متاع ضمیر، احتشام ضمیر…

شیریں حیدر  اتوار 24 مئ 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میں سوچ رہی تھی کہ اس گھر میں پچھلی دفعہ آئی تو میں کیا سوچ رہی تھی… ہاں تب کی بار سوچا تھا کہ میں اس گھر میں پہلی بار خوشی کے موقع پر آئی تھی، اس سے قبل جب بھی آنا ہوا تھا کسی غم کے موقع پر ہی آنا ہوا تھا- گزشتہ برس میرے والد صاحب کی وفات سے اگلا دن تھا جب سنا کہ ان کے جواں سال بیٹے علی کی وفات ہو گئی تھی اور وہ بھی دیار غیر میں، غم سے نڈھال ماں چار دن کے بعد جسد خاکی لے کر اپنے گھر پر پہنچی تو ہم سمیت ہزاروں کا مجمع اس کے استقبال کو موجود تھا، اس روز میں نے زندگی میں پہلی بار اس شخص کو یوں دیکھا کہ وہ ہنسنا تو درکنار، مسکرا بھی نہیں رہا تھا، اس کے بعد قل، چالیسویں اور برسی کے ختم پر ان کے ہاں جانا ہوا-

19 فروری کو جانا ہوا کیونکہ اس روز ان کے ہاں مبارک باد کے دو مواقع تھے، ان کے چھوٹے اور اب اکلوتے صاحبزادے عمر کی شادی اور ان کے بڑے داماد کی میجر جنرل کے عہدے پر ترقی… اس روز وہ اپنے پہلے جیسے موڈ میں تھے، ہمارے ساتھ ان کے سب بچے، بہوئیں اور داماد اس وقت ان کی اس اسٹڈی روم میں موجود تھے جہاں ان کا دن کا بیشتر حصہ گزرتا تھا-

ملک ریاض صاحب کی سنگت میں اپنے حالیہ دورہء قطر کی باتیں سناتے ہوئے ان کی آواز کے علاوہ اسٹڈی روم میں صرف ہنسی کی آواز تھی، ہنسی، لطائف اور چٹکلے!!! یہ تھے اصل احتشام ضمیر… 25 اپریل کو اسی اسٹڈی روم میں گیس جمع ہو جانے کے باعث آگ لگ جانے کا حادثہ ہوا-4 مئی کو صبح سویرے اطلاع مل گئی کہ ان کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی تھی… کھاریاں سی ایم ایچ کے برن سینٹر میں کامیاب سرجری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی حوصلہ افزاء صحت یابی کے باوصف… صبح تین بجے وہ زندگی کی بازی ہار گئے تھے-

چار مئی کو ان کی شریک سفر روبی، جسے انھوں نے پریشانیوں کی گرم ہوا بھی نہ لگنے دی تھی، دنیا میں کڑی دھوپ میں کھڑی تھی،بے سائبان!!! وہ ہنسنے کھیلنے، مسکرانے اور ہنسانے والا شخص جس نے اسے زندگی کی کسی تلخی کا ذائقہ بھی نہ چکھنے دیا تھا، ا س وقت اپنی عمر بھر کی ساتھی اور اپنی بلکتی تڑپتی بیٹیوں سے بے نیاز… موت کی سرد چادر اوڑھے سو رہا تھا، جسے ہم سب نے ایک نہ ایک دن اوڑھنا ہے، کل نفس ذائقۃ الموت!!مجھے وہ دن یاد ہے جب ان کی کال آئی، انھوں نے شکریہ ادا کیا کہ میں نے ایک ایسی جعلی ای میل پر کالم لکھا جو کہ مجھے ان کی طرف سے موصول ہوئی تھی کہ وہ پاکستان سے باہر کسی مسئلے کا شکار ہو گئے تھے اور انھیں مجھ سے کچھ رقم درکار تھی- میں جانتی تھی کہ وہ ایک جعلی ای میل تھی اور میں نے چیک بھی کر لیا تھا کہ احتشام بھائی پاکستان میں ہی تھے اور انھیں کسی قسم کی مدد بھی درکار نہ تھی… میں نے کہا ، ’’احتشام بھائی میں تو آپ کے دیے ہوئے اکاؤنٹ نمبر میں رقم بھجوانے ہی والی تھی!!‘‘

ہنس کر کہنے لگے… ’’ لکھنے اور بولنے کی حد تک، ورنہ جانتا ہوں کہ آپ مجھے ایک چونی بھی نہ دیں !!!‘‘

’’ مذاق نہیں کر رہی احتشام بھائی، اگر مجھے یقین ہوتا کہ آپ واقعی کسی مسئلے کا شکار ہو گئے ہیں تو میں ضرور آپ کی مدد کرتی!!‘‘

’’ اچھا… اس مدد کو آپ چھوڑیں، ایک اور سلسلے میں آپ کی مدد چاہیے!!! ‘‘ میرے پوچھنے پر انھوں نے کہا کہ وہ اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب بھجوا رہے ہیں، ’’دوستوں یاروں نے مل کر زبردستی میری کتاب چھپوا کر مجھے خواہ مخواہ صاحبِ کتاب بنا دیا ہے… آپ کو تو معلوم ہے کہ میں اپنا کالم تک خود نہیں لکھتا!!‘‘ اس سے ہر گز نہ سمجھا جائے کہ کہیں انھوں نے بھی بڑے کالم نگاروں اور مصنفوں کی طرح لکھاریوں کی ٹیمیں بھرتی کی ہوئی ہیں جو ان کے لیے کالم لکھتے ہیں اور اعزازیہ میں سے چند فیصد ان گمنام لکھاریوں کو مل جاتا ہے- چونکہ ان کی اردو لکھنے میں اتنی اچھی نہ تھی سو وہ بولتے تھے اور روبی لکھتی تھیں، جنگ میں ان کے کالم اتنے شاذ و نادر پڑھنے کو ملتے کہ جب بھی ملاقات یا فون پر بات ہوتی تو میرا اور غالباً اور لوگوں کا بھی اصرار ہوتا کہ آپ باقاعدگی سے لکھیں، مگر وہ ہنس کر ٹال دیتے، ’’میں تو والد صاحب کی خواہش کی تکمیل کی کوشش میں حادثاتی لکھاری اور کالم نگار بن گیا ہوں !!‘‘

’’جی فرمائیں میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں ؟ ‘‘ میں نے پوچھا-
’’ اب میرے دوست احباب چاہ رہے ہیں کہ میں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کروں اور ادبی حلقوں میں دھماکے دار انٹری دوں … اس لیے آپ زحمت کر کے میری کتاب پڑھیں اور اس پر اپنے تاثرات درج کریں اور آپ نے اس تقریب میں میری کتاب پر بولنا ہے!!!‘‘
’’ مگر مجھے تو بولنا نہیں آتا احتشام بھائی!!‘‘ میں نے حجت کی-

’’ میں تو سمجھتا تھا کہ آپ کو چپ رہنا نہیں آتا!!‘‘ ایسا لاجواب کر دینے والا جواب صرف وہ دے سکتے تھے، ’’ایسا کسی ایسے بندے کو بتائیں جس نے آپ کو بولتے ہوئے نہ سنا ہو… ‘‘ جائے ماندن نہ پائے رفتن، میں نے حامی بھر لی اور ان سے کیے گئے وعدے کے عین مطابق ان کی کتاب، ’’متاع ضمیر‘‘ کی تقریب رونمائی پر بولنے کے لیے جو کچھ لکھا، اسے اس کالم میں پیش کر رہی ہوں۔

’’کیا آپ احتشام ضمیر صاحب کو جانتے ہیں؟ اگر آپ نے صرف احتشام ضمیر کا نام سنا ہے تو وہ کافی نہیں، اگر آپ نے ان کے کالم پڑھے ہیں تو وہ ان کے انداز گفتگو سے فقط پچیس فیصد تک ملتے ہیں… اگر آپ کی ان سے ملاقات ہوئی ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ بظاہر سنجیدہ نظر آنے والا شخص ہے مگر ان کی گفتگو کا ایک ایک لفظ آپ کو گدگدی کرتا ہے!!! ا س کے ساتھ زندگی میں سب سے اچھا حادثہ یہ ہوا کہ وہ سید ضمیر جعفری کے گھر پیدا ہوا… سب سے بڑا معجزہ یہ ہوا کہ اس کی شادی روبی سے ہو گئی جو کہ اس کی نہ صرف قابل تعریف شریک حیات ہیں بلکہ انھوں نے جنرل احتشام ضمیر کے وجود کی گہرائیوں سے اس کالم نگار کو باہر نکالا ہے جو کہ اپنی سستی کے باعث ان کے وجود سے انگڑائی لے کر باہر نہیں نکل رہا تھا… زبان احتشام ضمیر کی چلتی ہے اور قلم روبی کا تو ایک کالم تخلیق ہوتا ہے، ایک ایک کالم کے اس دھکا اسٹارٹ نے احتشام ضمیر کو کالم نگار بنا دیا اور دنیا میں اس تہمت سے بچ گئے کہ اتنے بڑے لکھاری اور مزاح نگار کے بیٹے ہو کر باپ کے نام کی لٹیا ڈبوئی!! مزاح ان کی گھٹی میں نہیں بلکہ جینز میں ہے-
سب سے برا ہوا تب کہ جب انھوں نے قبل از وقت یعنی جب وہ بقول خود ان کے آٹھویں جماعت میں تھے تو غزل لکھی اور پھر فخریہ انداز میں اپنا کارنامہ اپنے والد گرامی کو دکھایا تو وہ جو تھپکی اور شاباش کی امید کر رہے تھے، اپنے والد صاحب سے وہ سنیں کہ غزل کہنا تو درکنار انھوں نے غزل پڑھنے سے بھی توبہ کر لی، بلکہ اگر کہیں معلوم ہو کہ کسی کا نام غزل ہے تو اس سے کئی فرلانگ دور ہو کر بچ کر چلتے ہیں… یوں اس دور کے لوگ ایک عظیم شاعر سے محروم رہے ہیں جسے اس کے والد صاحب نے پیدا ہی نہیں ہونے دیا، اپنے کالم لکھنے کی وجہ بھی وہ یہی پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے سوچا شاید والد صاحب اس سے خوش ہو جائیں-

فوج کے ڈسپلن اور اپنے اندر کے بات بے بات چٹکلے چھوڑنے والے شخص کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہوئے، انھوں نے اپنا وقت فوج میں بھی شان سے اور بہترین گزارا… انھوں نے اپنا ہلکا پھلکا انداز اپنے ماتحتوں کے ساتھ بھی برقرار رکھا مگر اس کے باوجود بھی ان کا دبدبہ تھا، دو متضاد رویوں کو ساتھ ساتھ لے کر چل سکنا صرف ان ہی کی شخصیت کا خاصہ ہے-

میرے لیے ان کی شخصیت انتہائی قابل احترام ہے اور میں یہ بات کہتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں نے انھیں ایک فوجی افسر… ایک کالم نگار سے ہٹ کر ایک قریبی اور معتمد حوالے سے بھی جانا ہے، ان کی شخصیت کی خوبیاں ملنے والے پر ہر ملاقات میں پرت در پرت کھلتی ہیں، جتنا بھی مذاق کے موڈ میں ہوں ، میں نے انھیں کبھی فضول گوئی کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جیسا کہ ہمارے ہاں بعض لوگ مزاح کے نام پر بے ہودہ گوئی، بے عزتی یا پھکڑ پن پر اتر آتے ہیں، مگر احتشام بھائی اتنے ہی اچھے سامع بھی ہیں… طنز بھی کرتے ہیں اور مزاح بھی مگر یوں نہیں کہ کسی کو اپنی بے عزتی محسوس ہو-

ان کی پہلی کتاب کی تقریب رونمائی ہے… امید ہے کہ اس کے بعد ایک سلسلہ چل نکلے گا اور ان کی کتابیں بھی دھڑا دھڑ شائع ہوں گی انشااللہ تعالی… ہاں مگر اس کے لیے اہم ہے کہ یہ اپنے لکھنے میں اتنی ہی باقاعدگی اختیار کر لیں کہ سال بھر میں کالموں کا ایک مجموعہ ترتیب پا سکے… آپ کا انداز تحریر اداس دلوں پر تازگی کی اوس اور ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے، اس دکھی دنیا کو اس نوعیت کے انسانوں اور لکھاریوں کی بہت ضرورت ہے، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!!!

یہ وہ دعائیں ہیں جنھوں نے قبولیت نہ پائی، یہ وہ اسکرپٹ ہے جو مجھے بولنا تھا ان کی کتاب کی تقریب رونمائی میں جو کہ وقوع پذیر ہی نہ ہوئی اور اس سے قبل ہی مسکراہٹیں بکھیرتا ہوا وہ شخص ہماری آنکھوں کو آنسوؤں سے لبریز کر کے تہہ خاک چلا گیا ہے… اللہ تعالی اس پر اپنی لازوال رحمتیں نازل فرمائے اور اسے اگلی دنیا میں بھی اسی طرح مسکراتا ہوا رکھے… آمین!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔