شہرکی فصیلوں پر دیوکا جو سایہ ہے

جاوید قاضی  ہفتہ 16 مئ 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کس طرح رقم کروں اورکیا رقم کروں، خون ہونے والوں پر لکھوں یا خون کرنے والوں پر، قاتل کون ہے، مقتول کون ہے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ سب چہرے ایک جیسے ہیں، سب کے ماتھے پہ جیسے قتل سجا ہو اور سب کے چہرے جیسے مرنے کے منتظر ہوں۔ ہر طرف آہ و زاری ہے فغاں ہے کوئی نوحہ کناں ہے، کوئی فریاد کناں ہے، اتنا بھاری ہے دل اس شب کے بیٹھنے کو جی کرتا ہے میز پر کھانا پڑا ہے اور انگلیاں بڑھ نہیں رہی ہیں۔ سب جیسے ساکن ہوگیا ہے۔ ہاں مگر زندگی دریچوں سے جھانکتی ہے، روشنیوں کی پازیب بن کر کانوں میں جھنجھناتی ہے۔ اور آنکھوں میں پڑ جاتی ہے زندگی آئینہ بن کر۔ دوکروڑ سانس لیتے ہوئے انسانوں کا شہر ہے۔ اتنی بھری پڑی ہے زندگی اس میں کہ یہ شہر ہار نہیں سکتا، مر نہیں سکتا، اسے بھسم نہیں کیا جاسکتا یہ کہیں بھی خانہ جنگی میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔

کوئی اچھا نہیں لگتا اس شہر کے دشمنوں کو یہ شہر پھر سے کھل اٹھے، وہی 80 کی دہائیوں والی روشنیاں واپس آجائیں، اب ایک دشمن ہو تو بات بنے، طرح طرح کے نشتر ہیں، ہر طرف سے امڈ آتے ہیں، سب میں اتفاق ہے کہ اس ریاست کو شکست دو۔ اس کی شہ رگ پر گھمسان کی جنگ کرو۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر جب گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے اسے کا کیا کیا جائے؟ مرنے والے سارے بانی پاکستان محمد علی جناح کے قبیلے کے تھے۔ وہ جناح جس نے گیارہ اگست 1947 کو وہ وچن دہرایا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگا۔ ہم نے دو سال بھی نہ انتظار کیا جناح کے جانے کا اور قرارداد مقاصد لے کر آئے، 1947 کے ایکٹ سے دو ملک بنے تھے، ایک نے سیکولر راہ اختیار کی اور ایک اس بات پر مبہم رہا۔ ایک نے جمہوری راہ لی اور ایک نے غیر جمہوری طرز اپنایا۔ یہ اور بات ہے دونوں پیدا جمہوری انداز میں ہوئے تھے۔

بہت سے پہلو ہیں، صفورا گوٹھ کے واقعے کے، ہر ایک پہلو کو اپنی جگہ وزن دینے کی ضرورت ہے اور پھر کڑی کو کڑی سے ملانے کی ضرورت ہے۔ سیدھا جاکے بیرونی طاقتوں کو مورد الزام ٹھہرانا قبل از وقت یا جلدی سے نتیجے پر پہنچنے کے برابر ہے۔

ایسا کرنے سے ہم ایک ایسے بیانیے Narrative میں دوبارہ پھنس سکتے ہیں جس کا تسلسل ماضی سے ملتا جلتا ہے، طالبان ہم نے بنائے اور اس میں ’’را‘‘ بھی جڑیں بنا کے بیٹھ گئی۔ بلوچ شورش میں ایندھن ہمارا پڑا ہوا ہے وہ غلطیاں و تلخیاں جو گزشتہ سات دہائیوں میں ہم نے کیں یہ اس کا آئینہ ہی ہے اور کوئی بھی شک نہیں کہ اس میں بھی ’’را‘‘ ملوث ہو۔ جنرل ضیا نے بے نظیر کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے جو دیہی سندھ اور شہری سندھ کے فلسفے کو جنم دیا اور سب سے بڑی بات جس طرح مذہبی تفرقہ اور نفرت سعودی عرب کے فنڈز  نے یہاں پیدا کی۔

آج بھی وہ کتاب مارکیٹ میں موجود ہے جس میں اسماعیلیوں کو نہ صرف کافر بلکہ مرتد قرار دیا ہوا ہے اور وہ صاحب کتاب مختلف ٹاک شوز میں آتے رہتے ہیں اور تو اور کسی طرح کراچی اور دبئی کا آپس میں الٹا پہیہ چل پڑا ہے۔ کہ اب دبئی سے پاکستانی اپنے اثاثے بیچ کر واپس کراچی کو لوٹ رہے ہیں کہ اپریل کے مہینے میں 34 فیصد Remittance میں اضافہ صرف دبئی سے ہوا ہے۔ کراچی کے امن سے دبئی میں مندی سے پیوست  ہے۔

یوں لگتا ہے کراچی Proxy جنگوں کی آماجگاہ بن گیا ہے اور اس سے لڑنے کا طریقہ یہ نہیں کہ آپ بھی ایسی Proxy جنگوں میں ایندھن ڈالیں اور اس طرح ہندوستان کے علیحدگی پرستوں میں سرمایہ کاری کریں۔ اس کا مطلب ہے آپ دو ہاتھوں سے بجتی تالی کا ہے ،ایک ہاتھ کا تعاقب کریں اور اسے شکست دیں۔ ان کا آپ سے لڑنا بہت آسان ہے کیونکہ آپ ریاست ہیں اور آپ کا ان سے لڑنا آسان نہیں کیونکہ وہ اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کی آڑ میں انسانی حقوق وضع کیے ہوئے ہیں۔

کولیٹرل ڈیمیج ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور آپ خود اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں جس کو سلجھانے کے لیے آپ گئے تھے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ بری حکمرانی کا بھی عمل دخل ہے اس انتہا پرستی کو ہوا دینے میں۔ پولیس VIP ڈیوٹی کرنے پر مامور ہے۔ تھانے پر بولیاں لگتی ہیں۔ پورا 160 ارب روپے تعلیم کا بجٹ ضایع جاتا ہے یہی عالم صحت کا ہے، کچے کی لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضہ کیا گیا ہے، تعمیرات کے نام پر سیکڑوں صدیوں پرانے گاؤں مسمار کیے گئے ہیں اور ان سارے کاموں کے لیے ایک سویا ہوا وزیر اعلیٰ ضروری ہے۔ سندھ کی ساری کی ساری بیوروکریسی کے لیے یہ نوید ہے کہ کھلا کھاؤ ۔ اور بلاول ہاؤس وزیر اعلیٰ ہاؤس بن گیا ہے۔ وہ افسر جو ان کے غلط کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں ان کے تبادلے من پسند جگہوں پر ہوجاتے ہیں۔ اب یہ سروسز ایکٹ میں ایسی ترامیم لائے ہیں جس سے بیوروکریسی میں شفافیت کا اور بیڑا غرق۔ ان سات سالوں میں ادارے پست ہوئے ہیں۔

قائم علی شاہ صاحب 88 ء سے قتل و غارت دیکھتے آرہے ہیں،ان کی طرز حکمرانی کے کئی شیڈز محمد شاہ رنگیلا سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ جب گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے تو دہشت گردوں کا راج کیوں نہیں ہوگا۔

اور پھر یہ ہوا کہ ایک دن جنرل کیانی کے جانے کے بعد ہماری عسکری قیادت بیدار ہوکے جب اٹھی تو پھر دیکھیے آج طالبان کہاں کھڑے ہیں۔ جب کراچی میں آپریشن کا آغاز ہوا تو نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں۔ زرداری  سے زیادہ کڑے فیصلے کرنے میں میاں صاحب بھی بہت بہتر ہیں۔ آج لاہور کو دیکھیں کیسے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔بالکل لاہور اور پنجاب وفاق لاڈلا ہوسکتا ہے، مگر وہاں پر قائم علی شاہ جیسی  لاتعلق ،اور سوئی ہوئی قیادت نہیں ہے۔ عام آدمی پوچھتا ہے کراچی کو کراچی کی قیادت نے کیا دیا۔ اور پھر Vacuum پیدا ہوا تو پھر اس Vacuum کو رینجرز نے اور عسکری قیادت نے پر کیا اور اس طرح کل Apex Committee کی میٹنگ کور کمانڈر کے آفس میں ہوئی، جنرل راحیل نے صدارت کی اور سندھ حکومت نااہلوں کی حکومت کی حیثیت میں اس کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔

جب بلاول ہاؤس کی انکروچمنٹ رینجرز نے گرائی تو بلاول ہاؤس والے کیسے خوش ہوں گے کہ Ranger کامیاب جائے ۔ جب نائن زیرو پر رینجرز نے آپریشن کیا تو نائن زیرو والے کیسے خوش ہوں گے۔ رینجرز کامیاب جائے اور کراچی کا کیا ہے۔ اسے امن چاہیے۔ کوئی بھی دے یہ دیں یا وہ دیں۔جو بھی دے اس کا بھلا!

کراچی اربوں ڈالر کی آسامی ہے۔ بھتہ مافیا کے لیے، پلاٹوں پر قبضہ کرنے والوں کے لیے۔ اب رینجرز ایک قدم اور بڑھتے ہوئے زمینوں پر قبضہ کرنے والی مافیا پر ہاتھ ڈالنے والی ہے۔ NAB بھی حرکت میں آگئے ہیں جیسے (NAP)نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔

پھانسیاں سب کو نظر آرہی ہیں۔ ان کے اس شہر میں تین قسم کے زاویے ہیں ایک وہ ہیں جو Rangers کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو مذہب کے نام پر پورے پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مرکز بھی کراچی ہے۔ اور ایک وہ ہیں جو ان دوستوں سے نبردآزما ہیں۔ وہ کراچی کے شہریوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

کس نے روکا تھا زرداری  کو ایک اہل وزیر اعلیٰ دینے سے۔ مراد علی شاہ ہیں، نفیسہ شاہ ہیں۔ مگر زرداری ہوں یا فریال تالپور ان کو ایسا وزیر اعلیٰ چاہیے جس طرح مغلوں کے درباروں میں ہوتا تھا۔ اگر کوئی بندہ اہل ہو تو ان کو اس سے کوفت ہوتی ہے۔ جاگیرداری سوچ کے سینگ نہیں ہوتے وہ اسی طرح ہوتی ہے۔

میاں صاحب کا یہ کہنا کہ جب سے چین نے سرمایہ کاری کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے دہشت گردی کے واقعات کرکے اسے سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ بہت ہی سستا سا طریقہ ہے اور اس سانحے کی کڑیاں اسی پراسراریت سے ملتی ہیں جس نے ہمیں اس نہج تک پہنچایا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ مودی کے کٹر ہندو سوچ رکھنے والا ہندوستان ، پاکستان کے وجود کو برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن پھر بھی ہم ہندوستان کو مانتے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے کی ضرورت ہے، تجارت کی ضرورت ہے۔ ہاں چائنا کا یہاں سرمایہ کاری کرنا ہمارا داخلی معاملہ ہے اور ہم ایسے فیصلے قومی مفاد میں کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہمیں ہندوستان کو بھی آگے نکلتی ہوئی ساؤتھ ایشیا کی تجارتی منڈی جس کا gateway پاکستان ہوگا، شراکت دینا ہوگی لیکن اس کا تعلق آپس میں اعتماد کی فضا بحال کرنے سے ہے۔

ہمیں وفاقی پاکستان چاہیے۔ بہت بدنصیبی ہوگی کہ میاں صاحب صرف پنجاب تک محدود رہنا چاہتے ہیں اور اس لیے آج کل پارلیمنٹ فلور پر ان کے خواجہ آصف، خرم دستگیر ایسی باتیں کرتے ہوئے نظر آئے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ عمران خان کا پنجاب میں راستہ روکنے کے لیے پنجابی قوم پرستی میں پناہ لی ہے۔ جس طرح کراچی میں PTIکا راستہ روکنے کے لیے سندھ کی تقسیم کی بات کرکے متحدہ اپنے ووٹر اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔

شہر کی فصیلوں پر یوں تو اب بھی دیو کا سایہ ہے لیکن اس نے جانا ہے کہ اب اس شہر نے بہت آگے کو جانا ہے۔ ہمیں ابھی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔