سوویت یونین کا بھوت امریکیوں کو ڈرا رہا ہے

اسلم خان  ہفتہ 13 اکتوبر 2012
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

’’سوویت یونین کا خاتمہ اس صدی کا سب سے بڑا سانحہ تھا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔

سیاسی اور جغرافیائی حالات الٹ پلٹ ہو گئے‘‘ روس کے مہم جو صدر ولادی میر پیوٹن دوسری بار منتخب ہونے کے بعد بھر پور طریقے سے عالمی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے علاقائی، معاشی بلاک بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں جسے امریکی سوویت یونین کا نئے رُوپ میں احیاء قرار دے رہیں۔

گذشتہ دنوں اپنی 60 ویں سالگرہ منانے والے پیوٹن جدید دُنیا کے پہلے عالمی رہنما ہیں جو جاں جوکھوں، خطرناک مشاغل سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اب بھی مارشل آرٹس کے مقابلوں میں حصے لینے کے لیے اَکھاڑے میں اترنے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ وہ ان کونجوں اور مرغابیوں کو جو اپنی ڈاروں اور قافلوں سے بچھڑ جاتی ہیں، پیرا گلائیڈنگ کرتے ہوئے ماسکو کی یخ بستہ کھلی فضائوں میں سیدھی راہ دکھاتے اور اُن کی منزلوں کا پتہ دیتے ہیں۔ مُنہ زور گھوڑوں کی ننگی پیٹھ پر سواری کرنے والا یہ شہ سوار کہتا ہے کہ امریکا روس کو اپنا دشمن سمجھنے کے بجائے کھیل کے میدان میں مد مقابل سمجھے کہ جنگوں اور دشمنیوں کا زمانہ کب کا بیت چکا۔

وسط ایشیاء اور یورپ کی ریاستوں کو بڑی خاموشی سے دفاعی اور معاشی اتحاد میں شامل کیا جا رہا ہے جس کے لیے بساط پر پیوٹن کے ساتھ قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بایوف، تاجک رہنما امام علی رحمانوف اُن کے حریف نہیں، حلیف بن کر چالیں بتا رہے ہیں۔

تاجکستان کا روس سے تین فوجی اڈوں کی لیز میں 30 سال کی توسیع کا معاہدہ اسی علاقائی اتحاد کی طرف پیش قدمی ہے جس کی مدت 2045ء میں ختم ہو گی جس میں 5 سال کی مزید توسیع کی جا سکے گی۔ ان اڈوں پر روس کے دس ہزار فوجی موجود رہیں گے جب کہ روس تاجک کارکنوں کو تین سالہ مدت کے حامل خصوصی اجازت نامے جاری کرے گا۔ روس میں کام کرنے والے لاکھوں تاجک سالانہ تین ارب ڈالر اپنے گھروں کو بھجواتے ہیں۔ یہ زر مبادلہ تاجکستان جیسی غریب ریاست کے لیے جان بچانے والی آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔

جس وقت روسی صدر پیوٹن اور امام علی رحمانوف فوجی اڈوں کی 30 سالہ لیز کے معاہدے پر دستخط کر رہے تھے، عین اسی وقت اس علاقے کی فضائوں میں قازقستان، تاجکستان اور کرغیزستان کی فضائیہ روسی ائیر فورس کی قیادت میں ’’کلیئر سکائی 2012ء‘‘ نامی جارحانہ مشقیں کررہی تھیں جن کا بنیادی مقصد امریکی فضائی برتری کو چیلنج کرنا اور کروز میزائلوں کے ممکنہ حملوں کو ناکام بنا کر فضا میں تباہ کرنے کے لیے جدید ترین دفاعی نظام اواکس کی آزمائش کرنا تھا۔

امریکی حکمت کاروں کو بخوبی یاد ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران روسی صدر پیوٹن نے اعلان کیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں وہ 2015ء تک وسط ایشیا ء کی ریاستوں کو ساتھ ملا کر ’’یورو ایشین یونین‘‘ قائم کریں گے۔ یہ اعلان سنتے ہی واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔ امریکی ماہرین سیاسیات و سماجیات نے ’’یورو ایشین یونین‘‘ کو آنجہانی سوویت یونین کا احیائے نو قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ سوویت یونین کی نئے رُوپ میں واپسی سے یک طاقتی دُنیا کا خاتمہ ہو جائے گا جس سے سرد جنگ کا خطرناک دَور دوبارہ لوٹ آئے گا۔ اس وقت روس کی عسکری ہتھیاروں کی صنعت برق رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، سال کے دوران محتاط اندازوں کے مطابق فوجی سازوسامان کی برآمدات تیرہ ارب ڈالر سے بھی بڑھ جائیں گی۔

دُور اَندیشن پیوٹن کی نظریں خود مختار ممالک کی ایسی فیڈریشن کی تخلیق پر لگی ہوئی ہیں جس میں کریملن تمام رُکن ممالک کی خارجہ، دفاعی اور معاشی پالیسیوں میں فیصلہ کن رہنمائی کرے گا لیکن کمیو نزم کے دور والی عیاشیاں، فلسفے اور دوستی کے نام پر اتحادی ممالک کو میسر نہیں ہوں گی۔گذشتہ دنوں متحدہ یورو ایشیائی معاشی یونین کے تصور کی نقش گری اور اس کے خدوخال کی وضاحت کرتے ہوئے پیوٹن نے روسی اخبار ’’ازویسیتا‘‘ میں شایع ہونے والے اپنے طویل مضمون میں لکھا ’’پہلے مرحلے میں روس، بیلاروس اور قازقستان درآمدات کے سلسلے میں مشترکہ کسٹمز یونین تشکیل دے چکے ہیں۔

تین آزاد اور خود مختار ممالک کا باہمی ضروریات کی وجہ سے کسٹمز کی خدمات یکجا کر لینا مثبت علاقائی اشتراک عمل سے کہیں زیادہ مشترکہ ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ ہو گا، جسے قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بایوف نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں۔ یہ وہی نور سلطان نذر بایوف ہیں جنہوں نے تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جانے والے گوربا چوف کے ساتھ مل کر سوویت یونین کے پروانہِ موت پر دستخط کر کے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔

خود یورپی یونین کا کامیاب تجربہ وسط ایشیاء میں جاری اس عالمی تجربے کے نتیجہ خیز ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے کیونکہ صدیوں تک باہم متصادم رہنے والے یورپی ممالک کی یونین کے قیام کا آغاز تو مشترکہ ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئلے اور لوہے کے کاروبار کو باہم مربوط کرنے سے ہوا تھا۔

روسی صدر پیوٹن کا پہلا ہدف باغی سوویت ریاست جارجیا ہے۔ علاقائی بالا دستی کے نئے نظریے کے تشکیل پذیر ہونے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ روسی رویے میں تبدیلی آتی جا رہی ہے۔ رُوسی اب چاہتے ہیں کہ جارجیا حقیقت پسند ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسلیم کر لے کہ قفقاز کے علاقے میں روس کی سیاسی اور اقتصادی پیش قدمی جاری رہے گی، جارجیا نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہوکرامریکی کیمپ میں جانا چاہتا ہے لیکن اب پیوٹن اس کی راہ میں کھڑے ہیں۔ ’’جارجیا کا نیٹو کی رُکنیت لینا ناقابل قبول سرخ لائن عبور کرنا ہے‘‘ روس کسی قیمت پر بھی علاقائی فوجی توازن بگڑنے نہیں دے گا۔

عالمی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے ٹیکساس میں مقیم ماہر معاشیات الاستاد رشید کا کہنا ہے کہ اگر آیندہ ماہ امریکی صدارتی انتخاب میں اوباما ہار گئے اور ریپبلکن مٹ رومنی جیت گئے تو روس کے ساتھ محاذ آرائی متوقع وقت سے بہت پہلے شروع ہو جائے گی کیونکہ ریپبلکن امیدوار انتخابی مباحثوں میں کھلے بندوں روس کو امریکا کا سب سے بڑا جغرافیائی اور سیاسی حریف قرار دے چکے ہیں۔

ماسکو سے آنے والی یہ عبرتناک خبر بھی ملاحظہ کیجیے کہ ماسکو پولیس لینن کی تصنیفات کا جائزہ لے کر ان میں پائے جانے والے شدت پسندانہ خیالات کی موجودگی یا غیر موجودگی کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ روسی اکیڈمی آف سائنس کے انسٹیٹیوٹ آف ہسٹری کے پروفیسر لاورو نے قومی تحقیقاتی کمیٹی کو درخواست دی ہے کہ لینن کی تصنیفات کا بنیادی نکتہ معاشرے میں اختلافات پیدا کر کے بعض خاص طبقات کو ظلم کا نشانہ بنانا ہے۔ جس کے لیے وہ پُر تشدد طریقے اختیار کرنے پر اُبھارتے ہیں۔

انھوں نے یہ موقف بھی اپنایا ہے کہ لینن سماج کے مختلف طبقات میں تضادات اُبھار کر قتل ِ عام کی ترغیب دیتے تھے۔ پروفیسر لاورو نے لینن پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ انھوں نے دہشت گردانہ طریقوں کے استعمال کو فروغ دیا اور دہشت گردوں کی رہنمائی بھی کی تھی۔ سابق سوویت یونین میں جبری مشقت کے کیمپ بنائے گئے اور ’’ریڈ ٹیرر‘‘ کی پالیسی مرتب کی۔ جناب یہ وہی لینن ہیں جنہوں نے 1917ء میں برپا ہونے والے اشتراکی انقلاب کی رہنما ئی کی تھی جس کے نتیجے میں روس کا شاہی نظام ختم ہوگیا تھا اور سوویت یونین تشکیل پایا تھا۔

اعتذار: 14ستمبر کے کالم میں لیبیا میں مارے جانے والے امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز کے حوالے سے یہ لکھا گیا کہ دوسرا امریکی سفیر ہے جو کسی مسلمان ملک میں مارا گیا ہے۔ اسلامی یورنیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ قانون کے طالب علم رانا بلال یوسف نے آگاہ کیا ہے کہ آٹھ امریکی سفیر اس وقت تک غیر ملکی سر زمینوں پر مارے جا چکے ہیں جن میں سے دو سفیر ہوائی حادثوں کی نذر ہوئے جب کہ چھ سفیر گولیوں کا نشانہ بنے۔ اُن کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق پانچ سفیر مختلف اسلامی ملکوں میں مارے گئے جس میں پہلا سفیرCleo A. Noel, Jr. 2مارچ 1973ء سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں قتل ہوا۔

دوسرا سفیر Francis E.Meloy, Jr. لبنان کے دارالحکومت بیروت میں مارا گیا۔ تیسرا سفیر Adolph Dubs 14فروری 1979ء کو افغان دارالحکومت کابل میں قتل ہوا۔ چوتھا سفیر Arnold Raphel جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مشہور زمانہ 130۔C میں زندہ جل گیا تھا اور پانچواں تازہ ترین سانحہ بن غازی لیبیا میں ہوا جہاں مشتعل ہجوم نے امریکی سفیر J.Christopher Stevens کو گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا۔ میں اس غلطی پر معذرت خواہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔