میرٹ کا قتل (دوسرا اور آخری حصہ)

رحمت علی رازی  پير 18 مئ 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

اس مرتبہ جنہیں ترقی کی سیڑھی کے اگلے زینے پر چڑھایا گیاان میں چند گروپ ہی قابل ذکر ہیں۔ سلیکشن بورڈ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق کل 10گروپوں کے اعلیٰ افسران کو پروموٹ کیا گیا اور بدقسمتی سے جن 2گروپوں کو مکمل طورپر نظر انداز کیا گیا، ان میں ریلوے گروپ اور کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ شامل ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ریلوے اور کامرس اینڈ ٹریڈ کے گروپوں کے ساتھ اب کے بار بھی حسب ِ معمول سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان گروپوں کے افسران سول سروسز آف پاکستان کا حصہ نہیں ہیں۔ یایہ گروپ کیا اس درجہ بے حیثیت ہیں کہ انھیں لائق اعتناء ہی نہیں سمجھا جاتا۔ جب سول سروسز کے دیگر دس گروپوں کی پروموشن سمری مرتب کرلی گئی اور دو گروپوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تو ظاہر سی بات ہے کہ ان کے ملازمین (جنہیں اب افسران کہنا مناسب نہ ہوگا) کے زخموں پر کس بے رحمی سے نمک پاشی کی گئی ہوگی۔

ہمارا نہیں خیال کہ سی ایس ایس کا امتحان دینے سے پہلے یا بعد میں کوئی بھی کیریئر پرست ان دو گروپوں کا نام بھی لینا گوارا کریگا۔ یہ تو مکمل دو ادارے ہیں جن کو اچھوت سمجھ کر سینٹرل سپیریئر سروسز کی برادری سے بے دخل کیا گیا ہے۔ جو اس برادری کا حصہ ہوتے ہوئے اپنے جائز حقوق سے ہر بار محروم رہ جاتے ہیں، ان مظلوموں کے ضبط وبرادشت کی بھی کوئی حد تو ہو گی جو بغاوت اور احتجاج پر منتج ہو سکتی ہے۔ نجی مفاد ومنشور کے لبادے اوڑھے ناتجربہ کار حکومتوں اور بیوروکریسی کے بے رحم ناخداؤں کے خمارزدہ یہ فیصلے کوئی نئی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ قصہ تو نصف صدی سے زائد کا ہے جسکے لفظ لفظ سے ایسا زہر ٹپکتا ہے جس نے وطن ِ عزیز کی انتظامی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔

مورد ِ الزام تنہا سلیکشن بورڈ کے وڈیرے نہیں ہیں، اس کبیر وقبیح گناہ میں سروسز گروپوں کے سربراہان بھی برابر کے شریک ہیں جو ماتحت گریڈروں کو ابھرتا نہیں دیکھنا چاہتے اور افسران کی محکمانہ رپورٹس مرتب کرنے میں بدنیتی اور کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سی ایس بی ترقیوں کی سفارشات انھی محکمانہ رپورٹس کی روشنی ہی میں مرتب کرتا ہے کیونکہ 31 دسمبر 2007کو سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ایک اسپیشل ڈائریکٹو کا اجرا کیا تھا جسے لیٹر نمبر 41کہا جاتا ہے جس کی رو سے سول سرونٹس کا ذاتی اور محکمانہ ریکارڈ جانچ کر ہی بورڈ انھیں پروموشن دینے کا مجاز ہے۔ اس نام نہاد ’’لیٹر فورٹی ون‘‘کو سلیکشن بورڈ تا حال ایک خودکار ہتھیار کے طورپر استعمال کررہا ہے۔ اس لیٹر کے علاوہ بورڈ کے پاس ایک اور صوابدیدی اختیار کا آلہ بھی ہے جسے وہ نکھٹو اور نالائق افسران کو پروموشن بوٹ پر بٹھا کر اعلیٰ گریڈوں کے ساحلوں پر اُتارا کرتے تھے۔

یہ اختیار 15 صوابدیدی نمبروں کا تھا جو سلیکشن بورڈ کا چیئرمین کمزور اے سی آر والوں کو دیکر گریڈ 19 اور 20 میں ترقی دے سکتا تھا۔ یہ اختیار آج بھی بدستور قائم ہے مگر اس کا طریقہ کار بدل دیا گیا ہے اور اب اے کلاس کی اے سی آر کے حامل کو 15نمبر جب کہ بی اور سی کلاس کی اے سی آر والوں کو بالترتیب 10 اور 5نمبرز دیے جاتے ہیں۔ عام طور پر گریڈ20 میں ترقی کے لیے 70 جب کہ گریڈ 21 میں پروموشن کے لیے 75 نمبرز درکار ہوتے ہیں۔ حالیہ اجلاس میں جن افسروں کو ترقیوں سے محروم رکھا گیا، انھی میں سے ایک سینئر ترین ڈی ایم جی افسر نے سلیکشن بورڈ کے ایک نئے طریقہ واردات سے ہمیں فون کر کے آگاہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ بورڈ نے اس بار اپنے مروجہ رولز میں تبدیلی کر کے ایک نیا حربہ اپنایا ہے اور وہ یہ کہ ایف پی ایس سی اور وزیراعظم کے علم میں لائے بغیر افسران کو کہا گیا وہ دسمبر 2014 کے بجائے دسمبر 2013کی اے سی آر اپنے مطلوبہ ریکارڈ کے ساتھ پیش کریں، صرف اسی صورت میں ان کی گریڈ 20سے گریڈ 21 میں پروموشن ممکن ہے۔

متعدد افسران جن کے نام سنیارٹی لسٹ سے ڈراپ کر دیے گئے اُن کا کہنا حق بجانب تھا کہ انھوں نے 2014میں بیشمار ضروری اور مطلوبہ کورسز مکمل کر لیے تھے اور اب ان سے 2013 کی اے سی آر طلب کر کے ان کے جائز حقوق غصب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ متاثرہ افسران نے حکمرانوں کو باور کرایا کہ جتنے بھی نام ترقیوں کے سلسلے میں منظوری کے بعد انھیں بھجوائے گئے ہیں ان میں نصف سے زائد مطلوبہ اہلیت کے حامل نہیںہیں لہٰذا ان کی ترقیوں پر حتمی مہر ثبت کرنے سے گریز کیا جائے۔ بیوروکریسی میںجہاں نوازنے کا کلچر پایا جاتا ہے وہیں محروم کر دینے کا رواج بھی اپنے عروج پر ہے۔ اعلیٰ بیوروکریسی کو ہر دور میں سیاسی حکومتوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بے جا استعمال کیا۔ اس بار تو حکومت اور سی ایس بی کی ملغوبہ چال نے سول سروس کے حلقوں میں بھونچال برپا کردیا ہے جس کی ایک واضح مثال صوبہ سندھ بھی ہے جو حکمرانوں کے انتقام کا نشانہ بنا۔

آصف علی زرداری کے بہنوئی اور وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے داماد بھی حکمرانوں کے انتقام سے محفوظ نہ رہ سکے البتہ وزیراعلیٰ کی بیٹی پر ضرور عنایات کی بارش برسائی گئی۔ سندھ اسمبلی میں وفاقی حکومت کے خلاف قرارداد منظور کی گئی ہے کہ وفاق سندھ کے خلاف تعصب رکھتا ہے جس کی وجہ سے سندھی افسروں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح لاہور کے ایک لاوارث اور راندۂ درگارہ ڈی آئی جی بھی آئی جی کی ناپسندیدگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ چوہدری پرویز الٰہی دور کے اہم عہدوں پر تعینات رہنے والے متعدد افسروں کو بھی حالیہ دورِ حکومت میں نظرانداز کیا گیا ہے۔ اب کے اجلاس میں جہاں سینئر ترین افسران کو حتمی فہرست سے خارج کردیا گیا، وہاں بہت سے من پسند اور چہیتے افسروں کو دل کھول کر نوازا گیا۔ ان میں ایک ایسے افسر کو بھی ترقی کا تمغہ عطا کیا گیا جو اعلیٰ افسروں کے ’’گلاس فیلو‘‘تھے۔ اسٹاف کالج میں کئی ماہ غیر حاضر رہنے والے ایک اور افسر کو بھی طاقتور ور میرٹ کی بنیاد پر اگلے گریڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

صوبہ سرحد کے ایک سابق آئی جی جو نیب کے مقدمات میں پابند ِ سلاسل بھی رہے، کے ملزم ساتھی کو بھی ترقی دیدی گئی۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ پچھلے سلیکشن بورڈ نے جن افسروں کی ترقی کی سفارش نہیں کی تھی، اس بار ان پر بھی خصوصی مہربانی کر دی گئی۔ یہ بازگشت اب ہر جگہ سنائی دے رہی ہے کہ سلیکشن بورڈ کو حکمرانوں نے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے‘ اس وجہ سے حکمرانوں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ یہ تو حکمرانوں کو ہی سوچنا چاہیے کہ ان کے کرتادھرتا ان کی سبکی کروانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جن افسران کے بارے میں تحفظات اور شبہات پائے جاتے ہیں، وہ بھی ترقی پانے میں کامیاب ہو گئے۔ بعض اچھی شہرت کے حامل افسران کو اعلیٰ سیاسی گھرانوں سے رشتہ رکھنے کی بنا پر نظر انداز کرنا انتقام کے زمرے میں آتا ہے۔ ب

ورڈ کو انٹیلی جنس رپورٹس پر اعتماد کرنے کے ساتھ ساتھ ایسا لائحہ عمل اپنانا چاہیے جس میں واقعی عوامی فیڈ بیک اور اثاثہ جات کی جانچ پڑتال کے بعد ترقی دی جائے۔ اگر ترقیاں سیاسی وابستگی پر ہونگی تو ایوانوں میں موجود حکمرانوں کے کرتا دھرتا مہاکلاکار ہی ترقی پاسکیں گے اور پیشہ ور، ایماندار اور قابل افسران کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ ترقیاں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہونی چاہئیں۔ مطلوبہ افسران کو ترقی دینے کے لیے شرط ہو کہ ان کی پچھلے دو سال کی پوسٹنگ کے دوران کیے گئے اہم فیصلوں اور پالیسیوں کا عوام اور طرزِحکومت پر کیا اثر پڑا۔ اگر پرفارمنس غیر تسلی بخش ہو تو ترقی سے محروم کر دیا جائے۔ان کے فیصلوں اور نئی پالیسیوں پر انٹیلی جنس رپورٹس بھی کی جائیں او ر منفی ظاہر ہونے والوں کو قطعاً ترقی نہ دی جائے۔ چیف سیکریٹری اور آئی جی کی رائے کو معتبر سمجھا جائے لیکن اس میں پسند ونا پسند کی تحقیق بھی کروانا ضروری ہے تاکہ افسران کی حق تلفی نہ ہوسکے اور کسی کو بے جا فائدہ بھی نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔