کیمپ ڈیوڈ سمٹ کامیاب یا ناکام؟

عابد محمود عزام  ہفتہ 23 مئ 2015

’’کیمپ ڈیوڈ سمٹ انتہائی کامیاب رہا، اس اجلاس کا مقصد خلیج تعاون کونسل کے ساتھ واشنگٹن کے ساتھ پہلے سے موجود تعلقات کو ’وسیع اور راسخ‘ کرنا تھا۔‘‘ یہ الفاظ امریکی صدر باراک اوباما نے کیمپ ڈیوڈ میں خلیج تعاون کونسل کے اجلاس کے بارے میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہے۔

خلیج تعاون کونسل کے اس دو روزہ اجلاس میں امریکا اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ، اسلحے اور جنگی ٹیکنالوجی کے تبادلے، مشترکہ فوجی مشقوں، دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ، امریکا اور خلیجی ممالک کے تعلقات، جنگ میں کامیابی کے لیے باہمی تعاون پر تبادلے، علاقائی ممالک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز، لبنان، شام، عراق، یمن اور لیبیا میں جاری شورش اوردیگر کئی موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

صدر اوباما نے خلیج تعاون کونسل میں شامل چھ ممالک کے سربراہان کو واشنگٹن کے قریب کیمپ ڈیوڈ میں دو روزہ ملاقات پر اس لیے مدعو کیا تھا، تا کہ واشنگٹن اور خلیج تعاون کونسل میں قائم تعلقات میں مزید مضبوطی آئے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اجلاس سے امریکی صدر کا مقصد مکمل طور پر پورا نہیں ہو سکا۔ اجلاس میں صرف قطر اور کویت کے سربراہ شریک ہوئے، جب کہ باقی ممالک کی جانب سے ولی عہد یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی اور سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے تو امریکی صدر کے پرزور اصرار کے باوجود بھی امریکا جانے سے معذرت کر لی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خلیجی ممالک اس وقت خطے میں امریکی حکمت عملی سے سخت نالاں ہیں اور براہ راست نکتہ چینی کرنے کی بجائے سفارتی لحاظ سے امریکی صدر کی خصوصی دعوت کو نظر انداز کر کے اس ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے، تا کہ امریکی صدر کو یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی پالیسیاں خلیجی ممالک کی خواہشات اور توقعات سے متصادم ہیں۔

خلیج تعاون کونسل میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، قطر اور اومان شامل ہیں۔ ان ملکوں پر سعودی عرب کا اثر و رسوخ ہے اور یہ سب سعودی شاہ کی تائید اور مشورے سے ہی پالیسیاں بناتے ہیں، جب کہ سعودی عرب کی امریکا کے ساتھ ’’عرب بہار‘‘ کے وقت سے چپقلش چل رہی ہے۔ شام، یمن اور ایران کے معاملات پر سعودی حکومت کے مفادات کے برخلاف امریکی فیصلوں نے اس چپقلش کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس کے ساتھ امریکا نے 5 بڑے ملکوں کے ساتھ مل کر اپریل میں ایران کی جوہری تنصیبات کے حوالے سے ایک ابتدائی معاہدے پر اتفاق بھی کر لیا۔

قانون سازی کے ذریعے ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے کا حتمی اختیار کانگریس کو مل چکا ہے، اس طرح 30 جون کو ممکنہ طور پر چھ عالمی طاقتوں امریکا، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے ایران کے ساتھ معاہدے میں کانگریس کا کردار کلیدی ہو گیا ہے۔ امریکی صدر اوباما ایران کے جوہری پروگرام پر تہران کے ساتھ امن سمجھوتے کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ امریکی صدر ایران کا جوہری معاہدہ کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہیں، شاید اسی لیے کیمپ ڈیوڈ سربراہ اجلاس میں صدر اوباما نے خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں کو اس بات کا بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

صدر اوباما نے کیمپ ڈیوڈ سربراہ اجلاس میں ایران کے مجوزہ جوہری معاہدے سے متعلق خلیجی عرب رہنماؤں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ صدر اوباما عرب ملکوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں کہ ایران کے ساتھ دشمنی کے رشتے سے اگر معاملات نہیں سدھرے تو دوستی کا راستہ اختیار کر کے دیکھ لینا چاہیے، کیونکہ اگر یہ ممالک ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے تو مشرق وسطیٰ میں ایک کے بعد دوسرا ملک بحران، انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔

قرائن یہی بتاتے ہیں کہ سعودی عرب کی قیادت کی جانب سے سفارت کاری کے رویے میںکسی حد تک سختی کے سبب فی الحال امریکی صدر کو اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی ہے اور عرب ممالک امریکا سے نالاں ہیں۔ عرب ممالک کے امریکا سے ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی صدر نے حالیہ سربراہ اجلاس میں خلیج تعاون کونسل کو امریکا کا سب سے اہم اتحادی قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود خلیجی ملکوں سے جس مشترکہ دفاعی معاہدے کی بات کی گئی ہے، اس میں کوئی بھی ایسا منفرد اور نمایاں پہلو نہیں ہے، جو واقعتاً خلیج تعاون کونسل کے لیے امریکا کے دیگر اتحادیوں پر برتری کا سبب بنتا ہو۔

اس نوعیت کے دفاعی معاہدے امریکا نے جاپان اور تائیوان کے ساتھ بھی کیے ہیں اور ضرورت پڑنے پر امریکا نے دونوں ملکوں کی بھرپور مدد بھی کی، لیکن اس کے برعکس خلیج تعاون کونسل کی جانب سے دفاعی معاہدوں کے نام پر خطے میں امریکی مفادات کے لیے بہت سی قربانیاں دینے کے باوجود امریکا نے خلیجی ممالک کے کئی اہم سیکیورٹی معاملات کو خلیج تعاون کونسل کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے نظر انداز کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکا نے عربوں کے اہم حریف اسرائیل کو بہت سی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ امریکا نے اسرائیل کو آیندہ سال ’’ایف 35‘‘ جنگی طیاروں کی فراہمی کا اعلان کیا ہے اور بھاری مالی امداد بھی فراہم کی ہے۔ امریکی نائب صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ میں صہیونی فوجی برتری کو یقینی بنانے کے لیے صہیونی حکومت کو لڑاکا طیارے فراہم کرنے کی حامی بھر چکے ہیں۔

خلیجی ممالک امریکی صدر کی یقین دہانیوں سے مطمئن نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اجلاس میں امریکی صدر نے خلیجی ممالک کو اگرچہ یقین دہانی کرائی ہے کہ خلیجی ممالک کے خلاف کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں امریکا بھرپور ساتھ دے گا اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے خلیجی ممالک کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرے گا، لیکن عرب تجزیہ کاروں کے مطابق صدر اوباما کی جانب سے خلیجی ممالک کے ساتھ مشترکہ دفاع اور سیکیورٹی کے حوالے سے کیے گئے وعدے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکی کانگریس خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی علاقائی سیکیورٹی سے متعلق صدر اوباما کے وعدوں کو منظور نہیں کرے گی۔

گزشتہ سال امریکی وزیر خارجہ جان کیری یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی کانگریس مشرق وسطیٰ کی بدامنی کو عرب ممالک کا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے، اس وجہ سے وہ مشر ق وسطیٰ بالخصوص خلیج تعاون کونسل کے ساتھ مزید دفاعی معاہدوں کی منظوری دینے کو تیار نہیں ہے۔ امریکی کانگریس کے علاوہ اوباما انتظامیہ نے بھی یمن اور شام کے معاملات کو مشرق وسطیٰ کے داخلی مسائل قرار دیا ہے، جس سے واضح طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صدر اوباما بھی کانگریس کی اس پالیسی سے متفق ہیں۔

امریکی صدر اگرچہ کیمپ ڈیوڈ سمٹ کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں، لیکن عرب ممالک کے رویے سمیت متعدد دیگر وجوہ کے باعث عرب تجزیہ کار وں کے نزدیک کپمپ ڈیوڈ سربراہ اجلاس ناکام رہا ہے اور اب تک کوئی ایسا بیان بھی سامنے نہیں آیا، جس میں رکن ممالک نے کیمپ ڈیوڈ سربراہ اجلاس کے بارے میں اچھے تاثرات ظاہر کیے ہوں۔ خلیجی ممالک کی اس خاموشی کو دیکھتے ہوئے صدر اوباما نے اعتراف کر لیا ہے کہ امریکا اور خلیج تعاون کونسل کے درمیان ابھی بہت سے مسائل میں پیشرفت کے حوالے سے مشکلات حائل ہیں، جن کے حل کے لیے انھوں نے اگلے سال دوبارہ اس نوعیت کا سربراہ اجلاس منعقد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس صورتحال سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ کیمپ ڈیوڈ کی یہ ملاقات کوئی خاص کامیاب قرار نہیں دی جا سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔