے؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ میڈیا اور میڈیا مین کی ہینڈلنگ کے وقت زبان اور قلم کو کس طرح قابو میں رکھ کر اپنا نقطۂ نظر یا مافی الضمیر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نازک اور حساس آرٹ ہے جو مردانِ نادان کی سمجھ میں جلد نہیں آتا۔ اگر یہ جلد سمجھ میں آنے والی شئے ہوتی تو آج بھی بہت سے میڈیا مینیجرز کی سمجھ میں آ چکی ہوتی۔

اکرم شہیدی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل کے ہیڈ ہونے کے ناتے انھیں یہی لکھنا چاہیے تھا۔ ہم ان کے متعینہ فرائض کے تقاضوں کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں لیکن ان سے یہ بھی کہنا چاہتے ہیں: اُس پیپلز پارٹی کا وجود اب عنقا ہو چکا ہے جسے زیڈ اے بی نے تخلیق کیا، پروان چڑھایا اور جسے بی بی نے اپنے خون سے سینچا۔ واقعہ یہ ہے کہ آج پیپلز پارٹی جس مقام پر کھڑی ہے، اسے یہ دن دکھانے اور نئی آزمائشوں کی دہکتی بھٹی میں ڈالنے کی ذمے داری اس پارٹی کے تین ڈاکٹروں کے سر جاتی ہے۔

پارٹی جو چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھی اور بجا طور کہلاتی رہی ہے، کیا آج یہ دعویٰ کر سکتی ہے؟ یہ ’’زنجیر‘‘ کیسے ٹوٹی اور اس کی کڑیاں کیسے بکھر گئیں؟ اس کے اسباب اور ذمے داران بالکل عیاں ہیں۔ ہم ان کے چہرے بھی پہچانتے ہیں اور ان کے ’’کریڈنشلز‘‘ بھی عوام کے سامنے ہیں، وہی عوام جنہوں نے دیوانگی کی حد تک پارٹی کو چاہا، اس کے لیے اپنا خون بہایا، کوڑے کھائے، زندان کی تاریکیاں دیکھیں اور پھانسیاں چڑھ گئے۔ ایاز سموں، حمید بلوچ، عبدالوحید قریشی، یعقوب پرویز مسیح، عبدالرشید عاجز، منور حسین، عزیز ملک اور ناصر بلوچ کی شکل میں۔ آج کی پیپلز پارٹی کی قیادت کیا ان ناموں اور ان کے پسماندگان سے بھی آگاہ اور آشنا ہے؟

بدین میں فروکش پیپلز پارٹی کے جو ڈاکٹر صاحب اپنی ہی پارٹی اور قائدین کے خلاف جس اسلوب میں مورچہ لگائے نظر آ رہے ہیں، انھیں محبت و اکرام کے جادو سے اپنے دامن میں پھر سے سمیٹا جا سکتا تھا اور سمیٹا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ محبت جو فاتحِ عالم ہے، کسی نے اسے آزمایا ہی نہیں؛ چنانچہ بگاڑ پھیلا اور حریفوں نے لطف اٹھایا۔

بدین کے ڈاکٹر صاحب کی تُند خوئی اور مرکزِ گریز رویے کا جواب اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں بیٹھی پیپلز پارٹی کی چند خواتین نہیں دے سکتی تھیں اور نہ ہی وہ اس کی اہل ہیں۔ جس کسی نے بھی انھیں بدینی ڈاکٹر کی تہمتوں کا جواب دینے کے لیے آگے بڑھایا، اس نے حکمت کا ثبوت نہیں دیا۔ اور جس کسی نے اس غصیلے ڈاکٹر، جو کبھی جناب زرداری کا ہم کار بھی رہا اور ہم رکاب بھی، کے فارم ہاؤس کے گردا گرد حصار کھینچنے کے احکامات جاری کیے، اس نے بھی دانشمندی کا ثبوت دینے کے بجائے تماشہ لگانے کو ترجیح دی۔ اگر آج بی بی زندہ ہوتیں تو کیا ایسا تماشہ لگتا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے باقی دو ڈاکٹر صاحبان کو بھی پارٹی زوال کے لیے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جناب آصف زرداری کی محبتوں کی بارش سے ان دونوں ڈاکٹر صاحبان نے خاصی عزت کمائی لیکن پارٹی اور اس کے چاہنے والوں کے لیے وہ اثاثہ ثابت نہ ہو سکے۔ افسوس پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل ایسے افراد کی نظروں کے سامنے سے ذوالفقار علی بھٹو کا یہ قول ہٹ چکا تھا: ’’سیاست و اقتدار عوام کے قدموں تلے ہے۔‘‘ آج یہ دونوں ڈاکٹر صاحبان پس منظر میں چلے گئے ہیں ۔

بھلا ڈاکٹر صاحبہ کی پریس کانفرنس کے مقابل سائیں وزیراعلیٰ کو پریس کانفرنس کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اپنے تازہ حریف کو ملٹری کورٹس میں پیش کرنے کی بات کر کے انھوں نے بانی پیپلز پارٹی کی روح کو دراصل نادم کیا ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے اداریے نے بجا طور پر مقتدر سائیں کے ان ارادوں کی گرفت کی ہے۔ کاش، مفاہمت کی پالیسی کو فروغ دینے والے ناراض ڈاکٹر کے لیے بھی مفاہمت کے جذبے کو بروئے کار لاتے۔ اگر اپنی ہی زبان سے ڈیکلئر کی گئی ’’قاتل لیگ‘‘ کو معاف کر کے شاملِ اقتدار کیا جا سکتا تھا اور ’’گلیوں میں گھسیٹنے‘‘ کا نعرہ لگانے والوں سے (مبینہ طور پر ملک کے وسیع مفاد میں) محبت و تعاون کیا جا رہا ہے تو ناراض ڈاکٹر کو بھی گلے لگانے کی سعی کی جا سکتی تھی۔ مخالف پر احسان کرتے جانا بھی تو انتقام کی ایک شکل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔