ستانے والے اور ستائے ہو ئے لوگ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 27 مئ 2015

پاکستان میں اب صرف دو طبقات باقی رہ گئے ہیں ایک طبقہ ستانے والوں پر مشتمل ہے جن میں سیاست دان، بیو روکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار، ملا، بڑے بڑے بزنس مین شامل ہیں جو تعداد کے لحاظ سے انتہائی قلیل ہیں لیکن ستانے کے تمام ہتھیاروں سے لیس ہیں اور جن کو ستانے کے لا محدود اختیارات بھی حاصل ہیں۔ ان کے اختیارات کو چیلنج کرنے کا مطلب اپنے آپ کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ سب دیکھنے میں انتہائی مہذب، تعلیم یافتہ اور با شعور لگتے ہیں لیکن اصل میں اندر سے ظالم ہیں اور جب کسی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تو اس کا کام تمام کر کے ہی دم لیتے ہیں اور اکثر تو دم ہی نہیں لیتے ان سب کا مسلسل ایک کے بعد

ایک شکار پر مکمل اتفاق ہے یہ کہتے ہیں اتفاق میں ہی برکت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود برکت بھی ان سے انتہائی خو فزدہ رہتا ہے انھیں اپنے کرتوتوں پر مکمل مہارت حاصل ہے اور دوسرا طبقہ ستائے ہوئوں پر مشتمل ہے جن میں ہم سب شامل ہیں جو تعداد کے لحاظ سے 18 کروڑ ہیں۔

ان مظلوموں، بیچاروں، بے بسوں ، بے کسوں اور مصیبت زدوں کے متعلق جتنا کچھ لکھا جائے کم ہی ہو گا جن کے نزدیک زندگی کا مقصد اور مطلب صرف مصیبتیں اٹھانا، تکلیفیں برداشت کرنا، آہ و بکا کر نا چیخنا چلانا، تڑپنا اور ستانے والوں کے ظلم و ستم کو سہنا اور برداشت کرنا رہ گیا ہے جو نہیں جانتے کہ خو ش ہونا خواہشیں پوری ہونا سکھ و چین کی نیند سونا مسکرانا اور بے فکری کن بلا ئوں کا نام ہیں۔

اگر آپ کو ان باتوں پر یقین نہیں آ رہا تو آئیں آپ ذرا ان لوگوں کی تاریک، گندی اور غلیظ بستیوں میں گھوم پھر کر خود ہی دیکھ لیں اگر آپ کی تھوڑی ہی دیر میں ان کے رنج و الم، گندگی، بدبو اور بدحالی سے آپ کی چیخیں نہ نکل جائیں اور آ پ چِلا نہ اٹھیں اور ان بستیوں سے بھاگ نہ کھڑے ہوں تو پھر آپ ہمیں مجرم ٹھہرانے میں حق بجانب ہوں گے۔ ان لوگوں کی پوری زندگی یہ سوچتے ہوئے گزر جاتی ہے کہ یہ ستانے والے آخر ہمارا نصیب اور مقدر کیوں ہیں ہم سے آخر ایسے کون سے گناہ کبیر ہ سرزد ہو گئے ہیں کہ یہ عذاب ہم پر مسلط کر دیے گئے ہیں۔

یہ مصائب و آلام ہمارے ہی نصیب میں کیوں لکھ دیے گئے ہیں، یہ گالیاں، یہ دھتکار، یہ ذلت، یہ خواری یہ گندگی یہ بیماریاں ہمارا ہی کیوں مقدر ہیں۔ اے خدا تیری دنیا میں اتنی نا انصافی کیوں ہے، اتنی اونچ نیچ کیوں ہے تیرے بند ے اتنے برے حالوں میں کیوں ہیں، آخر کون سی ایسی عبادت ہے جو ہم نہیں کرتے آخر تو ستانے والوں سے کیوں اتنا راضی ہے اور ہم سے کیوں اتنا ناراض ہے۔ تیری ساری نعمتیں برکتیں ان پر کیوں اتری ہوئی ہیں اور سارے عذاب سارے دکھ سارے غم آخر ہمیں ہی کیوں بن مانگے مل رہے ہیں۔

یاد رہے انسان پر شدید حملہ ناانصافی کا ہوتا ہے جس سے اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ انسان کی عزت نفس پر ہوتا ہے انسان ہر چیز برداشت کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے اپنی عزت نفس کی بے حرمتی قابل برداشت نہیں ہے۔ ناانصافی کے شدید شعور کا اطلاق تمام انسانوں پر یکساں ہوتا ہے، یہ واضح نا انصافیاں ہی تھیں کہ جن کی وجہ سے پیرس کے باسیوں نے باسٹیل (جیل) پر دھاوا بول دیا، گاندھی اور قائداعظم نے اس سلطنت کو للکارا جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا مارٹن لوتھر کنگ نے سفید فام غالب قوت کے خلاف جنگ کی۔

آج ناانصافی کی سب سے وحشت زدہ تصویر پاکستان ہے جس کی وجہ سے آج ہم سب مریض بن چکے ہیں ہمارے جسموں سے زیادہ ہمارے اذہان بیمار ہیں۔ ہمارے اذہان اس لیے بیمار ہیں کہ انھیں روزانہ زہریلے اور منفی خیالات سے آلو دہ کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ زہریلے اور منفی خیالات ہمارے ذہنوں میں داخل کیسے ہوتے ہیں یہ زہریلے خیالات اس لیے ہمارے ذہنوں میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ ہم ایسے خیالات و تصورات کے متعلق سوچ و بچار کرتے ہیں ہمارے اس عمل کے ذریعے ہمارے ذہن زہریلے خیالات سے آلودہ ہو جاتے ہیں اور ہم ذہنی طور پر بیمار ہو جاتے ہیں۔

ظاہر ہے آ پ کا اور میرا ناانصافی، بے ایمانی، کر پشن، لوٹ مار، بے اختیاری پر رد عمل خوشگوار ہونے سے تو رہا ہم اپنی ذلت، خواری، بربادی پر ہنسنے سے تو رہے قہقہے لگانے سے تو رہے کر پٹ، راشی اور لٹیروں کو دعائیں دینے سے تو رہے اپنے عدم تحفظ اور عدم سلامتی پر ناچنے سے تو رہے ستانے والوں کے حق میں ہڑتال، مظاہرے اور جلوس نکالنے سے تو رہے۔

ظاہر ہے جب ہمارا دن رات انھیں کوسنے، گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے میں گزر ے گا تو ہم ذہنی طور پر بیمار تو ہوں گے دلچسپ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ چلو ہم تو بیمار سہی لیکن ستانے والے ہم سے زیادہ بیمار ہیں ہم سے زیادہ اذیت میں ہیں وہ دن رات ایسے گڑھے کا پیٹ بھرنے میں مصروف ہیں جو کبھی بھرنے والا نہیں ہے، ہماری بیماری تو ایک حد پر آ کر رک گئی ہے ظا ہر ہے اس سے زیادہ بر بادی ممکن ہی نہیں ہے ہنسنے اور قہقہے لگانے کی بات تو یہ ہے کہ ستانے والوں کی بیماری کی کوئی حد نہیں ہے ان کی آخری حد صرف پاگل پن ہے ہم تو ایک نہ ایک دن صحت مند ہو ہی جائیں گے لیکن یاد رہے ان کے پاگل پن کا علاج ممکن نہیں۔ کیونکہ اصل میں یہ صرف پاگل پن نہیں بلکہ عذاب ہے۔ جس کی لپیٹ میں یہ سب لوگ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔