اور معصوم جب سہم جائیں

جسمانی مقابلوں اور کھیل کود کو فروغ دے کر ہم اپنی آنے والی نسل کو جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط کرسکتے ہیں۔


محمد شیر May 15, 2015
بچوں میں دم توڑتی غیر نصابی سرگرمیوں میں اُن کی دلچسپی اور شرکت کو لازمی بنانے کی ضرورت ہے۔فوٹو:فائل

وہ بار بار ایک ہی عبارت کو پڑھ رہی تھی، سوال کو ذہن میں دہراتی، سر کو پین سے کھجاتی اور ٹھوڑی پر زور ڈالتے ہوئے سوالیہ پرچے پر نظریں گھمانے لگتی۔

آج اُس نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ اُسے جواب آنکھوں کے سامنے گھومتا ہوا دکھائی دیا، اُس نے سوال کو پھر پڑا، اب اُسے سوال کا ایک سِرا مل گیا تھا، اُس نے لکھنا شروع کردیا، اب حرفوں کو بڑی سرعت سے وہ لفظوں میں پِرو رہی تھی۔

لکھتے لکھتے یکدم سے ایک صاحب اُس کے پاس آئے، اُس کا پیپر چھینا اور سوال و جواب کا ایک سلسلہ شروع ہوکریا۔ اچانک اس کی نظر ساتھ موجود گارڈ پر پڑی، کمرے سے سکوت اب روانہ ہوچُکا تھا۔ سانحہ پشاور کو جاننے کے بعد سے یہ پہلا لمحہ تھا جب کوئی لمبا تڑنگا کلاشنکوف بردار شخص سب طالبات کے سامنے کھڑا تھا اور کمرے میں موجود سبھی طالبات انجانے خوف کا شکار ہو چُکی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کی کچھ ہم جماعت بے حوش ہونے لگیں، وہ کم ہوتی ہمت سے امتحانی معائنہ کار کی باتوں کا جواب دے رہی تھی۔ پاس کھڑا محافظ کبھی موچھوں کو تاؤ دیتا اور کبھی ٹہلنے لگتا۔ امتحانی معائنہ کار کی آواز بلند ہونے لگی، تلاشی لی گئی، اُس کے پاس کوئی بھی اضافی مواد نہیں تھا جو اُسکے پیپر میں کام آسکتا تھا۔

اگلی نشست پر بیٹھی اُس کی سب سے اچھی دوست کی بے ہوشی کے ساتھ ہی اُس کے ہاتھ پاؤں مُڑنے لگے، اُسکے منہ سے نکلتے جھاگ کے ساتھ ہی معائنہ کار کی طبیعت میں نرمی آئی۔ جوس پیلایا گیا، اُس کی طبیعت ہر گُزرتے لمحے کے ساتھ بگڑ رہی تھی۔ اُسے بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا، کچھ دن زیرِ علاج رہنے کے بعد ڈاکٹروں نے نفسیاتی معالج تجویز کیا۔



امتحانات کے بعد دوبارہ کلاسز کا آغاز ہوا تو اُس کی ہم جماعتوں نے امتحانی معائنہ کار سے ہوئی گفتگو کو دہرانے کی کوشش کی۔ اُسے محسوس ہوا کہ اُس کی طبیعت پھر سے خراب ہونے لگی ہے۔ اُس نے گفتگو کے موضوع کو بدلا، لیکن وہاں کا موضوع بحث اب بھی یہی تھا اور لوگ بات گُھما کر پھر وہی بات کرنے لگے، نتیجتاً وہ پھر بے ہوش ہوگئی، اُسے ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں سات روز تک ڈر اور خوف سے لڑتے وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ وہ نویں جماعت کی طالبہ تھی۔

یہ تو محض ایک واقعہ ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ پورے ملک میں اِس وقت طلباء اور اُن کے والدین کس خوف کا شکار ہیں۔ جب تک بچہ گھر واپس نہ آجائیں والدین انجانے خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ اور جب معاشرے میں خوف مسلسل اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائے تو پھر یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ لوگوں کی زندگیوں کو خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔



پشاور سانحے نے ناصرف آرمی پبلک سکول کے بچوں کو براہِ راست متاثر کیا ہے بلکہ میڈیا میں دکھائی جانے والی تصاویر اور نشر کی جانے والی ویڈیوز نے مُلک کے باقی حصوں کے بچوں پر بھی نفسیاتی اثرات پیدا کیے ہیں۔ حکومت جہاں آرمی اسکول کے بچوں کیلئے نفسیاتی صحت کی بحالی کےلئے سرگرمیوں کا انتظام کر رہی ہے وہیں اُسے ملک کے باقی بچوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چایئے۔

امتحانی مراکز پر معائنہ کاروں کا اسلحے کے ساتھ پھرنا اور سرِعام نمائش کا آخر مقصد ہے تو ہے کیا؟؟؟ بچے دہشت گرد ہیں؟ نہیں نہیں، بچے تو دہشت زدہ ہیں۔ ہر بازار، ہر پارک، ہر اسکول اور ہر مساجد کے باہر سیکورٹی گارڈز کی تعیناتی ہماری حفاظت کیلئے ضروری تو ہے لیکن کیا ہمیں اپنے بچوں کو نفسیاتی طور پر بھی مضبوط کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟

بچوں میں دم توڑتی غیر نصابی سرگرمیوں میں اُن کی دلچسپی اور شرکت کو لازمی بنانے کی ضرورت ہے۔ جسمانی مقابلوں اور کھیل کود کو فروغ دے کر ہم اپنی آنے والی نسل کو جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط کرسکتے ہیں۔ نیم فوجی تربیت سے ہم اُنہیں کسی بھی انہونی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرسکتے ہیں اور وہ بچے جو دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں 'نارمل زندگی میں اُن کی بحالی' پر فلم اور کہانیوں کی مدد سے ہم اس عفریت کے خوف سے چھٹکارہ پاسکتے ہیں۔

[poll id="418"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

مقبول خبریں