نئی کشمیری لہر، علی گیلانی اور پاکستانی پرچم

تنویر قیصر شاہد  بدھ 20 مئ 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جکارتہ میں پاکستان کے مشیر خارجہ جناب سر تاج عزیز نے جب یہ بیان دیا کہ مسئلہ کشمیر ایک زندہ حقیقت ہے تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کانفرنس ہال سے باہر نکلتے ہی جواباً کہا: ’’ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ اور ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستان نے عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر اٹھا کر دو طرفہ مذ اکرات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے‘‘۔ بھارتی خاتون وزیر خارجہ کے اس بیان کو بعض حلقوں نے پاکستان کو دھمکی کے مترادف بھی قرار دیا ہے۔

اِسی دوران وزیر اعظم پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں تاریخی بیان سامنے آیا ہے۔انھوں نے’’سعودی گزٹ ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان، بھارت سے کشمیر سمیت تمام امورپر بات چیت کرنا چاہتا ہے لیکن ( بھارتی اقدامات کی وجہ سے) بھارت سے مذاکرات کا (فی الحال) کوئی امکان نہیں ہے۔ 29اپریل 2015 ء کو لندن میں نواز شریف نے ایک بار پھر کہا ’’پاکستان کی جانب سے بھارت سے بہتر تعلقات کی خواہش کا جواب بھارت نے منفی انداز میں دیا ہے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ جناب نواز شریف اِس مزاج کے حامل کبھی نہ تھے لیکن نریندر مودی کے تعصب اور بھارتی ہٹ دھرمی نے اُنہیں یہ لہجہ اختیار کرنے پرمجبور کیاہے۔ اور کشمیر کا تازہ لہجہ یہ ہے کہ علی گیلانی صاحب کی دہلی سے سری نگر آمد نے مقبوضہ کشمیر میں ایک نئی لہر کو جنم دے ڈالا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے مقبوضہ کشمیر کے ممتاز اور حریت رہنما جناب سید علی شاہ گیلانی اپنی نا سازیٔ طبع کی وجہ سے سردیوں کا شدید موسم سری نگر کے بجائے دہلی میں بسر کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں گیلانی صاحب دہلی سے سری نگر پہنچے تو ان کا زبردست استقبال کیا گیا جس میں جانباز لیڈر مسرت عالم بھی تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گیلانی صاحب کا سیاسی اور جہادی اثاثہ وہی سنبھالیں گے۔

کشمیریوں نے جس جوش و جذبے اور والہانہ انداز میں گیلانی صاحب کو خوش آمدید کہا، اس نے بھارتی سیاسی جماعتوں اور بھارتی میڈیا کو حیران کردیا ہے۔ گیلانی صاحب کے استقبال میں مسرت عالم اور ان کے قریبی ساتھیوں نے پاکستان کے حق میں جس طرح نعرے لگائے اور پاکستانی پرچم لہرائے، اس سے بھارتی میڈیا کو ایک بار پھر یہ منفی پروپیگنڈہ کرنے اور زہر افشانی کا موقع مل گیا کہ مسرت عالم کو رہا کرنا بھارت کی قومی سلامتی کے منافی عمل تھا۔

ہم چند ہفتے قبل انھی کالموں میں، مسرت عالم کی حریت پسندانہ سرگرمیوں اور ان کے طویل عرصے تک بھارتی جیلوں میں گزرے پُر آزمائش شب و روز کا احوال قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں۔ انھیں گیلانی صاحب کی سری نگر آمد سے تقریباً تین ہفتے قبل ہی بھارتی قید سے رہائی ملی تھی لیکن بھارتی میڈیا کا بیک زبان یہی اصرار تھا کہ انھیں ’’پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ کے تحت پسِ دیوارِ زنداں ہی رکھا جائے مگر بھارتی سپریم کورٹ اور مقبوضہ کشمیر کی نئی (پی ڈی پی) حکومت نے بھارتی میڈیا کی کشمیر دشمن پالیسی کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کردیا۔

بھارتی الیکٹرانک میڈیا نے تو حد ہی کر دی، بار بار یہ مطالبات کرکے کہ مسرت عالم کا گیلانی صاحب کے استقبالیہ جلوس میں پاکستان نواز نعرے لگانا اور پاکستان کا پرچم بلند کرنا دراصل غداری کے مترادف ہے۔ اس دوران ایک اور سانحہ پیش آگیا۔ کشمیر ہی میں ایک حریت پسند جلوس پر بھارتی قابض فوج اور پولیس نے گولی چلادی۔ اس میں ایک نوجوان کشمیری (سولہ سالہ سہیل احمد صوفی) کو بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ اس سانحے سے ایک ہفتے قبل بھارتی پولیس ’’حزب المجاہدین‘‘ کے ایک رہنما کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں شہید کرچکی تھی۔

ایسے میں گیلانی صاحب کی دہلی سے سری نگر آمد نے جذبات کو مزید انگیخت کیا اور تقریباً سارا کشمیر ہی بھارتی قابض اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی افواج کے خلاف احتجاج میں باہر نکل آیا۔ کئی برسوں بعد بھارتی حکومت نے مجبور و مقہور کشمیریوں کا یہ اجتماعی اور متفقہ احتجاج دیکھا ہے۔ بی جے پی کی حکومت یقینا اس غیر متوقع احتجاج سے پریشان ہے کہ اس نے تو اپنے تئیں کشمیری حریت پسندی کا گلا گھونٹ دیا ہوا تھا۔ وزیراعلیٰ مفتی سعید نے بہت کوشش کی کہ پولیس کی تازہ زیادتیوں کا سدِ باب کرسکیں لیکن ان کی ساری کوششیں اکارت گئیں۔

چونکہ اب پاکستان کی کسی بھی جہادی تنظیم یا غیر ریاستی عنصر نے بھی مقبوضہ کشمیر میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، اسی لیے بھارت منہ بھر کر یہ الزام بھی نہیں لگا سکا ہے کہ سری نگر کے حالات بگاڑنے میں اس بار بھی پاکستان کا ہاتھ ہے۔ دیانتدار کشمیری میڈیا کا یہ کہنا بجا محسوس ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات کے تازہ بگاڑ میں بھارتی میڈیا نے بنیادی کردار اداکیا ہے۔ دہلی اور ممبئی کے آرام دہ ٹی وی اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر بھارتی تبصرہ نگار اور اینکر حضرات اپنے متعصبانہ تبصروں سے جلتی پر تیل چھڑکتے رہے۔

کشمیری حریت رہنما مسرت عالم کی رہائی اور سید علی گیلانی کے استقبالیہ جلوس میں مسرت عالم کے نعروں کو تو بھارتی میڈیا نے بہت زیادہ نمایاں انداز میں پیش کیا لیکن جب سہیل احمد صوفی کی شہادت کا مسئلہ سامنے آیا تو بھارتی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ چونکہ دہلی کی اسٹیبلشمنٹ یہ نہیں چاہتی کہ مقبوضہ کشمیر کے اصل حالات سے بیرونی دنیا آگاہ ہوسکے، اسی لیے بھارتی میڈیا بھی اس اشارے کی پیروی میں کشمیریوں کے مسائل اور مصائب کو دبانے اور کچلنے میں اپنا منفی کردار ادا کررہا ہے۔ ایسے میں مقبوضہ کشمیر کے ممتاز اخبار نویس جناب شجاعت بخاری نے اپنے ایک تجزیے میں بجا طور پر یہ لکھا ہے: ’’مقبوضہ کشمیر کے تازہ (اور دگرگوں) حالات کے بارے میں بھارتی میڈیا نے خود ہی تھانے دار اور خود ہی جج بننے کا کردار ادا کیا ہے۔‘‘

ابھی ستمبر 2014ء کے ہلاکت خیز سیلابوں سے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے آنسو خشک نہ ہوئے تھے کہ اب انھیں نریندر مودی اور مفتی سعید کی فوج اور پولیس کے ہاتھوں نئے زخم سہنا اور نئے جنازے اٹھانا پڑے ہیں۔ اس سفاک اور تاریک رات کا انت کب ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔ جہاں تک مقبوضہ کشمیر میں پاکستان نواز جذبات کا تعلق ہے، دہلی کے حکمرانوں کی اَن گنت کوششوں اور بھارتی فوج کے کشمیریوں پر لاتعداد مظالم کے باوجود کشمیری بھائیوں کی پاکستان سے محبت و تعلق کو کمزور نہیں کیا جاسکا۔ بھارت مگر اسے سمجھنے اور اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔

پاکستان کو یہ مشورہ دینے والے تو بہت ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو وقتی طور پر ایک طرف رکھتے ہوئے دوسرے شعبوں میں بھارت سے تعلقات کو فروغ دیا جائے لیکن بھارت کو یہ مشورہ دینے والے کم نظر آتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں اور شہریوں پر فوجی اور پولیس مظالم کے پہاڑ توڑنے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے سے باز رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی انتخابات کے انعقاد اور کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کو مسلط کرنے سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکتی ہے نہ مسئلہ کشمیر کی بنیادی حقیقتوں سے صرفِ نظر کرنا ممکن ہے۔

نوٹ: 17مئی 2015 کو سری نگر میں ایک بار پھر پاکستانی پرچم لہرانے لگے۔ اس منظر نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو یقینا ششدر کردیا ہے اور سترہ مئی 2015 ہی کو خبر آئی ہے کہ کشمیری حریت پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی کو بھارتی حکومت نے پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔ گیلانی صاحب ایمرجنسی میں سعودی عرب جانا چاہتے ہیں جہاں ان کی ایک صاحبزادی بہت علیل ہیں۔

ایسے میں مقبوضہ کشمیر میں ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کے ترجمان خالد جہانگیر نے اپنے سرپرستوں کے اشارے پر اعلان کیا ہے کہ: ’’گیلانی صاحب کو اس وقت تک پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائے گا جب تک وہ بھارت کے خلاف جاری کیے گئے اپنے 25سالہ بیانات پر بھارتیوں سے معافی نہیں مانگ لیتے۔ پہلے وہ تسلیم کریں کہ وہ انڈین ہیں، پھر انھیں بھارتی پاسپورٹ جاری کیا جائے۔ خود کو بھارتی نہ ماننے اور بھارت کی سرعام مذمت کرنے والے شخص کو بھارتی پاسپورٹ کیسے جاری کیا جاسکتا ہے؟‘‘ آئیے دیکھتے ہیں مقبوضہ کشمیر میں پاکستان سے اٹوٹ محبت کرنے اور سبز ہلالی پرچم بلند کرنے والے بزرگ لیڈر علی شاہ گیلانی صاحب کی آزمائشوں کے دن کب ختم ہوتے ہیں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔