آخر ہم پاکستانی کب بنیں گے؟

محمد عثمان فاروق  منگل 19 مئ 2015
افسوس یہ کہ لاکھوں شہدا کے جنازے اٹھانے کے باوجود بھی ہم نہ بن سکے تو پاکستانی نہ بن سکیں۔فوٹو:فائل

افسوس یہ کہ لاکھوں شہدا کے جنازے اٹھانے کے باوجود بھی ہم نہ بن سکے تو پاکستانی نہ بن سکیں۔فوٹو:فائل

فاطمہ بھٹو چند روز پہلے آپکا ایک بیان نظر سے گزرا جو کہ کچھ یوں تھا کہ ’’پاکستان میں شیعہ ہلاکتیں عیسائیوں اور ہندووں سے بھی تجاوز کرگئی ہیں‘‘۔ آپ کا یہ بیان پڑھ کر انتہائی افسوس ہوا کہ لاکھوں شہدا کے جنازے اٹھانے کے باوجود بھی ہم نہ بن سکے تو پاکستانی نہ بن سکیں۔ آج بھی پاکستان میں پاکستانی نہیں مرتے بلکہ شیعہ، سنی، وہابی، عیسائی یا پھر اسماعیلی مرتے ہیں۔ دشمن ہمیں صرف پاکستانی سمجھ کر مارتا ہے لیکن ہم اپنی لاشوں کو مرنے کے بعد مسلک کی بنیاد پر تقسیم کردیتے ہیں۔

پشاور اسکول میں سینکڑوں ننھے پھول روندھے گئے لیکن کسی نے یہ نہیں کہا یہ فلاں مسلک یا فلاں مذہب کے بچے تھے سب نے کہا پاکستانی بچے مارے گئے۔ تربت میں مزدور مارے جاتے ہیں تو کوئی ان مزدوروں کے قتل پر انکے مسلک یا مذہب کی بنیاد پر افسوس نہیں کرتا سب یہی کہتے پاکستانی مزدور مارے گئے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہر روز پاکستان آرمی کے جوان اور افسران شہید ہوتے لیکن کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ فوج کے اتنے شیعہ اور اتنے سنی افسر اور جوان دہشتگردوں سے قوم کو بچاتے شہید ہوگئے بلکہ صرف یہ بیان دیا جاتا کہ پاکستانی فوج کے جوان شہید ہوگئے۔

لیکن فاطمہ بھٹو آپ جیسی شخصیت کی جانب سے ایسا سطحی بیان آنا انتہائی افسوسناک ہے۔ کیا جب چوک میں بم پھٹتا ہے تو کیا وہ مخصوص لوگوں کو مارنے کے لیے ایسا کرتا ہے؟ یا بلاتفریق سب پاکستانیوں کو اڑا کر رکھ دیتا ہے؟ کیا بم لوگوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور پوچھتا ہے بھائی صاحب یہ سنیوں کا گھر ہے یا شیعوں کا ۔۔۔ تو اندر سے جواب ملتا ہے ’’بم صاحب یہ سنیوں کا گھر ہے‘‘ بم سرجھکا کر پھر اگلے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور یہی سوال کرتا ہے اندر سے جواب ملتا ہے یہ شیعوں کا گھر ہے تو بم جواب دیتا ہے ’’اچھا تو پھر ۔۔۔ ٹھاہ‘‘۔

فاطمہ بھٹو کیا آپ بھول گئیں آپکے دادا نے پاکستان پر حکومت کی، آپکی چچی دو بار اس ملک کی وزیراعظم بنیں، کیا آپ نے اپنے خاندان سے یہ سوال کیا کہ اتنا عرصہ حکومت میں رہنے کے باوجود انہوں نے اس ملک کو دہشتگردی سے نجات دلانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ فاطمہ بھٹو کیا آپ جانتی ہے امریکہ جسے آج سب سپر پاور کہتے ہیں اور دنیا کا ہر ملک امریکہ جیسی معاشی و فوجی طاقت بننے کی تمنا کرتا ہے۔ اُسی امریکہ میں پچھلے دنوں فسادات ہوئے اور کئی لوگ مارے گئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جدھر انسان ہوتا ہے وہاں جرم بھی ہوتا ہے اگر امریکہ میں اتنی ترقی کے باوجود لوگ قتل ہوسکتے ہیں تو ہم تو پھر ترقی پذیر ملک ہیں، ایسے حالات میں تو قوم کی اشرافیہ کو اپنی قوم کو جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے مگر آپ تو قوم کو توڑنے کی کوشش کررہیں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا ہے اگر آپ یہ بیان دیتیں کہ ’’پاکستان میں پاکستانیوں کی ہلاکتیں سب سے زیادہ ہورہیں ہیں‘‘۔

لیکن نہیں ہماری اپنی ایک سطحی سوچ ہے جس کو ہم نے اپنی سطحی قسم کی سیاست اور سستی شہرت کے لیے استعمال کرنا ہے۔ آپ جانتی ہیں یہ مسلک، صوبائیت اور زبان کے نام پر قتل و غارت کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ آپ جیسی اشرافیہ لوگوں کی لاشوں پر بیانات جاری کرتے ہیں جو لوگوں کو متحد کرنے کے بجائے مزید دور کردیتے ہیں۔ فاطمہ بھٹو یاد رکھیں امریکہ کو امریکہ بننے میں کئی سو سال لگ گئے مگر مجھے پوری اُمید ہے کہ پاکستان بہت جلد اپنا یہ کٹھن سفر کاٹ لے گا اور دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت بنے گا اور شہر فیصل آباد کے بزرگ صوفی برکت علی مرحوم کی پیشگوئی کے مطابق

پاکستان کی ہاں اور نہ میں اقوام عالم کے فیصلے ہوں گے

لیکن آپ جیسی سطحی سیاست اور سطحی بیانات جاری کرنے والوں کو اِس سے غرض نہیں ملک کہا جائے، فکر ہے تو اِس بات کی آپ کی سیاست اچھی طرح چلتی رہے۔ خدارا اپنے مسلک اپنے صوبے اپنی پارٹی سے تھوڑا سابالاتر ہوکر بحثیت پاکستانی سوچنے کی کوشش کریں اور یقین کریں یہ کوئی زیادہ مشکل نہیں صرف تھوڑا دل بڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔