شاہ نیاز احمدؒ

ڈاکٹر ابو اعجاز رستم  اتوار 14 اکتوبر 2012
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ نفع و نقصان پر اﷲ جل شانہ قادر ہے۔

تو پھر مجھے اگر اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ہی مارنا چاہتا ہے تو چارہ کیا ہے؟ کیوںکہ چارہ ساز بھی تو وہی بے نیاز ہے۔ ہم بھی بڑے عالم ہیں۔ فوراً جواب دیتے ہیں۔ تو پھر ہم بیماریوں کا علاج کیوں کرتے ہیں؟ ہاں ضرور کرتے ہیں۔ علاج کا کوئی طریقہ بھی ہے۔ بیماری کیا ہے؟ کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اس کا علاج کیا ہے؟ ان تین بنیادی سوالوں کا جو معالج کو چاہیے۔ خواہ وہ اپنے علم سے تلاش کرے، مریض سے پوچھے یا آلاتِ طب کی مدد سے تلاش کرے۔

اس کے بعد علاج کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ پہلا مرحلہ تشخیصِ مرض کا ہے۔ جسے ہم بیماری یا عارضہ کہتے ہیں، وہ کسی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ مرض کی نشانیاں یعنی علامات ہوتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ علامتیں پیدا ہونے کے کیا اسباب ہوتے ہیں۔ اسبابِ علامات کا رفع کرنا علاج ہے۔ تیسرا مرحلہ پرہیز کا ہوتا ہے، تاکہ اسباب مرض عود نہ کر آئیں۔ شاید یہ بات آپ کے لیے حیران کن ہو کہ محافظوں کا رکھنا بھی ایک مہلک مرض ہے۔ اس کا علاج فوری ہونا چاہیے۔ اس مرض کا سبب کیا ہے؟ مندرجہ بالا تشخیصی اصول کے مطابق دیکھتے ہیں۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اس کا سبب قرآنِ حکیم میں خوف کو بیان فرماتے ہیں اور انسان کے اندر خوف ظلم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

خوف انسان کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ جب انسان کے حوالے سے یہ دو الفاظ ’تباہ و برباد‘ یکجا کرتے ہیں تو اس سے مراد مادّی اور روحانی دونوں طرح کی تباہی ہوتی ہے۔ مادّی تباہی سے جسمانی صحت اور روحانی طور پر ذہنی صحت مراد ہے۔ یہ اس ترقی یافتہ دور میں کوئی راز نہیں ہے کہ جسمانی صحت کی کم زوری سے انسان منفی سوچوں اور توہمات کا شکار ہوجاتا ہے اور اکثر مریضوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہوجاتی ہے کہ ان پر کسی نے کوئی جادوٹونا وغیرہ کردیا ہے۔ جن معاشروں میں ایسے مریض کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ وہاں عملیات کے ماہرین کی بھی کثرت ہوتی ہے۔ عملیات میں ان کی مہارت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسے کم زور دماغ مریضوں کے جذبات سے کھیلنا جانتے ہیں۔

انھوں نے کچھ ایسے الفاظ ایجاد کر رکھے ہیں جو مریض کے لیے بالکل نئے اور نامانوس ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ہی مریض مجھے کسی عامل کے پاس لے گیا، تاکہ میں اپنے کانوں سے اس کے متعلق عامل کے بیان کو سن سکوں۔ اس کی اپنے چچا کے گھر شادی ہوئی۔ اولاد جوان ہے۔ ساری عمر نکما اور نکھٹو رہا۔ چناں چہ بیوی اور اولاد کی نظروں سے گرا ہوا تھا۔ عامل نے کہا، ’’اس کا ہم زاد ناراض ہے۔ اس کو راضی کرنے کے لیے فلاں فلاں چیزیں درکار ہیں، ان پر اتنا خرچہ آئے گا۔‘‘ میں نے عرض کیا، ’’اس کی عم زاد ناراض ہے اور اسے راضی کرنے کے لیے لاکھوں میں خرچہ آئے گا۔‘‘ عم زاد اس کے لیے بالکل ہی نامانوس لفظ تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مریضوں کو الفاظ کے جال میں بھی پھانستے ہیں، کیوں کہ وہ خود میرے ایک ہی لفظ کے جال میں پھنس کر رہ گیا اور مریض سے کہنے لگا، ’’یہ بہت بڑے عامل ہیں۔

بہتر ہے آپ ان سے علاج کروائیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ایمان کی کم زوری اور دین سے دوری کی وجہ سے ہم ایسے دھوکا بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پھر سوائے پچھتاووں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ نت نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ اور ایسی ایسی شرم ناک کہانیاں کہ آدمی سن کر ہی لرز جاتا ہے۔ یہ کوئی نیا علم نہیں جو میں آپ کو منتقل کررہا ہوں، بلکہ معاشرے کا ہر فرد ان سے آگاہ ہے۔

بات نہ چاہتے ہوئے بھی کسی اور طرف نکل گئی، تو پھر کیوں نہ یہ بھی بتادوں کہ یہ عامل وغیرہ کوئی چیز نہیں ہوتے۔ صرف اپنا ایمان خراب کرنے والی بات ہے۔ اسی طرح تصوف میں بے شمار انہونیاں ہیں۔ جہلاء راہ بر و راہ نما بنے ہوئے ہیں۔ سچّے لوگوں کو کسی خودنمائی کی خواہش نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ شعبدہ باز نہیں ہوتے۔ جھوٹے نمود و نمایش کے بھوکے ہوتے ہیں۔ اس لیے مختلف قسم کی شعبدہ بازیوں سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھ سے بہت زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے، ’’کیا آج کل بھی کامل ولی ہوتے ہیں؟ یا یہ کہ کسی کامل ولی کا پتا بتادیں۔‘‘

عرض یہ ہے کہ کامل ولی آبادی کے تناسب سے اتنے ہی ہوتے ہیں، جتنے شروع سے ہیں۔ مثلاً اگر لاکھ کے لیے ایک ولی ہوتا تھا تو آج بھی لاکھ کے لیے ہی ایک ولی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پوچھنے والے کو کامل ولی کی پہچان بھی ہے؟ کیا اسے یہ معلوم ہے کہ کامل ولی کیسا ہوتا ہے؟ اس وقت بڑی حیرت ہوتی ہے۔ جب کوئی یہ کہے، ’’ہمیں تو آج تک کوئی ملا نہیں۔‘‘ گویا اسے کسی کامل ولی کا نہ ملنا، کامل ولیوں کے عدم وجود کی دلیل ہے۔ ولی کا پہچان معلوم نہیں۔ ولی کو ڈھونڈنے کا طریقہ معلوم نہیں۔ ولی کو ڈھونڈنے کی کوئی کوشش کی نہیں۔ لیکن فتویٰ کتنا بڑا کہ ہمیں تو آج تک کوئی ملا نہیں۔ یعنی جو انھیں نہ ملے وہ ولی نہیں ہوسکتا۔ کتنا غرور و تکبر ہے۔

جیسی نیت ہو ویسی مراد ملتی ہے۔ اصول یہ ہے کہ ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔ یہ اصول اس نے وضع فرمایا جو فاطرِ فطرت ہے، جس کے پاس ہر شے کے خزانے ہیں۔ وہ کونین کی رگ رگ میں ہے۔ ذرّے ذرّے میں ہے، مگر ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔ حالاں کہ ظاہر بھی ہے باطن بھی ہے۔ ڈھونڈنے کا طریقہ یہ ہے کہ ’خیر‘ میں تلاش کیا جائے۔ ’اقدار خیر و شر‘ اسی کی طرف سے ہیں، لیکن ’خلیفہ‘ کے لیے صرف اقدار خیر کو اپنانا، بڑھانا اور اقدار شر کو مٹانا ہے۔ کیوںکہ اقدار خیر ہی اقدار انسانیت ہیں۔ شر شیطانیت ہے۔

یہاں تک پہنچا تھا کہ پھر بھونچال آگیا۔ انسانیت کی بنیاد زیرو زبر ہوگئی۔ کسی بدبخت نے محسن انسانیت، وجۂ تخلیقِ کائنات رحمت اللعالمینؐ کی شانِ پاک میں گستاخی کردی۔ گستاخ امریکا میں ہے۔ عالمِ اسلام میں آگ بھڑک اٹھی اور یہ ایک فطری بات ہے۔ یہ سب تو ہونا تھا۔ اگر تلخ نوائی معاف ہو تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہم حکمت و دانش سے عاری لوگ ہیں۔ حدیث مبارک ہے، ’’حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ اسے جہاں سے بھی ملے۔ حاصل کرے۔‘‘

ارشاد ربّانی ہے، ’’جسے حکمت ملی اسے خیر کا خزانہ مل گیا۔‘‘ اس کے باوجود ہم اچھے سے اچھا کام بھی اس طرح کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ اگر ہم مومن ہیں تو ہماری مومنانہ فراست کہاں ہے؟ بے شک ہم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے، جب تک اپنی ہر شے، اپنے ہر رشتے حتیٰ کہ اپنی ذات سے بھی بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے محبوب رسولؐؐ کے وفادار اور جاں نثار نہ ہوں، مگر اس سے پہلے سمجھنے کی بے شمار چیزیں ہوتی ہیں:

خدا کی شان دیکھو بعد کیا ہے اور کیا پہلے
نظر آتا ہے جنگِ بدر سے غارِ حرا پہلے

پہلے یہ سمجھنا پڑتا ہے کہ وفاداری اور جاں نثاری کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔ اچھے اور برے میں کچھ فرق تو ہوتا ہی ہوگا؟ اگر بروں کی طرف سے کوئی برا پیغام ہمیں پہنچتا ہے اور ہم اچھے ہیں تو ہماری طرف سے انھیں کوئی اچھا پیغام پہنچنا چاہیے۔ ہم نے کیوں اپنے اوپر عقل و علم کے دروازے بند کرلیے ہیں؟ کسی نے کوئی غلط حرکت کی تو ہم نے اپنے گھر کو جلانا شروع کردیا۔ پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اس کا پرچار کریں۔

یہ ثابت شدہ امر ہے کہ کسی نے جان بوجھ کر توہین اور دل آزاری کی کوشش کی ہے تو یہ فتنہ ہے اور فتنہ روئے زمین پر بدامنی کا سبب ہے۔ اس لیے فتنے کو ختم کرنے کے لیے ارشادِ ربّانی ہے کہ ’’ان سے اس وقت تک لڑو جب تک فتنہ ختم نہ ہوجائے اور پوری روئے زمین پر اﷲ کا قانون نافذ نہ ہوجائے۔‘‘ گویا اﷲ کا قانون نافذ نہ ہونا فتنہ ہے۔ اس طریقے کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیار کرنا اﷲ کے حکم سے بغاوت ہے، جو کہ بذاتِ خود فتنہ ہے۔ ہم اگر واقعی مسلمان ہیں تو ہمیں فتنہ مٹانا ہے یہ ہمارے اوپر فرض ہے۔ فارسی زبان کا ایک شعر ہے۔

تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فضل کردن آمدی

ترجمہ: تجھے اس زمین پر نوعِ انساں کو کلمے کے ذریعے جوڑنے کو بھیجا گیا ہے۔ ان کے مابین جدائی اور فاصلے پیدا کرنے کے لیے نہیں۔

جو لوگ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر کچھ بھی کرتے ہیں وہ اﷲ کی رضا کے لیے نہیں ہوتا۔ انھیں قہرِ الٰہی سے ڈرنا چاہیے۔ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے، ہم اس وقت قہرِ الٰہی کی زد میں ہیں۔ اگر کوئی ثبوت چاہتا ہے تو اسے پتا ہونا چاہیے کہ جن سے اﷲ راضی ہوتا ہے، ان کا یہ حال نہیں ہوتا جو اس وقت ہمارا ہے، بلکہ اﷲ تعالیٰ کی مدد ان کے شاملِ حال ہوتی ہے۔ ہم میں سے اکثریت کے دماغ تباہی کی طرف پھر گئے ہیں۔

اس لیے ہمیں تباہی سے کون بچاسکتا ہے؟ ہر عذاب سے نجات کا ذریعہ اﷲ کے حضور ’توبہ‘ ہے۔ اگر ہم نے جلد از جلد توبہ نہ کی تو ہمیں مکمل تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اپنے شب و روز تو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولؐؐ کی نافرمانی میں بسر کرتے ہیں، لیکن اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی غلطی کرے تو ہم اپنے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔ جب اپنے ہی گھر کو تباہ کرنا، اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنا ہمارا قومی شعار ہے تو جس کا جو جی چاہے کرے۔ روکے گا کون؟ ظالم منصف کو ڈرانے کی جس پاک وطن میں کوشش کرے، وہاں عدل و انصاف کیسے ہوگا؟ حالاں کہ عدل انسانیت اور انسانی معاشروں کی بنیاد ہے۔

ہماری کیا بنیاد ہے؟ آفاقی اصول تو یہ ہے کہ اگر میرا کردار اچھا ہے تو میرے والدین، میرے اساتذہ کی نیک نامی کا ذریعہ بنے گا۔ ہمارا کون سا عمل ایسا ہے جس کی بنیاد پر ہمیں اچھا کہا جائے؟ یہ سمجھنے کا نکتہ ہے۔ ہمیں اپنے کردار کی سیاہی دھونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں منصف بن کر دوسروں کے بارے میں فیصلے صادر کرنے کا ہرگز ہرگز کوئی اختیار نہیں ہے۔

حضرت شاہ نیاز احمد والد کی طرف سے علوی اور والدہ کی طرف سے حسینی رضوی سیّد تھے۔ آپ شاہانِ بخارا کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کا دارالحکومت اندی جان تھا۔ آپ کے ایک بزرگ حضرت شاہ ایت اﷲ علوی تاج و تخت چھوڑ کر ملتان آگئے۔ ان کے پوتے شاہ عظمت اﷲ ملتان سے سرہند میں آکر رہنے لگے۔ وہاں سے شاہ رحمت اﷲ علوی دہلی تشریف لائے۔ آپ کے والد ماجد کا نام شاہ محمد رحمت اﷲ ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی لاڈو ہے۔ انھیں بی بی غریب نواز کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ وہ مولانا سیّد سعد الدین کی صاحب زادی تھیں، جو شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی کے خلیفہ تھے۔ آپ 1173ھ میں سرہند میں پیدا ہوئے۔

آپ کا نام راز احمد رکھا گیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت میں بہت دل چسپی لی۔ آپ کم سنی ہی میں اپنے والدین کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے، جہاں آپ کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ سعید الدین رضوی نے آپ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ آپ کی تعلیم جاری رہی۔ پندرہ برس کی عمر میں علوم ظاہری کی تکمیل کرکے دستارِ فضیلت حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ کی خواہش پر حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں نے آپ کو اپنی تربیت میں لے لیا، لیکن بیعت نہیں کیا۔ اس لیے کہ آپ کی بسم اﷲ کے وقت آپ کے نانا مولانا سعید الدین رضوی نے آپ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔ مولانا فخر الدین فخر جہاں ان کا بہت احترام کرتے تھے اور ان کے اس عمل کو بیعت ہی سمجھتے تھے۔ اس ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھنے کو بے ادبی سمجھتے تھے۔ ہاں البتہ اپنا دامن آپ کے ہاتھ میں پکڑا کر بیعت فرمایا اور اسے بیعت طالبی کا نام دیا۔

دہلی میں جب آپ کے کمال کا شہرہ ہوا تو لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ بعض نے کہا کہ وہ کسی سے بیعت تو ہیں نہیں، درجۂ کمال کو کیسے پہنچ گئے۔ یہ سن کر آپ کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس کے کئی روز بعد حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں نے آپ سے فرمایا کہ میاں آج کی شب میں حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی آپ کی بیعت اپنے ہاتھ پر قبول فرمائی اور مجھے ایک صورت دِکھائی ہے۔ ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اپنی خاص اولاد میں سے اس کو بھیجتا ہوں۔ بظاہر اس کے ہاتھ پر تکمیل کرادینا۔ اس بات کے چھے ماہ بعد ایک دن حضرت سیّد عبدالقادرؒ نے مولانا فخر الدین کو یہ مژدہ سنایا کہ ہمارے بیٹے کو دہلی پہنچے تین روز گزر گئے ہیں، مگر تم اس سے غافل ہو۔

حضرت مولانا فخر جہاں نے ان بزرگ کی تلاش کے لیے لوگوں کو ہر طرف بھیجا۔ ایک شخص نے مولانا فخر الدین کو ایک بزرگ کا پتا دیا کہ وہ بغداد کے رہنے والے ہیں اور جامع مسجد دہلی میں مقیم ہیں۔ دریافت کرنے پر اس شخص نے جو حلیہ بیان کیا تو یہ اسی بزرگ کا تھا جو مولانا فخر الدین کو خواب میں دِکھایا گیا تھا۔ حضرت مولانا فخر جہاں نے مٹھائی لانے کا حکم دیا۔ مٹھائی خوان میں رکھی۔ خوان کو اپنے سر پر رکھا اور داہنے ہاتھ سے شاہ نیاز احمد کا ہاتھ پکڑا۔

اس طرح سے جامع مسجد میں داخل ہوئے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک نورانی صورت بزرگ بیچ کے در میں جلوہ افروز ہیں۔ حضرت مولانا فخر الدین نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کی صورت انھیں دِکھلائی گئی تھی۔ ان بزرگ کا نام سید عبداﷲ تھا۔ انھوں نے سید نیاز احمد کو دیکھتے ہی فرمایا، ’’یہ وہی ہیں، جن کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے۔ ‘‘حضرت مولانا فخر جہاں نے سر سے اتارا اور حضرت سید عبداﷲ بغدادیؒ کے سامنے رکھا۔ انھوں نے حضرت سیّد نیاز احمد کو بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور تعلیم و تربیت فرمائی۔ اپنی دستار مبارک انھیں مرحمت فرمائی۔

آپ کی پہلی شادی بھی حضرت سیّد عبداﷲ بغدادی کی صاحب زادی سے ہوئی جو لاولد ہی اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔ ان کی وفات کے بعد آپ نے دوسری شادی کی۔ دوسری بیوی سے ان کے تین بچّے ہوئے، جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی مگر بیٹی چھوٹی عمر میں ہی انتقال کر گئیں۔ بڑے بیٹے کا نام نظام حسین اور چھوٹے کا نام نصیر الدین حسین ہے۔ آپ کا وصال 6 جمادی الثانی 1250ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار بریلی میں ہے۔ آپ کے بڑے صاحب زادے آپ کے سجادہ نشیں ہوئے۔ آپ نے دربار اور لنگر کا انتظام بڑے اچھے طریقے سے چلایا اور کوئی کمی محسوس نہ ہونے دی۔

آپ کے مشہور خلفاء میں مندرجہ ذیل معتبر نام شامل ہیں۔ حضرت شاہ نظام الدین حسین مولوی عبداللطیف خان علوم سمرقندی، مولوی نعمت خان بخاری کابلی، مولوی محمد حسین مکہ معظمہ، میر محمد سمیع بدخشانی، ملا محمد عوض بدخشانی، محمد فخر عالم شاہ جہان پوری، شاہ شمس الحق (مزار لکھنؤ)، مولوی عبدالرحمن خان ساکن جاورہ، مولوی مستان خان شاہ جہان پوری، مخدوم جی بدخشانی، شاہ نور حسین بریلوی۔

آپ ولایت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ ظاہری و باطنی علوم میں کمال حاصل تھا۔ درویش کامل تھے۔ عشق الٰہی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ عجز و انکساری آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حضرت مولانا فخر الدین فخر جہان کے وابستگان سے اس قدر قلبی لگائو تھا کہ ایک دفعہ ان کی پالکی اٹھانے والا آپ کی خانقاہ میں آیا۔ آپ اس کو لینے کی غرض سے خانقاہ کے صحن تک تشریف لے گئے۔ اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ اسے اپنی مسند پر بٹھایا۔ اسے نذر پیش کی اور رخصت کیا۔

آپ خاندانِ رسالت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک مجلس وعظ میں آپ حاضر تھے۔ آپ کی نگاہ ایک صاحب پر پڑی جو سید تھے۔ وہ نہایت شکستہ حال تھے اور سب سے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ انھیں دیکھتے ہی اٹھے اور اپنا سر ان کے قدموں پر رکھ دیا۔ پھر حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا، ’’سب لوگ گواہ رہیں کہ اﷲ کے حضور مجھ سے یہ سوال ہوگا کہ تو اس مجلس وعظ میں گیا تھا۔ تو میں یہی عرض کروں گا کہ میں نے وہاں بھی تیرے رسولؐ کی اولاد کے قدموں پر سر رکھا تھا۔‘‘

آپ رات کو بارہ بجے کے قریب اٹھتے، وضو کرتے اور تہجد پڑھتے۔ تہجد سے فارغ ہو کر خاندانی وظیفہ پڑھتے۔ اس کے بعد بارہ تسبیح ضرب لگاتے۔ فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر آرام کرتے۔ آپ ایک بلند پایہ عالم اور صاحبِ تصنیف بھی تھے۔ آپ کو صوفی شعراء کی بزم میں ایک عام درجہ حاصل تھا۔ آپ کا تخلص نیاز ہے۔ دو دیوان ایک فارسی اور ایک اردو زبان کا آپ کی شاعری کی یادگار ہیں۔ آپ کا کلام حقائق و معارف کا آئینہ ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنی ایک غزل حضرت مرزا جان جاناں مظہر شہید کو سنائی تو ان پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔

فرماتے ہیں، ’’موت کا وقت بڑا سخت ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ خاردار درخت پر باریک کپڑا ڈال کر ایک جانب سے کھینچا جائے تو تار تار ہو کر کھینچے۔ یہی حالت روح کی ہے۔

ایک مرتبہ آپ چوہدری بسنت رائے کے گھر تشریف لے گئے۔ اس کا ایک رشتہ دار استسقاء کی بیماری میں مبتلا تھا۔ آپ نے اس مریض کی حالت دیکھ کر ایک شخص کو جو اس کے ساتھ تھا، اس مریض کے پلنگ کے برابر زمین پر لیٹنے کا حکم دیا۔ اس شخص کا پیٹ اور جسم پھولنے لگا اور مریض کو افاقہ ہونا شروع ہوگیا۔ اس مریض کو شفا ہوئی۔ اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ اس شخص کا مرض بڑھتا گیا۔ جب وہ شخص آپ کی خانقاہ میں آیا تو وہ بھی دو روز میں ٹھیک ہوگیا۔

ایک ولایتی کابل سے بیعت کرنے بریلی آیا۔ شہر سے باہر دریا کے کنارے اس کی ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں اس ولایتی نے اپنے آنے کی غرض بیان کی۔ اس شخص نے کہا کہ نیاز احمد میں ہی ہوں۔ ولایتی وہیں بیعت سے مشرف ہوا۔ پھر اس شخص نے فرمایا، ’’تم خانقاہ چلو۔ میں بھی وہیں آتا ہوں۔ جب ولایتی خانقاہ میں آیا تو دیکھا کہ آپ کی سوئم کی فاتحہ ہورہی ہے۔ اب اسے معلوم ہوا کہ آپ نے اسے وصال کے بعد بیعت کیا۔

حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں نے آپ سے فرمایا کہ میاں آج کی شب میں حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی آپ کی بیعت اپنے ہاتھ پر قبول فرمائی اور مجھے ایک صورت دِکھائی ہے۔ ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اپنی خاص اولاد میں سے اس کو بھیجتا ہوں۔ بظاہر اس کے ہاتھ پر تکمیل کرادینا۔ اس بات کے چھے ماہ بعد ایک دن حضرت سیّد عبدالقادرؒ نے مولانا فخر الدین کو یہ مژدہ سنایا کہ ہمارے بیٹے کو دہلی پہنچے تین روز گزر گئے ہیں، مگر تم اس سے غافل ہو۔ حضرت مولانا فخر جہاں نے ان بزرگ کی تلاش کے لیے لوگوں کو ہر طرف بھیجا۔

ایک شخص نے مولانا فخر الدین کو ایک بزرگ کا پتا دیا کہ وہ بغداد کے رہنے والے ہیں اور جامع مسجد دہلی میں مقیم ہیں۔ دریافت کرنے پر اس شخص نے جو حلیہ بیان کیا تو یہ اسی بزرگ کا تھا جو مولانا فخر الدین کو خواب میں دِکھایا گیا تھا۔ حضرت مولانا فخر جہاں نے مٹھائی لانے کا حکم دیا۔ مٹھائی خوان میں رکھی۔ خوان کو اپنے سر پر رکھا اور داہنے ہاتھ سے شاہ نیاز احمد کا ہاتھ پکڑا۔ اس طرح سے جامع مسجد میں داخل ہوئے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک نورانی صورت بزرگ بیچ کے در میں جلوہ افروز ہیں۔ حضرت مولانا فخر الدین نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کی صورت انھیں دِکھلائی گئی تھی۔ ان بزرگ کا نام سید عبداﷲ تھا۔ انھوں نے سید نیاز احمد کو دیکھتے ہی فرمایا، ’’یہ وہی ہیں، جن کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔