کوئی تو خبر لے، اس شہر نا پرساں کی؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 14 مئ 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

پوری قوم خوش ہے کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ جلد ہی لاہور میں میٹرو ٹرین میں بیٹھ کر سائلوں کی شکایتیں اور عرضیاں وصول کیا کریں گے۔ ماشاء اللہ! پہلے موٹروے جو کسی ناگن کی طرح بل کھاتی پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی چلی جاتی ہے۔

انسان کتنی بھی مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو اور زندگی سے بیزار ہو،اگر چند گھنٹے کسی لگژری بس میں بیٹھ کر دونوں طرف کے مسحورکن مناظر میں کھوجائے توساری بوریت دورہوجاتی ہے۔ خدا خوش رکھے میاں صاحبان کو! اس کے بعد میٹرو بس جس میں بیٹھنے کا تو ابھی اتفاق نہیں ہوا، البتہ اس کی شوخی رفتار دیکھی ضرور ہے۔ انشاء اللہ اب جب لاہور جانا ہوگا تو پروفیسر نورین رزاق اور ان چاروں طالبات سمیعہ اقتدار، تلبیہ یونس، ماہ رخ فراز اور رابعہ اجمل کے ساتھ میٹرو بس اور ٹرین میں ضرور سفر کروں گی۔ ان چاروں طالبات نے میرے افسانوں، ناولٹ، کالم نویسی اور سفر ناموں پہ کام کیا ہے۔

سمیعہ اقتدار کی شادی کا دعوت نامہ بھی موصول ہوا تھا لیکن بوجوہ علالت نہ جاسکی۔ خدا کو منظور ہوا تو عید کے بعد لاہور کا چکر ضرور لگے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی اپنے صوبے بالخصوص لاہور سے محبت مثالی ہے۔ کاش سندھ کے ’’سرگرم‘‘ وزیر اعلیٰ کو بھی اگر کراچی کا نہیں تو کم ازکم اندرون سندھ خاص طور سے تھر کا بھی کچھ خیال ہوتا۔ ویسے سندھ کے وزیراعلیٰ بے حد سادہ اور بے ضرر انسان ہیں۔

بے چاروں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس نے اورکب کراچی میں ڈبل سواری پہ پابندی لگا دی۔ان کی نیند چونکہ پوری نہیں ہوتی، اس لیے جونیئر وزرا اور کچھ وہ اہم شخصیات جن کے سر پہ پارٹی قیادت  کا ہاتھ ہے یا یوں کہیے کہ جن کی خواہش پر وزیر اعلیٰ کو عموماً اہم موقعوں اور حساس موضوعات پہ خاموشی اختیار کرنے کے لیے آنکھیں بند کر لینا پڑتی ہیں، انھیں چاہیے کہ صوبے کو چلانے کے لیے کچھ ٹپس خادم اعلیٰ پنجاب سے ضرور لیں۔ سب دیکھ رہے کہ لمحہ بہ لمحہ، منزل بہ منزل، قدم بہ قدم ماشا اللہ لاہورکی قسمت مسلسل جگمگاتی جا رہی ہے۔ دشمنوں کے منہ میں خاک۔ خدا جانے لوگوں کی اکثریت نے یہ کیوں پوچھنا شروع کردیا ہے کہ ۔ کیا پاکستان کا مطلب صرف پنجاب ہے؟ یہ ہم نہیں کہہ رہے۔ یہ وہ کہہ رہے ہیں جنھیں ’’عوام‘‘ کہا جاتا ہے۔

لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ لاہورکی ترقی سے آخر لوگوں کو پریشانی کیا ہے؟ کوئی شہر تو ایسا ہو جہاں جانے کو جی چاہے۔ لاہورکی ترقی بھی تو پاکستان ہی کی ترقی ہے۔ لیکن کیا کریں کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے یہاں بھی سرگرم ہیں۔ تعصب اور صوبائی عصبیت بہت گری ہوئی بات ہے۔ اعتراض کرنے والوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ سندھ میں ایک موئن جو ڈارو تاریخ کا حصہ ہے۔

سندھ کے حکمران کراچی کو بھی دوسرا موئن جو ڈارو بنانے کے آخری مراحل میں ہیں اور بہت کامیاب ہیں۔ ایسے میں جب سندھ میں ایک قدیم اور دوسرا جدید کھنڈرات پہ مشتمل شہر وجود میں آچکا ہے تو کوئی شہر تو جدید بھی کہلائے تاکہ غیر ملکی سربراہان مملکت کو میٹرو ٹرین، میٹرو بس اور موٹر وے دکھا کر نہ صرف قرضے حاصل کیے جاسکیں بلکہ بیرونی طاقتوں کو یہاں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب بھی دی جاسکے۔ تمام تفریحی مقامات خوش قسمتی سے پنجاب ہی میں ہیں اور لاہور پنجاب کا صدر مقام بھی ہے۔

رہ گیا کراچی تو یہاں کیا رکھا ہے، ہر طرف ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ابلتے گٹر، ہر فٹ پاتھ، ہر گلی کوچے میں کوڑے کا ڈھیر کہ یہاں روزی کمانے کے لیے آنے والے پولیس کی آشیرواد اور سرپرستی سے جگہ جگہ ٹھیلے لگاتے ہیں۔ مال بناتے ہیں اور رات گئے گاہکوں کے کھائے ہوئے چپس، فنگرفش، فرنچ فرائز اور برگرز کے خالی پیکٹ، کولڈ ڈرنک کی خالی بوتلیں، تکوں کی ہڈیاں اور بہت کچھ سڑک پر چھوڑ کر مال سمیٹ کر گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں کہ کراچی بڑا غریب پرور شہر ہے۔

لیکن اس کا پرسان حال کوئی نہیں، سڑکیں حکومت کی ہیں، بلدیاتی نظام سیاسی چالوں اور مکر و فریب کی وجہ سے نیست و نابود ہوچکا ہے۔ سڑکیں اور فٹ پاتھ کاروباری لوگوں کی ہیں جو اپنی اپنی دکانوں، شورومز اور پتھاروں کے سامان سے اسے گھیر لیتے ہیں۔ شام ہوتے ہی رہی سہی فٹ پاتھ بھی فاسٹ فوڈز اور باربی کیو والوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ جہاں کرسیاں اور میزیں ڈال کر لذت طعام و دہن کا انتظام کیا جاتا ہے۔

سب جانتے ہیں مگر سب چپ ہیں کہ کہیں ان کی نوکری نہ چلی جائے۔ بجلی، گیس اور پانی کی مار کراچی والوں پر قہر الٰہی کی طرح پڑ رہی ہے۔ چند دنوں سے وزیر بلدیات و چیئرمین واٹر بورڈ  شرجیل میمن نے آدھے آدھے اخباری صفحات پر حکومت سندھ کی جانب سے لاکھوں روپے خرچ کرکے اشتہارات شایع کروائے ہیں جن میں شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ شہری واٹر ٹینکر سے سرکاری نرخ نامے کے مطابق پانی خریدیں اور زائد قیمت ہرگز ادا نہ کریں جو بھی ٹینکر ڈرائیور مقررہ نرخ سے زیادہ رقم وصول کرے اس کی شکایت واٹربورڈ کے ٹیلی فون نمبروں پہ (ٹینکر کے نمبر کے ساتھ) کریں۔

سرکاری نرخ چار کیٹیگری میں جلی حروف میں شایع کرائے گئے ہیں جس میں سب سے کم نرخ ایک ہزار روپے (1,000)ہیں اور زیادہ سے زیادہ 2800 روپے۔ واہ کیا کہنے ہیں ان کی حکمت عملی کے۔ گویا ان کے ایک بیان اور ایک اشتہار سے ناجائز جائز ہوگیا۔ گویا سرکاری نرخے ویسے ہی ہیں ، جیسے عوام کو جھوٹی تسلی دینے اور منافع  خوروں کو کھلی چھوٹ دینے کے لیے بازاروں میں نرخ نامے آویزاں  کیے جاتے ہیں ۔ایک ٹی وی ٹاک شو میں نہایت بااعتبار شخصیت نے بتایا کہ کراچی میں جان بوجھ کر پانی کی کمی کا واویلا مچایا جا رہا ہے تاکہ ٹینکر مافیا کے ذریعے عوام کی جیبوں سے رقم نکلوا کر اپنے اپنے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائی جاسکے اور پھر یہاں سے رفوچکر ہوا جاسکے۔

کیا محفوظ طریقہ نکالا ہے وزیر موصوف نے۔ گویا ’’رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ والا فارمولا نافذ کردیا گیا ہے۔اب بھلا کس کی مجال کہ کوئی ان سے پوچھنے کی جسارت کرے کہ محترم اگر کراچی کے شہری بوند بوند پانی کے لیے ترس رہے ہیں، تو یہ ٹینکرز کو پانی کہاں سے دیا جا رہا ہے؟ لوگ اتنے احمق نہیں ہیں اور آپ اتنے سادہ و معصوم بھی نہیں ہیں کہ یہ نہ جانتے ہوں کہ ٹینکرز مافیا کے ذریعے جو بینک بیلنس بنایا جا رہا ہے لوگ اس کی حقیقت سے واقف نہ ہوں۔ہاں اگر کسی ایسے اینکر پرسن نے یہ سوال پوچھ لیا کہ پانی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے آپ کن قوتوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ تو شاید اس کا جواب بھی وہی ہوگا جو ایسے موقعوں پر عموماً دیا جاتا ہے۔

یہ سوال ہمیں کیا پھر دہرانا پڑے گا کہ جو پانی ٹینکرز کو وزیر موصوف فراہم کروا کے اسے بیچنے کے لیے اخبارات میں حکومتی خرچ پر اشتہارات دلوا رہے ہیں وہ پانی لوگوں کے گھروں تک کیوں نہیں پہنچ رہا؟ لوگ پانی کے اخراجات اور بل ادا کرنے کے باوجود ٹینکر سے پانی خریدنے پہ مجبور کیوں ہیں؟ اور ٹینکرز کو وافر پانی فراہم کرنے کے پیچھے کون سا طاقت ور ہاتھ ہے؟ کیا وہی دست شفقت جس کی بدولت سندھ کے وزیر اعلیٰ ہمیشہ آنکھیں بند کیے رہنے کے باوجود وزارت اعلیٰ کی کرسی پہ متمکن ہیں؟

ایک شکوہ میاں نواز شریف سے بھی ہے۔ وہ یہ کہ کراچی کو بھی پاکستان ہی کا حصہ سمجھیں، ورنہ یہاں کے لوگوں کا احساس محرومی کہیں یہ نہ سوچنے پہ مجبور کردے کہ چند سال پہلے جو ’’گریٹر پنجاب‘‘ کی تحریک چلی تھی، بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں نے بھی اس پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور ہم نے اس پر دو کالمز بھی لکھے تھے۔ کہیں وہی قوتیں پھر سے متحرک تو نہیں ہو گئیں؟ اگر ایسا نہیں ہے اور اگر اس کا امکان بھی ہوگا تو میاں صاحب اس کی اس بیخ کنی ضرور کریں گے۔

لیکن وہ یہی سوچ کر اس بدنصیب شہر کی طرف توجہ کرلیں کہ  کراچی کو لاہور کا نام دے دیں، شاید اس طرح آپ کی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے دل میں بھی اہل کراچی کے لیے ہمدردی پیدا ہوجائے۔ اگر آپ نہیں تو اس غریب پرور شہر کی خبر کون لے گا، صرف بیانات سے کچھ نہیں ہوتا۔ کراچی والوں کے مسائل کو سمجھیے اور ان کا دل تلاش کیجیے، اسی کو گڈ گورننس نہیں کہتے ہیں۔ کوئی بھی صاحب نظر تعصب کی عینک نہیں لگاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔