حکمران سول سروسز میں معذوروں کو کوٹہ دینے سے منکر کیوں؟

رحمت علی رازی  اتوار 24 مئ 2015

جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی معذوری ہی اصل معذوری ہوتی ہے۔ مکر اور دجل و فریب بھی معذوری ہی کی شکلیں ہیں۔ ہمارے ہاں، مغرب کے برعکس، جسمانی طور پر تعلیم یافتہ افراد کو جس سفاکی سے سماج سے دُور پھینک دینے کے مناظر آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں، یہ نہایت مکروہ اقدام ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اس کریہہ اجتماعی رویے نے پاکستان میں بھکاریوں کی ایک وسیع انڈسٹری پیدا کر دی ہے جس میں جرائم کی پنیری بھی پرورش پاتی ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ جسمانی اعتبار سے معذور افراد کو ناکارہ افرادی قوت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔

مزید ستم یہ ہے کہ ریاست ِ پاکستان بھی ان افراد کی ذمے داری اٹھانے سے انکاری ہے۔ کاغذات کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لیے 2 فیصد کوٹہ مختص تو ہے لیکن یہ بھی غصب کیا جا رہا ہے۔یہ کوٹہ نجی و سرکاری ملازمتوں کے لیے مخصوص ہے جن میں سول سروسز بھی شامل ہیں۔ معذور مگر تعلیم یافتہ افراد کے لیے جب عام سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں تو سول سروسز والے انہیں کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ سپیریئر سروس کو یہ کیسے گوارا ہوگا کہ کوئی اعلیٰ سرکاری افسر بیساکھیوں کے سہارے چل کر اپنے دفتر میں آئے یا اسے کوئی جسمانی معذوری لاحق ہو۔

اعلیٰ سرکاری افسروں کے لیے بدقسمتی سے پبلک سروس کمیشن کا نام نہاد معیار ذہنی استطاعت کا نہیں، بلکہ فزیکل فٹنس کا تقاضہ کرتا ہے،یعنی باڈی لینگویج سے لگنا چاہیے کہ فلاں تو بہت دھڑلے کا افسر ہے ، کام کرنے کی اہلیت بھلے اس میں نہ ہو۔ اب یہ بات ثابت ہو چکی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو کچھ جسمانی معذوری کی آزمائش میں مبتلا کیا ہے تو اْسے اضافی طور پر کئی ذہنی صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں۔ مغربی ممالک کو اِس کا بھرپور ادراک ہے چنانچہ وہ معذور افراد کو ہر ممکن سہولیات مہیا کر رہے ہیں جس کی بدولت ان کے معذور افراد نارمل افراد کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔

برطانیہ اور امریکا کے علاوہ بیشمار مغربی ممالک میں معذور افراد کو نجی، سرکاری اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں فخر کے ساتھ  ایڈجسٹ کیا جاتا ہے کیونکہ معذور افراد ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیںجو بعض اوقات لاتعداد صحتمند افراد کے بس کا روگ بھی نہیں ہے، جیسا کہ دو ایسے کوہ پیماؤں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی جن میں ایک ٹانگ اور دوسرا بازو سے معذور ہے۔ ہیلن کیلر بھی معذور تھی جس نے اشاروں کی زبان متعارف کروائی جو آج دنیا میں گونگوں اور بہروں کے لیے امید اور روشنی کا کامیاب استعارہ بن چکی ہے۔ مغربی ماہرِ فلکیات وطبیعات اسٹیونزہاکنز بھی تو جسمانی طور پر سراپا مفلوج ہے۔

اس کے پاس ماسوائے بے پناہ دماغی صلاحیتوں کے اور کیا ہے؟ موسیقار بیتھوون بھی جسمانی طور پر معذور ہی تھا لیکن وہ ایک عظیم اور بے مثل موسیقار بن گیا۔ ایک حادثے میں دونوں ٹانگوں سے محروم ہو جانیوالی سدھاچندرن معذوری کے باوجود ہندوستان کی معروف رقاصہ کیسے بن گئی؟ پولیو کا مریض فریڈرک کاہلو میکسیکو کا نامور مصور بننے میں کیوں کامیاب ہوا؟ پاکستانی نژاد ایک شخص جو نابینا تھا لیکن وہ برطانوی جج بن گیا۔ جان لافریٹے بھی نابینا ہی تھا جو برطانیہ کا منصف بن گیا تھا‘ فیصلہ سنتے اور فیصلے کرتے وقت اس کی یہ معذوری کبھی آڑے نہ آ سکی۔

یہ سب پختہ عزم کے کرشمے ہیں۔ دُنیا میں ہزاروں معذور افراد ایسے ہیں جن کی مثالیں دی جاسکتی ہیں، اِن میں شہرۂ آفاق ماہرِ طبیعات نیوٹن بھی ہے جس نے کششِ ثقل کے قوانین دریافت کیے۔ امریکا کے صدر فرینکلن روز ویلٹ کی دونوں ٹانگیں پولیو کی وجہ سے معذور ہو گئیں مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود نیویارک کا گورنر اور پھر 1932 میں امریکا کا 32واں صدر بننے میں کامیاب ہوگیا، اور یہ اس کی قابلیت ہی تھی کہ وہ مسلسل تین مرتبہ صدارت کے عہدے کے لیے منتخب ہوا۔

وہ کیا عظیم قوم تھی جس نے ایک معذور آدمی کی صلاحیتوں سے بھی بھرپور استفادہ کرلیا۔ ایک طرف امریکا کا ایک اپاہج شخص دُنیا کی طاقتور ترین نشست تک جاپہنچا،لیکن دوسری طرف تماشہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں معذوروں کا کوئی بل بھی اسمبلی تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ کہنے کو تو پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق 1981ء سے قانون نافذ ہے اور اس کے تحت سرکاری و نجی اداروں میں 2 فیصد ملازمتی کوٹہ جسمانی نقص کے شکار لوگوں کے لیے مختص کیا گیا ہے ،تاہم کوئی سال ایسا نہیں جاتا جب معذوروں کی انجمنوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے نہ آتا ہو کہ انکے2 فیصد کوٹے پر عمل درآمد کیا جائے۔ کہنے کو تو پاکستان ایک نظریاتی، اسلامی اور فلاحی مملکت ہے۔

ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معذوروں کے لیے پاکستان عالمی تناظر اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میںایک جامع قانون سازی کرتا لیکن حقائق انتہائی شرمناک اور بھیانک صورتحال پیش کرتے نظر آتے ہیں، حکمرانوں کی بے حسی کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 68 برسوں کے دوران پاکستان میں معذور افراد کے حوالے سے صرف ایک قانون ’’ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس ‘‘1981ء میں بنایا گیا اور ماہرین اس آرڈیننس کو بھی معذور آرڈیننس قرار دے کر رد کر چکے ہیں کیونکہ اس آرڈیننس میں خاصی معذوریاں، کمزوریاں اور خامیاں ہیں جنہیں رفع کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔

پبلک سروس کمیشن کے تحت اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے امتحانات میں معذور افراد کے لیے کامرس، اکاؤنٹس ، ریونیو اور انفارمیشن گروپوں میں صرف دکھاوے اور کہنے کی حد تک معذوروں کے لیے ویلکم کی تختی لٹکائی گئی ہے مگر حقیقتاً صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج کمزور بدن افراد کو سول سروس اور دیگر تمام محکموں میں ایڈجسٹ کرنا انتہائی ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اس وقت دُنیا کے ان ممالک میں سرفہرست حیثیت اختیار کر چکا ہے جہاں معذوروں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ  اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے‘ یہ ایک ایسا ایشو ہے جس پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دیدہ دانستہ اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ تعلیم، صحت، غربت اور بیروزگاری جیسے مہیب مسائل کے ساتھ ساتھ اب انسانی اور افرادی معذوری کا سنگین مسئلہ بھی معاشرے کے سینے پر آ چڑھا ہے۔

حکومتوں اور حکمرانوں کی ان مجرمانہ غفلتوں پر سینہ کوبی کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جس جدید دور میں سالانہ بنیادوں پر سوسائٹی کے داخلی وجود اور بنیادی ضروریات و سہولیات کے اعداد وشمار مرتب ہونے چاہییں وہاں خیر سے مسلسل 17 سالوں سے مردم شماری کا اہتمام ہی نہیں کیا گیا۔ بدقسمتی سے 1998ء میں ایک اپاہج سی مردم شماری ہوئی تھی جس میں صرف ووٹروں کی تعداد اور آئندہ انتخابات کے لیے نئے بننے والے شناختی کارڈز کے لیے ترجیحاً ڈیٹا اکٹھا کیاگیا تھا۔ اس مردم شماری میں معذور افراد کی تعداد تقریباً ساڑھے ستائیس لاکھ ظاہر کی گئی جو اصل تعداد سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔

مردم شماری کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ نفوس کی مکمل تعداد، شرحِ اموات وپیدائش، شرحِ خواندگی، تعلیم، صحت، شادیاں، طلاقیں، ملازمتیں، کاروبار اور زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات وسہولیات کے علاوہ ہر خاندان اور ہر فرد کا موجودہ فزیکل اسٹیٹس اور معاشی بائیوگراف تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہر نوعیت کا افرادی بائیوڈیٹا جمع کیا جائے جس کی بنیاد پر حکومتوںکو عوامی مفادات کی پالیسیاں اور مستقبل کا ٹریک مرتب کرنے کے لیے راہنمائی میسر آسکے۔ بیشتر ممالک میں جسمانی معذوری کو بوجھ نہیں سمجھا جاتا۔ ان ممالک میں کمزور جثہ افراد کو روزگار کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار کے انتخاب کی مکمل آزادی ملتی ہے ۔

سرکاری و سوشل ویلفیئر کے ادارے بھی ان افراد کی معاونت میں بھر پورکردار ادا کرتے ہیں چنانچہ وہاں کے معذور افراد خود کو کبھی کم تر نہیں سمجھتے اور زندگی کی مسابقت میں عام صحتمند افراد سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں رہتے۔ دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی معذوروں کا عالمی دن تو منایا جاتا ہے لیکن رنگ برنگ تقریبات، پُرلطف کھانوں اور بڑے بڑے دعوؤںکے سوا اس دن کا کوئی حاصل و حصول سامنے نہیں آتا۔ مغرب کی اعانت یافتہ بعض این جی اوز نے تو اسے تماشہ اور اپنی غربت مٹانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ہر سال ان تقریبات میں حکومتی شخصیات معذوروں کی زندگی سنوارنے اور انہیں ان کے تمام حقوق دینے کے وعدے تو کرتی ہیں لیکن ان وعدوں کو وفا کرنے کا عملی مظاہرہ کسی بھی سطح پر نظر نہیں آتا۔

اس دانستہ غفلت کو مجرمانہ عمل بھی کہا جائے گا اور شدید گناہ بھی۔ پاکستان کی گزشتہ ڈیڑھ عشرے کی عدالتی تاریخ ازخود نوٹسز اور سرکاری ملازمین کے ساتھ زیادتیوں اور حق تلفیوں کے مقدمات سے بھری پڑی ہے۔ اس سلسلے میں معذور افراد نے بھی اپنے حقوق اور دادرسی کے لیے متعدد درخواستیں عدالتوں کے حضور پیش کیں۔ زیادہ تر فیصلے ان کے حق میں ہونے کے باوجود ان پر سنجیدہ طورپر کوئی عمل نہیں ہوا۔ اس کے ذمے دار ہمارے حکمران بھی ہیں اور ہماری ہر حکومت بھی‘ ان میں رواں حکومت بھی شامل ہے۔ 2013ء میں ایک نابینا شخص جابر حسین نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ کی تھی کہ وہ ایک تعلیم یافتہ آدمی ہے لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن اسے سول سروس میں نوکری دینے سے انکاری ہے۔

جسٹس خالد محمود خان نے ڈس ایبل کوٹہ کے مطابق معذور افراد کو سرکاری نوکریوں میں 2فیصد کے حساب سے نوکریاں دینے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا تھاکہ تعلیم یافتہ معذور افراد معاشرے کا جھومر ہیں، انھیں کسی صورت بے سہارا نہیں چھوڑا جا سکتا،اگر قانون میں معذوروں کے لیے 2فیصد کوٹہ متعین ہے تو کیا پھر انھیں ملازمتوں سے محروم کر کے سٹرکوں پر پھینک دیا جائے؟ درخواست گزارکا موقف تھا کہ پبلک سروس کمیشن نے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے ، اس کے برعکس کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ قانون کے تحت تھرڈ ڈویژن رکھنے والے امیدواروں کو نوکریاں فراہم نہیں کی جا سکتیں،جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ معذور افراد کو کوٹہ کے مطابق نوکریاں فراہم کی جانی چاہییں، یہ ان کا خاص حق ہے، جو انہیں بِلاحیل وحجت دیا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو اسے توہینِ عدالت تصور کیا جائے گا۔

یہ واقعی توہین عدالت تھی جس کا ارتکاب بار بار کیا گیا مگر اس کی سزا کسی بھی نافرمان کو نہیں دی گئی۔ پھر نافرمانوں کے حوصلے تو بڑھنا ہی تھے اور بڑھے بھی۔ عین ایک سال بعد معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر جب لاہور پولیس نے نابینا افراد پر لاٹھی چارج کیا تو اسی معزز عدالت نے ایک بار پھر ازخود وفاقی حکومت کی بھی سرزنش کردی کہ ’’معذور افراد ملازمتوں میں کوٹے کے اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ قانون کے تحت معذور افراد کا سرکاری ملازمتوں میں 2 فیصد حصہ مقرر ہے اس پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ معذور افراد کی سیٹوں پر بھی سفارشی بھرتی کر لیے جاتے ہیں۔ ہائیکورٹ کی یہ تشویش بجا ہے کہ مرکز کی کارکردگی اس حوالے سے پنجاب سے بھی بدتر ہے۔ پنجاب حکومت کی گورننس کو دیگر صوبوں سے بہتر باور کرایا جاتا ہے۔ معذور افراد کا ہاتھ تھامنا بھی ایک نیکی ہے مگر یہاں تو ان کو قانون میں متعین حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے ۔

کیا ایسے لوگوں کو بھکاری بننے پر مجبور نہیں کیا جارہا ہے؟ عدالت ِ عالیہ کے ان ریمارکس کو پیش ِ نظر رکھا جائے کہ معذور افراد کو نوکریاں فراہم کرنا ان پر احسان نہیں‘ یہ ان کا حق ہے اور ان کو ملازمتیں دینا حکومت کا فرض، جس سے رُوگردانی بُری حکومت کاری کے مترادف ہے لہٰذا حکومت معذوروں کے کوٹے کے تحت ان کو ملازمتیں دینے کے لیے عدلیہ کے احکامات کا انتظار نہ کرے، اورقانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے ان کو فوری طور پر ملازمتیں فراہم کردے‘‘۔ یہ عدالتی سرزنش بھی محض ایک توہینِ عدالت بن کررہ گئی، کسی کو بھی مستوجب ِ سزاوار ٹھہرایا نہ گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جہاں عام سرکاری اداروں میں اوسط درجہ کے جسمانی نقائص رکھنے والے افراد اچھے اچھے عہدوں پر فائز رہے ہیں، وہاں سول سروسز کا حصہ بھی اس طرح کے متعدد لوگ رہے ہیں، یہاں بھی سفارشیں اپنے معجزے دکھاتی نظر آتی ہیں۔

ان میں کئی ایک ایسے بھی رہے ہیں جو معذور افراد کے کوٹہ پر بھرتی کیے گئے مگر وہ بھی عام لوگوں کے بیٹے بیٹیاں نہیں تھے، خواص طبقات نے یہاں بھی اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا۔ معذور افراد کے 2 فیصد کوٹہ کا جتنا بھرپور فائدہ مقتدر بیوروکریسی نے اٹھایا ہے، کسی دوسرے محکمے نے شاید ہی کبھی اٹھایا ہو۔ ماضی کے کئی ادوار اور خصوصاً ضیاء الحق کے دور میں بڑے بڑے کرشمے دکھائے گئے۔ منظورِ نظر لوگوں کو نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے افسر شاہی کا حصہ بنایا جاتا رہا، جن میں زیادہ تر کو معمولی جسمانی کمزوریوں کے سرٹیفکیٹ پر مطلوبہ معیار پر پورا اتارا گیا، یہ معذوری کے سرٹیفکیٹ بھی جعلی ہوتے تھے اور متعلقہ امیدواروں کی معذوری بھی جعلی ہوتی تھی، جو کچھ عرصہ کی اداکاری کے بعد مکمل جسمانی فٹنس میں بدل جاتی تھی۔ ضیائی دور میں کیے گئے یہ مظالم کسی بھی طرح قابلِ معافی نہیں۔ چور دروازوں سے انٹری مارنے والے مہاکلاکار مضبوط قلعوں کی فصیلوں میں بھی اپنی ’’استعداد‘‘ سے کہیں نہ کہیں سے رخنے اور سوراخ تلاش کر ہی لیتے ہیں۔

اس ملک میں کس کس ڈھنگ اور ڈھب سے لاوارثوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کی جاتی رہی ہے، اس کا اندازہ کرنا سادہ لوحوں کے لیے خاصا کارِدُشوار ہے۔ ماضی کے یہ دھبے اور داغ اتنے مضبوط ہیں کہ وطن عزیز کے لباس کے اصل رنگ پر غالب آ گئے ہیں لیکن آج کے میڈیائی دور میں اور کوئی دیکھے نہ دیکھے مگر کیمرے کی آنکھ ہر داغ پر ضرور گھات لگائے بیٹھی ہے۔ اس خوف نے مجرموں کو نفسیاتی امراض میں اس قدر مبتلا کر دیا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ اب سدھرنا شروع ہو جائیں۔ سول سروس میں اگر بد سے بدترین لوگ ہیں، تو بہتر سے بہترین بھی ہیں جو افسر شاہی میں واقعی اصلاحات کے لیے سنجیدہ وکمربستہ ہیں جن کے ہاتھوں کبھی کبھی اچھے کام بھی سرزد ہوجاتے ہیں۔

ارشد محمود عباسی بصارت سے محروم ایک ایسا طالبعلم ہے جس نے سول سروس کا حصہ بننے کی دل کی گہرائیوں سے ٹھان رکھی تھی۔ نابیناؤں کے لیے مخصوص اُبھرے ہوئے الفاظ کو انگلیوں سے محسوس کر لینے میں اسے کمال کی مہارت حاصل تھی اور اس نے تقریباً دوہزار ای بکس اور مضامین کا بھی مطالعہ کیا۔ ایم اے انگلش کرنے کے بعد اس نے پبلک سروس کمیشن کو درخواست دی کہ وہ سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے فارن سروسز جوائن کرنا چاہتا ہے۔ کمیشن نے اسے ٹکا سا جواب دیا کہ معذور افراد کے لیے کوٹہ کی بنیاد پر ان کے پاس کوئی نشست ہی نہیں ہے، دوسرے یہ کہ معذوروں کے لیے فارن سروس میں سرِدست کوئی پالیسی بھی وضع نہیں ہوئی ، تاہم عام امیدواروں کی طرح آپ امتحان دے سکتے ہیں۔ ارشد محمود عباسی نے 2011ء میں اللہ توکل پر سی ایس ایس کے امتحان میں شمولیت اختیار کی جس میں اس کا رولنمبر 2371 تھا۔

یہ اس کی قابلیت اور اعتماد ہی تھا کہ کامیاب ہونیوالے 239 امیدواروں میں اس نے گیارہویں پوزیشن حاصل کی اور کمیشن کو مجبوراً میرٹ نمبر 11 کے مطابق فارن سروس آف پاکستان کی اکلوتی نشست کے لیے ارشد محمود عباسی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑا۔ یہ صرف نوٹیفکیشن ہی تھا یا اس پر عمل بھی ہوا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ 2012ء میں اس نے ہم سے مایوسی اور امید کے ملے جلے جذبات میں کہا تھا کہ تاحال اسے اپائنٹمنٹ یا پوسٹنگ لیٹر نہیں دیا گیا اور اگر مزید چھ ماہ یا سال تک کمیشن کی طرف سے رابطہ نہ کیاگیا تو وہ اپنے ارادے سے دستبردار ہو کر مجبوراً تدریس کا کام شروع کر دیگا۔ یہ منظر کوئی نیک شگون نہیں ہے جو مائینرڈِس ایبلٹی کا شکار ہیںاور نارمل امیدواروں کی طرح سی ایس ایس کے امتحانات کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس لاوارث قبیلے اور اس کے اہل اور قابل افراد کو کون اپنائے گا جب پاکستان کا معاشرہ ، حکومت اور قانون بھی انہیں شودروں کا سا درجہ دے رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ معذور افراد ایک ایسی کمیونٹی ہیں جن کو پوری دنیا میں ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

ان کے لیے خصوصی طور پر قوانین وضع کیے گئے ہیں اور ان کو صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ سمیت تمام سہولیات مفت اور ان کے گھر کی دہلیز پرمہیا کی جاتی ہیں تاکہ ان کے احساسات کے آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ بسوں اور ٹرینوں میں ان کے لیے خصوصی سیٹیں بنائی جاتی ہیں اور ان کے اُترنے چڑھنے کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ امریکا، برطانیہ، جاپان وغیرہ میں جسمانی معذوروں کو وہ تمام سہولیات و مراعات مفت میسر ہیں جو ان ممالک کے تمام افراد کو حاصل ہیں مگر پاکستان ایسے ملک میں، جسے اسلامی فلاحی مملکت بھی کہا جاتا ہے، معذور افراد کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ برطانیہ کا ’’ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ ایکٹ 1944‘‘ جو آج ’’یو کے ڈس ایبلٹی ڈسکریمینیشن ایکٹ 1995ء‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور امریکا کا ’’لیونگ انڈیپینڈینٹ لا1970ء‘‘دنیا بھر میں معذور افراد کے حوالے سے بہترین قانون تصور کیے جاتے ہیں۔

1982ء میں اقوام متحدہ نے معذور افراد کے حقوق کو انسانی حقوق کا درجہ دیتے ہوئے تمام ممبر ممالک سے مطالبہ کیا کہ معذور افراد کو صحت ،تعلیم اور ملازمت میں عام افراد کے برابر مواقع فراہم کریں۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ نے 1982ء کو معذور افراد کا عالمی سال قرار دیتے ہوئے ان کے لیے باقاعدہ ایک’’ ورلڈ پروگرام آف ایکشن‘‘ بھی ترتیب دیا۔ اقوام متحدہ کی معذور افراد میں اس قابل فخر دلچسپی کا خاطرخواہ فائدہ ہوا اور دنیا بھر میں معذور افراد کو اقوام متحدہ کی ہدایت پر نہ صرف’’ اسپیشل پرسنز‘‘ کا خطاب دیا گیا بلکہ ان کی کفالت اور ملازمت کا بھی مناسب انتظام کیا جانے لگا۔ پاکستان بھی اگرچہ ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جنھوں نے معذور افراد سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر حکومت پاکستان کے لیے دوسرے ممالک کے برعکس یہ چارٹر ایک افسانے اور داستان کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ 67 برسوں سے معذور پاکستانی کسی بھی قسم کی قانون سازی سے محروم ہیں۔

اپنی جسمانی کمزوری اور حکمرانوں کی بے حسی کے کارن یہ افراد نہ تو اکانومی سے اپنا حصہ وصول کر کے زندگی کی گاڑی چلا سکتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ انھیں اپنی صفوں کا کارآمد حصہ بنانا چاہتا ہے، حتیٰ کہ ان کے اپنے خاندان والے بھی ان کو بوجھ‘ بیکار اور شودر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ حکومتوں کی اسی لاپروائی اور مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کی تعداد انتہائی خطرناک سطح کو چھو رہی ہے ۔چند سال قبل پارلیمنٹ میں معذور افراد کی نمائندگی اور ان کے لیے سیٹیں مختص کرنے کا بل پیش کیا گیا تو اس سے پاکستان بھر کے معذور افراد میں اْمید کی ایک لہر پیدا ہوئی کہ یہ بل پاس ہو جانے کی صورت میں انہیں اپنے مسائل خود اسمبلی میں پیش کرنے کا موقع مل جائے گا لیکن یہ بل پارلیمنٹ نے ناقابل ِعمل قرار دے کر مسترد کر دیا، اور اس پر سیکریٹری پارلیمانی کمیٹی جسٹس ریٹائرڈ رضاخاں نے ریمارکس دیے کہ معذور افراد کی نمائندگی کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانون تو تب اجازت دے گا ناں،جب اس حوالے سے کوئی قانون بنایا گیا ہو گا ۔

جب کہ معذور افراد کا تو رونا ہی یہ ہے کہ ان کے لیے کوئی قانون سازی کی جائے لیکن ہم یہاں یہ استفسار کرنا چاہتے ہیں کہ جسٹس رضا خاں کو وہ 700 قوانین نظر کیوں نہیں آئے جو اسلام کے خلاف  ہیں جب کہ ہمارے آئین کی پہلی شق ہی یہ کہتی ہے کہ اسلام پاکستان کا ’’سپریم لا‘‘ ہو گا اور یہاں اسلام کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا ۔ گزشتہ سال نابینا افراد کے مطالبات مانتے ہوئے پنجاب حکومت نے کہنے کو تو معذوروں کا کوٹہ 2 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کردیا تھا لیکن جب اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوا تو اسپیشل پرسنز کو ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آنا پڑا، اور اس مرتبہ ان کا مطالبہ 5 فیصد کوٹے کا تھا جس کے پیچھے منطق یہ تھی کہ پاکستان کی ڈِس ایبلڈکمیونٹی کی تعداد تین کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے، اس تناسب سے ان کا کوٹہ ملک میں رائج اقلیتوں اور خواتین کے کوٹے کے علاوہ ملازمتوں کے دیگر 10فیصد کوٹہ جات کے برابر نہیں تو کم ازکم 5 فیصد ضرور کیا جائے۔

یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ معذوروں کا کوٹہ خواہ 50 فیصد بھی کردیا جائے تو بھی بے سود ہے، کیونکہ اس پر کسی نے عمل تو کرنا نہیں۔ اربابِ بست وکشاد کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اس بے بس اور بے کس کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے لیے مخصوص بل منظور کرکے اسے قانون کا درجہ دیں اور لازم قرار دیا جائے کہ تمام سرکاری ونجی اداروں میں معذور افراد کی قابلیتوں کے مدنظر انہیں ملازمتیں ودیگر ضروری سہولیات و مراعات فوری اور بلاتاخیر فراہم کی جائیں، اور سول سروسز کو بطور خاص معذور افراد کے لیے مقابلے کے امتحانات میں گنجائش پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کوٹہ کی بنیاد پر مستحق لوگوں کومیرٹ پر اپنے تمام گروپوں میں براہِ راست بھرتیاں کرنی چاہئیں۔

اس اقدام سے افسرشاہی میں اصلاحات کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوگاکیونکہ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ جسمانی کمزوری کے شکار افراد عام افراد سے نسبتاً زیادہ باصلاحیت ہوتے ہیں۔ اسپیشل پرسنز کو اپنے سماج کا جزوِناگزیر بنا کر ہم سوسائٹی اور اللہ کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ ہمیں قوی اُمید ہے کہ جسمانی طور پر معذور مگر اہل و تعلیم یافتہ کمیونٹی کو سول سروسز کا حصہ بنا کر بیوروکریسی میںایک حقیقی اصلاحی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔