بیوروکریٹوں کی من پسند ترقیوں پر حکمرانوں اور اپوزیشن کا مُک مکا

رحمت علی رازی  اتوار 31 مئ 2015

ہم نے گزشتہ سے پیوستہ کالم میں سینٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں سول سروسز کے مختلف گروپوں کے افسران کو گریڈ 20 اور گریڈ21 میں نام نہاد طاقتور میرٹ کے ذریعے دی گئی ترقیوں پر رائے کا اظہار کیا تھا اور طاقت کے نشے میں مخمور ارباب ِ اختیار کو آئینہ دکھایا تھا کہ کس طرح انھوں نے میرٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے نااہلوں اور من پسند افراد کو نوازنے کی سابقہ ادوار کی حکومتوں کی ظالمانہ اور استحصالانہ روایت کو برقرار رکھا، جس سے مطلوبہ اہلیت کے حامل اور استحقاق رکھنے والے قابل اور دیانتدار مگر لاوارث افسروں کی ہر لحاظ سے حق تلفی ہوئی ہے۔

کالم کی اشاعت پر محروم کر دیے گئے لاتعداد متاثرہ افراد کی جانب سے تحسین و تسلیم کے کلمات بھی موصول ہوئے اور کئی شعبوں سے وابستہ بیشمار افسروں نے اپنے ساتھ روا رکھے گئے تلخ تجربات سے بھی آگاہ کیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک معتبر دوست نے رابطہ کر کے کہا کہ سول سروسز میں ترقیوں کے معاملے پر آپ نے حکمرانوں کے خودساختہ میرٹ کو جس طرح بے نقاب کیا ہے، وہ واقعی وقت کی بے پناہ ضرورت تھی۔ اور یہ ایشو ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب سندھ اسمبلی نے اس مسئلہ پر ایک ہی روز پہلے قرارداد منظور کی تھی، جب کہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے آپ کے ان ہی نکات کو قومی اسمبلی میں موضوعِ بحث بنایا۔

اپوزیشن لیڈر نے تو خیر جس انداز میں بھی یہ معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھایا یہ ان کا اپنا نقطۂ نظر تھا مگر وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں ایک ’’منجھے ہوئے وکیل صفائی‘‘ کی طرح جس ڈھب سے اس متنازعہ ترین اور غیرمنصفانہ اقدام سے بیگانگی کا پہلو نکالا، اس سے ثابت ہو گیا کہ انھیں بھی حلقہ ٔیاراں میں گردش کرنے والی اس خبریت کا پیشگی علم تھا۔ ہم نے مظلوموں اور محروموں کے جو اعتراضات قلمبند کیے تھے، ان سب کا جواب انھوں نے قبلہ خورشید شاہ کو صفائی کے طور پر پیش کیا۔ جناب ِموصوف کا فرمانا تھا کہ’’ سول سروس کی ترقیوں کو صوبائیت کا رنگ دینا درست لائحہ عمل نہیں۔ تیسرے درجے کے سفارشی کو اول درجے پر ترقی دینا ان کی حکومت کی پالیسی نہیں، بلکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ترقیاں اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ہونی چاہییں۔ ترقیوں کا معاملہ کسی ایک صوبے کا نہیں، نہ ہی یہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا اورگلگت بلتستان کا ہے، یہ سراسر میرٹ کا معاملہ ہے۔

بدقسمتی سے اگر کسی بھی معاملہ میں چھوٹے صوبے کے کسی شہری کے ساتھ ناانصافی ہو جائے تو فوراً اسے لسانی رنگ دے دیا جاتا ہے کہ پنجاب بڑا صوبہ ہونے کے ناطے دوسرے صوبوں کا استحصال کر رہا ہے، اس قسم کا انداز ِفکر مختلف صوبوں اورزبانوں کے درمیان لسانی تعصب اور نفرت کا باعث بن سکتا ہے‘ ہم اپوزیشن کے تحفظات دُور کرنے کی کوشش کریں گے اور آئندہ اپوزیشن کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لیا کریں گے‘‘۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم قوم کو یقین دہانی کراتے کہ آئندہ میرٹ کا قتل نہیں ہوگا لیکن افسوس انھوں نے اپوزیشن لیڈر کو اعتماد میں لینے کا جو یقین دلایا ہے اس سے یہ ہوگا کہ زرداری کے بہنوئی اور قائم علی شاہ کے داماد کا کام طاقتور میرٹ کے ذریعے کیا جائے گا جب کہ حکومت اور اپوزیشن کے مک مکا کے بعد باقی لاوارث افسران پہلے کی طرح اب بھی دَربدر ہی رہیں گے اور اچھے وقتوں کا انتظار کرینگے۔ قائد ِایوان نے حکومت کے دفاع اور صفائی میں ایک طویل بھاشن دیا اور میرٹ کے قتل سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی مقدور بھر کوشش کی مگر ان کی لاعلمی نے ان کی تمام منطق اور صفائی مہم کی قلعی کھول دی۔

ان کا کہنا تھا کہ پروموشن بورڈ نے 20ویں اور 21 ویں گریڈز میں ترقیوں پر بہت سے افسروں کے بارے میں باریک بینی سے غور کیا جس کے بعد بہت سے افسروں کو ڈراپ کیا گیا۔ میرا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں، میں چیئرمین کو نہیں جانتا، یہ پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں ممبر بنائے گئے تھے اور چیئرمین کے ریٹائر ہونے کے بعد قائم مقام چیئرمین بنے ہیں۔ ہم جنابِ وزیراعظم کی پُرکاری اور سادگی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے جس میں انھوں نے محض پون سال کی تاریخ پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ چیئرمین پبلک سروس کمیشن کو نہیں جانتے۔

ان کے تغافل کی ستائش کی جانی چاہیے کہ پاکستان کے لوگوں کی یادداشت اس قدر کمزور ہے کہ انہیں دو تین ماہ پہلے کی تلخ سے تلخ تاریخ بھی یاد نہیں رہتی، مگر سب لوگوں کا حافظہ کمزور نہیں ہے۔ ہم انہیں یہ باور کرانا اور یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اسلام آباد میں دھرنے شروع ہونے سے ایک روز قبل سابق چیئرمین ایف پی ایس سی ملک آصف حیات 13 اگست 2014 کو ریٹائر ہو گئے تھے، جسکے بعد تقریباً اڑھائی ماہ تک فیصلہ سازی کا عمل رُکا رہا اور حکومت کی غیرسنجیدگی اور بے اعتنائی کی وجہ سے سابق چیئرمین کے دور سے گریڈ 22 کے وفاقی سیکریٹری کے عہدہ کی متعدد نشستیں اور فارن سروس، آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس اور ایف بی آر میں بہت سی کیڈر پوسٹیں بھی خالی رکھی گئیں جن کے لیے طویل عرصہ تک پروموشن بورڈ کا اجلاس مسلسل التوا کا شکار ہوتا رہا۔

پھر 3نومبر 2014ء کو وزیراعظم کی سفارش اور خاص ایڈوائس پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے صدر مملکت کو ایک سمری ارسال کی گئی جس پر منظوری دیتے ہوئے صدر ممنون حسین نے ایف پی ایس سی کے رکن میجر جنرل (ر) نیاز محمدخٹک کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا نیا چیئرمین مقرر کیا۔ چیئرمین سینٹرل سلیکشن بورڈ کے حال ہی میں منعقد کیے گئے پروموشن اجلاس کے بھی چیئرمین وہ تھے، انھوں نے ہی باقی اعلیٰ افسروں کے ساتھ پسندوناپسند کے فیصلے کیے اور میرٹ کا قتل عام کیا، ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے چیف سیکریٹریز، وفاقی سیکرٹریز اور دیگر ممبران بھی میرٹ کے قتل میں برابر کے ذمے دار ہیں۔

اب اگر ہمارے قابلِ احترام وزیراعظم اس بات سے بھی دانستہ چشم پوشی کریں تو جناب کو اس کا اختیار ہے مگر اسے حق پرمبنی دعویٰ نہیں کہا جا سکتا۔ عوام اتنے بھی بھولے نہیں کہ ان کی اس بات پر اعتبار کر لیں کہ وہ چیئرمین ایف پی ایس سی کو جانتے تک نہیں۔ خورشید شاہ کی یادداشت یا ان کا تاریخِ علم شاید کمزور ہو کہ انھوں نے نوازشریف کے اس بیان کو سچ مان کر ان کی نیت کو ایک بار پھر اعتبار کا ووٹ دیکر فرینڈلی اپوزیشن کا ثبوت دیا ہے مگر ہم ایسے اہلِ قلم کی ماضی کے اوراق پر پوری اور گہری نظر ہے۔ کیا وفاقی حکومت اس حقیقت کا انکار کر سکتی ہے کہ پنجاب میں تعینات حکمرانوں کے 24چہیتے پولیس افسران کو میرٹ سے ہٹ کر ترقیاں دی گئیں اور طاقتور میرٹ پر ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کے عہدوں پر پروموٹ کیا گیا۔ جن دیگر گروپوں کے اہل افسران کو ترقیوں کے چارٹ سے نظرانداز کیا گیا‘ ان میں لاتعداد ایسے حساس اور خوددار انسان بھی ہیں جو دلبرداشتہ ہو کر اپنے عہدوں سے قبل ازوقت ہی مستعفی ہو کر گھر بیٹھ جانے پر بھی آمادہ ہیں۔

ان ہی میں 20 ویں گریڈ کے ایک ہونہار افسر مسٹر راجہ محمد منیر بھی ہیں جنھوں نے آزاد جموں وکشمیر کے ڈومیسائل پر 1983ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں شمولیت اختیار کی اور میرٹ پر منتخب ہوکر پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بنے۔ پوسٹل گروپ میں پوری سروس کے دوران ان کی کارکردگی انتہائی تسلی بخش رہی جس کی بنا پر انہیں گریڈ 18، 19 اور 20 میں میرٹ پر پروموشن ملتی گئی۔ 2009ء میں راجہ محمدمنیر کو گریڈ20 میں ترقی ملی۔ اسی دوران بطور کیڈر انھوں نے 2010ء کو لاہور میں منعقدہ نیشنل مینجمنٹ کورس(این ایم سی) میں نمایاں کامیابی کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا اور دیگر تمام مجوزہ کورسز بھی پاس کیے۔

سال 2015ء کے لیے پاکستان پوسٹ میں گریڈ 20 کی سنیارٹی لسٹ میں مسز روبینہ طیب کے بعد ان کا میرٹ، سیریل نمبر 2 ٹھہرتا ہے جسکے مطابق انھوں نے 70 میں سے 64.68 مارکس حاصل کیے ہیں۔ راجہ محمدمنیر کا کہنا ہے کہ پاکستان پوسٹ میں گریڈ 21 کی چھ نشستیں خالی تھیں جن پر گریڈ 20 کے افسروں کی ترقی کا فیصلہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس منعقدہ مئی 2015ء میں ہونا تھا جس میں دیگر پانچ سینئروں کو تو گریڈ 21 میں ترقیوں کے لیے نامزد کر لیا گیا جب کہ انہیں سنیارٹی لسٹ میں سیریل نمبر 2 پر ہونے کے باوجود نظر انداز کیا گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کے این ایم سی میں 55 کے بجائے 52 مارکس ہیں جو حکومت ِ پاکستان کی پروموشن پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔

اس سے پہلے یہ کورس (نیشنل مینجمنٹ کورس) گریڈ 21 کی پروموشن کے لیے لازمی ضرور تھا مگر پروموشن کے لیے این ایم سی میں 55 مارکس کے حصول کا قاعدہ ابھی حال ہی میں متعارف کروایا گیا جو ایسے افسروں پر قطعی لاگو نہیں ہوتا جنھوں نے کچھ عرصہ پہلے یہ کورس مکمل کیا تھا جب کہ راجہ محمدمنیر کے پاس تو این ایم سی کا سرٹیفکیٹ 2010ء کا ہے۔ یہ سراسر ظلم اور صریح و سفاک اقدام ہے کہ ایک ایسے قابل افسر جنھوں نے پوسٹل گروپ میں رہ کر 32سال پیشہ وارانہ دیانتداری اور جانفشانی سے ملک وقوم کی خدمت کی اور جس کا کردار بے داغ اور بے دھبہ بھی ہے لیکن اس کے باوصف انھیں ایک نیا فارمولا لاگو کر کے صرف 3نمبروں کی وجہ سے چھ سینئرز میں دوسرے نمبر پر ہونے کی پرواہ کیے بغیر ترقی سے محروم کر دیا گیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ عین ایک سال بعد انھوں نے ریٹائر ہو جانا ہے۔

بالفرضِ محال اگر مان بھی لیا جائے کہ این ایم سی کے 55 نمبروں کا قاعدہ بہرحال بلا تعصب ہرخاص و عام پر واجب العمل ہے تو یہ رعایت تو ضرور دینی چاہیے تھی کہ راجہ محمدمنیر نے این ایم سی کے ساتھ چار باکمال پی ای آرز بھی تو حاصل کر رکھی ہیں جو ان کی ترقی کے لیے جائز وکافی تھیں، اس سے بڑھ کر ستم تو یہ بھی ہے کہ انہیں اے سی آرکے 15 یا 10 یا کم ازکم 5 نمبرزبھی اضافی نہیں دیے گئے اور ان کی اے سی آر کو اے کلاس ہونے کے باوجود خاطر میں نہیں لایا گیا۔

الغرض انہیں ہر طریقے سے استحصال کا ہدف بنایا گیا جو آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے کسی ڈومیسائل ہولڈر سے صریحاً زیادتی ہے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر بھی کہ راجہ محمدمنیر آزاد کشمیر کے پہلے آفیسر ہیں جنھوں نے پاکستان پوسٹل گروپ میں 21ویں گریڈ تک پہنچنے کی دیانتدارانہ کوشش کی مگر ریٹائرمنٹ سے ایک سال پہلے حکومتی اقرباء پروری کا نشانہ بن گئے۔ ایسے میں وزیراعظم پاکستان کی 19مئی 2015ء کی قومی اسمبلی میں کی گئی وہ تقریر ساری اہمیت اور معنویت کھو دیتی ہے جس میں انھوں نے یقین دلایا تھا کہ ترقیاں اور تقرریاں پسند و نا پسند کی بناپر نہیں بلکہ خالص میرٹ کی بنیاد پر کی جائینگی۔

ہم جنابِ وزیراعظم کو مخلصانہ مشورہ دینگے (حالانکہ وہ مشاورت سے سخت نفرت کرتے ہیں) کہ ایسے کیسز جن سے صوبائی یا لسانی تعصب کا مرض پھیلنے کا اندیشہ ہے‘ یا ایسے کیسز جنہیں میرٹ کے قریب ترین ہوتے ہوئے بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے یا پھر میرٹ پر ہونے کے باوجود ڈراپ کر دیا گیا، ان پر نظرثانی فرمائیں۔ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور دیگر وہ ممبران اور انڈر نائن ٹین ٹیم جنھوں نے اس معاملے میں قوم کے سامنے ان کی سبکی کروائی ہے، ان سے جان چھڑائیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کا چہیتا بیوروکریٹ اس بار پروموٹ نہ ہوتا تو کیا قیامت آ جانی تھی، اس بے انصافی کے فیصلے نے ان کی ساکھ بری طرح متاثر کی ہے۔

اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ان کے قوم دشمن اور میرٹ کے قاتل مشیر انھیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ فیورٹ ازم اور مفادانہ سیاست کو بہانوں اور خوبصورت الفاظ کے اطلسی پردوں میں کہاں تک چھپایا جا سکتا ہے۔ سروس رولز اور پروموشن میرٹ کو تارتار کرنا انصاف کے منہ پر ایک ایسا زوردار طمانچہ ہے جس کی گونج وطن عزیز کے محکمانہ درودیوار سے ٹکرا ٹکرا کر سرکاری ملازمین اور ان کے اہل و عیال کی سماعتوں پر محرومی اور ظلم کے ہتھوڑے برساتی رہے گی۔ جمہوری ماحول کا جھانسہ دیکر آمرانہ طرزِ حکومت کا رویہ اختیار کرنا اور ملک و قوم کی خدمت پر مامور اعلیٰ سرکاری ملازمین کو درباریوں کا درجہ دیکر اپنے خاص الخاص خوشامدیوں کی سپاہ تیار کرنا مظلوم و معصوم عوام کا مستقبل تاریک کرنے کی مکروہ روایتی سازش ہے جسکا خاتمہ اب انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے۔ حکمرانوں کی یہ دیدہ دلیری اور منہ زوری آزادیٔ اظہار کے اس دور میں زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔

عدالت عظمیٰ اگر زرداری دور کے 80 افسران کی گریڈ21 میں ترقیاں کالعدم قرار دے سکتی ہے تو حالیہ ترقیوں کو بھی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی درخواست پر سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے دورِ حکومت میں 80 اعلیٰ سرکاری افسران کی گریڈ 20 سے 21 میں ترقیوں کی سفارشات کو غیر قانونی اور خلافِ ضابطہ ہونے کی بنا پرکالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ دوبارہ پروموشن بورڈ تشکیل دیکر دستیاب آسامیوں پر کوٹہ کے مطابق مختلف گروپس کے افسران کو ترقیاں دی جائیں۔ 40 صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ ’’سول سرونٹس انتظامیہ کا اہم جزو ہے جو ملکی پالیسیاں تشکیل دیتا ہے لیکن 1973ء کے آئین میں اسے تحفظ حاصل نہیں ہے ۔

موجودہ قوانین، رولز اور ریگولیشنز کے تحت انھیں تحفظ دینا ناگزیر ہے تاکہ ایماندار اور محنتی افسران بلاخوف و خطر اور سیاسی دباؤ سے ہٹ کر اپنی ذمے داریاں نبھا سکیں‘‘۔ فاضل عدالت نے انیتا تراب اور طارق عزیز الدین کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی اہل افسر کو ترقی کے حق سے محروم رکھنا خلافِ قانون اور غیر قانونی ہے ۔ اس ضمن میں حکومت اور سینٹرل سلیکشن بورڈ کو قانون کے مطابق عمل کرنا چاہیے ۔ پروموشن پالیسی میں کام کی اہلیت، تجربہ اور قابلیت جیسی دیگر کڑی شقیں شامل کرنا ضروری ہے ، سول سرونٹس کی ترقیوں کے لیے بیرونی مداخلت کا عمل خطرناک ہے ۔ حکومت بیوروکریسی میں سیاسی اثرورسوخ کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے اور میرٹ اور غیرسیاسی بنیادوں پر ترقیاں کی جائیں۔ ترقیوں سے قبل افسران کی انکوائری اور اثاثوں کی چھان بین کر لی جائے تو یہ بڑی کامیابی ہو گی، پروموشن پالیسی کو مزید شفاف اور بہتر بنانے کے لیے کڑی شقیں شامل کرنا ضروری ہے۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ حکومت نے بھی 23 افسران کی ترقی غیر قانونی ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ نئی ترقیاں قانون کے مطابق اور میرٹ پر کی جائیں اورتمام ترقیاں سول سروس ایکٹ 1993ء اور 13جنوری کی پروموشن پالیسی کے مطابق ہونی چاہییں۔ اعلیٰ مناصب پر دیانتدار اور غیر سیاسی افسران کی تقرری یقینی بنائی جائے‘‘۔ اس عدالتی فیصلے کی موجودگی کو اگر حالیہ ترقیوں کے فیصلوں میں جائز حقوق سے محروم رہ جانے والے افسران کے لیے مثال مان لیا جائے تو موجودہ حکومت پر ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کے پروموشن پیکیج کی سفارشات پر نظرثانی فرما لیں، مباداکہ محرومین میں سے اٹھ کر کوئی انصاف کی زنجیر ہلا دے اور سی بی ایس کی ترقیوں کو بھی غیرقانونی اور خلافِ ضابطہ ہونے کی بناء پر کالعدم قرار دیدیا جائے، بلکہ دیکھا جائے تو اس کام کی شروعات بطورِآئی جی اسلام آباد حکمرانوں کے غیرقانونی اقدامات ماننے سے انکار کرنیوالے پولیس افسر آفتاب احمد چیمہ نے کر بھی دی ہے۔

گزشتہ ہفتے آفتاب احمد چیمہ نے گریڈ 21میں ترقی پانے والے افسران کی فہرست میں نام شامل نہ کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔ انھوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود بھی ان کو گریڈ اکیس میں ترقی پانے والے افسران کی فہرست میں شامل نہیں کیا جب کہ دوسری جانب سنیارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے جونیئر افسران کو ترقیاں دے دی گئی ہیں۔ انھوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ غیر قانونی تقرریاں کالعدم قرار دیتے ہوئے میرٹ کی بنیاد پر ترقیاں دی جائیں۔دائر درخواست میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ، چیئرمین سینٹرل سلیکشن بورڈ اور ایڈیشنل آئی جی خیبر پختونخواہ طارق جاوید کو فریق بنایا گیا ہے۔ پولیس افسران آفتاب احمد چیمہ کے خلاف تحقیقات کرنے اور محمدعلی نیکوکارا کی غیرقانونی برطرفی کے خلاف قبل ازیں بھی ایک مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِسماعت ہے۔

یہ مقدمہ سابق آئی جی افتخار رشید، شوکت جاوید، افضل شگری اور طارق پرویز کی مدعیت میں دائر کیا گیا ہے جس میں وزارتِ داخلہ، خارجہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز کو فریق بنایا گیا ہے۔ آفتاب احمد چیمہ اور محمدعلی نیکوکارا کی شرافت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، انھوں نے دھرنوں کے دوران حکومت کے غیرقانونی احکامات تحریری شکل میں وصول کرنے کی ضد کی تھی اور نہتے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں آفتاب چیمہ کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئیں جب کہ نیکوکارا کو برطرفی کا منہ دیکھنا پڑا‘ عدالت عالیہ نے تو آفتاب چیمہ کو حکم امتناعی بھی جاری کر دیا اور قرار دیا ہے کہ آفتاب چیمہ کے خلاف کوئی بھی کارروائی عدالت کو اعتماد میں لیے بغیر نہ کی جائے۔ ایمانداروں کو کہاں ٹکنے دیا جاتا ہے۔

بیوروکریسی کے طاقتور ہاتھ ہوں یا طاقتور حکومتی کارندے، کسی کو بھی دیانتدار اور فرض شناس افسر ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ جب چند ایک قانون کا پالن کرنیوالے شریف ملازمین بیوروکریسی میں آتے ہیں تو من مرضیاں کرنیوالے صاحبانِ اقتدار اور اختیار کے پیٹ میں بل پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دبنگ خان بھی ایک ایسا ہی افسر تھا جو صحیح معنوں میں خود کو قانون کا محافظ سمجھتا تھا۔ کبھی عصمت اللہ جونیجو کے نام سے وہ ایس ایس پی ٹریفک ہوا کرتا تھا اسلام آباد میں۔ ایک وفاقی سیکریٹری کے بیٹے کا غیرقانونی ڈرائیونگ لائسنس نہ بنانے پر اسے محمدعلی نیکوکارا کی جگہ انتقامی طور پر ایس ایس پی آپریشن لگا دیا گیا۔

پھر اچانک ہی ایک روز ایک مذہبی جماعت کے رہنماؤں کے خلاف تھانہ شہزاد ٹاؤن میں مقدمہ درج کرنے کے الزام میں دَربدر کر دیا گیا جو آج کل پولیس لائن کے ایک کونے میں درویشوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے گھر کا چولہا تک ٹھنڈا ہو چکا ہے۔ لاوارث افسروں کا یہی دُکھ ہے کہ وہ یا تو ملازمت سے فارغ کر دیے جاتے ہیں یا انھیں اچھی جگہ پوسٹنگ نہیں ملتی۔ رہی بات پروموشن کی، تو صاحب! وہ تو صرف انھیں ہی ملتی ہے جنھیں طاقتور سرپرست دستیاب ہیں جو بھرتی کروانے سے لے کر ریٹائرمنٹ تک انھیں انگلی پکڑ کر نوکری کرواتے ہیں۔ ہمارے ہاں سول سروس میں اوّل تو کوئی جامع اور معقول پروموشن پالیسی ہی موجود نہیں، اور اگر متناقص قسم کی چند پالیسیاں ہیں بھی تو ان کے قواعد و ضوابط کی بھد اُڑائی جاتی ہے۔

سول سروس ایکٹ اور 13 جنوری کی پروموشن پالیسی کا ذکر تو بڑھ چڑھ کر کیا جاتا ہے مگر خاک بھی جی بھر کے اڑائی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک پالیسی ’’سیکشن آفیسرز پروموشنل ایگزام رولز 2015‘‘ (ایس او پی ای) ہے جس کی جانب ہمارے ایک قاری رشید سلیم بھٹی نے ہماری توجہ مبذول کروائی۔ سول سروس میں شمولیت اختیار کرنا ہر سال ہزاروں طلبہ کے لیے ایک سہانے خواب سے کم نہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو سی ایس یس کے امتحانات میں طبع آزمائی کرنے کے بعد سرکاری اداروں میں چھوٹے گریڈ کی ملازمتیں بھی قبول کرنے پر اکتفا کر لیتے ہیں، اور ان ملازمتوں کو پرائیویٹ سیکٹر پر صرف اسلیے فوقیت دیتے ہیں کہ محدود مالی فوائد کے باوجود ترقی کی منازل طے کرتے کرتے ایک نہ ایک دن تو وہ اعلیٰ سرکاری مقام کے حصول میں کامیاب ہو جائینگے۔

ان کی نظر میں پروموشنل امتحانات (سیکشن آفیسرز پروموشنل ایگزام) ہی ترقی کرنے کا واحد راستہ ہوتے ہیں۔ عرصہ دراز سے ایس او پی ای (سوپ) کا حصہ بننے کے لیے ضروری رہا ہے کہ متعلقہ امیدوار کا فیڈرل سیکریٹریٹ میں گریڈ 11 سے گریڈ 16 تک مسلسل آٹھ سال کا سروس ریکارڈ ہو اور ستم یہ ہے کہ ’’سوپ‘‘ کے ترمیم شدہ ضوابط 2015ء میں بھی یہی طریقہ کار برقرار رکھا گیا ہے حالانکہ نصاب، حد ِ عمر اور مطلوبہ تعلیمی اہلیت میں مجوزہ تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مضامین بھی پہلی مرتبہ سی ایس ایس کے طرزِعمل پر مرتب کیے گئے ہیں جب کہ ’’عرصہ ملازمت‘‘ کو سابقہ پیٹرن پر ہی رکھا گیا ہے جو قطعاً فضول اور غیرمنطقی سی بات ہے۔

چند ماہ قبل اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے (اگر آپ اس کا نوٹیفکیشن دیکھیں) سوپ میں بہت سی ترامیم کی سفارشات کیں، بشمول عرصہ ملازمت کی ترمیم کے، اور یہ بھی تجویز دی کہ آٹھ مخصوص محکموں کے ایسے ملازمین جن کا گریڈ7 سے گریڈ 16 تک مسلسل آٹھ سالہ سروس ریکارڈ ہو، کو سیکشن آفیسرز کا پروموشنل امتحان دینے کا حق ہونا چاہیے مگر وزیراعظم آفس نے بقیہ تمام سفارشات تو منظور کر لیں مگر عرصۂ ملازمت کی شق میں ترمیم کو یکسر مسترد کر دیا۔ قابل غور اَمر یہ ہے کہ ایک طرف تو پرائیویٹ سیکٹر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور بیروزگاری آسمان سے باتیں کر رہی ہے تو دوسری جانب شرح خواندگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے والے ڈگری ہولڈرز کی تعداد میں ہر سال برق رفتاری سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور ڈگریوں کے پہاڑ لگ رہے ہیں۔

یہی وجوہ ہیں کہ نوجوان خلافِ معمول سول سروس میں داخل ہونے کے متمنی ہیں، اس سے قطع نظر کہ گزراوقات اور متجاوزِ عمر ہونے سے بچنے کے لیے وہ نچلے درجے کی سرکاری نوکریاں بھی قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں کیونکہ اس طرح کی اَن گنت کہانیاں آئے روز میڈیا میں رپورٹ ہوتی رہتی ہیں کہ ماسٹرز کی ڈگریاں رکھنے والے بھی چپڑاسیوں اور نائب قاصدوں کی نوکریوں کے لیے خوار ہو رہے ہیں۔

’’لینتھ آف سروس‘‘ کا کلیہ برقرار رکھنا کیا ان مظلوم اور کم درجہ ملازمین کے ساتھ  حددرجہ ناانصافی نہیں جو کسی مسیحا اور دستگیر کے انتظار میں ہیں کہ وہ آئیگا اور انھیں حکمرانوں کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے نجات دلائے گا، متعلقہ ذمے داران پر واجب آتا ہے کہ وہ ’’سوپ رولز 2015‘‘ پر نظرثانی کریں اور گریڈ11 سے گریڈ16 کے لیے 8 سال کے عرصہ ملازمت میں یا تو خود کمی کریں یا پھر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی سفارشات (جس میں انھوں نے گریڈ7 سے گریڈ16 شامل کیا ہے) کو جوں کا توں برقرار رہنے دیں، اس سے بہت سے افراد اور خاندانوں کا بھلا ہو سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر ایسے بہت سے محروموں کی صلاحیتوں سے ملک و قوم مستفید ہو سکتی ہے جنھیں اپنے اصل مقام سے محروم رکھا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔