سوشل میڈیا

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 12 مئ 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ جمعے کو ایکسپریس میڈیا گروپ،کوجا اور شعبہ ابلاغ عامہ کے مشترکہ تعاون سے جامعہ کراچی میں ’’اردو سوشل میڈیا سمٹ2015‘‘ کا انعقاد ہوا۔ اس موقعے پر اردو زبان، نئی نسل اور سوشل میڈیا کے حوالے سے بڑی فکر انگیز باتیں ہوئیں جو یقینا ہمارے معاشرے کے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی ہیں چند ایک نقاط راقم یہاں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے کہ جن کے بارے میں غور و خوض کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ان کا براہ راست تعلق ہماری پستی سے ہے۔

صدر شعبہ ابلاغ عامہ پروفیسر ڈاکٹر محمود غزنوی کا کہنا تھا کہ سماجی رویے کا اظہار زبان سے ہوتا ہے۔ روحانی تجربات زبان میں پیوست ہوتے ہیں۔ تخلیقی و تحقیقی زبان درحقیقت وہ زبان ہوتی ہے جس میں انسان خواب دیکھتا ہے لہٰذا کسی دوسری زبان میں تخلیقی و تحقیقی کام وہ کامیابی عطا نہیں کرتا جو مقصود ہوتی ہے۔ انھوں نے ایک اور نہایت اہم بات کہی کہ زبان سے رشتہ توڑنا کسی بھی قوم کو تباہی و بربادی کی طرف لاکھڑا کرتا ہے اور رسم الخط سے رشتہ ٹوٹنا اس کا پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ اگر رسم الخط سے رشتہ ٹوٹا تو پھر تاریخ و تہذیب غرض سب سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔

بعد میں آنے والے مقررین نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ اردو کے تلفظ کو انگریزی زبان میں لکھنے سے اردو رسم الخط کی حیثیت متاثر ہو رہی ہے۔ گویا ماہرین کے خدشات کے مطابق موبائل فون، سوشل میڈیا وغیرہ میں اردو رسم الخط کی حیثیت کو جس طرح ختم کیا جا رہا ہے مستقبل قریب میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

اس تقریب میں شریک ممتاز دانشور و صحافی غازی صلاح الدین نے شکوہ کیا کہ نئی نسل میں مطالعے کی عادت عنقا ہی ہوتی جا رہی ہے خاص کر جب ہم اپنے کسی پڑوسی ملک سے بھی اس کا موازنہ کرتے ہیں۔

بی بی سی سے تعلق رکھنے والے دو معروف پاکستانی صحافیوں نے بھی اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سوشل میڈیا سے متعلق ان کے خیالات بڑے فکر انگیز تھے مثلاً ایک یہ کہ سوشل میڈیا نے ہر ایک کو ’’براڈ کاسٹ‘‘ بنادیا ہے۔ اب ہر کوئی بغیر آلات، ساز و سامان کے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کو دنیا بھر میں پھیلا سکتا ہے دوسرے اس میں یہ خطرناک بات کہ اس عمل میں کسی قسم کی کوئی سنسر شپ یا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا جیساکہ روایتی میڈیا میں ہوتا ہے کہ ایک لکھا ہوا کالم بھی ایڈیٹر اور انچارج کی نظر سے گزرتا ہے اس عمل میں کہیں کوئی غلطی ہو یا غیر موضوع بات ہو تو وہ درست یا ایڈٹ کردی جاتی ہے۔

ایک اور اہم بات اس تقریب کی یہ تھی کہ صحافی حضرات نے برملا یہ تسلیم کیا کہ آج ذرایع ابلاغ کے ادارے کسی فیکٹری کی طرح ہیں کہ جہاں کام کرنے والے صرف وہ کام کرتے ہیں جو ان کا مالک چاہتا ہے لہٰذا صحافیوں سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ وہ آزادی کے ساتھ اس معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

راقم نے جو چند اہم نقاط مندرجہ بالا سطور میں ماہرین ابلاغ اور صحافیوں کی جانب سے پیش کیے ہیں ان کو مدنظر رکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہمیں یہ توقع رکھنا کہ ہمارے ذرایع ابلاغ اس معاشرے کو بہتر بنانے میں کوئی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تو یہ درست نہ ہوگا۔ لہٰذا ذرایع ابلاغ کو استعمال کرنے والے سمجھ جائیں کہ وہ ان کے لیے قابل تقلید یا قابل مثال نہیں ہے بلکہ انھیں خود سے اپنا اخلاق و کردار متعین کرنا ہوگا۔

اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا صرف دانشوروں، صاحب علم یا باشعور لوگوں کی ہی دسترس میں نہیں ہے بلکہ اس کو استعمال کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں سوائے نصاب کے کوئی دوسری کتاب کبھی پڑھی ہو لہٰذا جس ذریعہ ابلاغ میں بے شعور اور مطالعہ سے عاری لوگ بحث و مباحثے میں حصہ لیتے ہوں وہاں کبھی بھی درست سمت کی نشاندہی نہیں ہوسکتی یوں اس کے منفی اثرات ہی کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ راقم کا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں بھی اپنا کردار ادا کیا جاسکتا ہے اور کرنا بھی چاہیے قطع نظر اس کے کہ کوئی بڑی تبدیلی آئے یا نہ آئے۔ مثلاً ہمیں سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ میں کون ہوں؟ میرے زندگی گزارنے کے کیا نظریات ہیں؟ مثلاً اگر میں یہ طے کرلیتا ہوں کہ میں پاکستانی ہوں اور میری زندگی گزارنے کے نظریات میں میرا دین بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ میں حق و انصاف کے لیے کام کروں اور جتنی قوت و صلاحیت رکھتا ہوں کم ازکم اس قدر تو برائی کو روکوں! تو پھر مجھے اپنا کردار متعین کرنے میں کوئی مشکل نہ ہوگی اور میں کسی بھی ذرایع ابلاغ کے ادارے میں صحافت نہیں، نوکری ہی کیوں نہ کروں یا سوشل میڈیا پر خیالات کا اظہار کیوں نہ کروں، میں اپنا کردار اچھے طریقے سے ادا کرسکتا ہوں۔

اگر میں یہ طے کرلیتا ہوں تو میں نہ صرف دینی کتب کے مطالعوں سے اپنا کردار و اخلاق دوسروں سے بہت بہتر کرسکتا ہوں اور دیگر موضوعات پر خواہ وہ تاریخ ہو یا ادب وغیرہ اپنا مطالعہ اس قدر بڑھا سکتا ہوں کہ جب بھی میری کوئی تحریر خواہ روایتی ذرایع ابلاغ کے ذریعے خواہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچے گی تو وہ پڑھنے والوں کے نہ صرف علم میں اضافہ کرے گی بلکہ تمام پڑھنے والوں کو درست سمت میں سوچنے سمجھنے پر مجبور کرے گی۔

ایک آخری بات جو سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو ضرور سوچنی چاہیے کہ وہ یہ حساب لگائیں کہ 24 گھنٹوں میں سے روزانہ کتنی دیرکمپیوٹر و موبائل کو وقت دیتے ہیں اور کتنا وقت اپنے مطالعے کو دیتے ہیں (اس مطالعے کے علاوہ جو وہ صرف امتحان کی تیاری کے لیے کرتے ہیں) سوچیے اگر میں نے اور آپ نے اس ہفتے، اس مہینے، اس سہ ماہی یا اس سال کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں تو پھر میں کیسے ذرایع ابلاغ پر آکر لوگوں سے مخاطب ہونے کا حق دار ہوں؟ کیا مجھے خود پہلے رہنمائی یعنی مطالعے کی ضرورت نہیں ہے؟

ایک اچھا استاد وہی ہوتا ہے جو پہلے علم حاصل کرتا ہے، مطالعہ کرتا ہے پھر کلاس روم میں جاکر چالیس پچاس طلبا سے مخاطب ہوتا ہے اور تب ہی طالب علم اس استاد سے کچھ حاصل کرتے ہیں اور عملی زندگی میں اپنا اور ملک کا نام روشن کرتے ہیں لیکن اگر کوئی استاد بغیر مطالعے کے کلاس میں آکر لیکچر دے تو وہ بھلا طلبا کو کیا دے سکے گا؟ آج جو لوگ سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں وہ ایک لمحے کے لیے سوچیں تو سہی کہ وہ محض 40 یا 50 طلبا نہیں لاکھوں لوگوں سے مخاطب ہو رہے ہیں ان سے مخاطب ہونے کے لیے انھوں نے کیا تیاری کی؟ کتنا مطالعہ کیا؟ پھر تنقیدی مطالعہ کتنا کیا؟ آئیے غور کریں۔ میں، آپ ہم سب!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔