میرٹ کا قتل (1)

رحمت علی رازی  اتوار 17 مئ 2015

گزشتہ چند ماہ سے چونکہ ہم سول سروسز ریفارمز کے بارے میں اپنے مطالعہ و مشاہدات کی بنیاد پر مسلسل لکھ رہے ہیں‘ چنانچہ اسی پس منظر میں متعدد وفاقی و صوبائی سول سرونٹس کے علاوہ سی ایس ایس کے کئی متاثرہ امیدواروں کے خطوط بھی موصول ہوئے۔ ان میں امیدواروں کے ذاتی تجربات کی بنیاد پر بجا شکایات پائی جاتی ہیں اور مکتوب نگاروں نے متعلقہ محکموں کے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے قصوں کا احوال بھی بیان کیا ہے۔

کچھ مراسلوں کو تو ہم نے اپنے کالموں کا ضمیمہ بنایااور چند ایک شامل اشاعت سے محروم رہ گئے۔ اسی دوران ہمیں ایف بی آر کے ایک سینئر بیوروکریٹ کی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی ای میل موصول ہوئی، جس میں انھوں نے سی ایس بی کی ناقابل بیان داستان سنائی اور اس بات پر شدید زور دیا کہ حکمرانوں کی لونڈی بننے والے سی ایس بی کی اس فطری ستم ظریفی پر ہم قلم آزمائی کریں۔انھوں نے ہماری توجہ اس امر کی جانب بھی مبذول کرائی کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس سول سروسز کے مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والے افسروں کو گریڈ 19 سے 20 اور گریڈ 20 سے 21 میں ترقی دینے کی منظوری اور سفارشات مرتب کی جائیں گی۔

انھوں نے اندرونی ذرائع کے حوالے سے عندیہ دیا کہ سلیکشن بورڈ نے صریحاً ناانصافی سے کام لیتے ہوئے ایف بی آر سے تعلق رکھنے والے گریڈ 19 اور 20 کے کئی افسران کو نام نہاد انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر مجوزہ و مطلوبہ ترقی سے محروم کر دیا ہے جب کہ کئی ایک اعلیٰ افسران ایڈمنسٹریشن کی سستی کے بھینٹ چڑھ گئے۔ اس کے علاوہ کئی افسران ایسے بھی ہیں جنہیں ذاتی پسند و نا پسند کی بنا پر سُپرسیڈ کیا گیا ہے۔

ترقی سے محروم رہنے والے وہ افسران جن کا خیال ہے کہ وہ میرٹ پر پورا اترتے تھے اور انھیں ان کی سنیارٹی، قابلیت اور اہلیت کے مطابق ترقی نہیں دی گئی، اس فیصلے سے ان کے اندر سخت مایوسی پائی جاتی ہے جب کہ ایف بی آر کے ایک ایسے افسر کو ترقی دیدی گئی جس کی ڈگری کو وفاقی ٹیکس محتسب نے جعلی قرار دیا تھا اور اس پر محبتوں اور مہربانیوں کی نوازشات کرتے ہوئے ایک ایسی آسامی پر ترقی دیدی گئی جو دوماہ بعد خالی ہونا تھی۔ ایف بی آر کے ایک اعلیٰ افسر، جن کا نام قبل ازیں بھی گریڈ21 میںترقی کے لیے سلیکشن بورڈ کے سا منے پیش کیا گیا تھا لیکن وہ حتمی فہرست سے ڈراپ کر دیے گئے تھے، اس مرتبہ بھی ان کا نام بھیجا گیا لیکن ایک حساس ادارے کی رپورٹ پر ان کی ترقی کا کیس مسترد کردیا گیا۔

اسی طرح ایف بی آر کے ایک اور افسر جن کو گریڈ 19سے 20 میںترقی دی جانا تھی صرف اس بناپر رہ گئے کہ ان کے خلاف ایک انکوائری ہوئی تھی جس میں انھیں کلیئر کردیا گیا تھا اور ایڈمنسٹریشن نے اس کا فائنل لیٹر جاری کرنا تھا کہ ان پر کوئی داغ نہیں مگر وہ فائل ایڈمنسٹریشن کے کنویں سے کئی ہفتوں بعد بھی نہ نکل سکی اور بالآخر بورڈ کے کنویں میں ان کا کیس غرقاب ہو گیا۔ ان دو افسران کے علاوہ بھی گریڈ19 اور20 کے کئی افسران ایسے ہیں جن کو حساس ادارے کی منفی رپورٹوں کی بناء پر ترقیاں نہ مل سکیں۔

اسی طرح جن افسران کو سپرسیڈ کیا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ سپرسیڈ صرف اسی صورت میں کیا جاتا ہے جب پسند ونا پسند کو سامنے رکھا جائے، اور یقینا ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ہے حالانکہ ان کی کارکردگی کسی بھی طرح سے اپنے ساتھی افسران سے کم نہیں تھی‘‘۔ سینٹرل سلیکشن بورڈ میں مختلف سروسز گروپوں کے جن اعلیٰ افسران کی ترقی کی منظوری دی گئی ان میں تقریباً 70 کو ترجیحی فہرست میں رکھا گیا ہے اور دیگران کو کیٹگری بی اور سرپلس پول کی سفارشات میںہائی لائٹ کیا گیا ہے۔

حالانکہ سول سروسز کے تمام بارہ گروپوں کے 300 سے زائد ملازمین میرٹ کی بنیاد پر گزشتہ کئی سالوں سے ترقیوں کے انتظار میں تھے جن میں 200 کے لگ بھگ افسران ہر لحاظ سے اگلے گریڈ میں ترقی کے پیمانوں پر پورا اترتے تھے اور گزشتہ ماہ ان کی محکمانہ سفارشات بھی مرتب کرلی گئی تھیں مگر سینٹرل سلیکشن بورڈ کی بدنیتی کی وجہ سے ان تین سو میں سے بھی نصف سے زائد کو ڈیفر کردیا گیا۔ سی ایس بی کے اس ہنگامی اجلاس میں چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن میجر جنرل(ر) نیاز خان خٹک، سلیکشن بورڈ کے ممبران، چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت دیگر وفاقی سیکرٹریز کے علاوہ متعدد اعلیٰ افسران شریکِ مجلس تھے۔

کہا جاتا ہے کہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کمال فنکاری سے اپنے اور حکمرانوں کے ناپسندیدہ اور راندہ ٔدرگاہ لاوارث افسروں کی ترقیاں رکوا دیں، جو اب ظاہر ہے کئی سالوں تک انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے، انہیں اور حکمرانوں کو بد دعائیں دیتے رہیں گے ۔ سی ایس بی کے اس پروموشن اجلاس میں بعض طاقتور ترین اعلیٰ افسروں کی شمولیت سے بھی یہ بھرپور تاثر ملتا ہے کہ اعلیٰ بیوروکریسی کو دی گئی حالیہ ترقیاں بلاشبہ سیاسی اور مفاد پرستانہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی ہر سرکاری شعبے میں ذاتی مداخلت ہی نے اس ملک اور اس کے سرکاری انفراسٹرکچر کا بیڑہ غرق کیا ہے اور اب بھی مختلف گروپوں کے جن افسران کی گریڈ20 اور گریڈ21 میں ترقیوں کی سفارشات کو حتمی شکل دی گئی ہے، ان میں زیادہ تر وہ سفارشی اور سیاسی درباری ہیں جنھوں نے حکمرانوں کی ذاتی پسند و ناپسند کے سامنے خود کو رہن رکھ دیا ہے۔

اسی وطیرے کے تحت حکومت کے منظور نظر اور خاصانِ خاص ایک مہاکلاکار بااثر بیوروکریٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے طاقتور میرٹ پر سیریل 135تک افسران کو ترقی دی گئی ہے جس کے لیے ایک سوچی سمجھی تدبیر کے تحت سینئر ترین 64 سے74 افسروں کو سپرسیڈ کر کے انڈر آبزرویشن کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے، کیونکہ متذکرہ مہاکلاکار پہلے ہی جونیئر ہونے کے باوجود عرصہ دوسال سے گریڈ 21 کے عہدے پر تعینات چلے آرہے تھے ۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں ان دو سو افسران کی ترقیوں کی سمری گزشتہ سال سے انتظار ِ فردا میں تھی جنہیں تین سو کے قریب اعلیٰ ترین عہدیداران میں سے انٹیلی جنس رپورٹس کی کلیئرنس اور متعلقہ ریکارڈ و کورسز کی تکمیل کے بعد شارٹ لسٹ کیا گیا تھا مگر ان 200میں سے بھی ایک اعلیٰ افسر کو ڈراپ کر کے 199 کی سفارشات پیش کی گئیں اور جس لاوارث افسر کو اس فہرست سے خارج کیا گیا، اس کی جگہ اُس خوش بخت وی آئی پی مہاکلاکار آفیسر کو شامل کیا گیا جس کو فائدہ پہنچانے کے لیے 64 لاوارثوں کو سپرسیڈ کر کے ترقیوں کا عمل صرف سیریل 135 پر روک دیا گیا۔

یہ ترقیاں ابھی مزید التوا کا شکار ہوسکتی تھیں مگر وفاقی حکومت نے ایک عدالتی حکم کے پیش نظر نیکی کے اس کام کو جلدسے جلد نمٹا دینے میں ہی عافیت جانی۔22 اپریل 2015 کو سپریم کورٹ نے فیڈرل گورنمنٹ کو ایک فرمان کے ذریعے پابند بنایا تھا کہ تیس یوم کے اندر اندر سینٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس کا انعقاد یقینی بنا کر میرٹ پر پورا اترنے والے سینئر افسران کو ترقی دی جائے۔

عدالت عظمیٰ کے احکام کی پیروی ہی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سی ایس بی اجلاس منعقد کروایا۔ 1973ء کے ’’ سروسزرولز‘‘ میںیہ صاف صاف لکھا ہے کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ ہر چھ ماہ بعد اجلاس کے انعقاد کا پابند ہے مگر بدقسمتی سے بورڈ کا گزشتہ اجلاس فروری 2014ء میں بلایا گیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ گریڈ19 کی 20، گریڈ21 کی آسامیوں کی کثیر تعداد ایک سال سے زائدکے عرصہ سے خالی پڑی ہیں۔ گزشتہ ماہ وزیراعظم کی زیرسربراہی منعقدہ اجلاس میں گریڈ 21 کے اٹھارہ افسروں کو گریڈ 22 میں پروموشن دی گئی تھی۔

وزیراعظم کے تقرریوں، تبادلوں اور ترقیوں کے یکے بعد دیگرے سفارشی ورعایتی فیصلوں سے آدھی سے زیادہ بیوروکریسی نالاں ہے۔ کچھ افسران وزیراعظم کے گزشتہ سال کی ترقیوں کے اس جابرانہ فیصلے کے خلاف عدالت میں گئے ہوئے تھے جب اپریل 2014ء کو وزیراعظم نے اعلیٰ بیوروکریٹس کی ترقیوں کے معاملہ میں اہلیت اور کارکردگی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سینٹرل سلیکشن بورڈ کی جانب سے گریڈ 20 سے 21 میں ترقی کے لیے 19 ڈی ایم جی افسران کی ترقیوں کی سفارشات کو مسترد کردیا تھا اور بورڈ کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان سفارشات کا ازسرنو جائزہ لے۔

تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو وزیراعظم نے بورڈ کے غیر سنجیدہ اور جلدبازی کے رویے پر تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد یہ کہہ دیا کہ ’’بورڈ نے سپریم کورٹ کے مہیا کردہ راہنما اصولوں کو مد ِنظر نہیں رکھا اور کچھ متاثرہ اور خراب عوامی ساکھ رکھنے والے افسروں کو بھی پروموشن لسٹ میں شامل کر لیا، چنانچہ تمام سفارشات کی منظوری قطعی ناممکن ہے، اس ضمن میں بورڈ کو غور کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ اوریا مقبول جان کیس میں سنہری اصول مرتب کر چکی ہے لیکن سینٹرل سلیکشن بورڈ نے ترقیوں کی سفارشات مرتب کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کی فراہم کردہ گائیڈ لائن کو سرے سے نظر انداز کر دیا‘‘۔ وزیراعظم نے ایک طرف تو 19 ڈی ایم جی افسروں کی منظوری کو رَد کردیا تھا تو دوسری جانب 26 ڈی ایم جی افسروں کی گریڈ 20 سے گریڈ21 میں ترقیوں کوفی الفور حتمی منظوری بھی عطا فرما دی تھی۔

ترقی کے جن امیدواروں کی سفارشات کو مسترد کردیا گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے سفارشی اورمن پسند افسروں کو ترقیاں دیں اور ہمیں سینئر ترین ہونے اور اچھی کارکردگی کاریکارڈ رکھنے کے باوجود صرف اس لیے رَد کردیا کہ نہ توہماری کسی سیاسی جماعت سے کبھی وابستگی رہی اور نہ ہی انٹربیوروکریٹک پریشر گروپوں سے کبھی ہمارا فدویانہ ناطہ رہا جو ہماری سفارش کرتے اور ہمارے وارث بنتے۔ترقی سے محروم رہ جانے والے افسران نے اس امر پر بے حد افسوس کا اظہار کیا کہ وزیراعظم نے سینٹرل سلیکشن بورڈ کو یہ کہہ کر سرزنش تو کردی کہ اس نے سفارشات مرتب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی آبزرویشن کو فالو نہیں کیا جب کہ اصل بات یہ ہے کہ اس آبزرویشن کی دھجیاں تو خود وزیراعظم نے اڑائی ہیں۔

سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے بھی اپنے دور میں 37 افسران کو گریڈ21 میں ترقی دی جب کہ ان گریڈز میں کوئی پوسٹ سرے سے خالی ہی نہیں تھی۔ ان تقرریوں کے خلاف سینئر بیوروکریٹ اور اینکر پرسن اوریا مقبول جان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور موقف اختیار کیا کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے میرٹ کو نظرانداز کر کے اعلیٰ افسران کو خلافِ ضابطہ ترقیاں دیں جس سے بیوروکریسی کا بالائی ڈھانچہ متاثر ہوگا اور متاثرہ افراد میں بے چینی کا باعث بنے گا لہٰذا نہ صرف امتیازی ترقیاں وتبادلے منسوخ کیے جائیں بلکہ بیوروکریسی میں اصلاحات متعارف کروانے کا حکم بھی صادر فرمایا جائے۔اس وقت کے بنچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ پوسٹ خالی نہ ہوتو پھر کسی کو نوازنے کے لیے ہی اَپ گریڈ کیا جاتا ہے۔

گڈگورننس میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہوتا ہے، اگر بیوروکریسی میں شفافیت نہیں ہوگی تو پھر گڈگورننس بھی ناپید ہوگی۔ سپریم کورٹ نے ترقیوں کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بیوروکریسی کے لیے اصلاحی بنیادوں کے کچھ سنہرے اصول مرتب کیے جنہیں اس وقت کی اور آئندہ حکومتوں نے محض بے فائدہ کاغذوں کا ایک پلندہ سمجھا۔ نواز شریف کے اس فیصلے سے متاثر ہونیوالے 19 میں سے 18 افسروں نے آفتاب احمد مانیکا کی سرکردگی میں وفاقی حکومت کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست گزاری جس کی سماعت کے بعدکورٹ نے متاثرہ بیوروکریٹس کی ترقیاں روکنے کا فیصلہ کالعدم قراردیدیا۔

درخواست گزاروں کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے حکومت کی یہ قلعی عدالت کے رو برو کھولی کہ وزیراعظم نے من پسند نالائق بیوروکریٹوں کو ترقی دی جب کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات کے باوجود باصلاحیت اور قابل افسروں کو ذاتی پسند وناپسند کی بناء پر نظرانداز کیا، جس پراسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انورکاسی نے متعلقہ بیوروکریٹس کی ترقیاں روکنے کا حکم کالعدم قراردیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں انہیں مناسب ترقیاں دی جائیں مگر حکومت نے عدالتی آرڈر کے باوجود معاملہ لیت ولعل کی نذر کردیا اور سلیکشن بورڈ کے اجلاسوں کے انعقاد پر بھی مسلسل سردمہری اختیار کیے رکھی۔

اب جب کہ سپریم کورٹ نے ایک مہینے کے اندر سلیکشن بورڈ کا اجلاس بلانے کے سخت احکامات صادر کیے ہیں تو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور چیئرمین ایف پی ایس سی نے یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑانے کی ناکام سعی کی ہے کہ حکومت تو سینٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس اکتوبر 2014 اور فروری 2015 میں منعقد کرنا چاہتی تھی مگر کچھ نافرمان افسروں نے عدالتوں میں مقدمات دائرکر رکھے تھے، بدیں وجہ اتنا طویل تعطل پیدا ہوا، اور اس کی ایک آخری مثال 9 جنوری 2015ء کا لاہور ہائیکورٹ کا حکم امتناعی ہے جورائو منظر حیات سمیت تین ڈی ایم جی افسروں کی درخواست پر جاری کیا گیا جسکے نتیجے میں جنوری 2015ء میں منعقد ہونے والے سینٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس کو روک دیا گیا۔

کیا زیادتی ہے کہ چیئرمین ایف پی ایس سی اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو اجلاس کے روکے جانے کی تو برملا شکایت ہے مگر وہ یہ وضاحت کرنا بھول گئے کہ لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس فرخ عرفان خان نے عاصمہ جہانگیر کے ایک اور مقدمہ میں دلائل سن کر ہی بورڈ کے اجلاس کے خلاف حکم امتناعی کا فیصلہ دیا ۔ اس کیس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سلیکشن بورڈ نے جونیئر افسروں کوترقی دینے کے لیے 12، 13 اور 14 جنوری 2015ء کو اجلاس طلب کیا ہے جسے فوراً روکا جائے کیونکہ سینئرز کو نظر انداز کر کے جونیئر افسروں کو ترقی دینا بنیادی حقوق اور متعدد عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ بیوروکریسی کی ترقیوں اور تبادلوں کے حوالے سے سینٹرل سلیکشن بورڈ ہمیشہ ہی سینئر ترین افسروں کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی سے کام لیتا آیا ہے۔

سول سروسز کے بارہ گروپوں میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پولیس سروس آف پاکستان اور فارن سروسز کے گروپس نئے آنے والے بااثر بیوروکریٹس کے لیے انتہائی کشش کے حامل رہے ہیں، اسی وجہ سے ایف پی ایس سی، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور سینٹرل سلیکشن بورڈ کے پاس بھی زیادہ ان ہی گروپس کے افسران کی ترقیوں اور تبادلوں کی سفارشات کی بھرمار رہتی ہے۔

اس بار جوترقیاں ہوئیں ان میں بھی کوئی نئی اصلاحات شامل نہیں ہیں یعنی اس سے قبل جن مانوس گروپوں کے لوگوں کو پروموشن دی جاتی تھی آج بھی ان ہی پر نظرکرم کی بارش ہو رہی ہے، اگر کوئی نیا دَر کھلا ہے تو وہ پوسٹل گروپ کا ہے جن کے 20 اور 21 گریڈ کے زنگ کو ایک طویل عرصہ بعد اُتارا گیا ہے۔ گزشتہ برس بھی نواز شریف نے پوسٹل گروپ کے گریڈ 21 کے چند افسران کو گریڈ 22 میں ترقیاں دی تھیں جس سے اس گروپ کا چالیس سالہ جمود ٹوٹا تھا۔
(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔