بلوچستان؛ یہ آگ تو تم نے خود لگائی ہے

اوریا مقبول جان  پير 1 جون 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

نسل، رنگ اور زبان کی عصبیت کو اجاگر کرنے کا فریضہ ایک خاص مقصد کے تحت اس مملکت خداداد پاکستان کے پچاس سال تک ترقی پسند اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سیکولر کہلانے والے دانشور، انتہائی جانفشانی اور محنت سے ادا کرتے رہے ہیں۔ سیاسی محاذ پر ان ’’عظیم دانشوروں، کی آواز وہ سیاسی پارٹیاں اور گروہ بنتے رہے، جنھیں مسلمانانِ ہند نے قائداعظم کی سربراہی میں بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔ جب سے پاکستان تخلیق ہوا، ان تمام دانشوروں کی ایک مخصوص حکمت عملی تھی۔کسی ایک قوم کو ظالم اور باقی تمام اقوام کو مظلوم ثابت کر کے نفرت کا بیج بویا جاتا۔1971ء سے پہلے اس نفرت کو علاقائی رنگ دیا گیا۔

مشرقی پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں تاثر جاگزیں کرایا گیا کہ مغربی پاکستان ان کو لوٹ کر کھا رہا ہے۔ پھر پورے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان اور وہاں کی فوج کو قابل نفرت بنا دیا گیا۔ بنگلہ دیش بھارتی فوج کی مدد سے بن گیا اور آپ آج بھی کسی سیکولر اور نسلی تعصب کے علمبردار دانشور کی تحریر اٹھا لیں، وہ معاشی تجزیے پیش کرے گا کہ دیکھو ہم سے آزاد ہو کر بنگلہ دیش کتنی ترقی کر گیا۔کوئی ان سوالوں کا جواب نہیں دیتا کہ 1971ء کے بعد تقریباً دس لاکھ بنگالی عورتیں بھوک اور افلاس کے ہاتھوں دنیا بھر کے بازاروں میں بیچی گئیں، نوے لاکھ بنگلہ دیشی بھارت میں چند سو روپے کی مزدوری کرنے کے لیے در بدر ہیں۔ دنیا کے ساحلوں پر بھٹکتے اور امان تلاش کرتے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پچیس فیصد بنگلہ دیشی بھی تھے۔کیا یہ سب 1971ء سے پہلے بھی تھا۔ کوئی اس سوال کا جواب نہیں دے گا بلکہ وہ دوسرے صوبوں میں نفرت کا اگلا بیج بونے کی کارروائی میں لگا ہو گا۔

نفرت کا اگلا بیج پنجابیوں کو بحیثیت قوم ظالم اور باقی تین اقوام کو مظلوم ثابت کرنے کا بویا گیا۔ بلوچ، پختون اور سندھی مظلوم ہیں اور پنجابی ان کے حقوق غصب کر رہا ہے۔ نسل، رنگ اور زبان کے تعصب کا ایک لگا بندھا اصول ہے۔ یہ بڑے تعصب سے ہوتا ہوا چھوٹے سے چھوٹے تعصب کی صورت ظاہر ہو جاتا ہے۔ تعصب جس قدر چھوٹے گروہ تک پہنچے گا، اسی قدر خوفناک اور خونریز ہو جائے گا۔ مثلاً آپ اگر پنجابی اور سرائیکی کشمکش کا مسئلہ حل کر لیں تو پھر یہ برادری تک آ نکلتا ہے۔ آرائیں اور کشمیری لاہور میں لڑتے ہیں تو چیمے اور چٹھے گوجرانوالہ میں۔ یہاں تک کہ آخر کار چھوٹے سے چھوٹے گھرانے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ یہ تعصب وہاں زیادہ شدید اور خون آشام ہو جاتا ہے جہاں ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والے اور ایک سے زیادہ نسلوں کے لوگ آباد ہوتے ہیں۔

بلوچستان اس نفرت، تعصب اور اس سے پیدا ہونے والے خونی تصادم کی بدترین مثال ہے۔ پشتون، بلوچ اور بروہی وہاں کئی سو سال سے اپنے اپنے مخصوص قبائلی علاقوں میں باہمی برداشت اور یگانگت کی بنیاد پر آباد چلے آ رہے ہیں۔ ایک بہت ہی قلیل تعداد کوئٹہ شہر میں ہزارہ قوم کی بھی تھی جو ایک صدی قبل وہاں آباد ہوئی اور پھر افغان جنگ کے دوران ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ یہاں آ بسے۔ ان کے ساتھ ساتھ پنجابی اور یو پی کے اردو سپیکنگ افراد انگریز کے تعمیراتی کاموں، کوئلے کی کانوں اور چھاؤنیوں کے ساتھ منسلک کاروبار کی وجہ سے کوئٹہ، سبی اور لورالائی میں آباد ہو گئے۔ مدتوں سے یہ لوگ ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ لیکن 1917ء میں جب سوویت یونین میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو 1920ء میں آذربائیجان کا شہر باکو جو روس کا حصہ تھا، وہاں قومیتوں کی ایک عالمی کانفرنس بلائی گئی جس کا مقصد برصغیر پاک و ہند میں قومی تعصب کو ابھار کر انگریز حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔

اس کانفرنس میں جسے ’’مشرقی عوام کی کانگریس‘‘ “Congress of the People of East” کہا جاتا ہے۔ اس میں بلوچستان کے ایک وفد نے میر مصری خان بلوچ کی سربراہی میں شرکت کی۔ میر مصری خان کانگریس کے فوراً بعد افغانستان چلا گیا، تا کہ وہاں کی حکومت سے اپنے علاقے کی آزادی کی تحریک کے لیے مدد حاصل کر سکے۔ باکو کی یہ کانفرنس شدید اختلافات اور تکرار کا شکار رہی۔ آرمینیا کے عیسائیوں نے انور کمال پاشا کے خلاف تقریریں کیں اور مسلمان وفود جو یوں تو قومیت کے نام پر آئے تھے مگر انھوں نے سوویت یونین کے مسلمانوں کے قتل عام پر شدید احتجاج کیا۔ لیکن اس کانگریس کے بعد کمیونسٹ روس کی ایک پالیسی واضح ہوگئی کہ لوگوں کو نسل، رنگ اور علاقے کے تعصب میں الجھا کر ایک دوسرے سے دست و گریبان کرنا ہے۔

وہ جو طبقاتی کشمکش سے انقلاب کا نعرہ لے کر اٹھے تھے، جن کے ہاں مزدور ایک طبقہ ہوتا ہے، انھوں نے دنیا بھر اور خصوصاً برصغیر اور پھر پاکستان میں مظلوم قومیتوں کا نعرہ مستانہ دے کر ایک ایسی خونریزی کو جنم دیا جو آج تک قائم ہے۔ یہ وار چونکہ کاری تھا اور حربہ آزمایا ہوا تھا، اس لیے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نسل، رنگ اور زبان کے تعصب کا پرچم مغرب کے حکمرانوں کی ان کے پروردہ سیکولر دانشوروں، ان کی امداد پر پلنے والی این جی اوز اور ان کے ہم زبان سیاست دانوں نے اٹھا لیا۔

بلوچستان میں بیج بہت گہرا تھا۔ اس لیے کہ علاقے کی پسماندگی اور مرکز کی عدم توجہی نے اس نفرت کے لیے بہترین فضا مہیا کی تھی۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعد ایسی سیاست کو ایک کامیاب تجربہ سمجھا گیا اور پنجابی قوم کو بحثیت ظالم اور غاصب بنا کر پیش کیا گیا جب کہ بلوچستان میں رہنے والے پختون، بلوچ اور براہوی کو ’’برادر اقوام‘‘ کا درجہ دیا گیا۔ ان برادر اقوام میں وہ پنجابی شامل نہ تھے جن کی تین نسلوں کی قبریں بھی وہاں تھیں اور جو ان تمام زبانوں پر عبور رکھتے تھے جو وہاں بولی جاتی ہیں۔ مقصد صاف واضح تھا کہ پنجابی قوم سے نفرت کو اس حد تک آگے بڑھایا جائے کہ خونریزی کرنا یا کروانا آسان ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ 1974ء میں سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ذاتی انا اور ہٹ دھرمی پر بلوچستان کی حکومت توڑی، آرمی ایکشن کیا، لیکن آپ اس زمانے میں کی گئی بلوچ رہنماؤں کی تقریریں اٹھا لیں، دیواروں پر وال چاکنگ دیکھ لیں آپ کو گالی صرف ’’پنجابی استعمار‘‘ کے خلاف ملے گی باقی سب برادر اقوام تھیں۔

’’برادر اقوام‘‘ کا یہ نعرہ بیچ چوراہے میں پھوٹ گیا جب افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں اور پختون مہاجرین نے بلوچستان کا رخ کیا۔ عام بلوچ کے لیے تو یہ لوگ ایک نعمت سے کم نہ تھے۔ انھوں نے ان کی بے آباد زمین آباد کیں، انھیں اپنی محنت سے مالا مال کیا لیکن وہ جن کی سیاست کا دارومدار تعصب پر تھا، انھوں نے ہر طرف نفرت کی آگ لگائی۔ کالا باغ کی طرح برج عزیز ڈیم پر لڑائی کا آغاز ہوا ۔ یہ کوئٹہ کو پینے کا پانی مہیا کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس پر ایسی لڑائی ہوئی کہ کوئٹہ شہر میدان جنگ بن گیا۔ کوئٹہ میں زرعی کالج بننا تھا جسے غیر ملکی امداد حاصل تھی، اس پر لڑائی ہوئی، کوئی کہتا بلوچ علاقے میں بناؤ اور کوئی پشتون علاقے میں۔ امداد رخصت ہو گئی اور کالج آج تک نہ بن سکا۔ 1988ء میں جب میں اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ تھا تو پورا شہر دو ٹرانسپورٹر رہنماؤں عبدالوہاب پیرعلی زئی (پشتون) اور میر فیروز لہڑی (بروہی، بلوچ) میں اس طرح تقسیم ہوا کہ پورا ایک ماہ کرفیو لگانا پڑا۔

خوفزدہ پشتون بلوچ علاقوں سے کوچ کر گئے اور وہاں تندور جو پشتون چلاتے تھے بند ہو گئے۔ کوئٹہ شہر ایسا میدان جنگ بنا کہ دونوں جانب کے سیاسی رہنما قتل ہونے لگے۔ اب معاملہ پنجابی کا نہیں تھا۔ اقتدار جمہوری طور پر ’’برادر اقوام‘‘ کے پاس تھا اس لیے وہ آپس میں لڑ پڑیں۔ جب پرویز مشرف کے زمانے میں نواب اکبر بگٹی اور بگٹی قبائل کے خلاف مشرف کی ذاتی انا اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ایکشن شروع ہوا تو ایک دفعہ پھر ’’پنجابی استعمار‘‘ کے نعرے کی گونج سنائی دینے لگی۔ کوئٹہ شہر سے خوفزدہ پنجابی ہجرت کرنے لگے۔ کتنے مارے گئے، کوئٹہ شہر میں بلوچ اور پشتون لڑائی کو وہاں پر موجود پنجابی آبادی پرامن رکھتی تھی۔ جب نواب اکبر بگٹی جاں بحق ہوئے، فساد پھیلا تو ہر خاص و عام جانتا ہے کہ کس طرح قندھار کے اندر بیٹھ کر کوئٹہ میں جائیدادیں خریدیں گئیں اور آج کوئٹہ مکمل طور پر ایک پختون شہر بن چکا ہے جس کا میئر بھی پختون ہے۔

مستونگ کا لک پاس وہ راستہ ہے جو پشتون آبادی کو کراچی سے ملاتا ہے۔ ان کی ٹرانسپورٹ یہیں سے گزرتی ہے، پھل جاتے ہیں، ہوٹل چلتے ہیں۔ مستونگ کا سانحہ ایک خاص منصوبے سے کیا گیا ہے تا کہ اس راستے پر گزرنے والوں کو خوف میں مبتلا کیا جائے۔ یہ کسی ’’ناراض بلوچ‘‘ کا نہیں بلکہ ان قوتوں کا کام ہے جو 1920ء سے آج تک اس دھندے میں مصروف ہیں۔ کیا بلوچستان کے بچے بچے کو یہ حقیقت معلوم نہیں کہ بھارت 1974ء سے افغانستان میں موجود گروہوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کرتا ہے۔

پہلے یہ رہنما سوویت یونین میں شاہزادوں کی طرح رہتے تھے اور اگر شیر محمد مری بیمار ہوتا تو بھارت جا کر علاج کراتا۔ اب یہ انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ میں رہتے ہیں اور سب جانتے کہ سرمایہ کون دیتا ہے۔ نسل، رنگ اور زبان کے نام پر انسانوں کے گلے کاٹو، شناختی کارڈ دیکھ کر بولان کے علاقے میں میں لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کی رسم کا آغاز کرو تو میرے ملک کے ’’عظیم دانشور‘‘ اور سیاسی لیڈر انھیں ’’ناراض‘‘ رکھتے ہیں، دہشت گرد نہیں۔ کیا دہشت گردی کی تعریف صرف یہی ہے کہ اس کے چہرے پر داڑھی ماتھے پر محراب اور ٹخنوں سے اونچی شلوار ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔