ریکوڈک اور سینڈک کی کہانی

عابد میر  منگل 19 مئ 2015
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

بلوچستان میں ساحل و وسائل کی اصطلاح اس قدر استعمال ہوئی ہے کہ اب یہ محض ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ گیا ہے ۔بلوچستان کے وسائل کی زرخیزی کی دعوے داری تو اکثر کی جاتی ہے لیکن یہ دعویٰ اکثر لفاظی کی حد تک محدود رہتا ہے یا سیاسی داؤ پیچ کے لیے ہی اس کا استعمال کیا جاتا ہے، حقیقی صورت حال پہ اعداد وشمار اورحقائق کے ساتھ منطقی بحث شاذ ہی ہو پاتی ہے ۔پھر ہم ایسے’ یوٹوپین لکھاریوں‘پہ حقائق کو جذبات کی نذر کر دینے کا الزام یوں بھی ہے۔ تو آئیے اب کے، جذبات سے ہٹ کر، بلوچستان کے اُن سونا اگلتے پہاڑوں اور صحراؤں کا تذکرہ بعض عالمی اداروں کی رپورٹس کے پس منظر کے ساتھ کرتے ہیں، جنھیں ریکوڈک اور سینڈک کے نام سے جانا جاتا ہے، اور جن کا ان دنوں میڈیا میں ایک بار پھر خوب چرچا ہے۔

یہ رپورٹس ہمیں بتاتی ہیں کہ ضلع چاغی نوکنڈی میںواقع ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ دنیا کا دوسرا سونے اورچاندی کاذخیرہ ہے۔ریکوڈک ضلع چاغی کے ایک چھوٹے سے قصبے کا نام ہے، جو ریگستانی علاقہ ہے ۔یہ نوکنڈی کے شمال مغرب میں70 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مقامی لہجے میں اس کا تلفظ ’’ریکے ڈک ‘‘ ہے۔اس کے معنی ’’ریت کے ٹیلے ‘‘کے ہیں، جس کی بگاڑ ریکوڈک ہے۔ یہاں سونے اور تانبے سے اٹے پہاڑ ہیں ۔جہاں 12.3ملین ٹن تانبہ اور 20.9ملین اونس سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ایک اندازے کے مطابق یہاں 11بلین پاؤنڈ کے تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ ریکوڈک میں 58فیصد تانبہ اور 28فیصد سونا ہے ۔ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائرکی مالیت کا اندازہ 65 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے…اور جہاں مقامی افراد کے لیے پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ جہاں مقامی لوگ سرکاری و غیر سرکاری نمایندوں کو ہیلی کاپٹروں سے پرواز کرتے ،آتے جاتے حیرت سے تکتے رہتے ہیں۔

غیر جمہوری معاشرتی و اقتصادی ترقی کی ایک مثال چاغی کے صحرا میں واقع سینڈک کا منصوبہ ہے جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 650کلو میٹردور ایران افغانستان کے بارڈر کے قریب بلوچستان کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے ۔سینڈک کا علاقہ سطح سمندر سے 950 میٹر بلند ہے انتہائی ریتلا علاقہ تفتان کے سرحدی قصبے سے40کلو میٹر دور ہے اور اونچے اونچے چٹیل پہاڑوں کا علاقہ ہے۔ برسوں کی تحقیق، کھدائی، سروے اور نمونوں کے تجزیے کے بعد وزارت پٹرولیم نیچرل ریسورس پاکستان نے سینڈک کے مشرق، شمال اور جنوب میں ذخائر دریافت کیے جن میں سونے، چاندی اور تانبے کے200ملین ٹن کے ذخائر ہیں۔سینڈک میٹل لمیٹڈ نے80ء کی دہائی میں اگرچہ اس پر کام کیا مگر سینڈک میںتانبے کی دریافت تو1901 میں ہوگئی تھی۔

پاکستان میں دھاتوں کی تلاش کا یہ واحد منصوبہ ہے جو سالانہ 144000 ٹن تانبا،147ٹن سونا اور27.6ٹن چاندی 80سال تک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔کہا یہ گیا کہ مذکورہ منصوبہ 1288براہِ راست اور11000بلاواسطہ نوکریاں پیدا کرنے کا بھی باعث بنے گا جو زیادہ تر بلوچستان کے مقامی افراد کے لیے ہوںگی جو چھوٹے کاروبار صنعتی ڈھانچوں کی ترقی اور دھاتوں کی کان کنی سے متعلق معلومات کی بلوچستان میں منتقلی کے نئے راستے کھولے گا (ہائے وہ میرے خواب!)۔ اسکول، اسپتال ،400افراد کے لیے آبادی،ریلوے لائن،بجلی کی ترسیل، تفتان سے سینڈک تک سڑک بلوچ انجینئر اور انتظامیہ 1995 تک مکمل کرچکے تھے۔ابتدا میں منصوبے کے تکنیکی ساتھی چین میں تانبا صاف کیا جانا تھا لیکن یہ تجویز دی گئی ہے کہ سینڈک میں ایک ریفائنری بنائی جائے جہاں ریفائنری کے قیام کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ یہ منصوبے کو مزید فائدہ مند بنادے گا کیوںکہ یہ منصوبہ پھر سیلفورک ایسڈ،سلفراور کھادوں ،پائیرائٹ اور میگنائٹ کی تیاری کے لیے ضروری 240,000ٹن فاسفیٹ بطور ضمنی پیداوار پیدا کرے گا۔

بہرکیف،منصوبے نے 1995 میں کام شروع کیا اور تین ماہ کی تجرباتی پیداوار میں 158ملین کی مالیت کا Billet1700تانباپیدا کیا لیکن بے نظیر بھٹو کے دورِ اقتدار 1995 میں سینڈک منصوبے کو یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ سونا اگلتی یہ بھٹیاں چلانے کے لیے حکومت کے پاس فنڈز موجود نہیں اور عالمی مارکیٹ میں قیمت گرنے کے باعث اب سینڈک کا منصوبہ فائدہ مند نہیں رہا۔اس وقت کے وزیر خزانہ وی اے جعفری نے 1.5بلین کے اخراجات کے مطالبے پر لکھا ،’’ایک بے فائدہ منصوبہ جس کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے جاسکتے۔‘‘پھر برسراقتدار آنے والے نواز شریف نے بھی اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنا ضروری نہیں سمجھا۔اگرچہ ایرانی حکومت نے مبادلہ نظام پر ایک اچھی پیشکش بھی کی تھی۔

ایران کے تانبے کے ذخائر سینڈک سے تقریباً 200کلو میٹرکے فاصلے پر ہیں۔اس نے ایک بہت بڑی ریفائنری تعمیر کی ہے لیکن سینڈک کے مقابلے میں اس کی بھٹی چھوٹی ہے، حالاںکہ اس آفر سے سینڈک کا آبلتی تانبا ایران میں صاف کیا جاتا اور ایرانی خام تانبا سینڈک میں پگھلایا جاتا ۔اس طرح تانبے کو صفائی کے لیے ہزاروں کلو میٹر پر مشتمل سمندروں سے گزر کر چین میں نہ بھیجنا پڑتا ۔ حکومت کو اس منصوبے کے فوائد کو زیر غور لانا چاہیے تھا جس سے ملک کو سونے اور چاندی کے ذخائر تک رسائی حاصل ہوجاتی۔ اگر بین الاقوامی مارکیٹ میں تانبے کی قیمت گرگئی تھی تو یہ مقامی صنعتوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ترسیل کیا جاسکتا تھا ۔ بجلی کی تاروں اور دیگر صنعت کے لیے پاکستان 150,000ٹن تانبا درآمد کرتا ہے۔ ابتدائی اخراجات پہلے ہی کاٹے جاچکے تھے اور اس کو نہ چلانے کا مطلب ان 16بلین روپوں کا ضیاع تھا جو پہلے ہی اس کی ترقی پر خرچ کیے جاچکے تھے ۔

بالآخر 2001ء میں پرویز مشرف نے 10سال کے پٹے کی بنیاد پر سونے کی بھٹی کا ٹھیکہ چین کی ایک کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا۔ ٹینڈر کے ذریعہ بین الاقوامی مارکیٹ کو دعوت دی گئی اور چین کی کمپنی ایم سی سی نے حکومت چین کے تعاون سے سب سے زیادہ بولی لگا کر یہ بِڈ حاصل کرلی اور اس کے لیے جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر دس سالہ معاہدے کے تحت ایس ایم ایل اور ایم آر ڈی ایل نے دستخط کردیے ۔چینی کمپنی کو لیز پر دیے جانے کے معاہدے کے تحت اختیار حاصل تھا کہ وہ سینڈک میں کھدائی، پیداوار، انتظامات اور ترسیل کے ساتھ ساتھ پیداوار کو مارکیٹ میں فروخت کرسکے۔پیدا وار کا عمل شروع ہوگیا لیکن منافعے کی تقسیم ایک ایسے فارمولے کے تحت کی گئی جو سمجھ سے بالاتر ہے ۔چینی کمپنی کو 75فیصدوفاقی حکومت24فیصد منافع لیتی ہے جب کہ سالانہ آمدن کا ایک فیصد حصہ بلوچستان حکومت کو دیا جاتا ہے، جو ظاہر ہے انتہائی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

کہا یہ جارہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ صوبائی حکومت اپنے میگا پراجیکٹس کے ضمن میں خود مختار ہو چکی ہے، اس لیے اب یہ معاملات صوبائی حکومت خود طے کرے گی۔ سو،رئیسانی حکومت نے پہلے ریکوڈک معاہدے کو برخاست کیا، جس کے نتیجے میں ہونے والی قانونی چارہ جوئی سے تھک ہار کر اب موجودہ حکومت ’پرانی تنخواہ ‘پرہی کام کرنے پہ آمادہ دکھائی دیتی ہے۔

قطع نظر ان حقائق اور اعدادو شمار کے،محض ریکوڈک اور سینڈک کے گرد ونواح میں آباد انسانوں کی حالت ِ زار ہی ملاحظہ کر لی جائے تو اس سارے استحصالی نظام کا پردہ چاک ہوجاتا ہے۔علاوہ بریں،بلوچستان کے سونے کے ذخائر سے متعلق یہ اعداد و شمار ان حلقوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں جو سمجھتے (اور برسر عام کہتے) ہیں کہ بلوچستان میں ایک سوئی گیس کے علاوہ صرف خشک پہاڑ ہی تو ہیں!۔یہ خشک پہاڑ ہی بلوچ روشن مستقبل کے ضامن ہیں ‘ بلوچوں کے آباؤ اجداد نے یونہی تو انھیں اپنے قلعے قرار نہیں دیا تھا‘ بلکہ آنے والی نسلوں کو ان کی حفاظت کا درس بھی دیا۔بلوچوں کے ایک خان نے کہا تھا؛

یہ پہاڑ بلوچوں کے قلعے ہیں
جنھیں بلوچوں نے بہ زورِ شمشیر حاصل کیا ہے

انھیں اگرمقامی اور عوامی مفاد میں استعمال کرنے کی بجائے لوٹ مار کا ذریعہ بنایا جائے گا تو ظاہر ہے کہ بلوچ اسے پسند نہیں کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔