’’را‘‘ کے مذموم عزائم۔۔۔ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی بھارتی سازش کوعالمی سطح پر بے نقاب کیا جائے!!

دفاعی، قانونی،سیاسی و خارجہ امور کے ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔  فوٹو : ایکسپریس

دفاعی، قانونی،سیاسی و خارجہ امور کے ماہرین کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار بغیر کسی شک و شبہ کے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کی حمایت کرنے، انہیں درپردہ فنڈز کی فراہمی اور سندھ اور بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے والی پاکستان دشمن قوتوں کے ساتھ ساز باز میں ملوث ہے جس کے بارے میں پاکستان نے احتجاج کیا اور ایک اعلامیہ میں واضح کیا کہ دہشت گردی میں’’را‘‘ ملوث ہے اور افغانستان اپنی سرزمین اسے استعمال نہ کرنے دے۔

پاکستانی حکام نے ’’را‘‘ کی جانب سے پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے حالیہ واقعات میں ملوث شدت پسندوں کی معاونت کے ثبوت بھی امریکا کے حوالے کردیے ہیں جو ایک اہم پیش رفت ہے۔ ’’را کی پاکستان میں تخریب کاری‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کی گیا جس میں دفاعی، قانونی، سیاسی و خارجہ امور کے ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ایس ایم ظفر
(سابق وفاقی وزیر قانون)


میں اس بات سے متفق ہوں کہ ہمیں اپنے اندرونی حالات درست کرنا ہوں گے لیکن اندرونی حالات کا جو نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے وہ ایک دن میں درست ہوتا دکھائی نہیں دیتالہٰذا جب ہمیں چند دن یا چند سال انہی حالات میں گزارنے ہیں تو پھر ہم یہ تو نہیں کرسکتے کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور یہ کہیں کہ پہلے حالات درست کرو پھر ہم ’’را‘‘ کے معاملے کو بھی درست کریں گے۔

’’را‘‘ کا یہ حق ہے کہ وہ تخریب کاری کرے میں اس سے کسی حد تک اختلاف کروں گا کیونکہ خفیہ ایجنسیوں کا یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ تخریب کاری کریں بلکہ ان کا فطری حق یہ ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں اور اپنی حکومت کو بتائیں۔ اس کے بعد یہ حکومت کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ ان حالات میں کیا قدم اٹھاتی ہے اور وہ قدم تخریب کاری کی شکل میں بھی اٹھ سکتا ہے۔

اب اگر واقعی ’’را‘‘ کے ذریعے پاکستان میں تخریب کاری ہورہی ہے تو یہ بھارتی حکومت کی ایما پر ہورہی ہے۔ اس لیے آپریشن تھیٹر پر ہمیں بھارتی حکومت کا ذکر کرنا ہوگا تب جاکر اس مرض کا علاج ہوگا۔یہ بات درست ہے کہ آرمی چیف کا بیان حوصلہ مند ہے لیکن حوصلہ مند بیان طریقہ کار نہیں ہوا کرتا۔ طریقہ کار تو پھر حکومت کو ریاست کی حیثیت میں کرنا پڑے گا۔ اب اگر بھارتی حکومت اس میں شامل ہے تو پھر یقینی طور پر یہ حکومت کا کام ہوگا کہ اس کے پاس طاقت یا جو بھی طریقہ موجود ہے اسے استعمال کرے ۔

اگر دویا تین لوگ پکڑے گئے اور انہوں نے اعتراف کرلیا کہ ہم نے ’’را‘‘ کے کہنے پر یہ کارروائی کی ہے تو یہ شہادت بھارتی حکومت کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ زیر حراست شخص کس وقت اور کس وجہ سے اعتراف جرم کرتا ہے اس پر بیرونی ممالک کان نہیں دھڑتے۔ اس لیے حکومت اور آئی ایس آئی کو کاؤنٹر انٹیلی جنس کرنا ہوگی۔ امید کی جاتی ہے کہ اس کے لیے آئی ایس آئی تیار ہوگی جس کی بناء پر آرمی چیف نے بیان دیا۔ اگر بھارتی حکومت کا یہ جرم ثابت ہوجاتا ہے تو

ڈپلومیسی اور بیرونی ممالک کے ذریعے اپنی آواز صحیح طریقے سے بھارت تک پہنچائی جائے کیونکہ ماضی میں جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اس نے اس حوالے سے یہاں ریکارڈ بھیجا اور بتایا کہ کس نے کہاں تربیت حاصل کی ، کون کہاں سے آیا اور کہاںٹیلیفون کیا۔ اس میں کتنا سچ یا کتنا جھوٹ تھا وہ علیحدہ بات ہے لیکن ایک لحاظ سے وہ تائید بن جاتی ہے۔ اس لیے جب تک ’’را‘‘ کے حوالے سے دیے گئے بیانات کی تائید میں ہمارے پاس کوئی گواہی نہیں آتی تب تک یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس معاملے میں کوئی کارروائی کرسکیں۔

’’ر ا‘‘نے اگر یہ کارروائی بھارتی حکومت کے کہنے پر کی ہے تو بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ اس کامنہ توڑ جواب دینا چاہیے۔ میرے نزدیک یہ خیالات عوام تک نہ پہنچائیں کیونکہ عوام اس سے مراد جنگ لیتے ہیں۔عوام تک یہ پہنچائیں کہ ہم جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کررہے ہیں اور پھر یہ پتہ لگائیں کہ بھارتی حکومت اس میں کتنی ملوث ہے اور ’’را‘‘ اس کے مطابق کتنا کام کررہی ہے اور پھر اس مسئلے کو آگے لے کرچلیں۔ میرے نزدیک چودھری نثار کا بیان درست ہے کہ ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

یہ اُس امر کی نشاندہی کرتا ہے جس کا ابھی میں نے ذکر کیا۔ ملک کے حالات خراب ہیں لیکن عوام کا جذبہ بہت بلند ہے مگر پھرعوام ہی سے ڈر لگتا ہے کیونکہ استعمال بھی عوام ہی ہوتے ہیں۔ عوام میں مایوسی پیدا ہوچکی ہے اور مایوس قوم میں عزم کمزور ہوجاتاہے اور اس کا فائدہ دشمن اٹھاتا ہے۔ یہاں ذکر ہورہا تھا کہ 71ء میں ’’را‘‘ نے بہت بڑا کردار ادا کیا اور یہ اس وقت ہوا جب لوگ مایوس ہوچکے تھے، جب انہوں نے مکتی بانی میں شامل ہونا شروع کردیا تھا اور جب مشرقی پاکستان میں آگ بلند ہوچکی تھی ،پھر ’’را‘‘نے اس سے پورا فائدہ اٹھایا اور مشرقی پاکستان ہمارے سے الگ ہوگیا۔

میرے نزدیک جب تک حکومت عملاََ کام نہیں کرے گی تب تک حالات نہیں بدلیں گے اور نہ ہی قوم میں سے مایوسی کاخاتمہ ہوگا۔ یہ درست ہے کہ کالا باغ ڈیم کو سیاست کی نظر کردیا گیا اور یہی بدقسمتی شاید اس اقتصادی راہداری سے بھی رہے گی۔ ہم نے اپنے ذہنوں میں خودساختہ بہت سے دشمن بنا لیے ہیں، کبھی ہم کہتے ہیں کہ گوادر بنے گا تو عرب امارات ہمارے مخالف ہوجائیں گے یا ایران ہمارے خلاف ہوگیا ہے اور وہ اب گوادرنہیں بننے دے گا۔

پھر جب ہمارے پاس اقتصادی راہداری کا منصوبہ آیا ہے تو ہم کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اوربھارت ہمارے خلاف ہوگئے ہیں جبکہ اسرائیل بھی ہمارے خلاف ہے۔ بھارت کے ساتھ تو بہت سارا تاریخی مسئلہ ہے ، اس پر شک کرنا بھی آسان ہے اور ہمارے تمام لیڈران، دانشور ا ور کالم نگار بہت زوروشور سے اس شک کو ہوا دیتے ہیں۔

اس معاملے میں سوچنا یہ ہے کہ ہم کتنے دشمن پیدا کریں گے اور اگر وہ ہمارے ذہنوں کی وجہ سے پیدا ہو بھی گئے تو ہمارا گزارا کیسے چلے گا لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ایسے موقع پراپنا کام کریں کیونکہ کام کرنے سے ہی معاملات حل ہوں گے۔ میری حکومت کو یہ تجویز ہے کہ کاؤنٹر انٹیلی جنس کو تیز کیا جائے ،دشمن کی جڑوںتک پہنچنے کی کوشش کریں اور ان کی اس بات کوپوری طرح شفاف انداز سے بیرونی دنیا میں لے کر جائیں اور ان کے خلاف ایسا پراپیگنڈا کریں کہ بھارت کا منہ کالا ہوجائے۔

آئی ایس پی آر کے پاس ’’را‘‘ کے خلاف جو بھی ثبوت ہیں وہ وزارت داخلہ کو دیے جائیں اوربھارت کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ یہی اس کا منہ توڑ جواب ہوگا کیونکہ دونوں ممالک جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔حکومت کو چاہیے کہ جلداز جلد اس طرف توجہ دے کیونکہ ا گر عوام مایوس ہوگئے تو اس کے عزم میں کمی آئے گی اور نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔ کاؤنٹر انٹیلی جنس کو اتنا موثر کیا جائے کہ وہ جو کارروائی یہاں کرنے آئیں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے لیکن اس کے لیے ہمیں بہت ساری تربیت کی ضرورت ہے۔

ہماری انٹیلی جنس بہت اچھی ہے اوراب تک ہم اپنی ہیومن انٹیلی جنس پر کام کرتے رہے ہیں۔ آئی ایس آئی اس معاملے میں بہت آگے ہے لیکن اب ہمیں ٹیکنالوجی انٹیلی جنس کی بھی بہت ضرورت ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس جانب توجہ دے اور دیگر کاموں کا بجٹ کم کر کے اس کا بجٹ بڑھائے کیونکہ اس میں پورے ملک کا فائدہ ہے۔مجھے اقتصادی راہداری اور کالا باغ ڈیم جڑواں نظر آتے ہیں کیونکہ اگر دونوں بیک وقت نہ بنے تو اس کا فائدہ دوسرے اٹھائیں گے اور پاکستان کو بہت کم فائدہ ہوگا۔

شمشاد احمد خان
(سابق سیکرٹری خارجہ)


ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندورنی مسائل حل نہیں کررپارہے اور اس سے آنکھیں چرانے کے لیے مختلف قسم کے بہانے بنارہے ہیں۔ ’’را‘‘ پر الزام ایک آسان راہ فرار ہے کیونکہ روایت اور تاریخ کے مطابق ہماری یہ سوچ ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہے اور اس نے ہمیشہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور ماضی میں جب اسے موقع ملا تو اس نے ہمیں دوٹکڑے کردیا۔

یہ حقیقت ہے کہ 71ء سے تین سال قبل ’’را‘‘ بنائی گئی کیونکہ انہوں نے مکتی باہنی پیدا کرنی تھی۔ ’’را‘‘ جو کچھ بھی کرتی ہے اس کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے اور اس کا ایک مشن ہے۔ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اور اس کے پیچھے بھارت کا قومی مفاد ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ کیا ہماری حکومتوںکا کوئی مشن ہے یا ہم ہمیشہ ایسے ہی ناکام ہوتے رہیں گے اور اپنی ناکامی کا الزام بھارت، امریکہ یا کسی اور دشمن پر لگاتے رہیں گے۔ ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہماری اپنی سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں تو ایسی صورت میں ’’را‘‘ کو یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے ۔

’’را‘‘ اپنے ملکی مفاد میں کام کررہی ہے مگر افسوس کہ ہمارے اپنے ہی لوگ ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔یہ افسوسنا ک بات ہے کہ ہمارا ملک ہلاکت گاہ بن چکا ہے جس میں مرنے والے بھی پاکستانی ہیں اور مارنے والے بھی پاکستانی اور ہم خود ہی اپنے ملک کو برباد کررہے ہیں۔میں کہتا ہوں کہ ’’را‘‘ کی گردان چھوڑ دیں اور تسلیم کریں کہ ہم حکمرانیت کے اہل نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے ملک کی سلامتی یقینی بنانے کے اہل ہیں۔ ہم اپنے ملک کی معیشت بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں عدالتیں اپنا کام نہیں کرسکتی اور نہ ہی ہمارے ہاں پولیس اپنا کام کررہی ہے۔

ہماری بیوروکریسی کرپشن کے سوا کچھ نہیں کرسکتی اور نہ ہی ہماری پارلیمنٹ کوئی قانون سازی کرسکتی ہے لہٰذاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کہاں ہے۔ ہمارا مسئلہ بھارت نہیں بلکہ قیادت کا فقدان اور گورننس کی ناکامی ہے اور میرے نزدیک پاکستان حکمرانی سے نہیں بلکہ لوگوں کے عزم سے چل رہا ہے۔ بطور قوم ہم بہت پرعزم ہیں، ہمارے اندر بہت پوٹینشل موجود ہے جس کی مثال سب کے سامنے ہے کہ دنیا کی تمام تر پابندیوں کے باوجودہم نے ایٹمی دھماکہ کیا اور ایٹمی طاقت بنے۔ میرے نزدیک اگر ہمارے حکمران ٹھیک ہوجائیں تو ’’را‘‘ ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

’’را‘‘ اپنے وطن کے لیے کام کررہی ہے اور اپنے ملکی مفادات کا تحفظ کررہی ہے لہٰذا ’’را‘‘ جیسے اداروں کی کارروائیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہمیں اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہوگا ۔ ہمارے ملک میں حکمرانیت کے تقاضے نہیں ہیں اور نہ ہی یہاں کسی کو انصاف مل رہا ہے لہٰذا ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ اقتصادی راہداری کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ’’را‘‘ اس میں بھی منفی کردار ادا کررہی ہے ، میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ دشمن گھر کے باہر ہے کیونکہ دشمن تو ہمارے اندر موجود ہے اور ہم خود ہی اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

میرے نزدیک اقتصادی راہداری کا منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور اس کا حال بھی کالا باغ ڈیم جیساہوگا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دیتی اور روٹ کا تنازعہ کھڑا ہونے سے پہلے ہی معاملہ حل کرلیا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اب اس کوریڈور کے روٹ کی تبدیلی کے معاملے پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کو تحفظات ہیں لہٰذا یہ معاملہ سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہیے لیکن میں اس حق میں بھی نہیں کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لیجایا جائے کیونکہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے جبکہ پالیسی بنانا حکومت کا کام ہوتا ہے ۔

عوام حکومتوں کو مینڈیٹ دیتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں پر جب بھی ملبہ گرتا ہے تو وہ پارلیمنٹ پر ڈال دیتے ہیں۔ مجھے اس منصوبے میں کافی مشکلات نظر آرہی ہیں لہٰذا جب تک نا انصافیاں ختم نہیں ہوگی تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔غیر ملکی مداخلت کے حوالے سے بہت سارے عالمی کنونشن موجود ہیں لیکن آج تک ان پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ 71ء میں ہمارا ملک ٹوٹ گیا اور اس میں بھارتی فوج نے براہ راست مداخلت کی۔ اس معاملے کو ذوالفقار علی بھٹو نے سلامتی کونسل میں بھی اٹھایا لیکن کچھ حاصل نہیں ہواکیونکہ عالمی سطح پر اس قسم کے معاملات میں کہیں انصاف نہیں ہے ۔

دہشت گردی پر بھی کنونشن بن رہا تھا لیکن ابھی تک عالمی برادری یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے، وہ کنونشن ابھی بھی وہیں ہے لیکن 12سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جارہی ہے۔ ابھی بات ہورہی ہے کہ ’’را‘‘ کے خلاف امریکہ کو ثبوت دیے جائیں، امریکہ کو تو سب پتہ ہے کہ کیا ہورہا ہے اور ’’را‘‘ کیا کررہی ہے لہٰذا اس سے فائدہ نہیں ہوگا۔ ’’را‘‘ کی کارروائیوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے ہمیں اندرونی طور پر سیاسی اور اقتصادی استحکام پیدا کرنا ہوگا۔

جس دن ہماری ریاست نے کام کرنا شروع کردیا تو پھرہمارے ادارے بھی کام کریں گے اور ہمارے مسائل کا خاتمہ بھی ہوجائے گا اور جب ہمیں اپنے ملک میں انصاف ملے گا تو ہمیں دنیا میں بھی انصاف ملنا شروع ہوجائے گا ۔خارجہ پالیسی اندرونی حالات کا عکس ہوتی ہے، قومی مفادات کا جمع حاصل ہوتی ہے، جب آپ ملک کے باہر اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کرپاتے اور دوسروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں تو پھر آپکی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہوتی۔ ملکی مسائل خارجہ پالیسی سے نہیں بلکہ گڈ گورننس سے بہتر ہوتے ہیں لہٰذا اگر ہم نے ملکی مسائل حل کرنے ہیں تو ہمیں گورننس بہتر کرنا ہوگی۔

کاؤنٹر انٹیلی جنس میں ہمارے سے بہتر کوئی نہیں اور ’’را‘‘ ہماری آئی ایس آئی کے قریب بھی نہیں ہے۔ دنیا نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ہمیں روکنے کی کوشش کی کہ مگر ہم ایٹمی طاقت بن گئے ۔اب اگر ہم نے اقتصادی راہداری بنانی ہے تو اسے سٹریٹجک منصوبے کے طور پر لینا ہوگا ۔ میرے نزدیک اسے ایک خودمختار باڈی بنایا جائے اور اس میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کا عمل دخل نہ ہو ۔ اس کا اپنا بجٹ ہو، اپنی سکیورٹی ہو اور اپنی بیوروکریسی ہو صرف اسی صورت میں یہ منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں رہاتو اس کا حال کالاباغ ڈیم جیسا نظر آتا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن
(سابق کمانڈر آئی ایس آئی)


یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج تک یہاں ایسا کوئی حکمران نہیںآیا جس نے اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر ملک کے لیے کوئی فیصلہ کیا ہویا اداروں کی مضبوطی کے لیے کام کیا ہو۔ انٹیلی جنس ایجنسی کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرکے دوسرے ممالک میں گڑبڑ پھیلائے اوراپنے مفادات حاصل کرے۔ 71ء میں مشرقی پاکستان جب ہمارے سے الگ ہوا تو اس میں ہماری اپنی غلطی بھی تھی کیونکہ اس وقت ہم نے ہی ’’اِدھر ہم ،اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگایا تھااور حکومتی فیصلے بھی غلط ہوئے۔

اس کے بعد مارشل لاء آئے اور انہوں نے بھی سیاست کرنے کی کوشش کی اور وہ بھی ملک کو گڈ گورننس نہ دے سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم اور افواج اتنی طاقتور ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم انہیں زیر نہیں کرسکتی لیکن ہمارے ملک میں حکمرانوں کی کمی ہے۔ بھارت پاک فوج اور آئی ایس آئی سے ڈرتا ہے، بھارت میں پتا بھی گرتا ہے تو وہ اس کا الزام آئی ایس آئی پر لگاتا ہے، اس کے ڈر کا عالم تو یہ ہے کہ ان کے ایک آرمی چیف نے خود کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے اسے تین گنا فوج کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت گلوبل وار شروع ہوچکی ہے، اسرائیل کے ذریعے عربوں کو لڑایا گیا اور اب وہ اپنے تحفظ کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے ، ہماری جغرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے اور چین یہاں اقتصادی راہداری بنانا چاہتا ہے۔ بھارت اس منصوبے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اس لیے ’’را‘‘ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے کام کررہی ہے اور اس میںبھارت، امریکہ اور اسرائیل ملوث ہیں۔ 90ء میں امریکہ نے اسرائیل اور بھارت میں تعلق قائم کروایاتاکہ بھارت اس خطے میں اس کے مقاصد کے لیے کا م کرسکے۔

مستحکم پاکستان ان سب کے لیے خطرہ ہے لہٰذا ’’را‘‘ پاکستان کو اقتصادی طور پر غیر مستحکم کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کررہا ہے۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کو جنگ کے ذریعے مات نہیں دے سکتا اس لیے اسرائیل نے اسے یہ منصوبہ دیا ہے کہ پاکستان کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچا کر کمزور کیا جائے۔ جب ہم نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا اس وقت سے ہی پاکستان کو کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔

اس وقت پاکستان اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے کمزور ہے اور ’’را‘‘ ہمیشہ اس وقت یہاں کارروائی کرتی ہے جب ہم اندرونی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ اس وقت فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہے، ہمارے جوان شہید ہورہے ہیں، کیا ہم دنیا کویہ باور کروا سکے ہیں کہ بھارت ہمارے ملک میں تخریب کاری کررہا ہے؟ بھارت میں ممبئی حملہ ہوا تو بھارتی میڈیا نے عالمی میڈیا کو یہ باور کروایا کہ اس کے پیچھے پاکستان ہے حالانکہ یہ حملہ بھارت نے خود کروایا تھا۔

ہمارے ملک میں ’’را‘‘ کے لوگ پکڑے گئے ہیں اور انہوں نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے لیکن ہمارے میڈیا میں اس معاملے کو اس طرح سے نہیں اٹھایا گیا جس طرح بھارتی میڈیا نے اٹھایا۔ جنگ ہمیشہ متحد ہوکر لڑی جاتی ہے اس لیے ہمیں متحد ہوکر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو کامیاب بنانا ہوگا۔میں اس فورم کے ذریعے بھارت کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ ہم نے ہمیشہ دوستی اور امن کی بات کی ہے لہٰذا وہ دوستی کی طرف آئے اور اس خطے کی بہتری کے لیے کام کرے لیکن اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو ہم اسے منہ توڑ جواب دیں گے، پھر اس کے ہر صوبے میں آگ لگ جائے گی ،وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا اور ہم اپنے ملک کو بچانے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔

آئی ایس پی آر کے پاس بھارت کے خلاف بہت سارے ثبوت موجود ہیں اور یہ سارا کام آئی ایس آئی نے کیا ہے۔ بھارت کے افغانستان میں کیمپوں کے حوالے سے ریکارڈشدہ پیغامات، تصویریں اور پھر جو لوگ پکڑے گئے ان کی ٹریننگ کی ویڈیو بھی موجود ہے اوروہ پوری سی ڈی ماضی میں امریکہ کو دکھائی گئی تھی۔

ڈاکٹر عنبرین جاوید
(سربراہ شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب )


بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے مشرقی پاکستان کو ہمارے سے علیحدہ کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور اب کچھ عرصہ سے دوبارہ اس کا نام سامنے آرہا ہے۔ نریندر موودی نے انتخابی مہم کے دوران پاکستان مخالف نعرے اور سوچ کو فروغ دیا،اب ان کی حکومت کا پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ ہے حالانکہ انہیں الیکشن جیتنے کے بعد ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اس کے علاوہ بارڈر پر بلا اشتعال فائرنگ و دیگر واقعات سب کے سامنے ہیں، میرے نزدیک یہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی سازش ہے۔ اس وقت ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں، ہمارا ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے جبکہ بھارت ان مسائل کو ہوا دے کر اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ کراچی اور بلوچستان کی خراب صورتحال میں فوج کی طرف سے ’’را‘‘ کا نام لیا جارہا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس حد تک ’’را‘‘ پر الزام لگا سکتے ہیں کیونکہ اندرونی طور پر بھی ہمارے بہت سارے ایسے عوامل ہیں جو ’’را‘‘ سے بڑھ کر ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے اپنے ہی لوگ ان کی مدد کررہے ہیں۔

میرے نزدیک اگر ’’را‘‘ ہمارے ملک میں کردار ادا کررہی ہے تو موقع ہم بھی اسے دے رہے ہیں کیونکہ ہم آپس میں بٹے ہوئے ہیں ، ہماری اپنی کمزوریاں ہیں،ہمارے اندر عدم برداشت ہے اور یہاں زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے لہٰذا جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ آپس کے لڑائی جھگڑوں سے ہم خود بھارت کو ایسا ماحول فراہم کررہے ہیں کہ وہ ’’را‘‘ کے ذریعے یہاں کردار ادا کرے۔ میرے نزدیک اس وقت بھارت بہت اونچی اڑان میں ہے، اس کے عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے ہورہے ہیں اس لیے اب وہ پاکستان کو کمزور سے کمزور دیکھنا چاہتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری بھارت کو کھٹکتی ہے لہٰذا وہ پاکستان کی ترقی میں ہرممکن رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔

بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بھارت نے وہاں ایسی کارروائیاں کیں جس سے وہاں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوئی، چینی باشندوں کو وہاں قتل کیا گیا تاکہ کسی طرح گوادر کو ناکام بنایا جاسکے۔ پاک چین اقتصادی راہداری بھارت کے لیے بہت بڑی ٹینشن ہے کیونکہ اس سے پاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی۔

اس وقت بھارت ایران کے ساتھ مل کر چابہارکی ترقی کے لیے کام کررہا ہے اور بحر ہند میں خود کو پھیلا رہا ہے ، میرے نزدیک یہ اس کی مستقبل کی بہت بڑی منصوبہ بندی ہے لہٰذا ہمیں بھارت کا یہ چہرہ بے نقاب کرنا ہوگا۔ ہم ہمیشہ بات کرکے چپ اختیار کرلیتے ہیں لیکن یہ وقت چپ رہنے کا نہیں ہے۔ اگر ہمارے پاس ’’را‘‘ کے خلاف ثبوت موجود ہیں تو ہمیں سامنے لانے چاہئیں اور عالمی میڈیا کو بھی بتانا چاہیے کہ بھارت ہمارے ملک میں تخریب کاری کررہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔