مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ

رئیس فاطمہ  اتوار 24 مئ 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں پہ چلنے والا ملک جو انھی کی ہدایت پر بجلی،گیس اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھاتا ہے اور انھیں قرضے واپس کرتا ہے، وہی بدنصیب مقروض ملک جس کا کشکول توڑنے کا وعدہ کرنے والے آج بھی شلوار قمیص اور واسکٹ کے ساتھ ساتھ تھری پیس سوٹ میں جلوہ گر بادشاہ اور وزیر با تدبیر بنے بیٹھے ہیں۔

انھوں نے ثابت کردیا ہے کہ صرف کشکول سے ان کا پیٹ بھرنے والا نہیں ہے۔ اسی لیے کوئی منی لانڈرنگ اورکرنسی اسمگلنگ میں ملوث تتلی کو آزاد کروانے کے لیے وفاقی دارالحکومت میں ڈیرے ڈالے بیٹھا ہے۔ تو کوئی کسی ’’پپو‘‘ کو تلاش کررہا ہے۔ اور غیر مہذب اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کرکے اپنا حسب نسب الم نشرح کررہا ہے۔

بے چارہ یہ غریب ملک جس کی ایک تہائی آبادی بمشکل ایک وقت پیٹ کا دوزخ بھرتی ہے۔ جہاں تنخواہ دار سرکاری ملازم، نجی اداروں میں ملازمت کرنے والے صحافی، مزدور،کلرک اور استاد خون پسینہ ایک کرکے اپنے اپنے خاندانوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ جو دیانت داری سے اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ لیکن مالکان کے دبدبے، رویے اورفرعونیت کی تلوار ہر لمحے ان کے سر پہ لٹکتی رہتی ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی سمری تیار ہوتی ہے، کمیٹیاں بنتی ہیں، سفارشات پیش ہوتی ہیں۔ لیکن اس ساری تگ و دو کے باوجود محض خانہ پری کے لیے بقدر اشکِ بلبل 10 فی صد اضافہ کیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب اس غریب ملک کے حکمران اپنے 9 غیر ملکی دوروں پر ساڑھے گیارہ کروڑ ، 44 لاکھ خرچ کر ڈالتے ہیں۔

لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان غیر ملکی دوروں پہ کروڑوں خرچ کرنے کے نتائج کیا نکلے؟ اور ملک کو ان دوروں سے کون سا قارون کا خزانہ یا الٰہ دین کا کوئی جادوئی چراغ ہاتھ لگا۔ جن کی کلائیوں پہ کروڑوں کی گھڑیاں بندھی ہوں، جو من پسند کباب کھانے کے لیے جہاز رکوا لیں، جو AXACTجیسی کمپنیوں کے ذریعے کرپشن سے کمائی ہوئی دولت بیرون ملک منتقل کرسکیں، جو میٹرو پولیٹن سٹی کو ایک طاقتور شخص کے حوالے کردیں۔ پورا شہر پانی کو ترسے جب کہ پانی طاقتور لوگوں کو وافر مقدار میں ملتا رہے۔ جادو کی چھڑی کی کرامات ہر طرف ظاہر ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں حکمران بغیر کسی ہچکچاہٹ اور تردد کے سخاوت کے دریا بہا دیتے ہیں۔ عوام کا پیسہ ہاتھ کے میل کی طرح خرچ کیا جاتا ہے۔

ارکان اسمبلی سے اجازت کی ضرورت اس لیے نہیں پڑتی کہ ان کے منہ بند کرنے کے ہزاروں طریقے ہیں۔یہ اسمبلیوں میں شور شرابہ کرنے والے، ڈیسک بجانے والے، کوئی دیہاڑی دار مزدور نہیں ہیں۔ نہ ہی یہ کوئی خدمت انجام دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک جھٹکے میں ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں 68 ہزار سے بڑھاکر ایک لاکھ 30 ہزار کردی گئیں۔ صرف بجٹ میں اعلان کرنا باقی ہے۔

اس کے علاوہ ان کو یوٹیلیٹی بلز، اجلاس میں شرکت کے لیے الاؤنس، ٹی اے۔ ڈی اے، ایئرلائن کا ٹکٹ اور دیگر الاؤنسز بھی شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے فیصلہ کیا اور لاگو ہوگیا۔ وزیر خزانہ صرف اعلان کریں گے۔ دوسری طرف اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد اضافے پر ابھی غور ہو رہا ہے۔ رہ گئے پنشنرز؟ تو وہ کس کھیت کی مولی ہیں! ان کے بارے میں کوئی کیوں سوچے؟ یہ پنشنرز نہ تو کسی سیاسی جماعت کے کارندے ہیں۔ نہ کسی جماعت کے قصیدہ گو قلم کار، یہ صرف انسان ہیں۔ اور یہ دور انسانوں کا نہیں آدم خوروں کا ہے، یہ سب کچھ کھا جاتے ہیں۔

بلیک منی کو دھو دھلا کر باہر کے بینکوں میں بھجوانے کے لیے ان کے پاس بے شمار تتلیاں، بھنورے، اڑن کھٹولے اور عمرو عیار کی زنبیلیں موجود ہیں جو انھی بااختیار لوگوں کی سرپرستی میں ادھر کا مال ادھر پہنچاتی ہیں۔ اور بدلے میں AXACTجیسے اداروں کی مجرمانہ سرگرمیوں کی بدولت جدید دور کے حاتم طائی بھی بن جاتے ہیں۔ کسی میں مجال نہیں کہ سوال کرے کہ آسمان سے جو ہن ان پر برس رہا ہے اس کا ذریعہ کیا ہے؟ بس اتنا یاد رکھیے کہ ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانے کا معاملہ بھی اسی سلسلے سے جڑتا ہے کہ کوئی انگلی نہ اٹھائے۔

ایک شکایت لوگوں کو اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنے پر عمران خان سے بھی ہے۔ جو یوں تو غریبوں کے لیے بہت ہمدردی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اس موقعے پر انھوں نے نہ کوئی بیان دیا نہ آواز اٹھائی کہ مہنگائی دورکرنے، بجلی اورگیس کی قیمتیں کم کرنے،اسکولوں اور اسپتالوں کی تعداد اور دواؤں کا بجٹ بڑھانے کے بجائے نہ صرف صحت کے بجٹ میں کمی کی جا رہی ہے بلکہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں ہوش ربا اضافؑہ کیوں کیا جارہا ہے۔

کاش یہ ارکان اسمبلی اتنے باضمیر اور صاحب دل ہوتے کہ ازخود اس اضافے کو مسترد کردیتے! لیکن ایسا کیونکر ہوسکتا ہے! سوال یہ ہے کہ تنخواہیں تو کسی خدمت یا کام کے عوض ادا کی جاتی ہیں۔ تو یہ کیا کام کرتے ہیں؟ اور یہ کون سے محروم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ تو وہ لوگ ہیں (چند کو چھوڑ کر) جو پورے پورے گاؤں اور شہر خرید سکتے ہیں۔ انھیں تو کوئی الاؤنس بھی نہیں لینا چاہیے۔ کیونکہ یہ لاکھوں روپے پارٹی کو دے کر الیکشن کا ٹکٹ خریدتے ہیں۔ لیکن یہ وہی ہیں جن کے کاندھوں پہ چڑھ کر ’’آوے ہی آوے‘‘ کا تاج پہنتا ہے۔ اسی لیے انھیں خوش رکھنا بھی تو ضروری ہے!

ان خصوصی لوگوں کا سب سے بڑا کام میڈیا پہ مخالفین کو گالیاں دینا اور اپنے اپنے لیڈرکو سخی سلطان بناکر پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ جو روزانہ شام کو تمام چینلز پہ سبھائیں سجتی ہیں اور لوگ بلاوجہ اینکرز اور مالکان کو برا بھلا کہہ کر ریموٹ کا بٹن دبا لیتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بے چارہ اینکر کیا بیچتا ہے؟ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ شام کو اس کی ملاقات کن کن سے ہوگی؟ اس کا کام تو صرف اتنا ہے کہ لکھے ہوئے سوال پوچھنے ہیں۔کس کو زیادہ وقت دینا ہے اور کس کی باری آنے پر ’’وقفہ‘‘ لینا ہے۔

کس کی بات آگے بڑھانا ہے اورکس کی ہاں میں ہاں ملانا ہے اور کس کس کو ملک دشمن قرار دینا ہے۔ کیونکہ اس ملک میں جو جتنا بڑا چور ہے اس کے ہاتھ اتنے ہی لمبے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ دیکھ لیجیے گا کہ موجودہ ایکزکٹ کا اسکینڈل کس طرح صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ سب بے قصور ثابت ہوجائیں گے۔ تتلیاں اڑ جائیں گی، حاتم کی قبر پہ لات مارنے والے ’’پیسہ پھینک تماشہ دیکھ‘‘ کی کہاوت کو زندہ کردیں گے! جاننے والے جانتے ہیں بڑے بڑے مالی کرپشن کے اسکینڈل کن کی سرپرستی میں کامیابی سے چل رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔