جیم خانے سے جوہر ٹائون تک

انتظار حسین  جمعـء 15 مئ 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

اصغر ندیم سید۔ مولد دنیائے ادب۔ شاعری گھٹی میں پڑی تھی۔ جلدی ہی پَر پُرزے نکالے اور نظمیں لکھ کر شاعری کے قارئین کو فوراً سے پیش تر متوجہ کر لیا۔ میڈیا میں یہ سوچ کر قدم رکھا تھا کہ ع

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

ان سے پہلے بھی کچھ ادیب یہی سوچ کر اس علاقہ غیر میں نکل گئے تھے۔ مگر وہاں ڈراما لکھتے لکھتے سیریل لکھا۔ بس پھر پکڑے گئے۔ اصغر ندیم سید کے ساتھ یہ ہوا کہ ع

اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی

پہلی ہی اڑان میں پکڑے گئے۔ سیریل پہلا‘ دوسرا‘ تیسرا۔ قلم تیز چلتا تھا۔ اتنی ہی تیزی سے اسے قبول عام کا شرف حاصل ہوا۔ بس آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔

خیر پھر بھی کچھ نہیں بگڑا۔ عین اس شہرت و مقبولیت کے بیچ یاد آیا کہ ارے میں نے تو شاعری کی گھٹی پی تھی۔ یہ میں کہاں نکلا۔ اس یاد کے ساتھ ہی اپنی اگلی پچھلی نظموں کو اکٹھا کیا۔ کچھ تازہ کلام وارد ہوا۔ لیجیے یہ تو کلیات کا نقشہ بننے لگا ہے مگر بے چین طبیعت ملی تھی۔ سوچا کہ کل کا انتظار مت کرو۔ جویندہ گیا اسے موتی سمجھو۔ مرتب کر دو کلام کو ادھوری کلیات کا نام دیا۔ سنگ میل نے اسے چھاپا۔ چشم زدن میں ادھوری کلیات‘ نے اپنا جلوہ دکھایا۔ مہورت اس کی اکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے لٹریچر فیسٹیول میں ہوئی۔ وہ مہورت رواروی میں ہوئی اس لیے کچھ ادھوری رہی۔ آگے یوں سمجھیے کہ ع

جو واں نہ کھنچ سکے وہ یہاں آ کے دم ہوئے

یعنی جیم خانہ کلب میں۔ اس کلب کی طرف سے باقاعدہ رسم بسم اللہ ہوئی۔ صدارت کے لیے کشور ناہید اسلام آباد سے لاہور آئیں اور سیدھی جیم خانے پہنچیں۔ لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین عطاء الحق قاسمی بروقت پہنچے اور اپنے طنز و مزاح کے گل پھول بکھرا کر اصغر ندیم سید کو شرابور کر دیا۔ پھر خود اصغر ندیم سید پہلے نثر میں رواں ہوئے۔ پھر اپنی نظمیں سنائیں۔ لیجیے ایک نظم کی جھلکی دیکھ لو۔ اس میں اس کی پوری شاعری کی جھلک نظر آئے گی۔ یعنی دیگ کا ایک دانہ پوری دیگ کا پتہ دیتا نظر آئے گا۔ عنوان ہے 14 اگست کے مسافر؎

مسافر ساٹھ برسوں کے ابھی تک گھر نہیں پہنچے
کہیں پر راستے کی گھاس میں‘ اپنی جڑوں کی کھوج میں
تاریخ کے گھر کا پتہ معلوم کرتے ہیں
مسافر ساٹھ برسوں کے بہت حیران بیٹھے ہیں
کہ اب تاریخ کے برگد کے نیچے
مذہبوں کے اور عقیدوں کے کئی تاجر مورخ بن کے بیٹھے ہیں
……
مگر اب تو وہاں بازار ہے، منڈی ہے
ہر اک فلسفہ اور فکر کی معجون بکتی ہے
کہیں مذہب کے تاجر ہیں کہیں خوابوں کے سوداگر
تاریخ لے لو‘ خواب لے لو‘ خواب کی تعبیر لے لو
اور پھر آگے یوں ہے،
مسافر دیکھ لو
سب کچھ ہے اس برگد سرائے میں
مگر سایہ نہیں ہے
پیڑ کا سایہ
بہت محروم ہیں ہم پیڑ کا سایہ نہیں ملتا
مسافر ساٹھ برسوں کے ابھی تک گھر نہیں پہنچے
کہیں پر بھی نہیں پہنچے
کہ صبح نیم وعدہ میں دھندلکا ہی دھندلکا ہے
ہاں مگر شاعر گھر واپس آ گیا ہے۔ جیم خانے میں بہت چہل پہل تھی۔ بہت لہر بحر۔ چائے کے نام ذائقے ہی ذائقے۔ ذائقے لے لو۔ تقریب تمام ہو گئی۔ پھر بھی تمام نہیں ہوئی۔ یہ کشور ناہید کے قدموں کا فیض تھا۔ جہاں ان کے قدم جاتے ہیں وہاں گل پھول کھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ تقریب در تقریب۔

ایک سوال۔ یہ ادھوری کلیات پوری کلیات کب بنے گی۔ سلسلہ شاید چل نکلا ہے۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

اس تقریب سے نبٹے تو ایک اور تقریب کی خبر نکلی۔ دو روزہ قومی کانفرنس۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے جسے کہنے والے اکیڈمی آف لیٹرز کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں اس خبر میں یہ خبر پوشیدہ ہے کہ یہ ادارہ اجڑ کر پھر شاد آباد ہونے لگا ہے۔ آخر کے تئیں بعد از خرابی بسیار۔ اسے ایک سربراہ میسر آ گیا ہے۔ یہ ہیں ڈاکٹر قاسم بگھیو۔ آتے ہی متحرک ہو گئے۔ مگر اس طرح متحرک ہوئے ہیں کہ اسلام آباد سے نکل کر شہر شہر اکادمی کو لے کر پہنچتے ہیں اور ایک کانفرنس کر ڈالتے ہیں۔ سنا ہے کہ کراچی میں ایسی ہی کانفرنس کر چکے ہیں۔ اب لاہور میں کانفرنس بداماں پہنچے ہیں۔ کانفرنس کا موضوع ہے ادب اور اہل قلم کا پرامن معاشرے کے قیام میں کردار۔ مال روڈ سے بارہ پتھر دور جوہر ٹاؤن میں۔ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنولوجی مختصر کر کے کہہ لو کہ یو ایم ٹی میں میلہ لگایا ہے۔ لاہور شہر اب بہت پھیل گیا ہے۔ نئی نئی بستیاں‘ نئے نئے ٹاؤن۔ ان میں نئی نئی یونیورسٹیاں کھلی ہیں۔ سو اب ادبی تقریبات کو نئے نئے ٹھکانے میسر آ گئے ہیں۔ سو ادبی فضا اب اس شہر میں بکھر گئی ہے۔ ہم جوہر ٹاؤن ایسے پہنچے جیسے لاہور شہر سے باہر کی بستی میں آن پہنچے ہیں۔ وہاں پہنچے تو وہاں واقعی ادیبوں دانشوروں کا جمگھٹا نظر آیا۔ دور دور سے مندوبین آئے بیٹھے تھے۔ کراچی سے کوئٹہ سے‘ اسلام آباد سے پشاور سے‘ پنجاب کے مختلف گوشوں سے۔ دو دن تک کانفرنس جاری رہی۔ ایک سیشن‘ دوسرا سیشن‘ تیسرا سیشن۔ موضوع وہی ایک۔ ارے کچھ تو تنوع پیدا کیا ہوتا۔ وہی ایک راگ دو دن تک الاپا گیا۔ سنا کہ اب ایسی ہی کانفرنس بہت جلدی کوئٹہ میں ہو گی۔ گشتی لائبریری کا تصور ایک زمانے میں باندھا گیا تھا۔ اب اکیڈمی ادبیات نے گشتی قومی کانفرنس کا مضمون باندھا ہے۔

ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو نئے نئے سربراہ بنے ہیں۔ شاید انھیں محسوس ہوا کہ اسلام آباد میں رکھے رکھے‘ اکیڈمی کو پھپھوندی لگ گئی ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اسے لے کر جاؤ۔ حرکت میں برکت ہے۔ یہ بگھیو صاحب کی ابتدا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

اس موقعہ پر اس نوزائیدہ یونیورسٹی کو اچھی سوجھی۔ وقت مناسب دیکھ کر وائس چانسلر ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے اعلان کیا کہ اس یونیورسٹی میں مہینے کے مہینے پہلی اتوار کو ادبی محفل سجا کرے گی ع
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔