پاکستان میں ’قتل کی وارداتوں‘ کی پُراسرار کہانی

محمد عثمان فاروق  جمعرات 4 جون 2015
پاکستان میں قتل ہوتے ہیں پوری قوم قاتلوں کے بارے میں جانتی ہے لیکن پھر بھی کبھی یہ نہیں پتا چلتا کہ قاتل کون تھے۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان میں قتل ہوتے ہیں پوری قوم قاتلوں کے بارے میں جانتی ہے لیکن پھر بھی کبھی یہ نہیں پتا چلتا کہ قاتل کون تھے۔ فوٹو: ایکسپریس

آج ایک سرسری اور غیر اہم خبر نے مجھے نجانے کیوں چند لمحوں کے لیے سکتے میں ڈال دیا۔ خبر کچھ یوں تھی کہ ایان علی کیس کے اہم گواہ اور کسٹم آفیسر چوہدری اعجاز کو گھر میں گھس کر قتل کردیا گیا۔ اگرچہ پاکستانیوں کے اعصاب اب کافی مضبوط ہو چکے ہیں اور ایک دو قتل کیا اب تو دھماکے میں اگر 30، 20 لوگ مارے جائیں تو عام سی بات ہی لگتی ہے۔

لیکن اِس خبر پر مجھے سکتہ اس لیے پر طاری ہوا کہ کسٹم آفیسر چوہدری اعجاز کے قتل کے بعد مجھے پورا یقین ہے کہ دوبارہ کبھی کوئی کسٹم آفیسر کسی ایان علی کو منی لانڈرنگ کرتے گرفتار نہیں کرے گا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ کیس سیدھا سادہ ڈکیٹی کا کیس ہے، یعنی ’’نامعلوم‘‘ ڈاکووں کے خلاف مقدمہ درج ہوگا اور کیس بند ہوجائے گا۔ جی ہاں پاکستان میں قتل ہوتے ہیں پوری قوم قاتلوں کے بارے میں جانتی ہے لیکن پھر بھی کبھی یہ نہیں پتا چلتا کہ قاتل کون تھے۔ آپ شاید سوچیں کیا پاگلوں والا جملہ ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام قاتلوں کے بارے میں جانتی بھی ہے اور پھر بھی کبھی یہ نہیں معلوم چلتا کہ قاتل کون تھے؟ چلیں میں آپکو مثال دے کر سمجھاتا ہوں۔

عوام بھول گئی ہے حالانکہ چند سال پہلے ہی کی بات ہے کہ راجہ پرویز اشرف کے خلاف کیس میں کرپشن کے الزامات کی تحقیق کرنے والا تفتیشی افسر کامران فیصل کا قتل ہوا، جسے خودکشی قراردے کر کیس بند کردیا گیا حالانکہ کامران فیصل کے والد محترم دہائی دیتے رہے کہ میرا بیٹا خوکشی کیوں کرے گا؟ اس کے پاس خودکشی کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ بینظیربھٹو کا قتل ہوتا ہے لیکن افسوس اقوام متحدہ سے تحقیقات اور پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت گزرنے کے باوجود جیالے ابھی تک شرمندہ ہیں کیونکہ بی بی کے قاتل زندہ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بے نظیر قتل کیس کے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار کا بھی قتل ہوجاتا ہے لیکن حتمی قاتلوں کا تعین آج تک نہیں کیا جاسکا۔ کراچی کی بلدیہ ٹاون فیکٹری میں آگ لگتی ہے 300 لوگ زندہ جل جاتے ہیں مگر قاتل ایک سربستہ راز بن کر رہ جاتے ہیں۔ لاہور ماڈل ٹاون میں پچھلے سال جون میں 20 کے قریب لوگ مارے جاتے ہیں، اس پر جوڈیشل کمیشن بھی بن جاتا ہے لیکن یہ پتا نہیں چلتا کہ گولی چلانے کے احکام کس نے دیے اور قاتل کون تھے۔ سابق صدر پاکستان مرحوم جنرل ضیاالحق کا طیارہ تباہ ہوجاتا ہے لیکن پاکستانی عوام کو کبھی پتا نہیں چلتا کہ پاکستان کے ایک صدر اور اِس سے بھی بڑھ کر پاک فوج کے سربراہ کا طیارہ اتنی ہائی لیول سکیورٹی کے باوجود کیسے تباہ ہوجاتا ہے؟ اور پھر قاتل اتنی ہائی لیول سکیورٹی میں ایسا شاندار منصوبہ بناتا ہے کہ پیچھے ذرا سا بھی کوئی نشان نہیں چھوڑتا۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوجاتا ہے، ان کوتقریر کرتے ہوئے کوئی سید اکبر نامی مبینہ قاتل گولی مار کر شہید کردیتا ہے اور قاتل کو موقع پر موجود پولیس افسر پار لگادیتا ہے جس وجہ سے دہائیاں بیت جانے کے باوجود قاتلوں کا پتا نہیں چلتا۔ وہ تو اللہ پاک بھلا کرے امریکی محکمہ خارجہ کا جنہوں نے نصف صدی گزرنے کے بعد اپنی ری کلاسیفائیڈ کی جانے والی دستاویزات میں بتایا کہ قائد ملت لیاقت علی خان کو امریکا نے افغان حکومت کے ذریعے قتل کروایا، امریکی منصوبے کے تحت افغان حکومت کے تیارکردہ قاتل کو 2 ساتھی ملزمان نے قتل کیا اوردونوں معاون قاتل ہجوم نے روند دیے۔

 

معاملہ یہ ہے کہ ہر قاتل اپنے پیچھے نشان چھوڑتا ہے۔ اگر قتل کے حوالے سے اُس دور کے حالات و واقعات پر غور کیا جائے تو سمجھنے میں ہرگز مشکل نہیں ہوگی فلاں قتل کا فلاں شخص کو فائدہ ہوا، مگر ناجانے کیا وجہ ہے کہ اسکے باوجود تسلسل کے ساتھ قتل اور ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اگر آپ یوٹیوب پر جاکر سرچ کریں آپ کو پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کرنے والے قاتلوں کے انٹرویوز مل جائیں گے جو نام لے کر بتائیں گے کہ میں نے فلاں کے کہنے پر فلاں کو قتل کیا لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ سب ہونے کے باوجود قاتلوں کا پتا نہیں چلتا کہ قاتل کون ہیں؟

اِن حالات کو دیکھتے ہوئے دو ہی امکانات جنم لیتے ہیں۔ پہلا امکان تو یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پروفیشنل اور بہترین قاتل پاکستان میں پائے جاتے ہیں کیونکہ یہ جب کسی کوقتل کرتے ہیں اپنے پیچھے کوئی نشان نہیں چھوڑتے اور جب کوئی نشان نہیں چھوڑتے تو اِس لیے پکڑے بھی نہیں جاتے۔ دوسرا امکان یہ کہ سب سے نکمے اور نالائق تحقیقات افسر پاکستان میں پائے جاتے ہیں جو کسی ایک بھی قتل کی اصل وجہ اور قاتل تک پہنچنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔

بات شروع ہوئی تھی کسٹم آفیسر چوہدری اعجاز کے قتل سے جو ایان علی کیس کے اہم گواہ بھی تھے اور اطلاعات یہ بھی موصول ہورہی ہیں کہ اُن کے ہاتھ مقدمے کے حوالے سے اہم ثبوت بھی ہاتھ آگئے تھے لیکن چونکہ وہ ڈاکووں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں لہذا اُمید ہے کہ ایان علی جلد رہا ہوجائیں گی۔

نوٹ: جیل میں موجود افسران و اہلکاروں سے گزارش ہے کہ اگر ایان کو جیل میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر ثبوتوں کا انتظام کریں ورنہ پھر مت کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔