بجٹ!بھاری بھرکم عدد عوام کا بوجھ ہلکا کرپائیں گے

سید بابر علی  بدھ 3 جون 2015
منہگائی اور افلاس کا شکار عام پاکستانی کی آنکھوں میں خواب بھی خوف بھی فوٹو : فائل

منہگائی اور افلاس کا شکار عام پاکستانی کی آنکھوں میں خواب بھی خوف بھی فوٹو : فائل

بجٹ آنے والا ہے۔ اعداوشمار کا طومار اور کاغذات کا پلندا بہت سارے وعدوں، ارادوں اور اعلانات پر مشتمل ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں  عام پاکستانی کو ریلیف دینے اور اس کی معاشی مشکلات میں گھری زندگی کو سہل بنانے کے لیے کچھ ہوگا یا سیاہ ہندسوں میں صرف سبز باغ بسے ہوں گے؟ اس سوال کے ساتھ بات کرتے ہیں بجٹ کے حوالے سے امکانات اور خدشات کی۔

بجٹ 2015-2016میں سرکاری ملازمین کی تن خواہوں اور پینشن میں 10سے 15فی صد اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جس کے لیے سرکاری ملازمین کے پے اسکیل پر نظرثانی اور ایڈہاک ریلیف کو تن خواہ کا حصہ بنانے سے متعلق تجاویز بھی زیرغور ہیں، جب کہ ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ بجٹ میں افراط زر کے تناسب سے تن خواہوں میں اضافے پر بھی غور کر رہی ہے، جس کے لیے حکومت کو 20سے30ارب روپے تک کے اضافی اخراجات برداشت کرنے ہوں گے۔ وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بریفنگ دی۔

اس موقع پر اُن کا کہنا تھا کہ مالی سال 2015-2016 کے حجم کا تخمینہ 43کھرب روپے رکھا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال میں اقتصادی ترقی کی شرح میں 5 اعشاریہ 5 فی صد، منہگائی کی شرح میں 6  فی صد، معدنیاتی ترقی کا ہدف 4اعشاریہ1فی صد، لائیو اسٹاک کی ترقی کا ہدف4اعشاریہ1فی صدزرعی ترقی کا ہدف3اعشاریہ9 فی صد مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں برآمدات کا ہدف 25اعشاریہ 5 ارب ڈالر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بجٹ تجاویز میں رواں مالی سال کے اختتام پر افراط زر کی شرح 10 فی صد سے نیچے رہنے کی توقع کی گئی ہے۔

سرکاری ملازمین کے میڈیکل الاؤنس، ٹرانسپورٹ الاؤنس، ہاؤس رینٹ اور دیگر الاؤنسز میں اضافے کے حوالے سے متعلقہ محکموں سے تجاویز مانگی گئی ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق آئندہ بجٹ میں ٹیکس آمدنی کا ہدف 3ہزار ارب روپے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔ قرضوں پر لاگو سود اور اس کی اقساط کی ادائیگی کے لیے ٹیکس آمدنی کا تقریباً45 فی صد مختص کیا جائے گا۔

نئے مالی سال میں مالیاتی خسارے کو 5 اعشاریہ 4 فی صد تک لانے اور نج کاری کا عمل تیز کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی سال 2015-2016میں آئندہ تین برسوں کے لیے تجارتی پالیسی اور مائیکرو اکنامک فریم ورک کی تیاری کے لیے تمام وزارتوں، محکمہ جات اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے بھی خط و کتابت کی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے تجارتی پالیسی سے متعلق امور کو آسان بنانے اور اعداد و شمار کے تجزیے کے لیے ایف بی آرکے پاس موجود ڈیٹا تک رسائی کی درخواست کی گئی ہے۔ مقامی کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے اور ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے سود مند پالیسیاں متعارف کرائی جائیں گی۔ ماہرین معیشت اور سیاسی اور سماجی حلقوں کی بجٹ پر متضاد آرا موجود ہیں۔

کچھ کا کہنا ہے کہ 2015 کا بجٹ عوام دوستی کا مظہر اور ٹیکس فری بجٹ ہوگا، جب کہ کچھ کے خیال میں اس بجٹ میں عوام کے لیے کوئی خوش خبری نہیں ہوگی۔ دوسری جانب وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت ٹیکس ایڈوائزری کونسل کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں چارٹرڈ اکاؤنٹ ، ٹیکس کنسلٹنٹ ، ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے عہدے دار، ایوان صنعت و تجارت کے نمائندوں، پیشہ وارانہ تنظیموں اور ایف بی آر کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر اُنہوں نے نئے مالی سال2016 2015- میں نئے ٹیکس نہ لگانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آئندہ بجٹ سرمایہ کار دوست ہوگا۔

دوسری طرف سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس حکومت کے گذشتہ بجٹ سے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ بجٹ سے قبل ہی اشیائے خورونوش اور ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ میڈیا پر آنے والی کچھ خبروں کے مطابق حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط منظور کرتے ہوئے بجلی پر 125ارب روپے کی زرتلافی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کے لیے گھریلو صارفین بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 2 سے 4 روپے صنعتی صارفین کے لیے 10تا 12 روپے فی یونٹ بجلی منہگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر عمل درآمد کے لیے وزارت خارجہ نے اپنی تجاویز حکومت کو ارسال کردی ہیں۔

حکومت نے مالی سال-2015 2014کے لیے اقتصادی شرح نمو کا ہدف 5.1 فی صد مقرر کیا تھا، لیکن مالی سال کے اختتام پر شرح نمو4.2 فی صد رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق معیشت میں بہتری کے لیے شرح نمو 7 سے 8 فی صد ہونی چاہیے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کی بات کی جائے تو یکم مئی 2015 تک زرمبادلہ کے ذخائر 12.51 ارب ڈالر تھے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے توازن ادائیگیوں کے ضمن میں لگائے گئے تخمینوں کے مطابق آئندہ مالی سال کے اختتام تک پاکستان کے پاس 20.2 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہونے چاہییں اس طرح ایک برس کے دوران 5 ارب ڈالر حاصل کرنے ہوں گے جوکہ انتہائی مشکل ہدف ہے۔ حکومت زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے والے دو اہم ذرایع بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات دونوں کو فروغ دینے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم سعودی عرب کی جانب سے ’ تحفتاً‘ ملنے والے 1.5 ارب ڈالر اور مختلف سرکاری اداروں کے حصص کی فروخت سے حکومت زرمبادلہ کے ذخائر کو 12.51 ارب ڈالر کی سطح تک لانے میں کام یاب ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ایک ارب ڈالر سکوک بانڈز کی فروخت سے حاصل کیے۔

تاہم اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے غیرمستحکم اور مہنگے طریقے اختیار کیے ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام کا سب سے بڑا مسئلہ منہگائی ہے۔ حکومت کی جانب سے اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اورافراط زر کی بلند شرح پر قابو پانے کے لیے عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ بھی عوام تک نہیں پہنچایا گیا اور ایک مخصوص طبقہ ہی اس سہولت سے مستفید ہوسکا۔ تجارتی خسارہ جولائی تا اپریل 2014-15 کی مدت میں 13.84 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، گذشتہ برس کی اسی مدت میں تجارتی خسارہ 13.71 ارب ڈالر تھا، اس طرح تجارتی خسارے کا حجم 13.6 کروڑ ڈالر زیادہ ہے۔ تیل کے نرخوں میں نمایاں کمی کے باوجود تجارتی خسارے کا بجائے کم ہونے کے بڑھ جانا حکومتی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

یورپی یونین نے یکم جنوری 2014 سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا تھا۔ جی ایس پی پلس کا درجہ رکھنے والے ممالک کی مصنوعات، رعایتی ڈیوٹی کی وجہ سے یورپی یونین کے رکن ممالک میں دوسرے ملکوں کی مصنوعات کی نسبت سستی ہوتی ہے، کم نرخ ہونے کی وجہ سے مصنوعات زیادہ خریدی جاتی ہیں، نتیجتاً یورپی یونین کو ان ممالک کی برآمدات بڑھ جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستانی برآمدات کا حجم وسیع ہوجانا چاہیے تھا مگر بجائے بڑھنے کے برآمداتی حجم سکڑگیا ہے۔

 

تیل کی قیمتوں میں کمی اور یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا درجہ مل جانے کے باوجود حکومت درآمدات اور برآمدات کے مابین فرق کم نہ کرسکی جو اس کی معاشی پالیسیوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ماضی کی طرح رواں مالی سال کے دوران بھی بڑی مچھلیوں سے ٹیکس وصولی اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے دعوے محض خواب ہی رہے۔ جولائی 2014تا اپریل 2015 کے اختتام تک محصولاتی آمدنی کا ہدف 2.075 کھرب روپے رکھا گیا تھا، مگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو 1.975 کھرب روپے ہی جمع کرسکا۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو جولائی تا مارچ کے لیے 1.846 کھرب روپے وصول کرنے کا ہدف دیا تھا، مگر ٹیکس وصولیاں1.775 ٹریلین ڈالر رہیں۔

رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران ملک میں 710.1 ملین ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی۔ گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران بھی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم تقریباً اتنا ہی تھا۔ البتہ فارن پورٹ فولیو انویسٹمنٹ میں 182.5 فی صد اضافہ ہوا اور یہ 35.6 ملین ڈالر سے بڑھ کر 100.6 ملین ڈالر تک پہنچ گئی، اس طرح مجموعی بیرونی سرمایہ کاری میں نو ماہ کے دوران 118.7 فی صد اضافہ ہوا اور یہ 1.765 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ مجموعی طور پر بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے صورت حال بہتر نہیں ہوئی۔

ماہرین اقتصادیات کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں 810.7 ملین ڈالر نفع بخش بینکوں، تیل و گیس کی تلاش کرنے والے یونٹس کی نج کاری سے حاصل ہوئے۔ رواں مالی سال میں پاکستان پر واجب الادا غیرملکی قرض 65 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کا مقامی قرضوں پر انحصار بھی بڑھ گیا ہے۔ مارچ کے اختتام پر اندرونی قرضے 12281 ارب روپے تھے۔

31مارچ 2014 کو اندرونی قرضوں کا حجم 11064 ارب روپے تھا۔ پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران لارج اسکیل مینو فیکچرنگ شرح نمو 2.49 فی صد رہی ہے گذشتہ مالی سال میں جولائی تا مارچ یہ شرح 5.48 فی صد تھی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ملکی معیشت زوال کا شکار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والا بجٹ عوام کے لیے کوئی خوش خبری لاتا ہے یا پھر ہر سال کی طرح امسال بھی منہگائی، لوڈ شیڈنگ اور غربت سے مجبور عوام کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں الجھا کر خوش خبری اور ریلیف کے نام پر دھوکا دیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔