پستی کی گہرائیوں سے…

شیریں حیدر  اتوار 31 مئ 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کیا قوم ہیں ہم، کیا ملک اور کیا ہی سلطنت… کوئی مثال ہمارے جیسی دنیا میں نہیں پائی جاتی!!! ہمارے چہار اطراف ذلت کے گڑھے اور کھائیاں ہیں، ہم ایک سے بمشکل بچ کر نکلتے ہیں اور  میں جا پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے چند لوگ ہیں جن کے مفادات کی بھینٹ ہم چڑھتے ہیں، ہر پاکستانی بے ایمان نہیں ہے مگر جب ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگتا ہے تو اس کی چمک ہم سب کے ماتھوں پرنظر آتی ہے۔

ہم براہ راست ان جرائم اور سازشوں کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی بدنامی کے ٹوکروں میں سے کچھ نہ کچھ اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔ حال ہی میں جعلی ڈگریوں کا ایک بہت بڑا فراڈ… اس میں چاہے لاکھ غیر ملکی کسی نہ کسی طرح شامل ہوں مگر ’’ داد و تحسین ‘‘ کے سارے ڈونگرے پاکستان کے حصے میں آئیں گے اور آ رہے ہیں کیونکہ اس سارے فراڈ کا بانی، کرتا دھرتا اور ماسٹر مائنڈ… ایک پاکستانی ہے، ایسا پاکستانی جس کا نام سن کر سر ندامت کے بوجھ سے جھک جاتا ہے۔

یہ جعل ساز ادارہ لوگوں کو جعلی ڈگریاں بانٹنے میں کتنے دھڑلے سے مصروف ہے اور اب تک لاکھوں کے حساب سے ڈگریاں بانٹ چکا ہے، یہ کوئی ڈھکا چھپا کام بھی نہیں کر رہے تھے، ان کے دفاتر کی عمارات دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عین ہماری ناک کے نیچے، یہ مصروف کار رہے ہیں ۔ کسی حکو متی ادارے کو اس طرف خیال نہیں آیا؟ یا یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی طرف سے اداروں میں ’’ حصہ ‘‘ پہنچ جاتا تھا اس لیے اس قدر طویل خاموشی اختیار کی گئی جو کہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب ہے۔ اس سارے سلسلے کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ Axact سے ڈگری حاصل کرنے والے لوگ، اس وقت دنیا میں کہاں کہاں اور کس کس میدان میں عملی طور پر کام کر رہے ہوں گے؟؟؟

ان جعلی ڈگریوں کے حامل افراد، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی ہیں غالباً ، اب تک کتنی جانوں سے کھیل چکے ہوں گے، بغیر کچھ پڑھے لکھے، بغیر کسی تعلیمی ادارے میں گئے، کس طرح کوئی صرف رقم دے کر ڈگری حاصل کر سکتا ہے اور پھر اس ڈگری کا استعمال کر کے ملازمت بھی کر سکتا ہے۔ ہم تو ویسے ہی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں کہ ہمارے ہاں تعلیم کا تناسب بہت کم ہے، جو اعداد و شمار میں بتایا جاتا ہے وہ بھی وہ ہے جو لوگ غالباً چند فقرے لکھ یا پڑھ سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تعلیم تو نام ہے جاننے کا ، شعور کا ، فہم کا اور ذہن کے پردے کھلنے کا۔ ہمارے ہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں تو نہ اسکول کی عمارت کا وجود ہے نہ اساتذہ کا مگر پھر بھی اساتذہ اور عملے کی تنخواہیں حکومت ادا کرتی ہے، اسکولوںکی ان عمارتوں کی مرمت کے لیے حکومتی خزانے سے رقوم جاری کی جاتی ہیں جب کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں، اس فرنیچر کی خریداری کی مد میں رقوم ادا کی جاتی ہیں جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔

جب چھوٹے پیمانے پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ میں اور آپ جانتے ہیں، حکومت جانتی ہے، متعلقہ ادارے جانتے ہیں توپھر اس سے اگلا قدم کیا متوقع ہو سکتا ہے!!!

روایت ہمارے ہاں یہی چل رہی ہے کہ خرابی کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاتا، جہاں خرابی پائی جاتی ہے اس پر وقتی طور پر ’’ مٹی پاؤ‘‘ کا فارمولہ استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے، موجودہ نظام کو ایک طرف اسی چال چلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس کے متوازن ایک نیا نظام لے آیا جاتا ہے، خواہ وہ تعلیم کا ہو یا سڑکوں کا۔ جو موجود ہے اس پر عدم توجہ اسے خرابی کے پست ترین درجے پر پہنچا دیتی ہے اور نیا نظام متعارف ہو جاتا ہے جو کہ چند برسوں میں پرانے نظام کی طرح اپنی افادیت اور اہمیت کھو دیتا ہے۔

کسی ملک میں چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے فراڈ کو چلانے والے بھی اس میں کوئی نہ کوئی سقم ضرور چھوڑ دیتے ہیں جو بالآخر موجب بنتا ہے اس کے خاتمے کا… Axact کے تابوت میں کیل ٹھونکنے والا ان ہی کا ایک امریکی ملازم ہے جس نے سب سے پہلے انکشاف کیا اور لمحوں میں دنیا بھر میں ہماری ’’ دھوم ‘‘ مچ گئی، کیا اس سے پہلے حکومت کو اس قدر بڑے نیٹ ورک کی موجودگی کا اندازہ نہ تھا یا جہازی سائز کی کابینہ کے کسی فرد کو علم نہ تھا کہ اتنا بڑا نیٹ ورک کیا کر رہا ہے؟؟

بات یہ ہے کہ ہرجرم کے ارتکاب میں لٹیرے کا ساتھ کسی نہ کسی لٹنے والے بھی ملوث ہوتے ہیں اور کسی حد تک قانون بھی ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے…Axact ایک ادارہ نہیں بلکہ اس وقت ہمارا چہرہ ہے جو دنیا کو نظر آرہا ہے، اس کے پیچھے کام کرنے والا ذہن ایک شعیب شیخ کا نہیں بلکہ ہم سب اس وقت دنیا کو منفی دماغوں والے نظر آ رہے ہیں کیونکہ ہماری آنکھیں بند ہیں تو ایسے ادارے پنپ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے اکاؤنٹ، نمائندے اور دفاتر ہیں اور دنیا بھر سے لوگ ان سے ’’ مستفید ‘‘ ہوئے ہیں، کیا ڈگری کا حصول اتنا اہم ہے کہ انسان اخلاقیات بھول جائے؟ کیا ایک ماہ میں تیرہ مختلف ڈگریاں خریدنے والا نہیں جانتا تھا کہ یہ غلط ہے؟ کیا خالی سی وی بھیج کر اپنی مرضی کی ڈگری حاصل کرنے والے نہیں جانتے تھے کہ اس ڈگری کا فائدہ کیا ہے؟ کیا اپنا جی پی اے بڑھانے کے لیے فالتو رقو م دینے والے نہیں جانتے تھے کہ یہ سب غلط ہے اور وہ اس غلط کام کا حصہ بن رہے ہیں؟

تین چار سال قبل اچانک ایک ایسا چینل لانچ کرنے کی خبروں نے خفیہ اداروں کے کان کھڑے کیوں نہیں کیے جس میں صحافیوں کو کروڑوں کے حساب سے تنخواہ اور پیکیج آفر کیے گئے اور جس کے دفاتر اور اسٹوڈیو ہی ایسے تھے کہ ان کی تصاویر انٹر نیٹ پر دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ کیا شعیب شیخ جیسی صلاحیتوں کا مالک آئی ٹی سے اتنی رقم فقط چند سالوں میں کما سکتا ہے جتنی دنیا کے بہترین آئی ٹی کے ادارے بھی نہیں کماتے؟ جو ’’انکشافات ‘‘بظاہر اب ہو رہے ہیں، یقین واثق ہے کہ بہت پہلے سے ہمارے بہت سے سر کردہ افراد کے علم میں ہوں گے، مگر ہم سب مچھلیاں پکڑنے جائیں تو شامت چھوٹی مچھلیوں کی آ تی ہے، بڑی مچھلیوں سے ہم بچتے ہیں کہ کہیں ہمارا جال ہی نہ ٹوٹ جائے، سو چھوٹی مچھلیاں بڑی مچھلیوں کے ہاتھوں بھی اور شکاریوں کے بھی زیر عتاب رہتی ہیں۔

ہم تو اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں واقعی پڑھ کر، اٹھارہ سالہ تعلیمی دور مکمل کر کے بھی غافل کے غافل ہی رہتے ہیں، تعلیم ہمارے اذہان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ ہم نے اس کا حصول فقط کاغذ کے اس ٹکڑے کے حصول کے لیے کیا ہوتا ہے جسے ڈگری کہتے ہیں، غالباً ہم اسے اپنی آئندہ زندگی کی کامیابی کی کنجی سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ کوئی بھی ڈگری ہمیں ایسی نہیں ملتی جس کے ساتھ اخلاقیات مفت میں مل جائیں، زندگی گزارنے کا طریقہ سمجھ میں آ جائے، احساس پیدا ہو جائے، کردار تبدیل ہو جائے، شخصیت مکمل ہوجائے۔

شعیب شیخ بھی خوب کھیلا اور کھل کر کھیلا، مگر اللہ کی رسی کی ایک حد ہے، ہر مجرم کسی نہ کسی موقع پر اس رسی کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور اس سے آگے اس کی نقل و حرکت ختم ہو جاتی ہے۔ بد قسمتی ہماری کہ شعیب شیخ اور اس کے معاونین، اس ملک میں گرفتار ہوئے ہیں جہاں مجرموں کے لیے پروٹوکول حد سے زیادہ ہے،  وہ ساری حدیں لاگو ہونے کے باوصف بھی کرسیء اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں، وہ اسی ملک پر حکومت بھی کر رہے ہوتے ہیں جس میں ان پر مقدمات چل رہے ہیں۔

چند دن سے شور تھا ایان ملک کے مقدمے کا، اب نیا غوغا اٹھا ہے تو اس سے پہلے کا دب جائے گا، لوگ ایان ملک کو بھول کر اب شعیب شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔

اصل نقصان تو اس ملک کا ہے جس میں پہلے ہی کسی چیز کی کوئی  credibility نہیں ہے، ہماری تعلیم اور ڈگریوں کی دنیا میں پہلے ہی کہیں وقعت نہیں ہے، اس نئے سکینڈل کے بعد لوگ ہمارے چہروں کو کس انداز سے دیکھیں گے،اس کا اندازہ ہم بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ اب دیکھیں کہ کب کوئی نیا فراڈ کیس سامنے آئے گا تو لوگ نئے قصے کی جانب متوجہ ہو جائیں گے جیسے کہ اس سے پہلے ہمیشہ ہوتا رہا ہے!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔