حالات کی وجہ سے انجینئر تو نہ بن سکا ،موٹر سائیکل مکینک بن گیا

بشیر واثق  اتوار 14 اکتوبر 2012
کاشف علی۔ فوٹو: فائل

کاشف علی۔ فوٹو: فائل

اس بھاگتی دوڑتی تیز رفتار زندگی میں موٹر سائیکل ہر آدمی کی ضرورت بن چکا ہے۔ 
حالانکہ کہنے کو تو اس کے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے مگر کیا کریں وقت اور فاصلے کا تال میل قائم رکھنے کے لئے بہتوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی موٹر سائیکل رکھنا پڑتا ہے تاکہ بروقت اپنے کام نمٹا سکیں ،ایک خیال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ بھئی موٹر سائیکل ہی کیوں ،گاڑی کیوں نہیں۔ اصل میں اس سارے معاملے کا تعلق جیب سے ہے،گاڑی تو ہر کوئی خرید نہیں سکتا جبکہ موٹر سائیکل تو پھر بھی عام آدمی کی پہنچ میں ہے ۔ اب تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ موٹر سائیکلوں کی بہتات ہو چکی ہے اور یہ سب انسانی ضرورت کی وجہ سے ہوا ۔‘‘

جب کوئی چیز انسان کی ضرورت بن جاتی ہے تو اس کی دیکھ بھال بھی بہت ضروری ہوجاتی ہے ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ استعمال کے قابل بھی نہیں رہتی۔ سائیکل کو تیز رفتار بنانے کے لئے جب انجن لگایا گیا تواسے موٹر سائیکل کا نام دیا گیا یوں ایک نئے پیشے نے جنم لیا جس میں موٹر سائیکل کی مکینیکل خرابیاں دور کی جاتیں اور اس کام کے ماہر کو موٹر سائیکل مکینک کا نام دیا گیا۔

موٹرسائیکل عام آدمی کی ضرورت ہونے کی وجہ سے اس پیشے کو خوب فروغ حاصل ہوا۔آج صورت حال یہ ہے کہ جس طرح ہر محلے میں نان، روٹی کے دو ،تین تنور ہوتے ہیں بالکل ایسے ہی موٹر سائیکل مکینک بھی موجود ہے کیونکہ وہ ہمارے معاشرے کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔موٹر سائیکل مکینک کی زندگی میں کیا نشیب و فراز آتے ہیں ،اس کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں یہی جاننے کے لئے ہم نے دھرمپورہ لاہور کے رہائشی موٹر سائیکل مکینک کاشف علی سے گفتگو کی۔

انسان زندگی میں بہت سے خواب دیکھتا ہے ، کچھ کو شرمندۂ تعبیر کر پاتا ہے تو کچھ خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جو حالات کے جبر کی وجہ سے صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں ، مگر کہا جاتا ہے کہ ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا،جو افراد مشکلات سے گھبراتے نہیں ، حالات کا حوصلے اور جرأت سے مقابلہ کرنا جانتے ہیں، ان کا دل و دماغ انھیں ہمیشہ آگے بڑھنے پر اکساتا رہتا ہے ، وہ اپنے خوابوں کو تعبیر نہ بھی دے سکیں تو کیا ہوا،اسے کوئی نہ کوئی ایسا رخ ضرور دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس سے ان کے دل کی کسک جاتی رہتی ہے اور انھیںتھوڑا اطمینان ہو جاتا ہے کہ چلو خواب ہو بہو نہ سہی کسی اور شکل میں تو پورا ہوا ۔

کاشف علی کا شمار بھی ایسے ہی باہمت اور حوصلہ مند افراد میں ہوتا ہے ،جب اس سے پوچھا کہ وہ موٹر سائیکل مکینک کیوں بنا تو کہنے لگا ’’کیا کرتا حالات ہی ایسے ہو گئے تھے کہ بچپن میں ہی تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا اور انجینئر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا مجھے بچپن سے ہی الیکٹرک کھلونوں یا پرانی خراب مشینوں کو کھول کر دیکھنے کا شوق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں انجینئر بننا چاہتا تھا مگر جب حالات نے تنگدستی کی کھائی میں دھکیلا تو تب بھی میں نے اپنے شوق کی وجہ سے مکینیکل کام کو پیشے کے طور پر چنا ،آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ بچپن میں ایسا فیصلہ خود سے کیسے کیا ،میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہیں میرے لاشعور میں تھا ،جب میرے والدین نے کا م کرنے کے لئے کہا تو میں نے ان سے کہا کہ میں موٹر سائیکلوں کاکام سیکھوں گا۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات کی سختیاں انسان کو کچھ سے کچھ بنا دیتی ہیں ، انہی سختیوں کی وجہ سے بہت سے افراد ہمت ہار کر منفی راستے پر چل پڑتے ہیں اور بہت سے حالات سے سیکھتے ہیں‘ گویا سختیاں اور مشکلات ان کے لئے سد راہ بننے کی بجائے استاد اور راہنما کا کام کرتی ہیں ۔ ہم نے جب کاشف سے پوچھا کہ آخر وہ کون سے حالات تھے جن کی وجہ سے اسے تعلیم چھوڑنا پڑی تو کہنے لگا’’ہمارا خاندان گیارہ افراد پر مشتمل ہے،ماں باپ ، چھ بھائی اور تین بہنیں۔ میں بڑے دوبھائیوں سے چھوٹا ہوں،میرے والد علی احمد کی سیمنٹ کی دوکان تھی ،اللہ کے فضل سے ہمارے والد کا کاروبار خوب چلتا تھا ،میرے والد دوستوں پر بہت اعتماد کرتے تھے یہی اندھا اعتماد کاروبار میں نقصان کا باعث بننے لگا اور آہستہ آہستہ سارا سرمایہ ختم ہو گیا ،تب والد صاحب نے بار دانے کا کام شروع کیا مگر اس میں اتنی آمدن نہ تھی کہ گھر کا خرچ چل سکے۔

یوں مجبوراً ہم بھائیوں کو تعلیم چھوڑنا پڑی ، ہمارے محلے میں ہی موٹر سائیکل مکینک استاد نعیم یزدانی کی دکان تھی ، جب مجھ سے پوچھ کر گھر میں فیصلہ کر لیا گیا کہ میں موٹر سائیکل مکینک بنوں گا تو میرے والد مجھے وہاں چھوڑ آئے،اس وقت میں تیسری کلا س میں تھا‘ مجھے اپنی پڑھائی چھوٹ جانے کا بہت غم تھا مگر کیا کرتے مجبوری تھی ۔ استاد نعیم یزدانی نے مجھے بڑی توجہ سے کام سکھایا ، میں نے بھی دل سے کام سیکھا ، مگر وہ جو دل میں تعلیم چھوٹ جانے کی کسک تھی وہ مجھے چین نہ لینے دیتی اور میں کام سیکھنے کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ پڑھتا بھی رہا اور استاد نعیم یزدانی نے مجھے کبھی منع نہیں کیا ‘‘۔

شب روز یونہی گزرتے رہے،اس دوران زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے کبھی فاقہ بھی کرنا پڑا،مگر کاشف دل لگا کر کام سیکھتا رہا اور صرف اٹھارہ سال کی عمر میں موٹر سائیکل مکینک بن گیااور ساتھ ہی اس نے پرائیویٹ طالب علم کے طورپر میٹرک کا امتحان بھی پاس کر لیا۔تب اچانک اس پر ایک نئی افتاد ٹو ٹ پڑی۔کاشف کا کہنا ہے کہ ایک صبح جب وہ دکان پر آیا تو دکان خالی پڑی تھی اور استاد دکان سے باہر بیٹھا تھا،جب پوچھا کہ استاد یہ کیا ہوا؟ تو کہنے لگا، بعد میں پتا چلے گا ، میں بڑا حیران ہوا کہ کیا بعد میں پتا چلے گا، پھر پوچھا کہ سامان کدھر گیا تو کہنے لگا کہ موٹر سائیکلوں کا کا م چھوڑ دیا ، اب ہاتھ کالے کرنے والا کام نہیں ہوتا،تم اب اپنا کام کرو ، میں نے کہا کہ میرے پاس اوزار نہیں ہیں پھر کیسے کام کروں مگر استا د نے صاف جواب دے دیا کہ یہ تمھارا درد سر ہے کہ اوزار کہاں سے لائو گے۔

ہمت اور حوصلے سے کام لینے والے افراد ہر مشکل کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ کر ہی لیتے ہیں ، استاد کی اس کایا پلٹ پر ایک دفعہ تو کاشف پریشان ہو گیا کہ اب کیا کیا جائے ؟ کیونکہ اس میں اتنی مالی سکت نہ تھی کہ اوزار خرید سکے اور جگہ کا بھی مسئلہ تھا کہ آخر دکان کہاں لگائی جائے ۔تب اس نے ساتھ والی دکان کے مالک کے بیٹے جاوید کو ساری صورتحال بتائی اور اس سے مدد مانگی کہ وہ اسے کچھ رقم دے تاکہ وہ اوزار خرید سکے ،مگر اس نے کسی وجہ سے معذوری ظاہر کر دی،تب ایک اور دوست آصف نے اس کی مدد کی اور اسے اوزار خرید کر دئیے جو اس نے کاشف سے موٹر سائیکل کا کام کروا کر پورے کئے کیونکہ کاشف کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ وہ فوری طور پر اسے واپس کر سکے۔ اس کے بعد جاوید سے دوبارہ بات کی تو وہ اپنی دکان کے باہر ورکشاپ کے لئے جگہ دینے پر راضی ہو گیا ۔

چونکہ پہلی دکان والے گاہک کاشف کو جانتے تھے اس لئے وہ اس سے موٹر سائیکلوں کا کام کرانے لگے، یوں کاشف کا کام چل نکلا۔اسی دوران اس نے ویلڈنگ اور آٹو مکینک کا کورس بھی کیا ۔ دوسال گزرے تو دکان کے مالک نے اس سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ پارٹنر شپ کرے مگر کاشف پارٹنر شپ کرنا ہی نہیں چاہتا تھا جب اس نے انکار کیا تو دکان مالک نے اسے صاف کہہ دیا کہ یا تو اسے پارٹنر شپ کرنا پڑے گی یا پھر اپنے اوزار اور دیگر سامان اٹھائے اور چلتا بنے ۔

زندگی ایک مرتبہ پھر کاشف کو دوراہے پر لے آئی تھی ،کاشف کو پتہ تھا کہ پارٹنر شپ میں اسے کوئی خاص فائدہ نہیں اور اگر مالک دکان ہیرا پھیری بھی کرتا تو اس سے جواب طلبی نہیں کر سکتا تھا، مگر پھر اسے اپنے بہن بھائیوں کا خیال آ گیا جن کی پڑھائی کے اخراجات وہ برداشت کر رہا تھا‘ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بہن ، بھائیوں کو بھی معاشی مجبوری کی وجہ سے اسکول چھوڑنا پڑے اور پھر گھر کے اخراجات میں بھی وہ حصہ ڈالتا تھا اسی مجبوری نے اسے مالک دکان کی شرائط پر پارٹنر شپ قبول کرنے پر مجبور کر دیا کیونکہ اگر وہ وہاں سے ورکشاپ اٹھا کر کسی اور جگہ لگاتا تو اس سے کام متاثر ہونے کا خدشہ تھا جس سے اس کی آمدن کم ہو جاتی اور معاشی مسائل سراٹھانے لگتے۔

دوسال گزرے تو مالک دکان کو پھر سے ہرا ہرا سوجھنے لگا اور اس نے کاشف سے کہا کہ پارٹس کاکام الگ سے اس کا ہو گا اور موٹر سائیکلوں کی مرمت سے ہونے والامنافع آدھا آدھا تقسیم کیا جائے گا، اس بات کا کاشف کو بہت افسوس ہوا مگر اس نے کسی سے ذکر نہ کیا اور ان سے علیحدہ ہونے کی منصوبہ بندی کر لی ۔دکان کے بالمقابل مارکیٹ میں آٹو پارٹس کی دکان کی بیسمنٹ خالی تھی اور اسے آسانی سے کرائے پر بھی مل رہی تھی ،جب مالک دکان نے دوبارہ کاشف کو تنگ کیا ،تب کاشف نے اپنی زندگی کا ایک بہت اہم فیصلہ کیا اور بیسمنٹ کرائے پر لے کر اپنی الگ دکان بنا لی ۔ الگ دکان بنانے کے فیصلے نے کاشف کے لئے خوشحالی کے دروازے وا کر دئیے ۔

اس نے خوب محنت اور ایمانداری سے کام کیا جس کا اسے بہت اچھا پھل ملا ۔اس نے گھر کے تمام اخراجات خود برداشت کرنا شروع کر دئیے ۔2006ء میں شادی کی۔شادی کے تین سال بعد بھی وہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے تحت زندگی گزارتا رہا ۔ اس کے بعد اس نے اپنے والدین سے علیحدہ ہونے کی اجازت مانگی جو انھوں نے خوشی سے دے دی۔کاشف کے دو بچے چھ سالہ عائش اور آٹھ مہینے کی رامش ہے، اب وہ اپنے خاندان کے لئے نیا مکان تعمیر کر رہا ہے۔

جب کاشف سے پوچھاکہ کہا جاتا ہے کہ نوے فیصد موٹر سائیکل مکینک گاہکوں کو دھوکہ دیتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا’’ آپ کی بات صحیح ہے،جو حرام کماتے ہیں تو ان کی زندگی بھی ویسے ہی مسائل سے بھری رہتی ہے ،میرا یقین ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کے مقدر میں جو رزق لکھ دیا ہے تو وہ اسے ہر حال میں مل کر رہتا ہے‘ وہ انسان پر ہے کہ وہ اسے حرام طریقے سے کمائے یا پھر حلال طریقے سے۔جب رزق کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے تو پھر پریشانی کیسی۔اس لئے ہمیشہ رزقِ حلال کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔‘‘

٭والد کے کاروبار میں نقصان کی وجہ سے تعلیم چھوڑنا پڑی۔

٭اپنی ورکشاپ شروع کرنے کے لئے قرض لے کر اوزار خریدے۔

٭محنت اور ایمانداری سے کام کیا تو اللہ نے تمام مشکلیں آسان کردیں۔

ریاست اور سماج کی ساری چہل پہل اسی کے دَم سے ہے، چناں چہ وہ بہت خاص ہے، مگر کہلاتا ہے’’عام آدمی۔‘‘ اس بے زباں کو زبان دینے کے لیے’’عام آدمی‘‘ کے عنوان سے یہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے، جس میں کم آمدنی والے مختلف پیشوں سے متعلق افراد کے مسائل، مصائب اور روزوشب کی کہانیاں انھی کی زبانی پیش کی جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔